باب: سنّت نبوی کا مقام ومرتبہ

حلقہ(۱۲)سنّت کی اصطلاحی تعریف(1-2)

اصطلاح میں سنت کی تعریف مختلف تخصصات  میں علما کی اپنی تحقیقات کے مقاصد کےجداہونے کے اعتبار سے بدلتی رہتی ہے، ذیل میں محد ثین،اصولیین اور فقہاء  کےنزدیک  سنّت کی تعریف کا تذکرہ پیش ہے:

محدثین کے نزدیک سنت کی تعریف:

محدثین  نے سنت کی متعدد تعریف کی ہیں ،ان میں سے چند یوں ہیں:

۱۔ سنت اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے اقوال،افعال،تقریرات(آپ کے سامنے کسی کام کو انجام دیا گیا ہو اوراس پر آپ سکوت فرمائے ہوں) اور پیدائشی و اکتسابی(اخلاقی) اوصاف کا نام ہے، نیز آپﷺ کی تمام خبریں  چاہے  یہ بعثت سے پہلے ہوں یابعد میں ہوں۔

یہی جمہور محدثین  کےیہاںمشہور ہے۔گویا سنت ان کے یہاں صرف مرفوع حدیث کا نام ہے، اور موقوف  ومقطوع اس تعریف سے خارج ہیں ۔

اس سلسلہ میں ان کی دلیل یہ ہے کہ قرآن کے مقابلے میں جس  چیز کے ساتھ نبی ﷺ کی بعثت ہوئی  ہے، نبی ﷺ نے اسے سنت کہا ہے ،جیسا کہ حجۃ الوداع کے خطبہ میں آپ ﷺکا فرمان:’’اے لوگو! بے شک میں نے تمہارے درمیان دو ایسی چیزیں چھوڑی ہیں جب تک تم اسے (مضبوطی) سےپکڑے رہوگے ہرگز گمراہ نہ ہوگے،(ایک) اللہ کی کتاب اور (دوسری) میری سنّت(۱)۔‘‘

اسی  قول کی بنیاد پر بہتیرے محدثین نے اپنی حدیث کی کتابوں کو ’’سنن‘‘ کے نام سے تعبیر کیا ہے ،جیسے: سنن ابو  عیسی ترمذی(ت۲۷۹ھ) ،سنن ابو داود سجستانی(ت۲۷۵ھ)،سنن نسائی(ت۳۰۳ھ)،سنن ابن ماجہ قزوینی(ت۲۷۳ھ) یا(۲۷۵ھ)۔

۲۔اور یہ   بھی کہا گیا  ہے کہ سنّت  آپ ﷺ کے اقوال وافعال،تقریرات،اور اکتسابی اورپیدائشی اوصاف،آپ کی  تمام خبریں خواہ بعثت سے قبل ہوں یا اس کے بعد ہوں،نیز اقوال صحابہ اور ان کے افعال کا نام ہے۔

اس قول کی طرف  امام ابوحنیفہ نعمان بن ثابت ؒ(ت۱۵۰ھ) گئے ہیں،چنانچہ ان کا فرمان ہے: ’’صحابہ کرام سے جو ہمارے پاس آیا  ہے ہم اس کی اتباع کرتے ہیں، اور جو تابعین عظام سے ہم تک پہنچا ہے اس  کا مزاحمت کرتے ہیں۔‘‘

نیز فرمایا : ’’جب کتا ب اللہ اور رسولﷺ کی سنت میں کوئی بات نہیں پاتے تو صحابہ میں سے جس کے قول کو چاہتے ہیں لیتے ہیں،اور جس کے قول کو چاہتے ہیں چھوڑ تے ہیں ،پھر ہم ان (صحابہ)کے علاوہ کسی کے قول کی طرف متوجہ نہیں ہوتے(۱)۔‘‘

چنانچہ ابوحنیفہ کے نزدیک سنت صرف مرفوع اور موقوف کے ساتھ مخصوص ہے،اس میں مقطوع شامل نہیں ہے۔اورشاید اس سلسلے میں ان کی دلیل نبیﷺ کا یہ فرمان ہے:’’تم میری سنّت ،اور ہدایت یافتہ خلفائے راشدین  کی سنت کو لازم پکڑو اور اس  پر مضبوطی سے جم جاؤ(۱)۔‘‘

۳۔ اور یہ   بھی کہا گیا  ہے کہ سنّت  آپ ﷺ کے اقوال وافعال،تقریرات،اور اکتسابی اور پیدائشی اوصاف،آپ کی  تمام خبریں خواہ بعثت سے قبل ہوں یا اس کے بعد ہوں، نیز صحابہ کرام اور تابعین کے اقوال وافعال کا نام ہے۔   

اوراس قول کی طرف حافظ ابوبکر احمد بن حسین بیہقی (ت۴۵۸ھ) گئے ہیں،جنہوں نے اپنی کتاب کا نام ’’السنن الکبری‘‘ رکھا ہےجس میں حدیث رسولﷺ، صحابہ اور تابعین کے فتاوی اور افعال کو جمع کیا ہے۔گویا کہ ان کے نزدیک سنت مرفوع ،موقوف اور مقطوع کوشامل ہے۔

اورشاید اس سلسلے میں ان کی دلیل یہ ہے کہ:صحابہ کرام نے رسول ﷺ کی صحبت وجانشینی اختیار کی ،اور وحی ونزولِ قرآن کا مشاہدہ کیا، اسی طرح تابعین نے صحابہ کی صحبت وہمنشینی اختیار کی،اوران سے سماعت حاصل کی،اس لیےان کا قول وفعل دوسروں کے بہ نسبت قبول کرنے  کے زیادہ لائق ہے،اور سنت کے مفہوم میں داخل  ہوگا۔

حواشی:

 

(۱)اس حدیث کو امام مالک نے اپنی موطا ،کتاب القدر،ص۵۶۱،طبع:الشعب میں بلاغۃً  ذکر کیا ہے،امام زرقانی مؤطا کی اپنی شرح (۴؍۲۴۶) میں فرماتے ہیں  کہ: امام مالک کی بلاغت والی  روایت صحیح ہے جیسا کہ ابن عیینہ نے کہا ہے‘‘اور ابن عبد البر نے اپنی کتاب التمہید میں ابوہریرہ  اور عمروبن عوف کی حدیث سے  اس سند کو ذکرکرکے فرمایا ہے: یہ حدیث نبیﷺ سے مشہور ہے،اور اہل علم کے نزدیک اس قدر مشہور ہے کہ اسناد سے بے نیاز ہے۔‘‘ملاحظہ فرمائیں: فتح المالک بترتیب التمہید لابن عبد البر علی مؤطا مالک(۹؍۲۸۲۔۲۸۳)،اور اسے حاکم نے اپنی مستدرک رقم:۹۳۱، میں ذکرکرکے صحیح قرار دیا ہے ،اور ذھبی نے اس کی موافقت کی ہے۔

 

(۲)اصول السرخسی(۱؍۳۱۳)۔

 

(۳)اس حدیث کو امام ترمذی نے اپنی سنن،کتاب العلم،باب:ما جاء فی الأخذ  بالسنۃ واجتناب البدع  ،رقم:۲۶۷۶) کے تحت ذکر کرکے کہا ہے کہ:یہ حدیث حسن صحیح ہے، اور ابوداود نے،اپنی سنن ،کتاب السنۃ،باب:لزوم السنۃ،رقم:۴۶۰۷)،اورابن ماجہ نے اپنی سنن ،مقدمہ،باب:اتباع سنۃ الخلفاء الراشدین المھدیین،رقم:۴۲،۴۳)اورامام احمد نے اپنی مسند(۴؍۱۲۶،۱۲۷) میں ،ان تمام لوگوں نے اسے عرباض بن ساریہ رضی اللہ عنہ کی حدیث سے بیان کی ہے۔

 

أضف تعليق

كود امني
تحديث