حلقہ (4)

قرآن کریم میں سنت  نبوی کا ذکر

 

    قرآن کریم میں سنت نبوی کا  ذکر کثرت سے ہو ا ہے ۔

۱۔ چنانچہ (قرآن  کریم ) میں لفظ " حکمت " کا ذکر  (سنت ) کے معنی میں ہوا ہے ، جیسا کہ اللہ تعالی کےاس فرمان میں   ابراہیم – علیہ السلام – نے  اپنی  ا مت  کے لئے دعا کیا :

((ربنا وابعث فيهم رسولاً منهم يتلو عليهم آياتك ويعلمهم الكتاب والحكمة ويزكيهم..)) [البقرة:129]

" اے ہمارے رب! ان میں انہی میں سے رسول بھیج جو ان کے پاس تیری آیتیں پڑھے، انہیں کتاب وحکمت سکھائے اور انہیں پاک کرے، یقیناً تو غلبہ وا اور حکمت وا ہے   "۔

اور اسی طرح اللہ تعالی کا فرمان ہے :

((كما أرسلنا فيكم رسولاً منكم يتلو عليكم آياتنا ويزكيكم ويعلمكم الكتاب والحكمة..)) [البقرة:151]

 " جس طرح ہم نے تم میں تمہیں میں سے رسول بھیجا جو ہماری آیتیں تمہارے سامنے تلاوت کرتا ہے اور تمہیں پاک کرتا ہے اور تمہیں کتاب وحکمت کی چیزیں  سکھاتا ہے ۔۔۔

 اور اسی طرح اللہ تعالی کا فرمان ہے :

((لقد منَّ الله على المؤمنين إذ بعث فيهم رسولاً من أنفسهم يتلو عليهم آياته ويزكيهم ويعلمهم الكتاب والحكمة)) [آل عمران:164]

"  بے شک مسلمانوں پر اللہ تعالیٰ کا بڑا احسان ہے کہ ان ہی میں سے ایک رسول ان میں بھیجا، جو انہیں اس کی آیتیں پڑھ کر سناتا ہے اور انہیں پاک کرتا ہے اور انہیں کتاب اور حکمت سکھاتا ہے"۔

اور اسی طرح اللہ کا فرمان ہے :

 ((وأنزل الله عليك الكتاب والحكمة)) [النساء:113]  

 " اللہ تعالیٰ نے تجھ پر کتاب وحکمت اتاری ہے

  اور اللہ تعالی کا فرمان ہے :

((واذكرن ما يتلى في بيوتكن من آيات الله والحكمة)) [الأحزاب:34]

"اور تمہارے گھروں میں اللہ کی جو آیتیں اور رسول کی احادیث پڑھی جاتی ہیں ان کا ذکر کرتی رہو۔"

اور اللہ تعالی کا  فرمان ہے :

((هو الذي بعث في الأميين رسولاً منهم يتلو عليهم آياته ويزكيهم ويعلمهم الكتاب والحكمة)) [الجمعة:2]

" وہی ہے جس نے ناخوانده لوگوں میں ان ہی میں سے ایک رسول بھیجا جو انہیں اس کی آیتیں پڑھ کر سناتا ہے اور ان کو پاک کرتا ہے اور انہیں کتاب وحکمت سکھاتا ہے۔  "۔

حسن اور قتادہ کہتے ہیں کہ :

" کتاب سے مراد: قرآن  ہے ، اور"حکمت "سے مراد:اللہ کے رسول – صلی اللہ علیہ وسلم – کی سنت ( حدیث ) ہے ۔ (۱)َ

امام شافعی – رحمہ اللہ تعالی  ‑  نے کہا ہے کہ :

"اللہ تعالی نے کتاب کا ذکر کیا ہے ، اس سے مراد: قرآن کریم ہے  ، اور اسی طرح "حکمت" کا ذکر کیا ہے ، چنانچہ میں نےقرآن کے ایسے عالموں سے جن سے میں راضی ہوں یہ کہتےسنا ہےکہ :  "حکمت" سے  : اللہ کے رسول  - صلی اللہ علیہ وسلم – کی سنت  مراد ہے ، اور یہ  بات  اس کے مشابہ ہے جو  آپ نے فرمایا ہے ، والله أعلم ۔  کیو نکہ قرآن کریم کا ذکر کیا گیا ہے اور  اس کے بعد حکمت کا ،  اور اللہ  تعالی نے  اپنے مخلوق کو قرآ ن و حکمت کی تعلیم دے کر ان پر اپنے احسان و کرم کا ذکر کیا ہے ،  لہذا  یہاں پر حکمت سے مراد "سنت " کے علاوہ  کوئی اور چیز کہنا جائز ہی نہیں ہے – والله أعلم ‑  کیونکہ حکمت کا ذکر اللہ کی کتاب کے ساتھ ملا ہوا ہے ،  اور اللہ تعالی نے اپنے رسول کی اطاعت کو فرض قرار دیا ہے ، اور لوگوں کے لئے اپنےحکم کی اتباع کو  لازم کردیا ہے ،  لہذا  کسی واجب  وفرض قول کا اللہ کی کتاب اور اس کے رسول  کی   سنت  کے علاوہ    کہنا جائز نہیں ہے ،  جیسا کہ ہم بیان کرچکے ہیں کہ اللہ تعالی ٰنے اپنے  رسول پر ایمان لانے کو  اپنے اوپر ایمان لانے سے  جوڑ دیا ہے ، اور  اللہ کے رسول کی سنت  اللہ کے مراد  لئے ہوئے معنیٰ کی وضاحت کرنے والی ہے ،  جو اس کے خاص وعام ہونے پر دلالت کرتی ہے۔ پھر   اللہ نے حکمت کو  اس کے ساتھ اپنی کتاب  میں ملا دیا ہے ، اور اس حکمت کو اس کے بعد لایا ہے،  اور یہ (شرف)  اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول کے علاوہ  اپنے کسی اور مخلوق   کونہیں عطا کیا ہے ۔"۔(۲)

امام طبری – رحمہ اللہ – کہتے ہیں کہ : ((ويعلمهم الكتاب والحكمة))

 " یعنی : انہیں اللہ کی   وہ کتا ب جو ان پر نازل کی گئی ہے اس کو سکھاتے اور تعلیم دیتے ہیں ، اور ان کے لئے اس کی تفسیر   ومعانی’’حکمت‘‘  بیان کرتے ہیں۔

اور " حکمت" سے مراد : اللہ کے رسول – صلی اللہ علیہ وسلم – کی وہ سنت  ہےجس کو اللہ تعالیٰ  نے اپنے  رسول – صلی اللہ علیہ وسلم – کے زبانی تمام مو منوں کے لئے مسنون کیا اور ان کے لئے اس کی بیان و وضاحت کی "۔(۳) 

امام طبری –  رحمہ اللہ – (حکمت) سے متعلق ائمہ کی  آ راء کو ذکر کرنے کے بعد ، مزید کہتے ہیں کہ  :

 "ہمارے نزدیک حکمت سے متعلق درست بات یہ ہے کہ   اللہ تعالی ٰکے  ان احکام کے بارے میں جاننا یا علم رکھنا ،  جن کے علم کا ادراک صرف رسول -  صلی اللہ علیہ وسلم – کی وضاحت  اور اس کی معرفت  سے ہی  ہو سکتا ہے ، اور اسی طرح اس پر  جو اس کے ہم مثل چیزوں  سے   دلالت کرے  "۔(۴) 

اور جب ہم اس حقیقت کو تسلیم کر لیتے ہیں کہ قرآ ن کریم کی وضا حت کرنا وہ    (حکمت) ہے  جسے اللہ کے رسول – صلی اللہ علیہ وسلم ‑  کو  عطا کیا گیا ،  اور اس کو کتاب کے ساتھ جوڑ دیا  گیا، اوریہ حکمت اللہ کے رسول – صلی اللہ  علیہ وسلم – کی سنت کے علاوہ کچھ نہیں ہے ، تو اس اعتراف سے کئی سوال پیدا ہوتے ہیں :

اور ان میں سے  کچھ اس طرح  ہیں :

۱۔ قرآن کریم نے  لفظ " سنت " کا استعمال " قرآن کی وضاحت " کے لئے نہیں کیا  ہے ؛ بلکہ لفظ " حکمت" کا  استعمال کیا ہے ، تو اس عدول کی وجہ کیا ہے ؟ ۔

پھر لفظ    (حکمت )جس    کےاستعمال کو قرآن کریم نے  (سنت) کے لئے ترجیح دیا ، تو  کیوں نبی  ‑ صلی اللہ علیہ وسلم –، آ پ کے صحابہ ، اور ان کے بعد امت کے علماء نے اس لفظ سے اعراض کر تے ہوئے  اس کو لفظ " سنت " سے بدل دیا ؟ ۔

ڈاکڑ خولی کہتے ہیں کہ :

" ہمارے اندازے  کے مطابق :  اس تفسیر  کی ابتداء  " کتاب " اور " سنت "  میں سے ہر ایک کے  طبیعت کے مابین فرق  کرنے کی وجہ سےمخفی تھی  باوجود کہ ان دونوں کا مصدر ایک تھا ،   اور وہ" وحی " ہے ، دونوں اللہ تعالیٰ کی جانب سے وحی ہیں ،    قرآن کی بذات خود شہادت  ۔۔ اور اس کے بعد سنت کی    شہادت دینے کی وجہ سے ۔

قرآن کی  شہادت : جہاں تک قرآن کی شہادت کی بات ہے   تو اس سلسلے میں ہم اللہ کے درج ذیل فرمان میں قطعی دلیل پاتے ہیں:

((وما ينطق عن الهوى إن هو إلا وحي يوحى)) [النجم:4، 3]

 " اور نہ وه اپنی خواہش سے کوئی بات کہتے ہیں (3) وه تو صرف وحی ہے جو اتاری جاتی ہے (4)

چنانچہ اللہ کے رسول  صلی اللہ علیہ وسلم  جو کچھ بولتے ہیں وہ لوگوں پر تلاوت کی جانے والی قرآن ، اسی طرح  لوگوں سے کرنے والی بات(حدیث) کو شامل ہوتی ہے، تو اس وقت یہ دونوں وحی ہیں۔

اور اس بنیاد پر جس کو ہم نے ثابت  مانا کہ : حکمت یہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی صرف سنت ہے اسکے علاوہ کوئی دوسری چیز نہیں ہے

تو اس  اعتبار سے آیت کریمہ:

(وأنزل الله عليك الكتاب والحكمة وعلمك ما لم تكن تعلم وكان فضل الله عليك عظيماً) [النساء:113]

 " اللہ تعالیٰ نے تجھ پر کتاب وحکمت اتاری ہے اور تجھے وه سکھایا ہے جسے تو نہیں جانتا تھا اور اللہ تعالیٰ کا تجھ پر بڑا بھاری فضل ہے  "۔   دوسری قطعی دلیل ہوگئی  کہ سنت وحی ہے جسے اللہ رب العزّت نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر اسی طرح نازل فرمایا ہے جس طرح کتاب نازل کیا ہے۔

تیسری دلیل : اللہ کا فرمان ہے :

((ثم إن علينا بيانه)) [القيامة:19]

 " پھر اس کا واضح کر دینا ہمارے ذمہ ہے "۔ 

یہ قطعی وعدہ ہے کہ قرآ ن کریم کی وضاحت اور تشریح   کی ذمہ داری عنقریب اللہ تعالیٰ لے گا،جس طرح اللہ تعالیٰ نے یکساں طور پر اس کے جمع اور پڑھانے کی ذمہ داری لی ہے ،  اس کے علاوہ اس کا یہ معنی نہیں ہے کہ: اس بیان کو اس کی طرف ایحاء واشارے کی صورتوں میں سے کسی صورت میں وحی کی گئی ہے۔

سنت کی شہادت:

چنانچہ سنت بھی قرآن کے واضح شہادت کے مطابق وحی ہے، اور خود حدیث کی شہادت سے بھی وحی ہے، ارشاد رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہے:

" ألا إني أوتيت الكتاب ومثله معه " (5)

"  کہ خبر دار ! مجھے کتاب (قرآن) اور اس کے ساتھ اسی کے مثل (سنّت) دی گئی ہے "۔  

اور آپ کو قرآن کو چھوڑ کر سنت کے سوا کچھ نہیں عطا کیا گیا ہے ، اور سنت (حدیث) قرآن کے  صرف ایک ہی چیز میں مماثلت  رکھتی ہے  ، اور وہ ہے  وحی ۔

اور سنت کا قرآ ن کی طرح وحی ہونے کیوجہ  ہم چاہے جتنی کوشش کر لیں کہ سنت کا معنی  قرآن کے مثل ہونے کے ، تو یہ ہماری نا ممکن کو شش ہو گی  ۔  کیو نکہ یہ بات واضح ہے کہ سنت قرآن کے مثل نہیں ہے ، نہ مقدار کے اعتبار سے اور نہ ہی کیفیت کے اعتبار سے، اور نہ سنت کے ذریعہ قرآن کی طرح چیلنج کیا جا سکتا ہے۔

قرآن اور سنت کے مابین مشابہت :  قرآن اور سنت کے مابین مشابہت  بہت محدود ہے ، جس کا  انحصار محض یہ  ہے کہ  یہ دونوں اللہ کی طرف سے وحی ہیں ۔

قرآن اور سنت کے ما بین فرق:  

قرآن اپنے لفظ اور معنی دونوں حساب سے "وحی "ہے ،  جب کہ سنت  صرف اپنے معنی  کے لحاظ سے "وحی "ہے ، اس کا لفظ " وحی " نہیں ہے ۔

 اور یہ فرق ہم قطعی طور پر اس وقت پاتے ہیں ،جب ہم اس چیز کے بارے میں غورو فکر کرتے ہیں جس سے سنت کی روایت محیط ہےاس چیز سے قیاس کرکے جس کے ذریعہ قرآن کی تبلیغ محیط ہے۔ 

ہمارے رب نے قرآن کی حفاظت  کی ذمہ داری  لی ہے ، اور اسےتحریف اور تبدیلی سےمحفوظ رکھا ہے: 

((إنا نحن نزلنا الذكر وإنا له لحافظون)) [الحجر:9]

" ہم نے ہی اس قرآن کو نازل فرمایا ہے اور ہم ہی اس کے محافظ ہیں۔ "

لیکن "سنت "کی حفاظت کی ذمہ داری ہمارے حوالے کیا ہے، اسی لئے اس  میں بعض ایسی(باتیں) شامل ہو گئیں جن سے بچنا  انسان کے لئے کوئی چارہ نہیں ، اور اس کی آسان (شکل) ایک حدیث کی روایت میں اختلاف کا پایا جاناہے، جس کے کئی طرق ہیں اور سب کے سب موثوق وصحیح ہیں، اور یہ قطعی ہے کہ روایت میں کوئی نہ کوئی تصرّف واقع ہوا ہے جو اس اختلاف کا سبب ہے۔اور حدیث کے روایت بالمعنی کے جواز کے سلسلے میں اختلاف پایا جاتا ہے جبکہ قرآن کو بالمعنی پڑھنے کے عدم جواز کے بارے میں یقینی طور پر اجماع ہے۔

کیونکہ قرآن  کریم کے الفاظ تعبدی ہیں ،  اور حدیث کے الفاظ  کا معاملہ ایسا نہیں ہے ، قرآن بذات خود معجزہ ہےاور اس کے ذریعہ چیلنج کیا جاتا ہے ، جبکہ سنت کا معاملہ اس طرح نہیں ہے ۔

قرآن کریم کے لفظ " الحكمة " کو ترجیح دینے اور اللہ کے نبی – صلی اللہ علیہ وسلم‑ کے اس سے اعراض کرکے لفظ "السنة " کو اختیار کرنے میں ظا ہری مفارقت کے پیچھے یہی فروق ہیں ۔

اور جب ہم  اس جوہری فرق کو تسلیم کر لیتے ہیں کہ " قرآن " اپنے لفظ اور معنی دونوں کے ساتھ وحی ہے ، اور " سنت " صرف اپنے معنی کے ساتھ وحی ہے اور اس کا لفظ وحی نہیں ہے ،  تو ہمارے لئے بنیادی طور پر اس اشکال کو ساقط کرنے کا دروازہ کُھل گیا ۔  

اور ہم یہاں اللہ سے امید کرتے ہوئے کہ ہم درستگی پر ہوں یہ اجتہادکرتے ہیں  کہ: " الحكمة " سے مراد : ایسے معانی  ہیں جن پررسول صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث مشتمل ہیں،جن کی اللہ نے آپ کی طرف وحی کی ہے،اور  اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے  انہیں اپنی طرف سے الفاظ کا جامہ پہنادیا ہے۔

 رہی بات ‘‘سنّت’’ کی : تو یہ معانی ہیں جن کی وحی کی گئی ہے، بعد اس کے اس نے وہ عبارت پہن لیا ہے جس کا وہ متحمل تھی۔لہذا ‘‘سنت’’ کا مفہوم ‘‘حکمت’’ کے مفہوم سے الگ ہے۔

اور’’حکمت‘‘ صرف  تنہا "معانی " ہیں ، اور ’’سنت‘‘ میں معانی الفاظ کے ساتھ ہوتےہیں۔  تو اس طور پر نبی – صلی اللہ علیہ وسلم – کی طرف سے قرآن کے نہج  یا اس کے نام سے کوئی عدول  یا اعراض نہیں ہے ، اور یہاں  پر نہ کوئی مفارقت ہے ؟!

’’حکمت‘‘    کا مفہوم  ’’سنّت‘‘  کے مفہوم سے مختلف ہے ۔

’’سنّت ‘‘ معنی کے اعتبار سے: حکمت ہے، اور اس مفہوم کے ساتھ یہ اللہ کی طرف سے وحی ہے۔

 اور’’سنّت‘‘ لفظ اور معنی دونوں اعتبار سے : اللہ کے رسول – صلی اللہ علیہ وسلم – کی حدیث  کا نام ہے، یا جوحدیث کے معنی میں ہے،چاہےفعلی ہو یا تقریری۔

اس بات کی دلیل کہ ’’ سنّت‘‘ کا معنی اللہ کی طرف سے وحی ہے ،  اور اس کا لفظ جو اس معنی کی تعبیر کرتا ہے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا ہے،اس بات کی دلیل آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ قول ہے:

" أن الروح الأمين قد ألقى في رُوعي: أنه لن تموت نفس، حتى تستوفي رزقها، فأجملوا في الطلب " وفي رواية: " إن روح القدس نفث في روعي... " (6).

"روح امین (جبریئل) نے میرے  نفس(دل) میں  یہ بات ڈال دی  کہ: کوئی نفس اس وقت تک وفات نہیں پائے گا ، یہاں تک کہ اپنی روزی مکمل کرلے ، چنانچہ طلب میں اختصار سے کام لو،اور ایک روایت میں ہے کہ:

" روح القدس(جبریئل  ) نے میرے (دل) میں پھونکا ...

"نفث في روعي": یہاں پر اس کا معنی صرف الہام  ، اور نفس  میں القاء کرنا ہے ،   اور دل میں صرف معانی کے قبیل کی چیزیں ڈالی جاتی ہیں ۔

کیونکہ جن کے الفاظ اور معا نی دونوں  کا القاء  کیا جاتا ہے  ان کا  دل اور کان دونوں میں ایک ساتھ  القاء کیا جاتا ہے ، جیسے : حدیث قدسی  اور قرآ ن کریم ۔

لہذا  اس حدیث  سے جو ہم سن رہے ہیں اور پڑھ رہے ہیں ، وہ اللہ کے رسول کے "نفس" اور آ پ کے قلب میں نہیں ڈالا گیا ہے ،  بلکہ آ پ کے نفس یا دل میں صرف اس کے معنی کا القاء کیا گیا ، اور  آ پ نے اس کو اپنے الفاظ میں بیان کیا ،  لہذا یہ الہی معانی جن کی وحی کی گئی ہے ، ہم تک  اللہ کے رسول  صلی اللہ علیہ وسلم کی عبارت کے ذریعہ پہنچےہیں۔

اور اللہ کےرسول  کی عبارت ایسی ہے جسے آپ نےاپنے طریقے پراور اپنے خاص اسلوب میں ڈھالاہے ، اور یہ بیان وتوضیح  کا ایک طریقہ ہےجولامحالہ   قرآن کےالہی طریقۂ بیان  سے مختلف ہے ۔

سنت کا لغوی معنی:     

سنت لغت میں: طریقہ  کو کہتے ہیں ، تو کیا ہمارا یہ کہنا بہت دورکی بات ہے کہ : ’’اللہ کے رسول کی سنت‘‘ سے مراد:قرآن کے بیان – یعنی الہام کردہ معانی – کی جو آپ  کی طرف وحی کی گئی ہے اس کے تبلیغ میں آپ کا طریقہ ہے، وہ معانی جو آپ نے اپنے الفاظ اور اسلوب میں بیان کیا ہے: ’’حدیث‘‘ہے ، یا جو اپنے فعل سے بیان کیا ہے: عمل ہے، یا اپنی تقریر بیان کیا ہے: وہ اجازت ہے،اور یہ (تقریر اور عمل ) اپنی دلالت میں لفظ کی طرح ہیں؟!

ذرا آپ دیکھیں: کہ کیا اب یہ تجویز ممکن ہے کہ سنّت کے بجائے حکمت کا لفظ رکھا جائے، یا اس کے برعکس؟!

یقینا ہر لفظ اپنی جگہ پر مستقر ہوچکا ہے، اس میں ایک کا دوسرے سےکوئی جھگڑا نہیں ہے .. اس لئے کہ ان دونوں میں سے کوئی بھی دوسرے کا بدل نہیں ہو سکتا ہے۔(7)؟!

۲۔قرآ ن کریم میں سنت کا   تذ کرہ  کچھ دوسرے اسلوبوں میں ہوا ہے :

ان میں سے کچھ درج ذیل ہیں:

۱۔ اللہ کے رسول – صلی اللہ علیہ وسلم‑ کی اطاعت کا حکم ہے ،  جیسا کہ اللہ تعالی کا فرمان ہے :

((يا أيها الذين آمنوا أطيعوا الله وأطيعوا الرسول وأولى الأمر منكم)) [النساء:59]

  " اے ایمان والو! فرمانبرداری کرو اللہ تعالیٰ کی اور فرمانبرداری کرو رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) کی اور تم میں سے اختیار والوں کی۔" (النساء:59)  

۲۔   اللہ کے نبی – صلی اللہ علیہ وسلم – کے اوامر و نواہی کو قبول کرنا ضروری ہے ، جیسا کہ اللہ تعالی کے اس فرمان میں ہے :

 ((و ما آتاكم الرسول فخذوه وما نهاكم عنه فانتهوا)) [الحشر:7]

"اور تمہیں جو کچھ رسول دیں لے لو، اور جس سے روکیں رک جاؤ

 ۳۔ آ پ کے فیصلہ کو تسلیم کیا جائے، جیسا کہ اللہ تعالی کے اس فرمان میں ہے :

((فلا وربك لا يؤمنون حتى يحكموك فيما شجر بينهم ثم لا يجدوا في أنفسهم حرجاً مما قضيت ويسلموا تسليماً)) [النساء:65]

" سو قسم ہے تیرے پروردگار کی! یہ مومن نہیں ہو سکتے، جب تک کہ تمام آپس کے اختلاف میں آپ کو حاکم نہ مان لیں، پھر جو فیصلے آپ ان میں کر دیں ان سے اپنے دل میں اور کسی طرح کی تنگی اور ناخوشی نہ پائیں،اور فرمانبرداری کے ساتھ قبول کر لیں "۔ 

 ۴۔ آ پ – صلی اللہ علیہ وسلم – کی مخالفت  سے بچنا اور  اجتناب کرنا ضروری ہے ، جیسا کہ اللہ تعالی کا قول ہے :

 ((فليحذر الذين يخالفون عن أمره أن تصيبهم فتنة أو يصيبهم عذاب أليم)) [النور:63]

 "سنو! جو لوگ حکم رسول کی مخالفت کرتے ہیں انہیں ڈرتے رہنا چاہیئے کہ کہیں ان پر کوئی زبردست آفت نہ آ پڑے    یا انہیں درد ناک عذاب نہ پہنچے۔ "

۵۔  آ پ – صلی اللہ علیہ وسلم – کی اتباع کرنا واجب ہے ، جیسا کہ اللہ تعالی کا فرمان ہے :

 ((قل إن كنتم تحبون الله فاتبعوني يحببكم الله ويغفر لكم ذنوبكم)) [آل عمران:31].

 " کہہ دیجئے! اگر تم اللہ تعالیٰ سے محبت رکھتے ہو تو میری تابعداری کرو، خود اللہ تعالیٰ تم سے محبت کرے گا اور تمہارے گناه معاف فرما دے گا

  اسی طرح دوسری جگہ اللہ کا فرمان ہے :

 ((و اتبعوه لعلكم تهتدون)). [الأعراف:158]

" اور ان کا اتباع کرو تاکہ تم راه پر آجاؤ ۔ "

یہ تمام نصوص اور جو کچھ ان کے ہم موضوع ہیں امت کے لئے   آ پ – صلی اللہ علیہ وسلم – کے طریقہ کولازم پکڑنا  ضروری قرار دیتے ہیں ، اور یہ واضح کرتے ہیں کہ جو کچھ  آپ لے کر آئے ہیں  اس کو امت کے  لئے قبول کرنا اور اس پر عمل کرنا ضروری ہے ،  اور اسی کو ہم ''نبی – صلی اللہ علیہ وسلم – کی سنت'' سے موسوم کرتے ہیں ۔ (۸)  

 

حوا شی :

(1) دیکھیئے: الفقيہ والمتفقہ 1/88 تبدیلی کے ساتھ.

 (2)  الرسالۃ،  ص : 79 ،  78 .

 (3)   تفسير الطبري  4/163.

 (4)  تفسير الطبري  1/557.

 (5)  ابو داود، كتاب السنۃ،  باب لزوم السنۃ، حديث نمبر: (4604)،  وترمذي، كتاب العلم،  باب ما نهي عنہ أن يقال عند حديث النبي - صلى الله عليہ وسلم - ،حديث نمبر: (2663)، اور ترمذی نے کہا ہے کہ : یہ حدیث اس طریق سے حسن اور غریب ہے۔ نیز اسے ان دونوں کے علاوہ نے بھی روایت کیا ہےاور ابن حبان وغیرہ نےاسے صحیح کہا ہے۔

 (6) اسے شافعي نے الرسالۃ، ص :53 میں حديث نمبر:  (306)کے تحت  المطلب سے روایت کیا ہے، اورحاكم نے  المستدرك، كتاب البيوع (2/4) میں ابن مسعود سے  بطور شاہد روایت کیا ہے (جابر کی حدیث کے لیے جسے انہوں نے بطور اصل روایت کیا ہے پھر اس اصل کے لیے شاہد روایت کیا ہے)، اور ابو نعيم  نےالحليۃ (10/27، 26) میں ابواما مۃ سے ، اورخطيب نےالفقيہ والمتفقہ ص : 92، 93 میں ، اورسيوطي  نے الجامع الصغير (2273)میں اسے ضعیف قرار دیا ہے۔

 (7)  السنۃبياناً للقرآن، ص : 41-46 ، تصرف کے ساتھ.

 

 (8)  المدخل إلى السنۃ النبويۃ ،ص: 21.

أضف تعليق

كود امني
تحديث