علمی فائلیں
رمضان فولڈر
رمضان اور مسلم حادثات کے تئیں ہمارا طرزِ عمل
ہمارے اوپر اس سال کا رمضان اپنی تمام تر بھلائیوں، عطیات اور بشارتوں کے ساتھ سایہ فگن ہو رہا ہے، جب کہ امت مسلمہ مختلف شعبۂ حیات میں بڑے بڑے حادثات سے گزر رہی ہے، ایسے حادثات جو اسلام اور مسلمانوں کے مستقبل کی امیدوں کو چکاچوند کئے ہوئے ہیں، اور ان حادثات میں ایسی بنیادی چیزیں ہیں جو ضمیر کو جھنجھوڑ رہی ہیں اور جذبات کو برانگیختہ کررہی ہیں، جس طرح کی بہت سی تغیرات ہوتی ہیں جسے بہتیرے لوگ سمجھ نہیں سکتے اور نہ اس سے اچھی طرح سے نمٹ سکتے ہیں۔۔۔۔
یہا ں عقلمندوں کے لیے علم وفکر اور عقل وحکمت کی بنیاد پر غور وتدبر کرنے کا مقام ہے۔
رمضان کے ساتھ تعامل کی معالم و آثار سے متعلق اس مضمون میں چند اشارات بیان کیے جائیں گے۔ ہم رمضان کا استقبال کر رہے ہیں جب کہ حادثات رکے نہیں ہیں اور تبدیلیاں تیزی کے ساتھ جاری ہیں اور لوگوں کے حالات بےشمار تضادات و غرائب کے شکار ہیں۔
سب سے پہلی اہم اور ضروری بات یہ ہے کہ جب ہم رمضان کا استقبال کر رہے ہیں تو اس قانونِ الٰہی کے ساتھ ساتھ عظیم ربانی انعام اور امت اسلام کے ساتھ اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی عظیم فضل و مہربانی کا ادراک کریں، کوئی بھی شخص اس کے اجر و ثواب کو محدود کرنے کی طاقت نہیں رکھتا، اس کی شرف و فضیلت کے لیے یہی کافی ہے کہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ اس کے اجر و ثواب کو خود ہی عطا فرمائے گا، جیسا کہ حدیثِ قدسی میں اس بات کو بیان کیا گیا ہے اور اس بات کی طرف اشارہ کیا گیا ہے کہ ماہِ رمضان کے اندر حسنات و نیکیوں کے ثواب دہی میں دوگنا اضافہ کردیا جاتا ہے، اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا : ’’سوائے صوم کے، بےشک یہ میرے لیے ہے اور میں ہی اس کا بدلہ دوں گا۔‘‘
یہ وہ مہینہ ہے جس میں سرکش شیاطین کو قید کر دیا جاتا ہےتاکہ مومنین کے نفوس کو مصفیٰ کیا جائے اور وہ لوگ بقدر استطاعت مستحب و فریضہ اعمالِ جلیلہ کی بجآوری کریں جس کا اجر و ثواب وہ لوگ اکرم الاکرمین اللہ سبحانہ و تعالیٰ کے پاس دوگنا پائیں گے۔
یہ وہ مہینہ ہے جس میں بہت سی ایسی عبادات مشروع ہیں جو دیگر کسی مہینے میں مشروع نہیں ہیں، اور ایسی چیزیں نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے ساتھ خاص ہیں جو کسی اور کے لیے نہیں ہیں۔
ہم رمضان کا استقبال کر رہے ہیں جب کہ حادثات اپنی ایجابی و سلبی چیزوں سے ہمیں گھیرے ہوئے ہیں، اس لیےہمارے لیے مناسب ہے کہ ہم بقدر استطاعت رمضان کے ساتھ حسنِ تعامل سے کام لیں ۔ آئندہ سطور میں حسنِ تعامل کی چند صورتیں ہم بیان کر رہے ہیں :
1 . اس طرح کے حادثات اپنی ضخامت و شدت کی سطح پر نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے ساتھ بھی پیش آئے جب کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم مدینہ منورہ میں تشریف فرما تھے، اگر آپ اس میں مشغول ہوتے تو دوسری عبادت کے لیے فراغت نہ پاتے، اور ان حادثات میں سب سے ظاہر و باہر فتح مکہ ہے۔
یہ اس بات کا متقاضی ہے کہ ہم سیرتِ نبویہ معطرہ کا مطالعہ کریں تاکہ ہم آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے طریقے اور طرز ِعمل کو جان سکیں کہ کس طرح یہ حادثات آپ کو مصروف کرکے عبادات سے روک نہیں سکےاور خصوصیت کے ساتھ اس ماہِ مکرم کے ساتھ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کا تعامل بہت بہتر تھا جیسا کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم سے یہ باتیں ثابت ہیں۔
2 . نبیٔ پاک صلی اللہ علیہ و سلم کا طرزِ عمل تھا کہ جس قدر حادثات نے شدت اختیار کی آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے تواضع و سکون اور متانت و سنجیدگی سے اس کا سامنا کیا۔ ہجرت کے حادثے میں جب کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم غار میں تھے اور اپنے رفیق ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کو قلق و پریشانی میں دیکھ رہے تھے اور انھیں قتل کئے جانے کا خدشہ لاحق تھا ، آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے سکون واطمنان کا مظاہرہ کرتے ہوئے ان سے فرمایا:جن دو لوگوں کے ساتھ تیسرا اللہ ہو ان کا کیا ہو سکتا ہے۔
اور اسی ہجرت ہی کے حادثے میں سراقہ رضی اللہ عنہ سے گفتگو کرتے وقت آپ صلی اللہ علیہ و سلم سے تواضع اور اطمنان و سکون کا مظہر سامنے آیا کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم ان سے وعدہ کر رہے تھے کہ وہ کسریٰ کے کنگن پہنیں گے۔ اور اس طرح کے بہتیرے حادثات میں اسی طرح کے اطمنان و سکون کا آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے مظاہرہ کیا۔ یہ اطمنان و سکون آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی خاصیت تھی تاکہ فکر و نظر کی شفافیت کے ساتھ سیدھے راہ کی وضاحت و رہنمائی ہوسکے۔
لیکن اکثروبیشتراہل علم ودعاۃ کا حال یہ ہے کہ ان دروس وخطابات اور مواقف ،قلق واضطراب ،سلبی فکر،احکام لگانے میں جلد بازی بلکہ دھمکی آمیز ہوتے ہیں،لوگوں کی بہتیرے ٹوئیٹس میں غوروفکر کرنے والا شخص ا س بات کو بخوبی محسوس کرے گا۔
میرا خیال ہے کہ رمضان المبارک کے ربانی قوانین کے ساتھ اگر اطمنان و سکون اور نفس میں غور وفکر کے ساتھ معاملہ نہ کیا جائے تو عین ممکن ہے کہ حادثات مزید اضطراب وکشیدہ ہوجائیں گے اور پے در پے بالتسلسل خطائیں سرزد ہوں گی ۔
3 . تعامل کی صورتوں میں یہ بھی ہو سکتی ہے کہ : افضل و اولیٰ اعمال خاص کر رمضانی اعمال کے ساتھ چوکنا رہا جائے یعنی اس بات پر بطور خاص دھیان دیا جائے کہ کن اعمال کو ترجیح دینا ہے، پس اللہ عز و جل نے صیام کو فرض قرار دیا ہے اور نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے قیام کو مسنون قرار دیا ہے، اور آپ صلی اللہ علیہ و سلم قرآن کی تلاوت میں بڑی جد و جہد کرتے تھے اور جبریل علیہ السلام رمضان میں قرآن کا دور کراتے تھے، اور لوگوں میں آپ صلی اللہ علیہ و سلم سب سے زیادہ سخی تھے اور ماہِ رمضان میں آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی سخاوت ، سخاوت کی تمام انواع میں بڑھ جاتی تھی، خاص کر آخری عشرے میں قیام کو طول دیتے اور عبادت و اعتکاف کے لیے اپنے آپ کو فارغ کر لیتے تھے۔
یہ تھا آپ صلی اللہ علیہ و سلم کا طرزِ عمل، اور آپ صلی اللہ علیہ و سلم رہبر و رہنما اور اسوہ و نمونہ ہیں اس لیے عام مسلمانوں کو اسے اپنانا انتہائی بہتر ہے بطور خاص جو لوگ رہبری کی حیثیت رکھتے ہیں انھیں اس منہج کو اپنانے کی ضرورت ہے تاکہ یہ تمام لوگ رمضان المبارک سے مستفید ہو سکیں۔
ترجیحات کے سلسلے میں مسلمانوں کے لیے مناسب یہ ہے کہ وہ رمضان کے ساتھ تعامل میں اپنے حسبِ حالت جو ان کے لیے مناسب و بہتر ہو اسے اپنائیں۔چناں چہ ہرانسان کے لیے وہی افضل ہے جو اس کے لیے مناسب ہے،بعض انسان اپنے اندر دوسرے کے بہ نسبت قیام کی زیادہ طاقت پاتا ہے، اوردوسرا شخص ذکر ودعا کی اور تیسرا غوروفکر اور اپنے آپ کا محاسبہ کرنے کا۔۔۔۔ اوررہبرورہنما جو سال بھر دعوت وتبلیغ کے مشن کو انجام دیتے ہیں انھیں مناسب حالت کا علم ہونا چاہیے اور اس کے مطابق عمل کرنا چاہیے، اور اس بات پر بھی دھیان رکھنا چاہیے کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی ترجیحات کو اپنانے میں قدوۃ کی حیثیت رکھتے ہیں۔
4 . انھیں تعلیمات میں سے تزکیۂ نفس کا اہتمام کرنا ہے۔ اورہر آدمی اپنے نفس کے بارے میں جانتا ہے اور تزکیۂ نفس سے مراد گناہوں سے نفس کو پاک کرنا ہے،اوراس کی معاون چیزوں میں سے یہ ہے کہ بزرگ و برتر خالق کے حقوق کو ادا کرکے گناہوں سے گلو خلاصی حاصل کی جائے، اور مخلوقات کے حقوق کی ادائیگی نیز مشتبہ چیزوں سے دوری اختیار کرکے گناہوں سے گلوخلاصی حاصل کی جائے۔
سلفِ صالحین بطور خاص جو رول ماڈل کی حیثیت رکھتے ہیں وہ لوگ کسی طرح کی تقصیر و کمی پائے جانے کے وقت یا غیر مزکیٰ چیزوں میں پڑنے کی صورت میں نفس کی ملامت کرتے تھے۔
اورشاید اس بات کی طرف بھی اشارہ کرنا ضروری ہے کہ ہمارے اس دور میں بہت سے رہنما رمضان یا غیر رمضان میں مباحات میں حد سے تجاوز اور مبالغہ کے شکار ہیں، اور تزکیۂ نفس سے متعلق گفتگو کو چھوڑ کر ان چیزوں کی تفاصیل بیان کرنے میں منہمک ہیں جو سلفِ صالحین سے ثابت نہیں ہے بلکہ یہ بعد کے لوگوں کی لکھی ہوئی ہیں جسے انھوں نے اپنے بارے میں لکھا ہے۔
ان حادثات میں رہنما کے لیے نفس کے ساتھ اس واضح موقف کو اپنانے کی ضرورت ہے،اور نفس کو ان فضائل کے لیے مجبور کرنا ضروری ہے جسے نفس ناپسند کرے اور بطور خاص وہ چیزیں جو حظوظِ نفس سے متعلق ہیں۔
اگر ہم نفس کے ساتھ تعامل کو متعین کرنے کی طاقت نہیں رکھتے ہیں تو پھر ہم حوادث پر غور و فکر اور اس کے ساتھ تعامل کی طاقت کیونکر رکھیں گے جب کہ اس مرحلے کے لیے یہی مطلوب ہے۔
5 . انھیں معالم میں سے یہ بھی ہے کہ : اس ماہِ معظم میں ضروری طور پر ذکر دعا اور استغفار کے ذریعہ اللہ عز و جل کی پناہ حاصل کی جائے، اور انسان جو اپنی ذات کے لیے بارگاہِ الٰہی میں اعمال پیش کرتا ہے ان میں یہ عظیم ترین ہے۔
اور یہ صحیح نظرئیے اور درست موقف کی توفیق کے لیے اہم عوامل و اسباب میں سے ایک ہے۔
اور یہ بھی ضروری ہے کہ ایک دوسرے کے تئیں ہم پر جو حقوق ہیں ان کے لیے بھی دعا کی جائے ، مثلاً :
والدین اور اولاد۔
شوہر اور بیوی۔
مسلم رہنما اور ان کے علما و دعاۃ۔
کمزور یتیم اور بیوائیں۔
فقرا اور مساکین۔
تمام رشتے دار، دوست احباب اور پڑوسی۔
عام مسلمان اور بالخصوص مسلم مجاہدین۔
ان میں سے ہر ایک کو حقوق حاصل ہیں، اور ان کی ادائیگیٔ حقوق کے لیے سب سے بڑی چیز دعا ہے، اور اس سلسلے میں خطا و غلطی یہ ہے کہ دعا کو بے وقعت سمجھا جائے۔ اسی لیے دعا کی عظمت ، اس کی تعلیم و سمجھ اور اس کی وجوبیت کو جاننا ضروری ہے جب کہ ہم بڑے بڑے حادثات کے درمیان جی رہے ہیں۔
اللہ سبحانہ و تعالیٰ تمام لوگوں سے باخبر ہے اور سبھوں کے احوال سے واقف ہے، اور جب معاملہ ایسا ہے تو اس کے علاوہ کسی اور کی پناہ کیونکر ڈھونڈی جائے۔
6 . میں ان معالم و آثار اور تعلیمات کو بعض ان محذورات پر ختم کرنا چاہتا ہوں جو شیطان کی درآمدات اور ابلیس کی تلبیس و فریب دہی میں سے ہیں۔ اور ان میں سے بعض اہم امور یہ ہیں :
رہنماؤں کا دعوتی حجت اور دوسرے لوگوں کو فائدہ پہنچا نے کو دلیل بناکر اپنے گھر سے مشغول ہونا۔اوراس سلسلے میں کم سے کم یہ کہاجاسکتا ہے کہ:
اگر یہ عمل کچھ ایسے لوگوں کے متعلق درست ہو جو اس سے مستغنی نہیں ہیں تو پھر عمومی طور پر سبھی لوگوں کے لیے عام منہج ہونا بالکل درست نہیں ہے۔
(الف) اگر مشارکت درست ہے تو ہمہ وقت حد سے بڑھنا بالکل درست نہیں ہے۔ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے اسوہ و قدوۃ ہونے کی حالت کو ہم جان چکے ہیں۔
(ب) دعوتی حجت یا انکارِ منکر یا دوسروں کو فائدہ پہنچانے کی خاطرہر قسم کے مواصلات اور مختلف النوع ٹیکنالوجی بالخصوص اس دور کے عام فتنہ ٹویٹر میں انہماک کم سے مطلوب ہے۔
یہاں ذرا توقف اختیار کرکے غور کرنا چاہیے کہ ان آلات کے ساتھ کتنا وقت صرف کیا جاتا ہے اور اس کے مقابلے میں تلاوتِ قرآن، ذکر و دعا اور دیگر واجبات کے ساتھ کتنا وقت خرچ کیا جاتا ہے۔
(ج) عام محذورات میں سے شاید یہ بھی ہے اور بطور خاص اس ماہِ مبارک میں کہ : سیاسی مسائل ، اس کی تفصیلات و تشریحات اور اس کے تحلیل و تجزیہ میں بکثرت انہماک ہونا ترجیحات سے پھیرنے ،اوقات کو ضائع کرنے ، اوردلوں کو مضطرب کرنے کا نتیجہ وسبب ہے،اور ایک ہی وقت میں اس میں درستی سے زیادہ غلطیاں پائی جاتی ہیں، بلکہ بسااوقات مجموعی طور پراختلافات کے دراڑ پڑ جاتے ہیں اور یہ دوستوں بلکہ شریفوں کے درمیان مفارقت و علیحدگی کا سبب بنتا ہے، اور ہر دو جانب سے دوسرے کے لیے جہالت سے پُر یا لچر قسم کے الزامات عائد کئے جاتے ہیں، اور یہ عیاری و چالاکی شریفوں یا خاندانوں پر جا ٹوٹتا ہے اور اس کے برعکس اس کا اثر بہت سے نوجوانوں پر بھی ظاہر ہوتا ہے۔
اور اس بات میں کوئی شک و شبہ نہیں ہے کہ انٹرنیٹ اپنے تمام چینلز، ویب سائٹس اور سیٹلائٹ سمیت اس غیر سود مند شغل میں ناقابل انقطاع شراکت رکھتا ہے۔
میرے خیال میں یہ چیز منہجِ زندگی کی حیثیت سے ممنوع و محذور ہے، پھر تو ماہِ رمضان میں اس کا کیا حال ہوگا۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے اعمال و امور جو اس مہینے کی قدر و قیمت میں اضافہ کرتے ہیں ، کیا ہم میں سے کوئی اس کا اعتقاد رکھتا ہے؟ مجھے نہیں لگتا کوئی اس کا اعتقاد رکھتا ہے، اور اگر معاملہ ایسا ہی ہے تو اس کی اقتدا کرنی چاہئے۔
میرے خیال میں یہ محذورات و احتیاطات بطور یاددہانی کے ہیں، اور اس طرح کے امور کو اسی پر قیاس کیا جانا چاہیے۔
اللہ تعالیٰ اس پر قابو پانے کے لیے میری اور آپ کی مدد فرمائے۔
مراجعہ کی اہمیت پر زور دیتے ہوئے میں اپنی بات کو ختم کر رہا ہوں تاکہ اہلِ علم اور اہلِ دعوت ترجیحی امور پر ذہن کو مرکوز کریں، اور یہ رمضان ایک اہم موقع ہے خصوصاً اس پر فتن دور میں تاکہ کوئی کسی بھی چھوٹے بڑے معاملے میں الجھ کر نہ رہ جائے، ہر کوئی لیلیٰ کو پانے کا مدعی ہوتا ہے لیکن بسااوقات ہی پاتا ہے۔
اللہ تعالیٰ ہمیں حسنِ صیام و قیام کی توفیق عطا فرمائے اور ہماری طرف سے اسے قبول فرمائے۔
ارادے کے ورے اللہ سبحانہ و تعالیٰ ہی ہے۔