حلقہ(۱۴) عفّت وعصمت کی خاطر(۵۔۶)

تیسرا رکن: شجاعت وبہادری

ابن قیم رحمہ اللہ   کہتے ہیں: ’’شجاعت وبہادری انسان کو عزّت نفس اور بلند اخلاق وعادات کو ترجیح دینے نیز داد و دہش اور سخاوت  وکرم  کو اپنانے پر ابھارتا ہے۔ محبوب چیز کو دل سے نکالنے اور اسے ترک کردینے کا نام دلی شجاعت و قوت  ہے۔ اور یہ غصہ کو دبا لینے(پی جانے) اوربردباری اختیار کر نےپر آمادہ کرتا ہے کیوں کہ انسان دلی قوت و شجاعت کے سبب اس (غصہ)کے  ڈورکو پکڑ کررکھتا ہے ،اوراس کے لگام کے ذریعہ  اسے شر انگیزی اور  اور گرفت سے قابو  اور کنٹرول میں رکھتا ہے، جیسا کہ نبیﷺ نے فرمایا:’’بہادر وہ نہیں ہے جو کُشتی میں لوگوں کو پچھاڑ دے،بلکہ حقیقی بہادر وہ ہے جو غصہ کے وقت اپنے نفس  پر قابو رکھے۔‘‘ (1)

اور یہی حقیقی شجاعت  ہے اور یہ ایسا ملکہ ہے جس کے ذریعہ بندہ اپنے مد مقابل(دشمن)   کو شکست دینے پر قادر ہوتا ہے۔

خصلت ِ شجاعت  میں شامل ہونے والے اخلاق درج ذیل ہیں:

 ۱۔شجاعت وبہادری غصہ کو  دبانے(قابوکرنے) اور بردباری اختیار کرنے پر ابھارتا ہے جیسا کہ حدیث میں گذرچکا ہے کہ: ’’بہادر وہ نہیں ہے جو کُشتی میں (مدّ مقابل کو)پچھاڑ دے،بلکہ حقیی بہادر وہ ہے جو غصہ کے وقت اپنے نفس  پر قابو رکھے۔‘‘

۲۔شجاعت انسان کو حق پر ثابت قدمی عطاکرتی ہے، اور اس سے ڈگمگانے نہیں دیتی،چناں چہ وہ  اپنے گرد لوگوں کی تبدیلیوں کی وجہ سے اپنے اصولوں اور اقدار سے نہیں ہٹتا،رسول اللہ ﷺ کا ارشاد ہے: (لا تكونوا إمعة، تقولون إن أحسن الناس أحسنا، وإن ظلموا ظلمنا !! ولكن وطنوا أنفسكم إن أحسن الناس أن تحسنوا، وإن أساءوا فلا تظلموا)(3)

  تم لوگ ہر ایک کے پیچھے دوڑنے والے نہ بنو(ہرایک کی ہاں میں ہاں  ملانے والے،ضعیف الرائ نہ بنو) یعنی اگر لوگ ہمارے ساتھ بھلائی کریں گے تو ہم بھی بھلائی کریں گے اور اگر ہمارے اوپر ظلم کریں گے تو ہم بھی ظلم کریں گے، بلکہ اپنے آپ کو اس بات پر آمادہ کرو کہ اگر لوگ تمہارے ساتھ احسان کریں تو تم بھی احسان کرو، اور اگر بدسلوکی کریں تو تم ظلم نہ کرو۔

اور وہ کسی ملامت گر کی ملامت کی پرواہ نہیں کرتا، اور کسی تمسخر ومذاق کرنے والے کی تمسخر اس کی عزیمت کو موڑ نہیں  سکتی، اور اس سے کنارہ کشی اختیار کرنے والے کی کنارہ کشی اس کے بازو کو چور نہیں کرسکتی،اور اسے کوئی دھمکی ووعید خوفزدہ نہیں  کرسکتی، کیوں کہ وہ اس بات پرایمان ویقین رکھتا ہے کہ  بے شک غلبہ اسے اور اس جیسے لوگوں کے لیے ہے جو رضائے الہی کے حصول کو اپنی چاہت ومقصد بناتے ہیں۔

آپﷺ کا فرمان ہے: (مَن أسخط الله في رضا الناس، سخط الله عليه، وأسخط عليه من أرضاه في سخطه، ومن أرضى الله في سخط الناس رضي الله عنه، وأرضى عنه من أسخطه في رضاه)(4)

جس نے لوگوں کو راضی رکھنے کی خاطر اللہ عزوجل کی ناراضی مول لی اللہ عزوجل اس سے ناراض ہو جائے گا اور انھیں بھی اس سے ناراض کر دے گا جنھیں اس نے اللہ عزوجل کو ناراض کر کے راضی کیا تھا اور جس نے لوگوں کو ناراض کر کے اللہ عزوجل کو راضی کیا تو اللہ عزوجل بھی اس سے راضی ہو جائے گا اور انھیں بھی اس سے راضی کر دے گا جنھیں اس نے رضائے الٰہی کی خاطر ناراض کیا تھا ۔‘‘

اور شجاعت  جو ایمان کو غذا بخشتی ہے اور حق پر ثابت قدمی عطاکرتی ہے   اس کے بارے میں نبیﷺ کے اس جواب میں غور کریں جو انھوں  نے اپنے چچا کو اس وقت   دیا تھا  جب کفارِقریش نے ان سے نبیﷺ کی مدد نہ کرنے کا مطالبہ کیا تھا: (والله لو وضعوا الشمس في يميني، والقمر في يساري على أن أترك هذا الأمر حتى يظهره الله أو أهلك فيه)(5)

’’اللہ کی قسم اگر یہ لوگ میرے داہنے ہاتھ میں سورج رکھ دیں، اور بائیں میں چاند رکھ دیں تب بھی میں اس امر(دعوت) سے دستبردار نہیں ہوسکتا یہاں تک کہ اللہ اسے غالب کردے، یا اس راہ میٖں میں ہلاک ہوجاؤں۔‘‘

لہذا نہ خواہشات ودلفریبیاں،   اور نہ ہی دھمکیاں  اور خوف  اس کی قوت کو کمزور کرسکتی ہیں اورنہ ہی اس کے پائے ثبات  کو متزلزل کرسکتی  ہیں، اور یہ  مقام و مرتبہ صاحبِ شجاعت  مومن کے لیے ہے۔

۳۔شجاعت وبہادری انسان کو اپنی خواہشاتِ نفس کا مقابلہ کرنے کی قوت دیتی ہے، اوراس کی شہوتوں  کی شرانگیزی کو دبادیتی ہے،چناں چہ اس  کے نفس کے لیے اس کی چاہت کے مطابق نجات وکامیابی کی  راہ کو آسان کردیتی ہے، نہ کہ اس کی شہوت کے مطابق اسے چلاتی ہے۔

اسی لیے نبیﷺ نے فرمایا: (الكيِّس مَن دان نفسه وعمل لما بعد الموت، والعاجز مَن أتبع نفسه هواها وتمنى على الله الأماني)(6)

عقلمند وہ ہے جو اپنے نفس کا محاسبہ کرےاور موت کے بعد کی زندگی کے لیے عمل کرے اور عاجز و بیوقوف وہ ہے جو اپنے نفس کو خواہشات کی پیروی پر لگا دے اور رحمتِ الٰہی کی آرزو رکھے۔

 شجاعت  وبہادری سے متصف ہونے پر معاون امور درج ذیل ہیں:

۱۔اس بات پر ایمان لانا کہ عمریں محدود ہیں اور موت سے  کسی کو مفر نہیں ہے،ارشاد باری تعالیٰ ہے: (وَمَا كَانَ لِنَفْسٍ أَنْ تَمُوتَ إِلاَّ بِإِذْنِ اللَّهِ كِتَاباً مُؤَجَّلاً...)(7)،

’’بغیر اللہ تعالیٰ کے حکم کے کوئی جاندار نہیں مرسکتا، مقرر شده وقت لکھا ہوا ہے ۔‘‘ اور اللہ سبحانہ نے فرمایا:(كُلُّ نَفْسٍ ذَائِقَةُ الْمَوْتِ)(8).

’’ہر جان موت کا مزه چکھنے والی ہے۔‘‘

۲۔اس بات پر ایمان لانا کہ بندہ کو وہی چیزلاحق ہوگا جواللہ نے اس  کے حق میں  لکھ دیا ہے، جیسا کہ ابن عباس رضی اللہ  عنہما کی حدیث میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: (يا غلام إني أعلمك كلمات احفظ الله يحفظك، احفظ الله تجده تجاهك، إذا سألت فاسأل الله، وإذا استعنت فاستعن بالله، واعلم أن الأمة لو اجتمعت على أن ينفعوك بشيء لم ينفعوك إلا بشيء قد كتبه الله لك، ولو اجتمعوا على أن يضروك لن يضروك إلا بشيء قد كتبه الله عليك، رفعت الأقلام وجفت الصحف)(9).

اے لڑکے! بے شک میں تمھیں چند اہم باتیں بتلا رہا ہوں: تم اللہ کے احکام کی حفاظت کرو، وہ تمھاری حفاظت فرمائے گا، تم اللہ کے حقوق کا خیال رکھو اسے تم اپنے سامنے پاؤ گے، جب تم کوئی چیز مانگو تو صرف اللہ سے مانگو، جب تم مدد چاہو تو صرف اللہ سے مدد طلب کرو، اور یہ بات جان لو کہ اگر ساری امت بھی جمع ہو کر تمھیں کچھ نفع پہنچانا چاہے تو وہ تمھیں اس سے زیادہ کچھ بھی نفع نہیں پہنچا سکتی جو اللہ نے تمھارے لیے لکھ دیا ہے، اور اگر وہ تمھیں کچھ نقصان پہنچانے کے لیے جمع ہو جائے تو اس سے زیادہ کچھ نقصان نہیں پہنچا سکتی جو اللہ نے تمھارے لیے لکھ دیا ہے، قلم اٹھا لیے گئے اور (تقدیر کے)صحیفے خشک ہو گئے ہیں۔‘‘

۳۔شجاعت وطاقت کی فضیلت: نبیﷺ کا ارشاد ہے: (المؤمن القوي خير وأحب إلى الله من المؤمن الضعيف، وفي كل خير، احرص على ما ينفعك واستعن بالله ولا تعجز، وإن أصابك شيء فلا تقل لو أني فعلت كان كذا وكذا ولكن قل قدر الله وما شاء فعل، فإن لو تفتح عمل الشيطان)(10).

طاقت ورمومن (یعنی جس کا ایمان قوی ہو، اللہ تعالیٰ پر بھروسا رکھتا ہو، آخرت کے کاموں میں ہمت والا ہو) اللہ کے نزدیک کمزور مومن کی نسبت بہتر اورزیادہ محبوب ہے، جب کہ خیر دونوں میں موجود ہے۔ حرص کر ان کاموں کی جو تجھ کو مفید ہیں (یعنی آخرت میں کام دیں گے) اور مدد مانگ اللہ سے اور ہمت مت ہار اور تجھ پر کوئی مصیبت آئے تو یوں مت کہہ اگر میں ایسا کرتا تو ایسا ایسا ہوتا  بلکہ یوں کہو اللہ تعالیٰ کی تقدیر میں ایسا ہی تھا جو اس نے چاہا کیا۔ اگر مگر کرنا شیطان کے لیے راہ کھولنا ہے۔  

۴۔دینی بصیرت کا پایا جانا،اللہ سبحانہ کا ارشاد ہے: (قُلْ هَذِهِ سَبِيلِي أَدْعُو إِلَى اللَّهِ عَلَى بَصِيرَةٍ أَنَا وَمَنْ اتَّبَعَنِي وَسُبْحَانَ اللَّهِ وَمَا أَنَا مِنْ الْمُشْرِكِينَ)(11)

’’ آپ کہہ دیجئے میری راه یہی ہے۔ میں اور میرے متبعین اللہ کی طرف بلا رہے ہیں، پورے یقین اور اعتماد کے ساتھ۔ اور اللہ پاک ہے اور میں مشرکوں میں نہیں ۔‘‘

اور علم والا عامل بغیر علم راسخ والے عابد سے افضل وبہتر ہے، اللہ سبحانہ کا فرمان ہے: (يَرْفَعِ اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا مِنْكُمْ وَالَّذِينَ أُوتُوا الْعِلْمَ دَرَجَاتٍ)(12)

’’ اللہ تعالیٰ تم میں سے ان لوگوں کے جو ایمان ئے ہیں اور جو علم دیئے گئے ہیں درجے بلند کر دے گا۔‘‘

اس لیے کہ علم  صاحبِ علم  کو مضبوط بناتا ہے اوراس کو عمل اور دعوت  پرثابت قدم  رکھتا ہے۔

۵۔دعا کرنا،کیوں کہ یہ سب سے طاقت ور امور میں سے ہے  جو شجاعت  وبہادری کی صفت   اپنانے میں معاون ومدگار ہے، اور نبیﷺ اکثر یہ دعا کیا کرتے تھے:

’’يا مقلب القلوب ثبت قلبي على دينك‘‘(13).

’’اے دلوں کے الٹ پھیر کرنے والے میرے دل کو اپنے دین پر ثابت رکھ۔‘‘

حواشی:

 (1)     أخرجه البخاري ك الأدب باب الحذر من الغضب ح6114-10/518 مع فتح الباري.
(2)     مدارج السالكين 3 / 74.
(3)     أخرجه الترمذي ح 2007-4/364 باب ما جاء في الإحسان والعفو اور فرمایا کہ: یہ حدیث حسن غریب ہے اسے ہم صرف اسی طریق سے جانتے ہیں۔   
(4)     أخرجه الطبراني في المعجم الكبير ح 11696-11/268، وابن حبان ذكر رضاء الله جل وعلا عمن التمس رضاه..ح 276-1/510 .
(5)     انظر السيرة النبوية 2/101، الروض الأنف 2/7.
(6)     أخرجه الترمذي باب لم يسمه ح 2459-4/638 اورفرمایا کہ: حدیث حسن ہے، وابن ماجه باب ذكر الموت..ح 4260-2/1423 البانی نے کہا کہ:  ضعیف ہے، وأحمد ح 17164-4/124 ارناؤوط کہتے ہیں کہ:اس کی سند ابوبکر بن ابی مریم کے ضعیف ہونے کی وجہ سے ضعیف ہے،اوربقیہ سند کے رواۃ ثقہ ہیں، والحاكم ك الإيمان ح 191-1/ 125  اور فرمایا: بخاری کی شرط پر صحیح ہے، اور دونوں (بخاری ومسلم) نے اس کی تخریج نہیں کی ہے۔
(7)     سورة آل عمران آية 145.
(8)     سورة آل عمران آية 185.
(9)     أخرجه الترمذي باب لم يسمه ح 2516-4/667 اور فرمایا کہ: یہ حدیث حسن صحیح ہے ، وأحمد ح 2669-1/293 ارناؤوط کہتے ہیں کہ: اس کی سند قوی ہے، والحاكم ذكر عبد الله بن عباس ح 6303-3/623، والطبراني في الكبير ح 11243-11/123.
(10)     أخرجه مسلم سبق تخريجه.
(11)     سورة يوسف آية 108.
(12)     سورة المجادلة آية 11.
(13)     أخرجه الترمذي باب ما جاء أن القلوب بين إصبعي الرحمن ح 2140-4/448، والنسائي في الكبرى باب قوله ولتصنع على عيني ح 7737-4/414، وأحمد ح 12128-3/112  ارناؤوط کہتے ہیں کہ: اس کی سند قوی ہے مسلم کی شرط پر ہے۔

 

 

 

أضف تعليق

كود امني
تحديث