حلقہ(۲)

حدیث: ((اے اللہ کے رسول مجھ پر اور میرے شوہر پر رحمت کی دُعا کیجئے))۔

جابر رضی اللہ عنہ فرماتے  ہیں کہ ہم رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس  آئے تو ایک عورت نے آپ سے کہا:اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم مجھ پر اور میرے شوہر پر رحمت کی دعا کیجئے تو آپ نے فرمایا: اللہ تجھ پر اور تمہارے شوہر پر رحمت بھیجے’’۔.(1)

سائلہ:

یہ سوال کرنے والی سُھیمہ  بنت مسعود بن اَوس تھیں۔(2) .

ان کی شادی ان کے خالہ کے بیٹے جابر بن عبد اللہ بن عمرو بن حرام  سے ہوئی تھی، اور اس سے عبدالرحمن اور ام حبیب پیدا ہوئے،اورسُھیمہ اسلام لائیں اور  رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے بیعت  کیں۔(3) .

اور وہ وافر عقل والی اور عظیم فضل والی تھیں اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے بیعت کرنے والیوں میں سے ان کا ذکر تھا، جابر رضی اللہ عنہ نے ان سے شادی کی جبکہ وہ شادی شدہ تھیں، تاکہ وہ ان کی بہنوں کی دیکھ بھال کرسکے،اور ان کے معاملے کی نگرانی کرسکے اور ان کے احوال کی اصلاح کرسکے’’۔(4) .

غريب الحديث :

صلِّ: خطابی کہتے ہیں: صلاۃ جو تعظیم وتکریم کے معنی میں ہے صرف اللہ عزوجلّ کے لئے کہا جاتا ہے، اور جو دعا کے معنی میں ہے اللہ کے علاوہ کے لئے بولا جاتا ہے۔

چنانچہ رحمت کے لئے صلاۃ کا لفظ استعمال کیا جاتا ہےاور صلی علیہ اللہ کہتے جب اللہ رحم کرے۔اور اللھم صلّ علی فلاں کے معنی ہوتے ہیں: یعنی اس پر صلاۃ بھیجنے کی دعا کرنا اور یہ اللہ کی رحمت ہوتی ہے۔ جیسا کہ کہا جاتا ہے: حیّاک اللہ جب تو کسی کے لئے اللہ کی سلامتی کی دعا کرے۔

اللہ  نے فلاں شخص پر اپنی رحمت نازل فرمائی  اور اس پر اپنی نعمت کو تمام کیا اور زیادتی عطا کی پس اللہ کا اپنے رسول اور اپنے نیک بندوں پر صلاۃ کا مطلب : اللہ کی رحمت کا ان پر نزول ہونا اور  ان کی تعریف بیان کرنا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: (هُوَ الَّذِي يُصَلِّي عَلَيْكُمْ وَمَلَائِكَتُهُ لِيُخْرِجَكُم مِّنَ الظُّلُمَاتِ إِلَى النُّورِ وَكَانَ بِالْمُؤْمِنِينَ رَحِيماً) (5).

اور فرشتوں کا صلاۃ کا مطلب: ان کی طرف سے دعا واستغفار کرنا ہے۔(6).

 حدیث سے مستنبط فوائد:

1۔ مخلوق کے سردار صلی اللہ علیہ وسلم کے نیک اخلاق وتواضع اور رفق ومہربانی کا بیان، اور انکا جابر رضی اللہ عنہ کے گھر تشریف لانا اپنے صحابہ کرام کے احوال کا جائزہ لینے کی عملی دلیل ہے،اور ان پر خوشی داخل کرنا اور ان سے دلجوئی کرنا اور ان کے غموں میں شریک ہونا ہے۔

۲۔ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب کا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی صلاۃ(رحمت کی دعا) پانے کیلئے جلدی کرنا۔

۳۔مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کا عورت کی نداء پر لبیک کہنا اور اس کے اور اس کی شو ہر کیلئے اس صیغہ کے ذریعہ دعا کرنا جس کی وہ توقع رکھتی تھی، اور وہ صلاۃ کے صیغہ کے ساتھ دعا کرنا ہے اور اسکے ساتھ ان دونوں کے لئے برکت کی دُعا کرنا ہے۔

۴۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے امت کے جس افراد کے لئے چاہیں لفظ صلاۃ کے ذریعہ دعا کرنے کی مشروعیت کا بیان،اور یہ چیز کتاب (7) وسنت کی دلیل سے ظاہر ہے،اور صاحب حق محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ حق حاصل ہے کہ امّت میں سے جس کے لئے چاہیں دعا کرسکتے ہیں۔(8).

5۔عورت کے سوال میں صلاۃ (صلِّ علیّ) خیروبھلائی کی دعا اور برکت کی طلب کے معنی میں ہے۔اور اس پر اللہ کے صلاۃ کا مطلب رحمت ومہربانی کا نزول ہونا ہے۔

رہی بات رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے صلاۃ کا مطلب تو یہ ان کا شعار ہے جو برابر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے نام کے ساتھ اضافہ کیا جاتا ہے،جس کا مطلب تعظیم وتکریم اور دعا ہے، اور یہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ خاص ہے، جس میں کوئی دوسرا شریک نہیں ہے۔لہذا ابو بکر صلی اللہ علیہ وسلم نہیں کہا جائے گا گرچہ اس کا معنی صحیح کیوں نہ ہو(9) .

اور مستقل طور پر لفظ صلاۃ کا استعمال آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے علاوہ منع ہونے کی تقویت سلف صالحین کےاس کے استعمال سے بچنے سے ہوتا ہے ، اور یہ اہل اہواء کے کارنامے ہیں جنہوں نے اسے ان لوگوں کے لئے بطور شعار بنا لیا ہے جن کی اہل بیت میں سے تعظیم کرتے ہیں اور ان کے سلسلے میں غلو ومبالغہ سے کام لیتے ہیں۔

اور اس کے مانعین میں سے: امام مالک ، امام شافعی اور ابو البرکات جد ابن تیمیہ رحمہم اللہ ہیں۔(10).

۶۔لفظ صلاۃ کے ذریعے دعا مدعو لہ کے حال کے حساب سے مختلف ہوتا ہے، چنانچہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا اپنی امّت کے لئے صلاۃ کا معنی ان کی مغفرت ورحمت کی دعا کرنا ہے،اور امت کا نبی کے لئے صلاۃ کا مطلب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اللہ رب العزت کے نزدیک مقام ومرتبہ کی قربت کی زیادتی کی دعا ہوتی ہے۔(11).

۷۔جابر رضی اللہ عنہ کی بیوی کے حکمت کا اظہار جس نے اپنے شوہر کی رضا کی حاصل کرنے،اور نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم   کی اس عظیم دعوت سے اپنے شوہر کی چاہت پانے کی کوشش کی، بعد اسکےناراضگی کیوجہ سے اور اس کے حکم کی خلاف ورزی کرنے کی وجہ سے، اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس نکلنے کی وجہ سے،اور دونوں اسکے ساتھ تھے۔جیساکہ روایت مذکور میں ہے: ‘‘تمہیں ہرگز نہیں دیکھوں گا، اور تجھے نہ دیکھوں، اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو تکلیف نہ دو، اور تو اس سے بات نہ کر’’۔

ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

(1) أخرجه النسائي في السنن الكبرى – واللفظ له - (6/112 ح10256) و أبو داود  (1336 ح1533) ،و ابن حبّان(3/197 ح916). و الحاكم (4/123 ح7096) وقال: هذا حديث صحيح الإسناد ولم يخرجاه، ووافقـه الذهبي في التلخيص. وقال الهيثمي في مجمع الزوائد: رجاله رجال الصحيح خلا نبيح العنزي وهو: ثقة . مجمع الزوائد (4/140) .

(2) الطبقات الكبرى (8/339) .

(3) الإصابة (7/718)، أسد الغابة (6/156) .

(4) ينظر : فتح الباري (7/506) والصفحة السابقة من الفتح .

(5) سورة الأحزاب، الآية: 43 .

(6)      ينظر: معجم مقاييس اللغة (ص549)، لسان العرب (14/464)، مختار الصحاح (ص154)، والغريب لابن سلام (1/180)، مشارق الأنوار (2/56)، النهاية (3/50) .

(7) وهو قوله تعالى (خُذْ مِنْ أَمْوَالِهِمْ صَدَقَةً تُطَهِّرُهُمْ وَتُزَكِّيهِم بِهَا وَصَلِّ عَلَيْهِمْ إِنَّ صَلاَتَكَ سَكَنٌ لَّهُمْ وَاللّهُ سَمِيعٌ عَلِيمٌ): 103.

(8) شرح ابن بطال (10/115)، فتح الباري (8/685) .

(9) ينظر: شـرح السنـة (3/189)، وشرح الزرقاني (1/477)، وحاشية السندي (2/25)، وعون المعبود (4/275) .

(10) مجمع الفتاوى (22/ 472)، المنهاج (4/347)، فتح الباري (الصفحة السابقة) .

(11) عمدة القاري (9/94) .

 

 

 

جابر رضی اللہ عنہ فرماتے  ہیں کہ ہم رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس  آئے تو ایک عورت نے آپ سے کہا:اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم مجھ پر اور میرے شوہر پر رحمت کی دعا کیجئے تو آپ نے فرمایا: اللہ تجھ پر اور تمہارے شوہر پر رحمت بھیجے’’۔.(1)

سائلہ:

یہ سوال کرنے والی سُھیمہ  بنت مسعود بن اَوس تھیں۔(2) .

ان کی شادی ان کے خالہ کے بیٹے جابر بن عبد اللہ بن عمرو بن حرام  سے ہوئی تھی، اور اس سے عبدالرحمن اور ام حبیب پیدا ہوئے،اورسُھیمہ اسلام لائیں اور  رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے بیعت  کیں۔(3) .

اور وہ وافر عقل والی اور عظیم فضل والی تھیں اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے بیعت کرنے والیوں میں سے ان کا ذکر تھا، جابر رضی اللہ عنہ نے ان سے شادی کی جبکہ وہ شادی شدہ تھیں، تاکہ وہ ان کی بہنوں کی دیکھ بھال کرسکے،اور ان کے معاملے کی نگرانی کرسکے اور ان کے احوال کی اصلاح کرسکے’’۔(4) .

غريب الحديث :

صلِّ: خطابی کہتے ہیں: صلاۃ جو تعظیم وتکریم کے معنی میں ہے صرف اللہ عزوجلّ کے لئے کہا جاتا ہے، اور جو دعا کے معنی میں ہے اللہ کے علاوہ کے لئے بولا جاتا ہے۔

چنانچہ رحمت کے لئے صلاۃ کا لفظ استعمال کیا جاتا ہےاور صلی علیہ اللہ کہتے جب اللہ رحم کرے۔اور اللھم صلّ علی فلاں کے معنی ہوتے ہیں: یعنی اس پر صلاۃ بھیجنے کی دعا کرنا اور یہ اللہ کی رحمت ہوتی ہے۔ جیسا کہ کہا جاتا ہے: حیّاک اللہ جب تو کسی کے لئے اللہ کی سلامتی کی دعا کرے۔

اللہ  نے فلاں شخص پر اپنی رحمت نازل فرمائی  اور اس پر اپنی نعمت کو تمام کیا اور زیادتی عطا کی پس اللہ کا اپنے رسول اور اپنے نیک بندوں پر صلاۃ کا مطلب : اللہ کی رحمت کا ان پر نزول ہونا اور  ان کی تعریف بیان کرنا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: (هُوَ الَّذِي يُصَلِّي عَلَيْكُمْ وَمَلَائِكَتُهُ لِيُخْرِجَكُم مِّنَ الظُّلُمَاتِ إِلَى النُّورِ وَكَانَ بِالْمُؤْمِنِينَ رَحِيماً) (5).

اور فرشتوں کا صلاۃ کا مطلب: ان کی طرف سے دعا واستغفار کرنا ہے۔(6).

 حدیث سے مستنبط فوائد:

1۔ مخلوق کے سردار صلی اللہ علیہ وسلم کے نیک اخلاق وتواضع اور رفق ومہربانی کا بیان، اور انکا جابر رضی اللہ عنہ کے گھر تشریف لانا اپنے صحابہ کرام کے احوال کا جائزہ لینے کی عملی دلیل ہے،اور ان پر خوشی داخل کرنا اور ان سے دلجوئی کرنا اور ان کے غموں میں شریک ہونا ہے۔

۲۔ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب کا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی صلاۃ(رحمت کی دعا) پانے کیلئے جلدی کرنا۔

۳۔مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کا عورت کی نداء پر لبیک کہنا اور اس کے اور اس کی شو ہر کیلئے اس صیغہ کے ذریعہ دعا کرنا جس کی وہ توقع رکھتی تھی، اور وہ صلاۃ کے صیغہ کے ساتھ دعا کرنا ہے اور اسکے ساتھ ان دونوں کے لئے برکت کی دُعا کرنا ہے۔

۴۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے امت کے جس افراد کے لئے چاہیں لفظ صلاۃ کے ذریعہ دعا کرنے کی مشروعیت کا بیان،اور یہ چیز کتاب (7) وسنت کی دلیل سے ظاہر ہے،اور صاحب حق محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ حق حاصل ہے کہ امّت میں سے جس کے لئے چاہیں دعا کرسکتے ہیں۔(8).

5۔عورت کے سوال میں صلاۃ (صلِّ علیّ) خیروبھلائی کی دعا اور برکت کی طلب کے معنی میں ہے۔اور اس پر اللہ کے صلاۃ کا مطلب رحمت ومہربانی کا نزول ہونا ہے۔

رہی بات رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے صلاۃ کا مطلب تو یہ ان کا شعار ہے جو برابر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے نام کے ساتھ اضافہ کیا جاتا ہے،جس کا مطلب تعظیم وتکریم اور دعا ہے، اور یہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ خاص ہے، جس میں کوئی دوسرا شریک نہیں ہے۔لہذا ابو بکر صلی اللہ علیہ وسلم نہیں کہا جائے گا گرچہ اس کا معنی صحیح کیوں نہ ہو(9) .

اور مستقل طور پر لفظ صلاۃ کا استعمال آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے علاوہ منع ہونے کی تقویت سلف صالحین کےاس کے استعمال سے بچنے سے ہوتا ہے ، اور یہ اہل اہواء کے کارنامے ہیں جنہوں نے اسے ان لوگوں کے لئے بطور شعار بنا لیا ہے جن کی اہل بیت میں سے تعظیم کرتے ہیں اور ان کے سلسلے میں غلو ومبالغہ سے کام لیتے ہیں۔

اور اس کے مانعین میں سے: امام مالک ، امام شافعی اور ابو البرکات جد ابن تیمیہ رحمہم اللہ ہیں۔(10).

۶۔لفظ صلاۃ کے ذریعے دعا مدعو لہ کے حال کے حساب سے مختلف ہوتا ہے، چنانچہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا اپنی امّت کے لئے صلاۃ کا معنی ان کی مغفرت ورحمت کی دعا کرنا ہے،اور امت کا نبی کے لئے صلاۃ کا مطلب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اللہ رب العزت کے نزدیک مقام ومرتبہ کی قربت کی زیادتی کی دعا ہوتی ہے۔(11).

۷۔جابر رضی اللہ عنہ کی بیوی کے حکمت کا اظہار جس نے اپنے شوہر کی رضا کی حاصل کرنے،اور نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم   کی اس عظیم دعوت سے اپنے شوہر کی چاہت پانے کی کوشش کی، بعد اسکےناراضگی کیوجہ سے اور اس کے حکم کی خلاف ورزی کرنے کی وجہ سے، اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس نکلنے کی وجہ سے،اور دونوں اسکے ساتھ تھے۔جیساکہ روایت مذکور میں ہے: ‘‘تمہیں ہرگز نہیں دیکھوں گا، اور تجھے نہ دیکھوں، اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو تکلیف نہ دو، اور تو اس سے بات نہ کر’’۔

ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

(1) أخرجه النسائي في السنن الكبرى – واللفظ له - (6/112 ح10256) و أبو داود  (1336 ح1533) ،و ابن حبّان(3/197 ح916). و الحاكم (4/123 ح7096) وقال: هذا حديث صحيح الإسناد ولم يخرجاه، ووافقـه الذهبي في التلخيص. وقال الهيثمي في مجمع الزوائد: رجاله رجال الصحيح خلا نبيح العنزي وهو: ثقة . مجمع الزوائد (4/140) .

(2) الطبقات الكبرى (8/339) .

(3) الإصابة (7/718)، أسد الغابة (6/156) .

(4) ينظر : فتح الباري (7/506) والصفحة السابقة من الفتح .

(5) سورة الأحزاب، الآية: 43 .

(6)      ينظر: معجم مقاييس اللغة (ص549)، لسان العرب (14/464)، مختار الصحاح (ص154)، والغريب لابن سلام (1/180)، مشارق الأنوار (2/56)، النهاية (3/50) .

(7) وهو قوله تعالى (خُذْ مِنْ أَمْوَالِهِمْ صَدَقَةً تُطَهِّرُهُمْ وَتُزَكِّيهِم بِهَا وَصَلِّ عَلَيْهِمْ إِنَّ صَلاَتَكَ سَكَنٌ لَّهُمْ وَاللّهُ سَمِيعٌ عَلِيمٌ): 103.

(8) شرح ابن بطال (10/115)، فتح الباري (8/685) .

(9) ينظر: شـرح السنـة (3/189)، وشرح الزرقاني (1/477)، وحاشية السندي (2/25)، وعون المعبود (4/275) .

(10) مجمع الفتاوى (22/ 472)، المنهاج (4/347)، فتح الباري (الصفحة السابقة) .

(11) عمدة القاري (9/94) .

 

 

 

أضف تعليق

كود امني
تحديث