باب:سعادت مند گھرسنّت کے آئنے میں
حلقہ(16) فقہ اخلاق – اللہ تعالیٰ کے ساتھ حسن اخلاق (1-9)
اس مہینے اور اس کے آگے کے مہینوں میں ہم فلسفۂ اخلاق کو بیان کرنے کی ابتداء کر رہے ہیں۔ اور جس کے ساتھ ادب و تعظیم سے پیش آنا سب سے افضل و مناسب ہے وہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی ذات ہے۔
اللہ تعالیٰ کے ساتھ حسن اخلاق
بندوں پر واجبات میں سے سب سے اہم واجبی فریضہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ ادب و تعظیم سے پیش آنا ہے کیوں کہ اسی پر دنیا و آخرت کی بھلائی معلق ہے، اور اکیلے اللہ سبحانہ و تعالیٰ پر ایمان لانے میں یہی چیز متصور ہوتی ہے، وہ ایمان جو مجرد اللہ سبحانہ و تعالیٰ پر ایمان لانے میں شمار ہوتا ہے پس اس ایمان میں ساری کائنات داخل و شامل ہے۔ اور رہا وہ ایمان جس کی وجہ سے بندہ سعادت مند و نیک بخت ہوتا ہے اور جس کے ترک کی وجہ سے شقی و بدبخت ہوتا ہے وہ یہ ہے : دل اور زبان کے ساتھ اقرار کرنا نیز دل زبان اور اعضا و جوارح کے ساتھ عمل کرنا، اور یہ ایمان اطاعت و فرماں برداری سے زیادہ ہوتا ہے اور معصیت و نافرمانی سے کم ہوتا ہے۔ (1)
تعریف کی تشریح :
قول اللسان (زبان کا قول و اقرار) : یعنی اس بات کی گواہی دینا کہ اللہ کے علاوہ کوئی معبودِ برحق نہیں ہے اور محمد صلی اللہ علیہ و سلم اللہ کے رسول ہیں۔ اور شہادت و گواہی کا یہ کلمہ توحید ربوبیت، توحید الوہیت اور توحید اسماء و صفات کو شامل ہے، پس معبود وہ ہے جس کی معرفت ہر بندہ رکھے۔ (2) آنے والے صفحات میں ہم ہر ہر جزء کا تذکرہ علیحدہ طور پرکریں گے۔
قول القلب (دل کا قول وقرار) : اس سے مراد اس کا یقین و اعتقاد اور تصدیق ہے۔ اور رہا دل کا عمل تو وہ حرکت و نیت سے عبارت ہے مثلاً عمل میں اخلاص، اور اسی طرح توکل، توجہ اور خوف وغیرہ۔
عمل الجوارح (اعضاء کا عمل) : اس میں تمام تر عبادات اور مامورات و منہیات شامل ہیں۔ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا :
(ایمان کے ستر سے زائد شعبے ہیں ، ان میں کا سب سے بلند شعبہ لا الہ الا اللہ یعنی اللہ کے علاوہ کوئی معبودِ برحق نہیں ہے کا اقرار کرنا ہے، اور سب سے چھوٹا درجہ راستے سے تکلیف دہ چیز کو دور کرنا ہے، اور حیا (بھی) ایمان کا ایک درجہ ہے۔) (3)
اس طرح معلوم ہوا کہ ایمان قول و عمل کا نام ہے اور عمل ترک کرکے صرف اقرار پر اکتفاء کرنا اس شریعت کو لغو قرار دینا ہےجو بکثرت تشریعات و قوانین کے ساتھ اتاری گئی ہے۔
اور دل میں ایمان صاحبِ ایمان کو ایمان کے مقتضیات پر عمل کی طرف ابھارتا ہے۔ اللہ عز و جل نے فرمایا : ﴿أَلَمْ تَرَى كَيْفَ ضَرَبَ اللَّهُ مَثَلاً كَلِمَةً طَيِّبَةً كَشَجَرَةٍ طَيِّبَةٍ أَصْلُهَا ثَابِتٌ وَفَرْعُهَا فِي السَّمَاءِ (24) تُؤْتِي أُكُلَهَا كُلَّ حِينٍ بِإِذْنِ رَبِّهَا وَيَضْرِبُ اللَّهُ الأَمْثَالَ لِلنَّاسِ لَعَلَّهُمْ يَتَذَكَّرُونَ (25) وَمَثَلُ كَلِمَةٍ خَبِيثَةٍ كَشَجَرَةٍ خَبِيثَةٍ اجْتُثَّتْ مِنْ فَوْقِ الأَرْضِ مَا لَهَا مِنْ قَرَارٍ﴾ ترجمہ : ’’کیا آپ نے دیکھا کہ اللہ تعالیٰ نے پاکیزہ بات کی مثال کس طرح بیان فرمائی، مثل ایک پاکیزہ درخت کے جس کی جڑ مضبوط ہے اور جس کی ٹہنیاں آسمان میں ہیں۔ جو اپنے پروردگار کے حکم سے ہر وقت اپنے پھل لاتا ہے، اور اللہ تعالیٰ لوگوں کے سامنے مثالیں بیان فرماتا ہے تاکہ وہ نصیحت حاصل کریں۔ اور ناپاک بات کی مثال گندے درخت جیسی ہے جو زمین کے کچھ ہی اوپر سے اکھاڑ لیا گیا۔ اسے کچھ ثبات تو ہے نہیں۔‘‘ (4)
علامہ سعدی رحمہ اللہ اوپر کی آیات کی تفسیر میں لکھتے ہیں : [اللہ تعالیٰ فرمارہا ہے : ﴿أَلَمْ تَرَى كَيْفَ ضَرَبَ اللَّهُ مَثَلاً كَلِمَةً طَيِّبَةً﴾ ’’ کیا آپ نے دیکھا کہ اللہ تعالیٰ نے پاکیزہ بات کی مثال کس طرح بیان فرمائی‘‘ اس سے مراد اس بات کی گواہی دینی ہے کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور اس کی فروعات (ایسے ہیں) ﴿كَشَجَرَةٍ طَيِّبَةٍ﴾ ’’مثل ایک پاکیزہ درخت کے‘‘ اور اس سے مراد کھجور کا درخت ہے۔ ﴿أَصْلُهَا ثَابِتٌ﴾ ’’اس کی جڑ مضبوط ہے‘‘ یعنی زمین میں مضبوطی سے گڑی ہوئی ہے۔ ﴿وَفَرْعُهَا﴾ ’’اور اس کی ٹہنیاں‘‘یعنی اس کی شاخیں پھیلی ہوئی ہیں۔ ﴿فِي السَّمَاءِ﴾ ’’آسمان میں‘‘ اور یہ درخت دائمی طور پر کثیر الفوائد ہے۔ ﴿تُؤْتِي أُكُلَهَا﴾ یعنی وہ پھل لاتا ہے۔ ﴿كُلَّ حِينٍ بِإِذْنِ رَبِّهَا﴾ ’’ہر وقت اپنے رب کے حکم سے‘‘ یہی حال شجرِ ایمان کا ہے، اس کی جڑیں علم و اعتقاد کے اعتبار سے بندۂ مومن کے قلب کی گہرائیوں میں نہایت مضبوطی سے جمی ہوئی ہیں، اس کی شاخیں یعنی کلمات طیبات، عمل صالح، اخلاق جمیلہ، آدابِ حسنہ ہمیشہ بندۂ مومن کی طرف سے آسمان کی طرف بلند رہتی ہیں۔۔۔۔۔۔ ﴿وَمَثَلُ كَلِمَةٍ خَبِيثَةٍ كَشَجَرَةٍ خَبِيثَةٍ﴾ ’’اور ناپاک بات کی مثال گندے درخت جیسی ہے‘‘ جو کھانے اور ذائقے میں بدترین درخت ہے اور اس سے مراد اندرائن وغیرہ کا پودا ہے۔ ﴿اجْتُثَّتْ﴾ یعنی اس پودے کو اکھاڑ لیا گیا۔ ﴿مِنْ فَوْقِ الأَرْضِ مَا لَهَا مِنْ قَرَارٍ﴾ ’’زمین کے کچھ ہی اوپر سے، اسے کچھ ثبات نہیں‘‘ یعنی اس پودے کو ثبات حاصل نہیں، اس پودے کی رگیں نہیں ہیں جو اس کو سہارا دے کر کھڑا کرسکیں اور نہ یہ کوئی اچھا پھل لاتا ہے بلکہ اس میں پھل پایا بھی جاتا ہے تو انتہائی بد ذائقہ۔ اسی طرح کفر اور گناہ کی بات قلب میں کوئی فائدہ مند مضبوطی اور ثبات پیدا نہیں کرتی، اس کا ثمرہ بھی قول خبیث اور عمل خبیث کی صورت میں ظاہر ہوتا ہے جو اس کو تکلیف دیتا ہے۔ اس بندے کی طرف سے کوئی عملِ صالح اللہ تعالیٰ کی طرف بلند نہیں ہوتا۔ اس قول و عمل سے نہ وہ خود منتفع ہوتا ہے اور نہ کوئی دوسرا اس سے فائدہ اٹھاتا ہے۔] (5)
ہم شجرۂ ایمان کی محافظت کس قدر مضبوطی و پختگی کے ساتھ کریں؟
ہم نے جو یہ کہا کہ (ایمان اطاعت کے ساتھ بڑھتا ہے اور معصیت کے ساتھ کم ہوتا ہے) تو اس سے دو امر واضح ہوتے ہیں جس کی تفصیل حسب ذیل ہے :
اوَّل : اس درخت کو ہمہ وقت نفع بخش علم، عمل صالح اور تذکیر و تفکر سے سیراب رکھا جائے۔
دوم : اس درخت کو گناہوں، معصیتوں اور آخرت کی غفلت کی خوراک سے پاک صاف رکھا جائے، گناہوں کا قلع قمع کرنے کے لیے توبہ و استغفار کیا جائے، گناہوں کو مٹانے والے اعمالِ صالحہ کی اتباع و پیروی کی جائے اور بکثرت اللہ تعالیٰ کا ذکر کیا جائے۔
ایمان کے بڑھنے اور کم ہونے کی دلیل اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان ہے :
﴿وَإِذَا مَا أُنزِلَتْ سُورَةٌ فَمِنْهُمْ مَنْ يَقُولُ أَيُّكُمْ زَادَتْهُ هَذِهِ إِيمَاناً فَأَمَّا الَّذِينَ آمَنُوا فَزَادَتْهُمْ إِيمَاناً وَهُمْ يَسْتَبْشِرُونَ (124) وَأَمَّا الَّذِينَ فِي قُلُوبِهِمْ مَرَضٌ فَزَادَتْهُمْ رِجْساً إِلَى رِجْسِهِمْ وَمَاتُوا وَهُمْ كَافِرُونَ﴾ ترجمہ : ’’اور جب کوئی سورت نازل کی جاتی ہے تو بعض منافقین کہتے ہیں کہ اس سورت نے تم میں سے کس کے ایمان کو زیادہ کیا ہے، سو جو لوگ ایمان والے ہیں اس سورت نے ان کے ایمان کو زیادہ کیا ہے اور وہ خوش ہو رہے ہیں۔ اور جن کے دلوں میں روگ ہے اس سورت نے ان میں ان کی گندگی کے ساتھ اور گندگی بڑھادی اور وہ حالتِ کفر میں مرگئے۔‘‘ (6)
حواشی :
________________________________________
(1) دیکھیے: شرح الواسطية2/230، اور أعلام السنة المنشورة ص45.
(2) دیکھیے: مجموع الفتاوى 2/6.
(3) اس کی تخریج گزر چکی ہے۔ رقم 106.
(4) سورة إبراهيم 24،25.
. 4/138 (3)
(6) سورة التوبة آية 124،125.