حلقہ(۱۲) عفّت وعصمت کی خاطر(۳۔۶)

۱۔شرمگاہ  کے ڈھانکنے پر ابھارا ہے، اور اسلام نے  اس کا  سب  سےپہلے ہی اہتمام کیا ہے، کیوں کہ اس کے کھولنے اور اس سلسلے میں سستی برتنے سے برے خیالات  کو ابھارنا،عفت وپاکدامنی کے لباس کواتار پھینکنا، اور رزائل کی دلدل  میں جا گرنا  ہے۔

اسی لیے مرد وں اور عورتوں کے پردوں کی حد بندی کی گئی ہے، اور اس میں   سےکس چیزکو اپنانا اور کس چیز کو چھوڑنا ہے (سب کی وضاحت کی گئی ہے)۔

جرھد اسلمی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبیﷺ کا ان کے پاس گذرہوااور وہ اپنی ران کھولے ہوئے تھے، توآپﷺ نے فرمایا: ’’اپنی ران ڈھاک لو، کیوں کہ یہ  ستر(چھپانے کی چیز) ہے۔‘‘(1)

اور بہز بن حکیم رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ:میں نے عرض کیا: اےاللہ کے رسولﷺ! ہم اپنی ستر(شرمگاہیں )کس سے چھپائیں اور کس سے نہ چھپائیں؟ ؟ آپ ﷺنے فرمایا:’’اپنی بیوی اور اپنی لونڈی کے سوا ہر کسی سے اپنی شرمگاہ کو چھپاؤ، انھوں نے کہا: آدمی کبھی آدمی کے ساتھ مل جل کر رہتا ہے؟ آپ ﷺنے فرمایا:’’تب بھی تمہاری ہر ممکن کوشش یہی ہونی چاہیئے کہ تمہاری شرمگاہ کوئی نہ دیکھ سکے،وہ کہتے ہیں: میں نے عرض کیا:  اےاللہ کے رسول! جب ہم میں سے کوئی تنہا خالی جگہ میں ہو؟ تو آپ نے فرمایا: لوگوں کے بہ نسبت اللہ اس بات کا  زیادہ حق دار ہے کہ اس سے شرم کی جائے۔(2)

اورآپﷺ کا فرمان ہے:’’ یقینا اللہ عزوجل حیاء دار ہے پردہ پوشی کرنے والا ہے اور حیاء اور پردہ پوشی کو پسند فرماتا ہے لہٰذا جب تم میں سے کوئی نہائے تو ستر کو چھپا لے۔(3)

یہاں پر رسولﷺ نے موضوع ستر کو حلال وحرام کی حدود سے  کمال  اور بلندی امور کی طلب تک پہنچایا ہے، پس ستر پوشی ایسی چیز ہے جس کو اللہ پسند کرتا ہے، اور لوگوں کی بہ نسبت وہ  اس بات کا زیادہ حق دار ہے کہ اس سے شرم کیا جائے،لہذا نفس کو اس وقت صرف  ستر کی حدود  پر  ہی بس نہیں کرنی چاہیے کہ جسم  میں سے جن کا کھولنا جائز ہے اسے کرے،اور جن کا کھولناحرام ہے ان کو چھپائے، بلکہ اپنی عفت وحیا اور ستر کے ذریعہ  بلندی     کے مرتبہ کو اپنائے تاکہ اللہ تعالیٰ کی محبت سے کامیاب ہوسکے۔

اور صرف یہی نہیں بلکہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے اپنے بندوں کو مزید سترکی ہدایت دی ہے یعنی  ظاہری لباس اورباطنی لباس کے درمیان صلہ قائم کرکے  مزید تقویٰ اپنانے کا حکم دیا ہے جیسا کہ ارشاد باری ہے: (يَا بَنِي آدَمَ قَدْ أَنزَلْنَا عَلَيْكُمْ لِبَاساً يُوَارِي سَوْآتِكُمْ وَرِيشاً وَلِبَاسُ التَّقْوَى ذَلِكَ خَيْرٌ ذَلِكَ مِنْ آيَاتِ اللَّهِ لَعَلَّهُمْ يَذَّكَّرُونَ)(4)

’’ اے آدم (علیہ السلام) کی اود ہم نے تمہارے لئے لباس پیدا کیا جو تمہاری شرم گاہوں کو بھی چھپاتا ہے اور موجب زینت بھی ہے اور تقوے کا لباس، یہ اس سے بڑھ کر ہے۔ یہ اللہ تعالیٰ کی نشانیوں میں سے ہے تاکہ یہ لوگ یاد رکھیں ۔‘‘

چناں چہ دونوں لباس ہیں،ایک  قلب وروح کا پردہ کرتا ہے اور اسے ایمان وحیا کی زینت سے آراستہ کرتا ہے، اور دوسرا جسم کا پردہ کرتا ہے اور اسے لوگوں کے مابین مزین اور خوبصورت  کرکے پیش کرتا ہے۔اوریہ دونوں  آپس میں لازم و ملزوم ہیں، اگر بندہ تقوی ٰاور ایمان میں زیادہ ہوتا ہے تو حیا اور پردہ میں بھی زیادہ ہوتا ہے، اور جب اس کا پردہ اور حیا کم ہوگا تو اس کا تقویٰ بھی گھٹ جائے گا، چناں چہ شیطان کو ہی لے لیجئے یہ آدم علیہ السلام    سے اپنے مقصد میں اسی وقت کامیاب ہوسکاجب  انھوں نے اپنے رب کی نافرمانی کی،اور درخت  سے کھالیا، چناں چہ ان کا پردہ کھل گیا اور شرمگاہ ظاہر ہوگئی، اللہ سبحانہ کا ارشاد ہے:

(فَوَسْوَسَ لَهُمَا الشَّيْطَانُ لِيُبْدِيَ لَهُمَا مَا وُورِيَ عَنْهُمَا مِنْ سَوْآتِهِمَا وَقَالَ مَا نَهَاكُمَا رَبُّكُمَا عَنْ هَذِهِ الشَّجَرَةِ إِلاَّ أَنْ تَكُونَا مَلَكَيْنِ أَوْ تَكُونَا مِنْ الْخَالِدِينَ (20) وَقَاسَمَهُمَا إِنِّي لَكُمَا لَمِنْ النَّاصِحِينَ (21) فَدَلاَّهُمَا بِغُرُورٍ فَلَمَّا ذَاقَا الشَّجَرَةَ بَدَتْ لَهُمَا سَوْآتُهُمَا وَطَفِقَا يَخْصِفَانِ عَلَيْهِمَا مِنْ وَرَقِ الْجَنَّةِ...)(5)،

’’پھر شیطان نے ان دونوں کے دلوں میں وسوسہ ڈا تاکہ ان کی شرمگاہیں جو ایک دوسرے سے پوشیده تھیں دونوں کے روبرو بے پرده کردے اور کہنے لگا کہ تمہارے رب نے تم دونوں کو اس درخت سے اور کسی سبب سے منع نہیں فرمایا، مگر محض اس وجہ سے کہ تم دونوں کہیں فرشتے ہوجاؤ یا کہیں ہمیشہ زنده رہنے والوں میں سے ہوجاؤاور ان دونوں کے روبرو قسم کھالی کہ یقین جانیئے میں تم دونوں کا خیر خواه ہوں سو ان دونوں کو فریب سے نیچے لے آیا پس ان دونوں نے جب درخت کو چکھا دونوں کی شرمگاہیں ایک دوسرے کے روبرو بے پرده ہوگئیں اور دونوں اپنے اوپر جنت کے پتے جوڑ جوڑ کر رکھنے لگے۔‘‘

اوراللہ سبحانہ نے فرمایا:: (يَا بَنِي آدَمَ لا يَفْتِنَنَّكُمْ الشَّيْطَانُ كَمَا أَخْرَجَ أَبَوَيْكُمْ مِنْ الْجَنَّةِ يَنزِعُ عَنْهُمَا لِبَاسَهُمَا لِيُرِيَهُمَا سَوْآتِهِمَا...)(6)

’’اے اود آدم! شیطان تم کو کسی خرابی میں نہ ڈال دے جیسا اس نے تمہارے ماں باپ کو جنت سے باہر کرا دیا ایسی حالت میں ان کا لباس بھی اتروا دیا تاکہ وه ان کو ان کی شرم گاہیں دکھائے  ...۔‘‘

چناں چہ شیطان کا سب سے پہلا فتنہ لباس میں ہی تھا۔

حواشی:

(1)     أخرجه الترمذي ك الأدب باب ما جاء أن الفخذ عورة ح  2798 -5/111ا، اور فرمایا کہ: یہ حدیث حسن ہے، اورالبانی اسے صحیح کہا ہے ، وأحمد ح 15974-3/479، والدارمي ح2650-2/364.
(2)     أخرجه الترمذي ك الأدب باب ما جاء في حفظ العورة ح  2794 -5/110 ،اور فرمایا کہ: یہ حدیث حسن ہے ، وأبو داود باب ما جاء في التعري ح4017-4/40، وأخرجه البخاري مختصراً باب من اغتسل عرياناً ح20-1/107..
(3)     أخرجه أبو داود باب النهي عن التعري ح 4012-4/39، والنسائي باب الاستتار عند الاغتسال ح 406-1/200، وأحمد ح 17999-4/ 224 ،اور ارناؤوط نے کہا ہے کہ: اس کی سند حسن ہے۔
(4)     سورة الأعراف آية 26. وانظر: كتاب لباس الرجل أحكامه وضوابطه في الفقه الإسلامي 2/814.
(5)     سورة الأعراف من آية 20 إلى 22.
(6)     سورة الأعراف آية 27.

 

أضف تعليق

كود امني
تحديث