حلقہ (۱)

مقدِّمہ

سُنّت کا دِ فاع

 

الحمد لله رب العالمين، والصلاة والسلام على إمام المربين وقائد الغر المحجلين نبينا محمد وعلى آله وصحبه أجمعين.

وبعد:

تمام قسم کی تعریف  اللہ تعالی کے لئے ہے جو دونوں  جہان کا رب ہے ، درود سلام نازل ہو   مربیوں کے سردار ، چمکنے والی  پیشانیوں کے قائد ، ہمارے نبی  محمد صلی اللہ علیہ و سلم پر اور

 آ پ  کے تمام  آ ل و اصحاب پر ۔

حمد وصلاۃ کے بعد:

بلا شبہ اللہ تعالی نے اپنے نبی – صلی اللہ علیہ وسلم – کی  سنت کو بہت عظیم  اور بلند  مقام و مرتبہ  عطا  کیا ہے ، کیونکہ  دعوت وتبلیغ کی مشن کے ساتھ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف اس  کی بیان و توضیح  کی ذمہ داری  کو حوالے کیا گیا ہے، چنانچہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے : ((وأنزلنا إليك الذكر لتبين للناس ما نزل إليهم...)) [النحل:44].

"یہ ذکر (کتاب) ہم نے آپ کی طرف اتارا ہے کہ لوگوں کی جانب جو نازل فرمایا گیا ہے آپ اسے کھول کھول کر بیان کر دیں ، شاید کہ وه غور وفکر کریں" (نحل :۴۴)۔

 بیان: وہ اسم ہے جوایسے معانی کا جامع ہے جس کے اصول مجتمع ہیں اور فروع متعدّد ہیں۔ (اور اس کی متعدّدصورتیں ہیں):

پہلا :   نفس وحی کو  آپ کے  زبان  پر ظاہر کر کے  وضاحت کرنا جو قبل ازیں کہ مخفی تھا  ۔

دوسرا:  اس کے معنی کو بیان کرنا ، اور ضرورت والے شخص کے لئے اس کی تفسیر  ووضاحت کرنا  ، جس طرح سے اللہ تعالی کے قول : ((ولم يلبسوا إيمانهم بظلم)) [الأنعام: 82]

"۔۔۔۔ اور اپنے ایمان کو شرک کے ساتھ مخلوط نہیں کرتے"۔  

 آیت میں مذکور  " ظلم "  کی وضاحت " شرک "  سے کیا گیا ہے ، (۱) ۔

تیسرا:  اس (سنت) کو عملی طور پر  بیان کر نا   جس طرح  سائل کے لئے نماز کے اوقات کو عملی طور پر  بیان کیا    گیا تھا ۔ (۲)

چوتھا:  آ پ سے دریافت کئے گئے احکام کی وضاحت کرنا جس کا ذکر قرآن کریم میں نہیں ہے ، چنانچہ اس کی بیان و  وضاحت کے لئے قرآن   نازل ہوا،جس طرح سے بیوی کے تہمت کے متعلق سوال کیا گیا  تو قر آن کریم نے لعان  اور  اسکے ہم مثل حکم اتارا ۔(۳)

پانچواں:وحی کے متعلق  سوال   کی وضاحت کرنا ، گر چہ وہ قرآن نہ ہو ،  جیسا کہ ایک آدمی کے سلسلے میں سوال کیا گیا  جس نے اپنے قمیص  میں خلوق(خوشبو)  لگا کر احرام باندھا ، چنانچہ وحی نازل ہوئی ، اور اس کو حکم دیا گیا کہ جبہ نکال دے  اور خلوق کا اثر زائل کرے ۔  (۴)۔

چٹھا:آ پ نے سنت کے کچھ احکام  و مسائل کو بغیر سوال کے  ابتدا ء بیان کر دیا ، جس طر ح سے آپ نے ان کے لئے گدہوں کے گوشت(۵)اور نکاح متعہ (۶) کو حرام قرار دیا ۔ 

ساتواں: آ پ  صلی اللہ علیہ وسلم کا امّت کے لئے کسی چیز کے جواز کو اپنے فعل سے کرکے بیان کرنا جو آپ کے لئے ہو ، اور انہیں اس کی اقتداء اور پیروی سے نہ روکنا ۔

آٹھواں: آ پ  صلی اللہ علیہ وسلم کا کسی  چیز  کے جواز کو اس فعل پر اقرار کے ذریعہ بیان کرنا،یا اس کے کرنے کی تعلیم دینا۔

نوواں: ا ٓپ  صلی اللہ علیہ وسلم  کا کسی چیز کے جواز کو  بطور عفواس کی تحریم سے خاموشی اختیار کرکے بیان کرنا ، گرچہ  بول کر اس کی اجازت نہ دی ہو ۔

دسواں: قرآ ن کریم  کسی چیز  کے وجوب ، اسکی حرمت  اور اسکی اباحت کو بیان کرتا ہے،جبکہ اس حکم کے کچھ شروط ، موانع ، قیود ، مخصوص اوقات  ، اور کچھ احوال و ظروف ہوتے ہیں، پس ان  (تمام ) کے بیان کی ذمہ داری اللہ تعالیٰ اپنے  نبی – صلی اللہ علیہ وسلم – کے حوالے کردیتا ہے ، جیسا کہ  اللہ تعالی کا فرمان ہے :

 ((وَأُحِلَّ لَكُم مَّا وَرَ‌اءَ ذَٰلِكُمْ أَن تَبْتَغُوا بِأَمْوَالِكُم مُّحْصِنِينَ غَيْرَ‌ مُسَافِحِينَ ۚ)) [النساء:24]

"اور ان عورتوں کے سوا اور عورتیں تمہارے لئے حلال کی گئیں کہ اپنے مال کے مہر سے تم ان سے نکاح کرنا چاہو برے کام سے بچنے کے لئے نہ کہ شہوت رانی کرنے کے لئے" ۔

لہذا  حلال ہونا موقوف ہے  نکاح کے شروط ، اس کے موانع  کے  انکار ، اس کے وقت کے  پائے جانے اور محل(شخص) کی اہلیّت   پر،  چنانچہ سنت نے ان تمام چیزوں کی وضاحت  فرمادی ہے۔

 لہذا وہ تمام چیزیں جن کو اللہ کے رسول – صلی اللہ علیہ وسلم – نے امت کے لئے بیان کیا ہے  تو اس کی بیان اور وضاحت اللہ کی طرف سے ہوتی ہے ، کہ یہ اللہ کا دین اور اس کی شریعت ہے ،  لہذا   اس کلام کے مابین  جس کی تلاوت کی جاتی (قرآن)ہے  اور وہ  وحی جو  آپ کے کلام کے مثل (حدیث) ہوتی ہے ، اسکی اطاعت اور پیروی  کے وجوب میں کوئی فرق نہیں ہے ،  بلکہ ایک کی مخالفت سے دوسرے کی مخالفت لازم ہے (۷)۔

جب سنت (حدیث ) کا یہ مقام و مرتبہ اور اہمیت ہے تو  اس کا انکار ، اور اس پر ظلم و زیا دتی ، اس کے ساتھ  کھلواڑ کرنا ، اس کی حجیت  کے بارے میں شک و شبہ ڈالنا ،  اور اس کے بارے میں جھوٹی باتیں گھڑنا ، وغیرہ ۔۔۔  یہ وہ ناکام کو ششیں ہیں جس کو قدیم زمانہ گمراہ  فرقے  انجام دے چکے ہیں ،  اور( اسی طرح )  موجودہ دور میں بھی کچھ  گمراہ اور بھٹکے  ہوئے لوگ  یہ نا کام کوششیں انجام دے رہے ہیں ،  یہ تمام چیز یں بہت ہی سنگیں اور خطرناک ( جرائم ) ہیں ، جس کا  نتیجہ یہ ہے کہ اس  سے  اسلام کے شاندار عمارت  کو منہدم کرنے  کے بد ترین  دروازوں کو  دستک دینے کی باز گشت  اور ابتداء ہے  ۔

جس کے اثرات درج ذیل طریقے پہ ہیں :

۱۔ بلا شبہ (اسلام ) کے اصولی عملی شرعی احکام " عقائد " ہیں  جس کی وضاحت اور اس کی تفصیلوں  کا  انحصار قرآن کریم کے بعد  سنت  نبوی  پر ہے ، چناچہ سنت نبوی کے انکار سے عقیدہ کے  ابہام و پیچیدگی   اور قطع و دم برودگی کا خطرہ لاحق ہوتا ہے ،  چناچہ الوہیت ، نبوت اور سمعیات  اور اس کے علاوہ دیگر عقائد کے مسائل پر حرف اور   آ نچ   آتا ہے ،  تو کیا مبہم اور دم بریدہ عقائد پر کسی دین کا قیام  ہو سکتا ہے  ؟

۲۔ اسلام کے عملی شرعی احکام کے اصول کا خاتمہ  یا " فقہ اسلامی کے اصول کا خاتمہ " ؛  کیونکہ یہ علم دلیلوں  پر توجہ دیکر  ان پر احکام کی بنیاد ڈالتا ہے ،  اور تمام اصولیوں کا اس بات پر اجماع ہے کہ سنت نبوی  ، اسلامی شریعت سازی کے لئے   دوسرا (اہم) مصدر ہے ،

لہذا سنت نبوی کے انکار  کیوجہ سے اسلامی فقہ خوب تیز  ہواؤں کے حوا لے ہو جائے گی ،   اس کے دلیلوں پر دھیان نہ دینے کیوجہ سے ،  اور اس کا بنیادوں اور اصولوں کی ضرورت کیوجہ  سے ،

۳۔ مذہبی اور مقارن  فروعی فقہ کا  خاتمہ :

کیونکہ اکثر وقائع اور فقہی مسائل  کی بنیاد سنت نبوی پر ہے ، یا  تو  بیان اور وضاحت کے لئے ہوگا جیسے: نماز کا وقت ، اس کی تعداد ، فرض نمازوں کی شکل و صورت اور ہیٔت  وغیرہ ۔

یا مستقل فقہ کے مسائل  جیسے : روزہ کا کفارہ ، شارب خمر کی سزا ، اور ارتداد کی سزا ،  اور  آداب و سلوک ، اعمال کی فضیلت  وغیرہ ۔

۴۔ قرآن کریم کے علوم کو مسخ کرنا  یا بٹہ لگانا ،  کیونکہ اس کے اکثر مسائل کا انحصار سنت نبوی پر ہے ، اور اسی طرح سے تفسیر کے علوم  کے خطرہ اور چیلنج لاحق ہو نا کیونکہ اس  کی اکثر توجہ اور عنایت  ان چیزوں کو نپٹانے لگی رہتی  ہے  جو سنت نبوی کے ساتھ  پیش آتے ہیں ، (۸)۔  اور اس طرح سے سنت  کے انکار کی صورت  میں بذات خود قرآن  کریم میں شک و شبہ ڈالنے کا راستہ ہموار ہو جاتا ہے ،  اور وہ ا ٓیتیں معطل ہو جاتی ہیں  جو ا ٓپ – صلی اللہ علیہ وسلم – کی اتباع ، اور ا ٓپ کو قدوہ اور نمونہ بنانے ، آ پ کو حکم بنانے ، اور آپ فیصلہ کو راضی برضا قبول کرنے ، اور اس کے علاوہ دیگر اور چیزوں  آپ کی اطاعت  پراُ  بھارتی  اور آمادہ کرتی  ہے ،  یہاں تک کہ امت بغیر تشریع کے واضح نقوش ، اور قوی دلیلوں پر ہوتی ہے ، جب شریعت کے اصول اور اس کے  فروع  بہتان تراشی اور الزام تراشی کے شکار ہوں ۔

بلا شبہ سنت نبوی کی طعن و تشنیع سے  اسلام کے عقائد ، اس کے عبادتیں ، اس کے اخلاق و عادات کا انہدام  اور اسکی وحدت پارہ پارہ ہو جاتی ہے ، اور جس کی وجہ سے مسلمان ترقی اور بلندی کے رفتار سے پیچھے اور پسماندہ ہو جاتا ہے ۔

استاد محمد اسد کہتے ہیں کہ :" بلا شبہ سنت نبوی چودہ  صدی سے زائد عرصے سے اسلامی عروج وترقی  کو سمجھنےکی کنجی رہی ہے ، تو   ہماری موجودہ  زوال وکمزوری کو سمجھنے کےلیے کنجی  کیوں نہیں بن سکتی؟

بلاشبہ اللہ کے رسول ﷺ کی سنت(حدیثوں)پر عمل کرنا، اسلام کے وجود کی حفاظت اور اس کی ترقی کا کام ہے ، اور  سنت(حدیثوں ) کو ترک کرنا ،اسلام کی کمزوری وانحلال ہے"۔  

سنت نبوی  وہ  فولادی  ڈھانچہ تھا جس پر اسلام کی شاندار  محل قائم تھی اور جب   ہم نے اس  بنیاد کے ڈھانچہ کو  زائل کر دیا  ، تو   آپ کو  حیرت ہو گا کہ وہ  (مضبوط) بنیاد کس طرح منہدم ہو گیا جیسے وہ  کاغذ  کی عمارت  ہو ؟ (۹)۔

یہی وہ (ناپاک  سازشیں ) ہیں جس کا  اعداء اسلام  منصوبہ بنارہے ہیں ، چاہے وہ اپنی عداوت  و دشمنی کو  اسلام کے تیئں نمایا ں طور پر ظاہر کررہے ہوں یا  جھوٹ اور بہتان تراشی کے چولے میں ملبوس کئے ہوئے ہوں ،  لیکن ان کی ساری کوششیں  رایئگاں اور بے کار ہو جایئں گی ،  کیونکہ وہ چاہے جتنی  بھی کو شش کر لیں  ،  لیکن وہ اپنے ہدف مقصود میں کامیاب نہیں ہو سکتے ہیں ،  کیونکہ وہ  مسلسل دشوار گذار  اور پیچیدگی سے بھر پور  راستوں ، گھٹا ٹوپ گمراہیوں میں  بے راہ اور بغیر بصیرت کے ٹامک ٹویئاں  لگا رہے ہیں ،   یہاں تک  کہ وہ اپنے غیظ و غضب اور حسد و کینا کپٹ  میں ہی فنا اور تباہ ہو رہے ہیں،  کیو نکہ اللہ تعالی نے اپنے دین کی حفاظت  کی ذمہ داری  ان تمام  لوگوں سے کر رکھی ہے  جو اس کے ساتھ برُا ارادہ رکھتے ہیں اور جو اس کے ماننے والوں  کو شر پہنچانے کی (پلا ننگ ) کرتے رہتے ہیں ،  جیسا کہ اللہ تعالی کا یہ فرمان اس کی وضاحت کرتا ہے :

((يريدون أن يطفئوا نور الله بأفواههم ويأبى الله إلا أن يتم نوره ولو كره الكافرون * هو الذي أرسل رسوله بالهدى ودين الحق ليظهره على الدين كله ولو كره المشركون)) [التوبة:32-33]

" وه چاہتے ہیں کہ اللہ کے نور کو اپنے منھ سے بجھا دیں اور اللہ تعالیٰ انکاری ہے مگر اسی بات کا کہ اپنا نور پورا کرے گو کافر نا خوش رہیں (32اسی نے اپنے رسول کو ہدایت اور سچے دین کے ساتھ بھیجا ہے کہ اسے اور تمام مذہبوں پر غالب کر دے اگر چہ مشرک برا مانیں(33" ۔

قدیم و جدید  دور میں  باغیوں  کی چھوٹی سی جماعت   اور ان کی  سنت مطہرہ  کو  بدنام اور رسوا کرنے کی (نا پاک) کو ششوں  کا معاملہ اس آدمى كے معاملہ کی طرح ہے جس کے بارے میں اعشی کا یہ قول ہے :

كناطح صخرة يومًا ليوهنها            فلم يضرها، وأوهى قرنَه الوَعِلُ

ايك دن چٹان کو  سینگ  مارنے والے پہاڑی بکرے کے مانندکہ  اسے کمزورکر دے، لیکن اسے کوئی نقصان نہیں پہنچا سکا  ، بلکہ اس نے اپنی سینگ کمزور کرلی۔

وہ لوگ اپنی بغاوت ، افترا پردازی ،  جعل سازی ،  من گھڑت اور دروغ گوئی کیوجہ  اپنے نفس اور  اپنے دین کے ساتھ ہی  ظلم کر رہے ہیں  ، اللہ کا فرمان ہے :

((وسيعلم الذين ظلموا أي منقلب ينقلبون)) [الشعراء:227].

"اورجنہوں نے ظلم  کیا ہے وه بھی عنقريب  جان لیں گے کہ کس کروٹ الٹتے ہیں۔"  اور اس زاویہ (گوشہ) میں ہم عنقریب  ان کی دروغ گوئی ، اور  ان کی من گھٹرت باتوں سے واقف ہو جائيں گے ، اور ہم عنقریب ان کے شبہات اور افتراء پر دازی  کا مختصر معروضی جائزہ  بھی پیش کریں گے ، ساتھ ہی ساتھ ان کی تردید اور  ان کے مذہب کو باطل ٹہراتے ہوئے ، تاکہ حق واضح اور آشکارا ہو جائے اور باطل کی بھانڈ اور پول کھل کر ذلت و رسوائی ہو ،  اللہ تعالی ہماری مدد فرمائے ، اور ہم اس سے ہدایت اور توفیق کا سوال کرتے ہیں ۔

(( وَمَا تَوْفِيقِي إِلاَّ بِاللّهِ عَلَيْهِ تَوَكَّلْتُ وَإِلَيْهِ أُنِيبُ))

"اور میری توفیق صرف اللہ کی ہی مدد سے ہے، اسی پر میرا بھروسہ ہے اور اسی کی طرف میں رجوع کرتا ہوں ہے"۔ (سورة هود: 88)  

 

حواشی:

(1) صحيح بخاري، حديث نمبر: (32)،  وصحيح مسلم، حديث نمبر: (327).

 (2) صحيح مسلم، حديث نمبر: (613).

 (3) صحيح بخاري، حديث نمبر: (4745).

 (4) صحيح بخاري، حديث نمبر: (1789)، وصحيح مسلم، حديث نمبر: (1180).

 (5) أبو داود، حديث نمبر: (4604) ، ترمذي، حديث نمبر: (2663) ، ابن حبان، حديث نمبر: (12)، اور حاكم نے اسے   صحيح كہا ہے (1/ 109)، اور ذہبی نے اس پر صاد کہا ہے۔  

 (6) صحيح بخاري، حديث نمبر: (4216)، وصحيح مسلم، حديث نمبر: (1407).

 (7)  إعلام الموقعين: (4/ 97- 104).

 (8) السنۃ النبويۃ      ،  دكتور أحمد كريمۃ ،  ص : 27، 28.

 

      (9)  الإسلام على مفترق الطرق، ص : 87.

أضف تعليق

كود امني
تحديث