حلقہ(۱۳) عفّت وعصمت کی خاطر(۴۔۶)

۱۔اعضاء وجوارح  کی حفاظت کرنا،اللہ سبحانہ کا فرمان ہے:

(وَلَا تَقْفُ مَا لَيْسَ لَكَ بِهِ عِلْمٌ ۚ إِنَّ السَّمْعَ وَالْبَصَرَ وَالْفُؤَادَ كُلُّ أُولَـٰئِكَ كَانَ عَنْهُ مَسْئُولًا)(1)

’’ جس بات کی تجھے خبر ہی نہ ہو اس کے پیچھے مت پڑ۔ کیوں کہ کان اور آنکھ اور دل ان میں سے ہر ایک سے پوچھ گچھ کی جانے والی ہے ۔‘‘

چناں چہ روزِ قیامت اعضاء وجوارح  دنیا میں کئے جانے والے اعمال کے بارے میں انسان کے خلاف گواہی دیں گے، اللہ سبحانہ کا ارشاد ہے:(حَتَّى إِذَا مَا جَاءُوهَا شَهِدَ عَلَيْهِمْ سَمْعُهُمْ وَأَبْصَارُهُمْ وَجُلُودُهُمْ بِمَا كَانُوا يَعْمَلُونَ)(2)

’’یہاں تک کہ جب بالکل جہنم کےپاس آجائیں گے اور ان پر ان کے کان اور ان کی آنکھیں اور ان کی کھالیں ان کے اعمال کی گواہی دیں گی۔‘‘

نیز فرمایا:(الْيَوْمَ نَخْتِمُ عَلَى أَفْوَاهِهِمْ وَتُكَلِّمُنَا أَيْدِيهِمْ وَتَشْهَدُ أَرْجُلُهُمْ بِمَا كَانُوا يَكْسِبُونَ)(3)

’’ ہم آج کے دن ان کے منھ پر مہریں لگا دیں گے اور ان کے ہاتھ ہم سے باتیں کریں گے اور ان کے پاؤں گواہیاں دیں گے، ان کاموں کی جو وه کرتے تھے ۔‘‘

اسی لیے مسلمان کو اپنے جوارح  کی حفاظت کرنی چاہیے اور انھیں اللہ کی اطاعت وفرماں برداری میں استعمال کرنی چاہیے۔

ہم جوارح میں سے یہاں  نظر (نگاہ)کی حفاظت سے آغاز کر رہے ہیں، اللہ سبحانہ کا فرمان ہے: (قُلْ لِلْمُؤْمِنِينَ يَغُضُّوا مِنْ أَبْصَارِهِمْ وَيَحْفَظُوا فُرُوجَهُمْ ذَلِكَ أَزْكَى لَهُمْ إِنَّ اللَّهَ خَبِيرٌ بِمَا يَصْنَعُونَ (30) وَقُلْ لِلْمُؤْمِنَاتِ يَغْضُضْنَ مِنْ أَبْصَارِهِنَّ وَيَحْفَظْنَ فُرُوجَهُنَّ وَلا يُبْدِينَ زِينَتَهُنَّ إِلاَّ مَا ظَهَرَ مِنْهَا...)(4)

’’ مسلمان عورتوں سے کہو کہ وه بھی اپنی نگاہیں نیچی رکھیں اور اپنی عصمت میں فرق نہ آنے دیں اور اپنی زینت کو ظاہر نہ کریں، سوائے اس کے جو ظاہر ہے اور اپنے گریبانوں پر اپنی اوڑھنیاں ڈالے رہیں، اور اپنی آرائش کو کسی کے سامنے ظاہر نہ کریں...۔‘‘

اس آیت میں شرعی  طور پرنگاہ کو پست رکھنے سے مراد: اس کو آزاد چھوڑنے سے روکنا ہے، لہذا انسان کسی چیز کی طرف  آنکھ بھر کے نہ دیکھے، اس میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے اپنے مومن بندوں کے لیے ایک لطیف ادب   پایا جارہا ہے، کہ وہ اللہ کی حرام کردہ چیزوں سے اپنی نگاہیں پست رکھیں، لہذا  وہ صرف انہیں  چیزوں کی طرف دیکھیں جنھیں اللہ نے ان کے لیے دیکھنا مباح کیا ہے، اور محارم سے اپنی نگاہیں پست رکھیں، اور اگر اچانک ان چیزوں کی طرف نگاہ پڑ جائے جن کی طرف دیکھنا جائز نہیں ہے تو فور ی طور پر اپنی نگاہ ہٹالیں،اورجن کا دیکھنا حلال نہیں ہے ان سے رک جائیں۔‘‘(5).

نبیﷺ نے علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ سے فرمایا:’’اےعلی! نظر کے بعد نظر نہ اٹھاؤ، کیوں کہ تمہارے لیے پہلی نظر (معاف)ہے اور دوسری (معاف)نہیں ہے۔(6)

ابن الجوزی رحمہ اللہ کہتے ہیں: ’’اور یہ اس لیے کہ پہلی نظر کے وقت دل حاضر نہیں تھا، اور محاسن واچھائیوں کے بارے میں غور نہیں کیاگیا تھا، اورنہ ہی اس سے لطف اندوز ی پائی گئی تھی، لہذا جس نے ذہن کی حاضری تک نظر کو باقی رکھا تو دوسری  میں گناہ ہوگا۔‘‘(8).

اورنگاہ پست رکھنے کا حکم تمام محرمات کے لیے عام ہے  اس میں اجنبیہ عورتوں کی طرف دیکھنا، شرمگاہ کی طرف دیکھنا ا ور منکرات کی طرف دیکھنا سب شامل ہے۔ کیوں کہ نظر زنا کی ڈاک ہے، اور ابلیس کے زہر آلود تیروں میں سے ایک تیرہے، آپﷺ کا فرمان ہے:۔’’نظر ابلیس کی زہر آلود تیروں میں سے ایک تیر ہے، لہذا جس نے اپنی نگاہ  کو پست رکھا اللہ اسے ایسی حلاوت وچاشنی دے گاجو وہ اپنے دل میں محسوس کرے گا۔‘‘(9).

ابن قیم رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’نظر ان  تمام حادثات کی بنیاد ہے جس سے انسان دوچار ہوتا ہے، کیوں کہ نظر خیال کو جنم دیتی ہے، اور خیال سے فکر وتصورپیدا ہوتی ہے، اور فکرسے شہوت جنم لیتی ہے، اور شہوت سے ارادہ ہوتا ہے، اور پھر ارادہ پختہ ہوتا ہے اور مضبوط  عزیمت بن جاتا ہے، اور پھر عمل (زنا) کا صدور ہوتا ہے، اور یہ ہو کر رہتا ہے اگر کوئی مانع ورکاوٹ نہ پائی گئی۔‘‘(10).

۔ کان کی حفاظت کرنا: اس سے مراد محرّمات کے سننے سے اسے محفوظ رکھنا ہے، اللہ سبحانہ کا ارشاد ہے: (وَمِنْ النَّاسِ مَنْ يَشْتَرِي لَهْوَ الْحَدِيثِ لِيُضِلَّ عَنْ سَبِيلِ اللَّهِ بِغَيْرِ عِلْمٍ وَيَتَّخِذَهَا هُزُواً أُولَئِكَ لَهُمْ عَذَابٌ مُهِينٌ)(11)

’’اور بعض لوگ ایسے بھی ہیں جو لغو باتوں کو مول لیتے ہیں کہ بےعلمی کے ساتھ لوگوں کو اللہ کی راه سے بہکائیں اور اسے ہنسی بنائیں، یہی وه لوگ ہیں جن کے لئے رسوا کرنے وا عذاب ہے۔‘‘

ابن کثیر رحمہ اللہ اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں:

’’جب اللہ تعالیٰ  نےنیک بختوں کاحال بیان کیا تو ان بدبختوں کے حال  بیان کرنے کی طرف متوجہ ہوا  جو کلامِ الہی کو سن کو نفع حاصل کرنے سے باز رہے،اور آلاتِ طرب،اورالحان کے ساتھ گانے اور بانسری سننے  کی طرف متوجہ ہوئے، جیساکہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے اللہ تعالیٰ کے اس قول کے بارے میں فرمایا : ( وَمِنْ النَّاسِ مَنْ يَشْتَرِي لَهْوَ الْحَدِيثِ لِيُضِلَّ عَنْ سَبِيلِ اللَّهِ) ’’اور بعض لوگ ایسے بھی ہیں جو لغو باتوں کو مول لیتے ہیں کہ بےعلمی کے ساتھ لوگوں کو اللہ کی راه سے بہکائیں  ۔‘‘ :’’ اللہ کی قسم! اس سے مراد گانا ہے۔‘‘(12)

اورنبیﷺ کا فرمان ہے: (ليكونن من أمتي أقوام يستحلون الحِر والحرير والخمر والمعازف...)(13).

’’ میری امت میں ایسےلوگ پیدا ہوں گے جو زنا، ریشم ، شراب اور موسیقی کو حلال  کرلیں گے۔‘‘

اور اسی کو امام ابن القیم  وغیرہ نے اپنی عمدہ کتاب’’أغاثۃ اللہفان من مکائد الشیطان‘‘ میں شیطانی منتر کا نام دیا ہے۔

اورگانا کی طرح ہر وہ فحش کلام ہے جس کا سننا حرام ہے،اور ذرائع ابلاغ ایسی چیزو ں سے بھری پڑی ہیں،لہذا مسلمان مرد اور عورت کو اس بات سے ہوشیار رہنا چاہیے کہ اس  کی کانوں سے ایسی چیزیں ٹکرائیں جو اس کی حیا کو مخدوش  ومجروح کردے، اور اس کی پاکدامنی کو تارتار کردے۔

اور اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے مومنوں کی یہ خوبی بیان کی ہے،ارشاد   باری ہے : (قَدْ أَفْلَحَ الْمُؤْمِنُونَ (1) الَّذِينَ هُمْ فِي صَلاتِهِمْ خَاشِعُونَ (2) وَالَّذِينَ هُمْ عَنْ اللَّغْوِ مُعْرِضُونَ)(15)

’’ یقیناً ایمان والوں نے فلاح حاصل کرلی جو اپنی نماز میں خشوع کرتے ہیں جو لغویات سے منھ موڑ لیتے ہیں۔‘‘

۔زبان کی حفاظت کرنا:اسلام  ہر طرح کی فحش گفتگو سے منع کرتا ہے، ارشاد رسولﷺ ہے:

(الحياء من الإيمان، والإيمان في الجنة، والبذاء من الجفاء والجفاء في النار)(16)

’’حیاء ایمان کا ایک جزء ہے اور ایمان والے جنت میں جائیں گے اور فحش کلامی کا تعلق ظلم سے ہے اور ظالم جہنم میں جائیں گے‘‘ ۔

اور فرمایا: (ليس المؤمن بالطعان ولا اللعان ولا الفاحش البذيء)(17)

مومن لعن طعن کرنے والا، فحش گو اور  بدزبان نہیں ہوتا ہے ۔

اور فحش وبذاءت: بری باتوں  کو واضح  الفاظ سے تعبیر کرنے کا نام ہے، اور اکثر اس کا تعلق ان امور سے  ہوتا ہے جو مرد اور عورت کے درمیان   پیش آتے  ہیں،اسی لیے ایسی  گفتگو سے صریح ممانعت آئی ہے جس سے مر د اور عورت کے درمیان (فساد) پیدا ہو، اور قرآن وسنت میں  ایسی امور کی دلالت  کے لیے صراحت کے بجائے کنایہ کا ذکر ہوا ہے، لہذامسلمان کتاب وسنت  کے ادب سے کیوں نہیں ادب سیکھتے؟!

اور باطل کلام میں سے پاک دامن مومنہ عورت  پر تہمت لگانا ہے، اللہ سبحانہ نے اس چیز سے ڈرایا ہے: (وَالَّذِينَ يَرْمُونَ الْمُحْصَنَاتِ ثُمَّ لَمْ يَأْتُوا بِأَرْبَعَةِ شُهَدَاءَ فَاجْلِدُوهُمْ ثَمَانِينَ جَلْدَةً وَلا تَقْبَلُوا لَهُمْ شَهَادَةً أَبَداً وَأُوْلَئِكَ هُمْ الْفَاسِقُونَ)(18).

’’ جو لوگ پاک دامن عورتوں پر زنا کی تہمت لگائیں پھر چار گواه نہ پیش کرسکیں تو انھیں اسّی کوڑے لگاؤ اور کبھی بھی ان کی گواہی قبول نہ کرو۔ یہ فاسق لوگ ہیں ۔‘‘

اسی طرح اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے عورتوں کو اجنبی مردوں سے نرم گفتگو کرنے سے منع کیا ہے، خضوع کہتے ہیں آواز کو نرم وباریک کرنا۔ اللہ سبحانہ کا فرمان ہے: (فَلا تَخْضَعْنَ بِالْقَوْلِ فَيَطْمَعَ الَّذِي فِي قَلْبِهِ مَرَضٌ)(19).

’’ (اے نبی کی بیویو! تم عام عورتوں کی طرح نہیں ہو، اگر تم پرہیزگاری اختیار کرو) تو نرم لہجے سے بات نہ کرو کہ جس کے دل میں روگ ہو وه کوئی برا خیال کرے ۔‘‘

۔اجنبی عورت۔ جو تمہارے لیے حلال نہ ہو۔ اس کو چھونے سے ہاتھ کی حفاظت کرنا: ابوسہم رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میرے پاس سے ایک عورت کا گزرہوا میں نے اس کی کمر پکڑ لی اور پھر اسے چھوڑدیا،رسولﷺ صبح لوگوں سے بیعت کررہے تھے میں آپ کے پاس گیا تو   کہا: ’’کیا تم وہی نہیں ہو جس نے کل (عورت کو پکڑ کر) کھینچا تھا؟‘‘ میں نے کہا: کیوں نہیں، لیکن اب دوبارہ ایسا نہیں کروں گا اے اللہ کے رسول، چناں چہ آپﷺ نے مجھ سے بیعت لی۔‘‘

آپﷺ کسی عورت سے مصافحہ نہیں کرتے تھے، اوران سے مصافحہ  کرنے سے روکتے تھے (21)،

آپﷺ نے اجنبیہ عورت کو چھونے کے سلسلے میں کوتاہی برتنے سے سختی سے آگاہ کیا ہے،چناں چہ فرمان رسول ہے:(لأن يُطعن في رأس أحدكم بمِخيَط من حديد خير له من أن يمسّ امرأة لا تحل له)(22)

’’ تم میں سے کسی کے سر میں لوہے کی سوئی چبھادی جائے اس بات سے زیادہ بہتر ہے کہ وہ کسی ایسی عورت کو چھوئے جو اس کے لیے حلال نہیں ہے۔‘‘

مِخْیَط:جس سے سلا جائے جیسے سوئی  اور مِسَلّہ (بڑی سوئی)وغیرہ (23).

اور عورت احکام میں مرد  جیسی ہے، پس کسی بھی حال میں اس کے لیے بھی اجنبی مرد کو چھونے میں تساہل برتنا جائز  نہیں ہے۔

حواشی:

(1)     سورة الإسراء آية 36.
(2)     سورة فصلت آية 20.
(3)     سورة يس آية 65.
(4)     سورة النور آية 30-31.
(5)     ملاحظہ فرمائیں: أحكام القرآن لابن العربي 3/377، وتفسير ابن كثير 3/310، والجامع لأحكام القرآن 12/222.
(6)     تخریج:أبو داود ك النكاح باب فيما يؤمر به من غض البصر ح 2149 -2/246، والترمذي ك الأدب باب ما جاء في نظرة المفاجأة ح 2777-5/101  اور فرمایا : یہ حدیث حسن غریب ہے۔ وأحمد ح23024-5/351 ارناؤوط نے اسے حسن لغیرہ کہا ہے۔، والحاكم ك النكاح ح4623-3/133 اورحاکم نے کہا کہ: اس کی اسناد صحیح ہے لیکن شیخین نے اس کی تخریج نہیں کی ہے۔  
(7)     غذاء الألباب 1/84.
(8)     أخرجه الحاكم ك الرقاق ح 7875-4/349 اور فرمایا: اسناد صحیح ہے لیکن شیخین (بخاری ومسلم)نے اس کی تخریج نہیں کی،والطبراني في المعجم الكبير ح 10362-10/173.
(9)     الداء والدواء ص.
(10)      سورة لقمان آية 6.
(11)      أخرجه الطبري في تفسيره 20/127.
(12)      تفسير ابن كثير ص1061.
(13)      أخرجه البخاري ك الأشربة باب فيمن جاء يستحل الخمر... ح5268-5/2123.
(14)      1/255.
(15)      سورة المؤمنون آية 1-3.
(16)      أخرجه الترمذي باب ما جاء في الحياء ح 2009-4/365 اور حسن صحیح کہا ہے، وابن ماجه باب الحياء ح 4184-2/1400، وأحمد ح 10519-2/501 ارناؤوط نے کہا: حدیث صحیح ہے اور اس کی اسناد حسن ہے، وابن حبان ذكر الإخبار عما يجب على المرء من لزوم الحياء.. ح 608-2/372، والحاكم ك الإيمان ح 171-1/118 وقال صحيح على شرط مسلم .
(17)     أخرجه الترمذي في البر باب ما جاء في اللعنة ح 1977-4/350 اورفرمایا: حدیث حسن غریب ہے ، وابن حبان باب ذكر نفي اسم الإيمان عمن أتى ببعض الخصال... ح 192-1/421.
(18)     سورة النور آية 4.
(19)     سورة الأحزاب آية 32.
(20)      الكشح الخصر:( کشح  سے مراد کمر ہے). دیکھیں: النهاية في غريب الحديث والأثر 4/175.
(21)     أخرجه النسائي في السنن الكبرى ذكر اختلاف ألفاظ الناقلين لهذا الخبر ح 7329-4/319، وأحمد ح 22564-5/294 ارناؤوط نے کہا:اس کی سند صحیح ہے اور اس کے رجال ثقہ ہیں، والحاكم ك الحدود ح 8134-4/418 اور فرمایا: اس حدیث کی سند صحیح ہے،اور شیخین کی شرط پر ہے لیکن ان دونوں نے اس کی تخریج نہیں کی ہے: ، والطبراني في المعجم الكبير ح 933-22/373.
(22)     أخرجه الطبراني في المعجم الكبير ح 487-20/212، والبيهقي في شعب الإيمان ح 5455-4/374 ہیثمی نے مجمع الزوائد4/326 میں فرمایا: اور اس کے رجال صحیح کے رجال ہیں ، اور منذری نے الترغيب والترهيب 3/66 میں کہا:اس کو طبرانی اور بیہقی نے روایت کیا ہے،اورطبرانی کے رجال ثقہ ہیں صحیح کے رجال ہیں۔ اور البانی نے السلسلة الصحيحة ح226-1/395 میں فرمایا: اس کی سند جید ہے، اس کے رجال سب کے سب ثقہ ہیں شیخین کے رجال میں سے ہیں، سوائے شداد بن سعید کے، یہ صرف مسلم کے رجال میں سے ہے،اوراس کے بارے میں کچھ کلام بھی ہے مگر اس کی حدیث حسن کے درجہ سے کم نہیں ہے،اسی لیے مسلم نے اس کو شواہد میں ذکر کیا ہے۔
(23)     ملاحظہ فرمائیں:  النهاية 2/92.

 

 

أضف تعليق

كود امني
تحديث