باب:سعادت مند گھرسنّت کے آئنے میں
حلقہ(17) فقہ اخلاق – اللہ تعالیٰ کے ساتھ حسن اخلاق (2-9)
اوَّل : توحید ربوبیت
اس بات کا اقرار کرنا کہ اللہ اکیلا ہی ہر چیز کا رب ، خالق اور مالک ہے، وہ اکیلا ہی موت و زندگی دینے والا، رزق رساں اور مدبر و کارساز ہے وغیرہ۔ نیز توحید ربوبیت کی تعریف اس طرح بھی کی جا سکتی ہے :
اللہ تعالیٰ اپنے تمام افعال میں یکتا و اکیلا ہے۔
توحید ربوبیت پر دلالت کرنے والے امور درج ذیل ہیں :
❶ فطرت : پس اللہ عز وجل نے اپنی مخلوق کو اپنی ربوبیت کے اقرار پر پیدا فرمایا ہے۔ جیسا کہ ارشادِ الٰہی ہے : ﴿فِطْرَةَ اللَّهِ الَّتِي فَطَرَ النَّاسَ عَلَيْهَا﴾ ترجمہ : ’’اللہ تعالیٰ کی وہ فطرت جس پر اس نے لوگوں کو پیدا کیا ہے۔‘‘ (1) پھر کیوں کر انسان نے سرکشی کی، تکبر کیا اور اللہ کی ربوبیت کا انکار کیا؟ جب کبھی انسان کو مصیبت یا پریشانی لاحق ہوتی ہے تو وہ واحد مطلق اللہ سبحانہ و تعالیٰ کو پکارتا ہے۔ ارشادِ ربانی ہے : ﴿فَإِذَا رَكِبُوا فِي الْفُلْكِ دَعَوْا اللَّهَ مُخْلِصِينَ لَهُ الدِّينَ فَلَمَّا نَجَّاهُمْ إِلَى الْبَرِّ إِذَا هُمْ يُشْرِكُونَ﴾ ترجمہ : ’’پس یہ لوگ جب کشتیوں میں سوار ہوتے ہیں تو اللہ تعالیٰ ہی کو پکارتے ہیں اس کے لیے عبادت کو خالص کرکے پھر جب وہ انھیں خشکی کی طرف بچالاتا ہے تو اسی وقت شرک کرنے لگتے ہیں۔‘‘ (2) اور نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا : ’’ہر بچہ فطرت (یعنی توحید) پر پیدا ہوتا ہے۔‘‘ (3)
❷ مخلوق کی دلالت خالق پر : بےشک یہ ساری مخلوقات اور اس کے اندر موجود عمدہ صُنعت و حکمت اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ ان کا کوئی خالق ہے جو صفاتِ کمال سے متصف ہے۔ (4)
اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے اس قطعی دلیل کا تذکرہ اپنے اس فرمان میں کیا ہے : ﴿أَمْ خُلِقُوا مِنْ غَيْرِ شَيْءٍ أَمْ هُمْ الْخَالِقُونَ﴾ ترجمہ : ’’کیا یہ بغیر کسی (پیدا کرنے والے) کے خود بخود پیدا ہوگئے ہیں؟ یا یہ خود پیدا کرنے والے ہیں؟‘‘ (5) سیدنا جبیر بن مطعم رضی اللہ عنہ نے اپنے اسلام لانے سے پہلے جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو سورۂ طور کی تلاوت کرتے ہوئے سنا اور جب آپ صلی اللہ علیہ و سلم اس آیت پر پہنچے تو انھوں نے کہا :میرا دل اڑنے لگا، اور یہ پہلا اتفاق تھا کہ میرے دل میں ایمان جاگزیں ہوا۔ (6)
کیا صرف توحید ربوبیت کا اقرار ہی کافی ہے؟
توحید کی یہی وہ قسم ہے جس کا اقرار کفار مکہ بھی کرتے تھے، جیسا کہ ان لوگوں کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے اپنے اس فرمان میں بیان فرمایا : ﴿وَلَئِنْ سَأَلْتَهُمْ مَنْ خَلَقَ السَّمَوَاتِ وَالأَرْضَ وَسَخَّرَ الشَّمْسَ وَالْقَمَرَ لَيَقُولُنَّ اللَّهُ فَأَنَّا يُؤْفَكُونَ﴾ ترجمہ : ’’اور اگر آپ ان سے دریافت کریں کہ زمین و آسمان کا خالق اور سورج چاند کو کام میں لگانے والا کون ہے؟ تو ان کا جواب یہی ہوگا کہ اللہ تعالیٰ، پھر کدھر الٹے جارہے ہیں۔‘‘ (7)
لیکن ان لوگوں نے اللہ عز وجل کے ساتھ بتوں کو شریک ٹہرایا اور توحید ربوبیت کے اقرار کے باوجود عبادت کی قسموں میں سے بہت سی قسموں کو بتوں کے لیے بجالایا اس لیے توحید ربوبیت نے انھیں کوئی نفع نہیں دیا۔
کوئی بھی شخص وجود باری تعالیٰ کے انکار کی قوت و طاقت نہیں رکھتا کیوں کہ وجود باری تعالیٰ کا انکار فطرتِ صحیحہ اور عقل سلیم کے خلاف ہے۔ اوروجود باری تعالیٰ کا انکار سوائے ان چند بددینوں کے اور کسی نے نہیں کیا ہے ان بددینوں کا دعویٰ ہے کہ کائنات کا وجود اتفاقی طور پر ہوا ہے۔ لیکن ایک دوسرا گروہ ہے جو توحید ربوبیت میں ایک دوسرے طریقے سے شرک کا ارتکاب کرتا ہے، بایں طور کہ وہ اس بات کا اعتقاد رکھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے علاوہ ولی یا (صاحبِ) قبر یا فرشتہ یا جن یا پتھر وغیرہ نفع و نقصان پہنچا سکتے ہیں، اس طرح یہ لوگ عبادت کی کچھ قسمیں ان کے لیے بجالاتے ہیں مثلاً قربانی، دعا، توسل اور طواف وغیرہ۔ یا وہ لوگ اس بات کا اعتقاد رکھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے علاوہ کاہن یا دست شناس یا نجومی وغیرہ بھی غیب جانتے ہیں۔
خلاصۂ کلام یہ کہ جو کوئی بھی اللہ تعالیٰ کے افعال مثلاًپیدا کرنا، بادشاہت، تدبیر، علم، قدرت، نفع، نقصان، زندہ کرنا، موت دینا وغیرہ میں کسی غیر کو شریک و ساجھی گردانتا ہے تو وہ اللہ تعالیٰ کی ربوبیت میں شرک کرنے والا ہے، اور اگر انواعِ عبادت میں سے کسی نوع کے ذریعہ غیر اللہ کی قربت حاصل کرتا ہے تو وہ توحید الوہیت میں بھی شرک کرنے والا ہے۔
حواشی :
________________________________________
(1) سورة الروم 30 .
(2) سورة العنكبوت آية 65 .
(3) أخرجه البخاري ح1358-3/219 فتح الباري ، ومسلم ح2658-4/4047 .
(4) علامہ ابن القیم رحمہ اللہ نے اس کا ذکر اپنی کتاب ’’شفاء العليل‘‘ کے ص: 147 اور اس کے بعد کے صفحات میں کیا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی مخلوقات کے عجائب اس بات کی گواہی دیتے ہیں کہ اس کائنات کا کوئی پیدا کرنے والا ہے جو صفاتِ کمال سے متصف ہے۔
(5) سورة الطور آية 35 .
(6) أخرجه البخاري ك التفسير 6/49 .
(7) سورة العنكبوت آية 61 .