حاجی کے اخلاق

 

باوجود یہ کہ حج    ماہ وسال میں نہیں بلکہ  پوری زندگی میں صرف  ایک بار (فرض) ہے، مگر اس کا اثر انسان کے بقیہ زندگی میں باقی رہتا ہے اگرآدمی اسے اچھے طریقے اور اخلاص نیت کے ساتھ انجام دے۔

 چونکہ اللہ تعالیٰ نے حج کوبندوں پر پوری زندگی میں صرف ایک  بار واجب کیا ہے،ان لوگوں کے لیے جواس تک  پہونچنے کی (مالی اور جسمانی) استطاعت رکھتے ہیں،  اوراس پرعظیم ثواب رکھا ہے،اوراس کو عظیم (مرتبہ والا)قراردیا ہے،اس لیے اس پر ثواب کا مرتّب ہونا اس شخص کے لیے ہے    جو اس کے واجبات وارکان کی (مکمل) ادائیگی کرے،اور اپنے حج کو گناہوں سے محفوظ رکھے۔

ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے ، انہوں نے کہا : میں نے نبی کریم ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا کہ : ’’جس شخص نے اللہ کے لیے اس شان کے ساتھ حج کیا کہ نہ کوئی فحش بات ہوئی اور نہ کوئی گناہ تو وہ اس دن کی طرح واپس ہو گا جیسے اس کی ماں نے اسے جنا تھا۔‘‘ (۱)

اور اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے :

(الْحَجُّ أَشْهُرٌ مَعْلُومَاتٌ فَمَنْ فَرَضَ فِيهِنَّ الْحَجَّ فَلا رَفَثَ وَلا فُسُوقَ وَلا جِدَالَ فِي الْحَجِّ وَمَا تَفْعَلُوا مِنْ خَيْرٍ يَعْلَمْهُ اللَّهُ وَتَزَوَّدُوا فَإِنَّ خَيْرَ الزَّادِ التَّقْوَى وَاتَّقُونِي يَا أُوْلِي الأَلْبَابِ)

’’حج کے مہینے مقرر ہیں اس لئے جو شخص ان میں حج لازم کرلے وه اپنی بیوی سے میل ملاپ کرنے، گناه کرنے اور لڑائی جھگڑے کرنے سے بچتا رہے، تم جو نیکی کرو گے اس سے اللہ تعالیٰ باخبر ہے اور اپنے ساتھ سفر خرچ لے لیا کرو، سب سے بہتر توشہ اللہ تعالیٰ کا ڈر ہے اور اے عقلمندو! مجھ سے ڈرتے رہا کرو۔‘‘ (۲)

مذکورہ آیت اور حدیث میں " رفث" سے منع کیا  گیا ہے،  اور اس کے مقصودکے بارے میں اختلاف ہے، چنانچہ کہا گیا: "رفث" سے مراد: جماع ہے، اور اس کے ابتدائی افعال و اقوال ہیں یعنی مقدّمات جماع۔ اور یہ  بھی کہا گیا : "یہ عام  ہےاور ہر فحش قول وفعل  کو شامل ہے۔"، اور فسوق  سے منع کیا گیا ہے اور یہ معاصی ہیں۔(۳)، اور  جدال ولڑائی سے بھی منع کیا گیا ہے۔

لہٰذا  حاجی کے لئے ضروری ہے کہ اپنے نگاہ کی حفا ظت کرے، اللہ تعالیٰ نے جن چیزوں کی طرف دیکھنے کو حرام قراردیا ہے  ان کی طرف اپنی نگاہ کو آزاد نہ چھوڑے، اگرمرد ہے تو اپنی نظر کو  عورتوں سے جھکا کر رکھے، اور اسی طرح عورت کے لئے ضروری ہے کہ وہ اپنی نظر کو مردوں سے جھکاکر رکھے،  جیسا کہ عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما  سے روایت  ہے ، انہوں نے کہاکہ:’’ فضل بن عباس رضی اللہ عنہما رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سواری پر پیچھے بیٹھے ہوئے تھے۔ اتنے میں قبیلہ خثعم کی ایک عورت آئی۔ فضل رضی اللہ عنہ اس کو دیکھنے لگے اور وہ فضل رضی اللہ عنہ کو دیکھنے لگی۔ اس لیے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فضل کا چہرہ دوسری طرف پھیرنے لگے، اس عورت نے کہا کہ اللہ کا فریضہ (حج)نے میرے بوڑھے والد کو اس حالت میں پا لیا ہے کہ وہ سواری پر بیٹھ بھی نہیں سکتے تو کیا میں ان کی طرف سے حج کر سکتی ہوں، آپ  ﷺنے فرمایا کہ ہاں۔ یہ حجۃ الوداع کا واقعہ ہے۔‘‘(۴)

اور علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کی  حدیث میں ہے  کہ عباس رضی الله عنہ نے پوچھا:اے اللہ کے رسول! آپ نے اپنے چچا زاد بھائی کی گردن کیوں پلٹ دی؟ تو آپ  ﷺنے فرمایا:  میں نے نوجوان لڑکا اور لڑکی دیکھا تو میں ان دونوں کے سلسلہ میں شیطان سے مامون نہیں رہا ۔‘‘(۵)

اور کچھ حدیثوں کی سندوں میں اس عورت کے بے پردگی کے سبب کا بیان وارد  ہوا ہے ،  اور اس کی بے پردگی صرف  نبی کریم ﷺ کے سامنے رونما ہوئی تھی ، اور فضل رضی اللہ عنہ اس سے واقف ہوگئے تھے، کیونکہ  وہ نبی کریم ﷺ کے ردیف تھے۔ چنانچہ فضل بن عباس سے روایت ہے، انہوں نے کہا: میں نبی کریم ﷺ کا ردیف تھا، اور ایک اعرابی جس کے ساتھ اس کی خوبصورت بیٹی بھی تھی، تو اس اعرابی نے اس عورت کو نبی کریم ﷺ کےسامنے پیش کیا   اس امید کے ساتھ کہ آپ اس سے شادی کرلیں،  تو میں اس کی طرف متوجہ ہوا، تو نبی کریم ﷺ نے میرے سر کو پکڑ کر(دوسری سمت) موڑدیا،  اورآپﷺ تلبیہ کے کلمات پکاررہے تھے یہاں تک کہ جمرۂ عقبہ  کا رمی کیا۔"(۶)

ابن عباس سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فضل سے جب انہوں نے اپنے چہرہ کو عرفہ کے دن ڈھک لیا تھا فرمایا: ’’یہ وہ دن ہے جس نے بھی اس دن  اپنے کان، آنکھ اور زبان پر قابو پالیا، تو اس کو بخش دیا جائے گا۔‘‘ (۷)، اوریہاں تک کہ نبی کریم ﷺ عورتوں کے تعلق سے مردوں کی طمع و لالچ اورمردوں کے تعلق سے عورتوں کی طمع وحرص کو ختم کرتے ہوئے تاکہ  شیطان کو کوئی راستہ نہ مل سکےکہ وہ ان کی نظروں کو آزاد کرنے پر آمادہ کرے رسولﷺ نے فرمایا : ’’محرم نہ تو اپنا نکاح کرے، اور نہ دوسرے کا نکاح کرائے، اور نہ ہی شادی کا پیغام دے۔‘‘ (۸)

 اسی طرح حاجی کو اپنے مسلمان بھائیوں کے ساتھ حسن  اخلاق کا مظاہرہ کرنے کا حکم دیا گیا ہے، اور لڑائی ، جھگڑا اور اختلاف کو ترک کرنے، بدکلامی، ایذارسانی چاہے اس کی کوئی بھی شکل ہو اس سے منع کیا گیا ہے۔

امید ہے کہ لباس،جگہ،عمل اور مقصد میں وحدت ویکسانیت کے احساس سے مسلمانوں کے مابین آپس میں الفت ومحبت کو قائم کرنے میں مدد ملے،  اور ایک دوسرے کے تئیں تحمل اور برداشت کرنے کا مادہ پیدا ہو۔

 اے میر ے حاجی بھائیو! نبی رحمت ﷺ کی یہ باتیں ہیں (جن پرعمل کرنے کی کوشش کرو)۔

نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جو مسلمان لوگوں سے میل جول رکھتا ہے اور ان سے پہنچنے والی تکلیفوں کو برداشت کرتا ہے وہ اس مسلمان سے بہتر ہے جو نہ لوگوں سے میل جول رکھتا ہے اور نہ ہی ان کی تکلیفوں کو برداشت کرتا ہے۔‘‘ (۹)

________________________________________

۱۔ اس حدیث کی تخریج  امام بخاری نے  "کتاب الحج" باب " فضل الحج المبرور "، حدیث نمبر ۱۵۲۱۔۳/۳۸۲ مع الفتح کیا ہے، اور امام مسلم نے کتاب"الحج"باب" فضل الحج والعمرة"۹/۱۱۹ مع شرح نووی کیا ہے۔

۲۔ سورہ البقرہ، آیت نمبر ۱۹۷۔

۳۔فتح الباری ۳/۳۸۲، اور نووی کی شرح ۹/۱۱۹۔

۴۔ اس حدیث کی تخریج امام بخاری نے  کتاب " جزاء الصید" میں باب" حج المرأة عن الرجل "، حدیث نمبر ۱۸۴۔۴/۶ مع الفتح کیا ہے، اور امام مسلم نے کتاب" الحج"باب" الحج عن العاجز لزمانة وهرم ونحوهما " ۹/۹۸،مع شرح نووی کیا ہے۔

۵۔ امام احمد نے  اس کی تخریج ۱/۷،۷۶ میں کیا ہے ،  اور امام  ترمذی نے  کتاب "الحج" میں باب"53 ما جاء أن عرفة كلها موقف " حدیث نمبر ۸۸۶۔۲/۱۸۵ میں تخریج کیا ہے، اور انہوں نے کہا ہے کہ علی کی حدیث  حسن صحیح   حدیث ہے۔

۶۔ ابن حجر نے فتح الباری ۴/۶۷ میں کہا ہے کہ ( ابو یعلی نے اس کو قوی سند کے ساتھ روایت کیا ہے۔)

۷۔ابن حجر نے فتح الباری  ۴/۷۰، میں اس کی نسبت  احمد اور ابن خزیمہ کی طرف کیا ہے۔

۸۔اس حدیث کی تخریج امام مسلم نے کتاب " الحج"، باب" تحريم نكاح المحرم وكراهة خطبته"۹/۱۹۳ میں کیا ہے۔

۹ ۔اس حدیث کی تخریج ترمذی نے حدیث نمبر ۲۵۰۷۔۴/۶۶۲ میں کیا ہے، اور ابن ماجہ نے باب" الصبر على البلاء"، حدیث نمبر ۴۰۳۲۔۲/۱۳۳۸ میں تخریج کیا ہے، اور علامہ البانی نے اس حدیث کو صحیح قرار دیا ہے ، احمد، حدیث نمبر ۵۰۲۲۔۲/۴۳.

 

 

أضف تعليق

كود امني
تحديث