حلقہ(۴)

عورت اور علم 

عور تیں طلبِ علم میں مردوں کے ہم مثل ہیں۔

 

عورت نصف معاشرہ ہے، بلکہ یہ دوسرے نصف کو جننے والی ہے، پس وہ پوری امّت ہے۔

چنانچہ  بہادر اس کی گود میں ہی جنتے ہیں، اور علماء اسکی شفقت میں پلتے ہیں، اور ریفارمرس اس سے تجربہ اور خبرات حاصل کرتے ہیں۔

اور چونکہ علم اسلامی معاشرہ کے اقدار میں سے بلند مقام  والا سمجھا جاتا ہے، اسی لئے  اسلام نے عورت  کو تعلیم حاصل کرنے سے نہیں روکا ہے، یا اس کے تعلیم کو ثانوی مقام سمجھا ہے، بلکہ اس کی تعلیم حاصل کرنے کو واجب امر سمجھا ہے۔

لیکن اسلام نے عورت کے سلسلے میں کس علم کا قصد کیا ہے؟

یہ ایسا علم ہے جو عورت کی طبیعت اور زندگی میں اس کی وظیفے کے ساتھ میل کھاتا ہے، اور اس کی فطرت کے ساتھ متفق ہے،اور اس اختصاص کے ساتھ جس سے اللہ نے اسے متّصف کر رکھا ہے۔ چنانچہ عورت اپنے دینی عقائد ، اپنی عبادات، اور آداب کو سیکھتی ہے، اور جو اس سے اس کے شوہر ،اس کے گھر اور اسکی اولاد کی رعایت ودیکھ بھال کے سلسلے میں اس  سے مطالبہ کیا جاتا ہے، اور جو اس کے صورت حال پر اور اس کے ساتھ زندگی گزارنے کی کیفیت میں معاون ثابت ہوتا ہے۔

عورت نے فاضل صدیوں میں قرآنی تعلیم  اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیم حاصل کی اور اپنے عقل کو روشن کیا، اور اپنے قلب کو پاک کیا، اور یہ کیسے نہ ہو حالانکہ وہ اللہ کے درج ذیل قول کی تلاوت کرتی ہے:

{وَلَهُنَّ مِثْلُ الَّذِي عَلَيْهِنَّ بِالْمَعْرُوفِ} [البقرة: 228]

اور عورتوں  کے بھی ویسے ہی حق ہیں  جیسے ان پر مردوں کے ہیں اچھائی کے ساتھ۔

اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: عورتیں اصل خلقت اور طبیعت میں مردوں کے ہم مثل ہیںـ

بلکہ ہم سیرت کی کتابوں میں وحی حاصل کرنے کے ابتدائی لحظات کو پاتے ہیں، اور کس طرح خاندان نبوت اس کے لئے ہل گیا تھا، چنانچہ سب سے پہلے ایمان لانے والی، اور آسمانی وحی کو  سب سے پہلےسننے والی، اسلامی دعوت کی راہ میں اپنی جان ومال کو قربان کرنے والی، آپ کی تصدیق کرنے والی بیوی   حضرت خدیجہ بنت خویلد رضی اللہ عنہا تھیں۔پھر امہات المومنین کے کمروں میں وحی کا سلسلہ برابر جاری رہا،اور سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے اہتمام کے سلسلے میں عالی شان رکھنے والی تھیں، چنانچہ مفتیہ ،معلمہ اور خیر کے ابواب کی طرف توجیہ کرنے والی ہوگئیں ۔

ماخوز از: ۔"دور المرأة في خدمة الحديث في القرون الثلاثة الأولى آمال الحسين"

اور بعض آثار میں ہے کہ  حضرت عائشہ   رضی اللہ عنہا  کے پاس نصف علم تھا، لہذا  بعض علمی وفقہی مسائل کے مشکل ہونے پر فقہائے صحابہ ان کی طرف رجوع فرماتے تھے، خاص طور سے ان مسائل میں جن کا تعلق نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کے گوشوں سے تھا، اور عائشہ رضی اللہ  تعالی عنہا بخود سوال کرنے والیوں کو سوال میں شرم نہ کرنے پر ابھارتی تھیں، اور فرماتی تھیں: دریافت کریں کیونکہ میں تمہاری ماں ہوں۔

ان سے تقریبا ۲۹۹ صحابہ وتابعین نے علم حاصل کیا، ان میں سے ۶۷ عورتیں تھیں۔

بے شک امہات المومنین نے تعلیم   وتعلّم میں نہایت ہی شاندار مثالیں بیان کی ہیں،یہاں تک کہ وہ فقیہات اور محدّثات میں سے ہوگئیں، بلکہ بسا اوقات مردوں پر جب کوئی مسئلہ مشکل ہوجاتا تو اس کا حل عورتوں کے پاس ہی ہوتا تھا، اور اس میں کوئی تعجب کی بات نہیں، اللہ ہی کے لئے ہر طرح کی خوبی وکمال ہے۔

اوراسلامی تاریخ میں تمام فنون اور  علوم میں نابغہ روز گار عورتیں پائی گئیں ہیں، چنانچہ ان میں فقیہہ،مفسّرہ، ادیبہ،شاعرہ اور زبان اور دین کے تمام علوم کی عالمہ پائی گئیں ہیں۔

اور طبقات کی کتابیں مسلم عورتوں کے تراجم سے خالی نہیں ہیں خاص طور سے روایت میں،چنانچہ ابن سعد کی  الطبقات الکبریٰ  میں بہت ساری روایات کرنے والی صحابیات اور تابعیات کا تذکرہ ہے، اور علامہ ابن اثیر  رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی کتاب اسد الغابۃ میں عورتوں کے سلسلے میں ایک جزء  ہی خاص کر ر کھا ہے،  اور حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ نے تقریب التہذیب میں ۸۲۴ ایسی عورتوں کا تذکرہ کیا ہے جو تیسری صدی ہجری تک روایت حدیث میں مشہور ہوئیں۔

اور علّامہ سخاوی رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی ضخیم انسائکلوپیڈیا الضوء اللامع  لأھل القرن التاسعمیں اس زمانے میں مشہور ہونے والی ۱۰۷۰ عورتوں کا تذکرہ کیا ہے، ان میں سے اکثر محدثات فقیہات ہیں۔

چنانچہ مسلمان عورت کا اسلامی علمی معاشرہ میں نمایاں حاضری تھی،  وہ تعلیم  وتعلم کا  کام کرتی، طلب علم کے لئے سفر کرتی، طلباء حصول علم کی خاطر اس کی طرف قصد کرتے، وہ کتا بیں تالیف کرتی، فتوی دیتی، اور اس سے عمومی معاملات میں مشورہ بھی لیا جاتا ۔

اور مسلم عالمات میں سے بعض ایسی ظاہر ہوئیں جن کی بڑے اسلامی مساجد میں علمی حلقے منعقد کئے جاتے تھے۔

اور بعض زمانے میں دلہن کو وداع کرتے وقت اس کے ساتھ بعض نفع بخش شرعی کتابیں بھی دی جاتی تھیں۔

امام  ذہبی رحمۃ اللہ علیہ نے لکھا  ہے کہ بکر  کے سامان میں اس کے  زفاف کے وقت  مختصرالمزنی کتاب کا ایک نسخہ تھا۔ السير 14/233

اور صرف قرطبہ میں (فوٹوکاپی)نسخ کی ایک دکان تھی،جسے ۱۷۰ باندیاں نادر کتابوں کے طالبین کے لئے مولفات کے منتقل کرنے میں استعمال کی جاتی تھیں۔

( أثر العرب في الحضارة الأوروبية عباس العقادص115)

 

 

 

 

 

 

 

 

أضف تعليق

كود امني
تحديث