مبحث چہارم: مرد و عورت کے مادۂ منویہ کی صفت اور تخلیقِ جنین نیز مشابہت اور نر و مادہ ہونے میں اس کے اثر و تاثیر کا بیان (۴)

 

 

 

ابن عمر کی حدیث: اس کی تخریج امام احمد [۱] اور ابو یعلیٰ [۲] نے ابو عبد الرحمٰن سے مختصراً بایں طریق کی ہے: ’’عبدالله بن يزيد المقري، عن عبدالجبارالأيلي، عن يزيد بن أبي سمية، عن ابن عمر‘‘۔

 

یزید بن ابو سمیہ کے بارے میں حافظ ابن حجر کہتے ہیں: ’’مقبول ہیں‘‘ [۳] اور ان کی متابعت نہ کی جائے تو ’’لین‘‘ ہیں۔ اور عبد الجبار ابن الایلی ’’ضعیف‘‘ ہیں [۴] پس یہ سند ضعیف ہے [۴]۔

 

حافظ ابن حجر فتح الباری میں ابن عمر رضی اللہ عنہما کی حدیث کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہتے ہیں:’’یہ بات ابن عمر کو ام سلیم یا ان کے علاوہ کی طرف سے پہنچی‘‘۔ [۵]

 

خولہ بنت حکیم کی حدیث: اس کی تخریج امام نسائی [۶] احمد [۷] دارمی [۸] ابن ابی عاصم [۹] اور طبرانی [۱۰] وغیرہ نے اس سند سے کی ہے: ‘‘عن شعبة،عن عطاء الخراساني،عن سعيدبن المسيب، عن خولہ’’ وہ کہتی ہیں: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے اس عورت کے متعلق سوال کیا جو خواب میں محتلم ہو جائے؟ تو آپ نے فرمایا: ’’جب وہ پانی دیکھے تو غسل کرے‘‘۔ حدیث کے لفظ نسائی کے ہیں۔

 

ابن ابی عاصم [۱۱] اور طبرانی [۱۲] نے اس حدیث کی تخریج شعبہ کے بجائے اسماعیل بن عیاش عن عطاء الخراسانی کے طریق سے بھی تخریج کی ہے۔

 

عطاء الخراسانی یہ عطاء ابن ابی مسلم ہیں، ان کے بارے میں حافظ ابن حجر کہتے ہیں: ’’صدوق ہیں، انہیں بڑا وہم ہوتا تھا، ارسال اور تدلیس کرتے ہیں‘‘ [۱۳]۔ لیکن یہاں انہوں نے دارمی سے سماع کی صراحت کی ہے ، تو یہ ہمیں ان کے ارسال و تدلیس سے بے نیاز کردیتی ہے۔

 

اور علی بن زید بن جدعان نے سعید بن مسیب کے طریق سے ان کی متابعت کی ہے، اس طرح اس حدیث میں ان کا وہم بھی ختم ہوگیا، ان شاء اللہ، واللہ اعلم۔

 

مگر یہ کہ علی بن زید نے اس لفظ کے ساتھ روایت کی ہے: ’’اس پر کوئی غسل نہیں ہے جب تک کہ اسے انزال نہ ہوجائے، جیسا کہ مرد پر اس وقت تک غسل نہیں ہے جب تک کہ اسے انزال نہ ہو ہو جائے‘‘۔ اس حدیث کی روایت ابن ماجہ [۱۴] ابن ابی عاصم [۱۵] نے ابن ابی شیبہ (اور یہ ان کی مصنف میں بھی موجود ہے۔[۱۶]) سے، اور احمد [۱۷] و طبرانی [۱۸] نے  سفیان عن علی ابن یزید بن جدعان کے طریق سے کی ہے۔

 

ابن جدعان ضعیف ہیں [۱۹]، لیکن متابعات میں’’لا بأس بہ‘‘(کوئی مضائقہ نہیں) ہیں۔

 

اس حدیث کی اور شواہد بھی ہیں جیسا کہ گزرا، پس یہ حدیث حسن ہے۔

 

انس رضی اللہ عنہ کی حدیث: عبد اللہ بن سلام نے نبی صلی اللہ علیہ و سلم سے سوال کیا: کس چیز کی وجہ سے بچہ اپنے باپ کے مشابہ ہوتا ہے؟ اور کس چیز کی بنا پر بچہ اپنے ماموؤں کے مشابہ ہوتا ہے؟ تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا:’’رہی بچے میں مشابہت کی بات تو جب مرد عورت سے ہمبستری کرتا ہےاور اس کی منی سبقت کرتی ہے تو بچہ اس کے مشابہ ہوتا ہے، اور جب عورت کی منی سبقت کرتی ہے تو بچہ اس کے مشابہ ہوتا ہے‘‘۔ (*)

 

 اس کی تخریج امام بخاری [۲۱] (اور یہ اسے روایت کرنے میں اصحابِ ستہ سے منفرد ہیں)، احمد [۲۲] نسائی سنن کبریٰ میں [۲۳] ابو یعلیٰ [۲۴] اور بیہقی الدلائل میں عن حمید الطویل عن انس کے طریق سے کی ہے، انس رضی اللہ عنہ نے بیان کیا: نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے مدینہ پہنچنے کے وقت عبد اللہ بن سلام آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا: میں آپ سے تین سوالات پوچھنے آیا ہوں جسے ایک نبی ہی جان سکتا ہے، انہوں نے پوچھا: قیامت کی پہلی نشانی کیا ہے؟ جنتیوں کا پہلا کھانا کیا ہوگا؟ کس چیز کی وجہ سے بچہ اپنے باپ کے مشابہ ہوتا ہے؟....الحدیث۔

 

اور اس حدیث کی تخریج امام احمد [۲۶] ابو یعلیٰ [۲۷] ابن حبان [۲۸] طبرانی (احادیثِ طوال میں) [۲۹] اور ابو نعیم [۳۰] نے حمید عن انس کے طریق سےکی ہے اور اس سند میں حمید کے ساتھ ثابت بنانی بھی ملے ہوئے ہیں۔

 

رہی ثوبان رضی اللہ عنہ کی حدیث تو اس میں احبارِ یہود میں سے ایک یہودی حبر (عالم) کے سوالوں پر مشتمل نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے جوابات کا بیان ہے، انہیں سوال و جواب میں سے یہ بھی ہے: میں آپ سے بچے کے بارے میں پوچھنے آیا ہوں؟ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (ماء الرجل أبيض، وماء المرأة أصفر، فإذا اجتمعا، فعلا منيُ الرجل منيَ المرأة، أَذكَرَا بإذن الله، وإذا علا مني المرأة مني الرجل، آنَثَا، بإذن الله) ’’مرد کا پانی سفید ہوتا ہے اور عورت کا پانی زرد ہوتا ہے، جب دونوں ملتے ہیں اور مرد کا مادہ منویہ عورت کی منی پر غالب آجاتا ہے تو اللہ کے حکم سے دونوں کے یہاں بیٹا پیدا ہوتا ہے۔ اور جب عورت کی منی مرد کی منی پر غالب آجاتی ہے تو اللہ کے حکم سے دونوں کے یہاں بیٹی پیدا ہوتی ہے‘‘۔ (*)

 

اس کی تخریج امام مسلم [۳۱] (یہ اس کو روایت کرنے میں اصحابِ ستہ سے منفرد ہیں)، نسائی (سنن کبریٰ میں) [۳۲] ابن خزیمہ [۳۳] ابو عوانہ [۳۴] طحاوی [۳۵] ابن حبان [۳۶] طبرانی [۳۷] ابن مندہ [۳۸] حاکم [۳۹] ابو نعیم [۴۰] اور بیہقی وغیرہ نے بایں طریق کی ہے: معاویہ بن سلام اپنے بھائی زید سے روایت کرتے ہیں، انہوں نے ابو سلام سے سنا، انہوں نے کہا: مجھ سے ابو اسماء رحبی نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے آزاد کردہ غلام ثوبان نے انہیں یہ حدیث سنائی، انہوں نے کہا: میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس کھڑا تھا کہ ایک یہودی حبر (عالم) آپ کے پاس آیا...... ثوبان کے اس قول تک کہ  اس نے کہا: میں آپ سے ایک ایسی چیز کے بارے میں سوال کرنے آیا ہوں جسے روئے زمین میں سے محض ایک نبی جانتا ہے یا ایک دو اور انسان، آپ نے فرمایا: ’’تمہیں اس سے کیا فائدہ ہوگا اگر میں نے تمہیں بتا دیا؟‘‘ اس نے کہا: میں کان لگا کر سنوں گا، اس نے کہا: میں آپ سے بچے کے متعلق پوچھنے آیا ہوں؟ آپ نے فرمایا: ’’مرد کا پانی سفید ہوتا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‘‘۔ یہودی نے کہا: آپ نے واقعی صحیح فرمایا اور آپ یقیناً نبی ہیں، پھر وہ پلٹ کر چلا گیا۔ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: اس نے مجھ سے جس چیز کے بارے میں سوال کیا اس وقت تک مجھے اس میں سے کسی چیز کا کچھ علم نہیں تھا حتیٰ کہ اللہ نے مجھے اس کا علم عطا فرمایا‘‘۔

 

آپ صلی اللہ علیہ و سلم کا فرمان: ‘‘أَذكَرَا’’ اور ‘‘آنثَا’’ معاویہ بن سلام کی روایت میں مسلم کے ہاں ہے، اور یہی لفظ ابن خزیمہ، طحاوی، ابن حبان، ابو نعیم اور بیہقی کے یہاں ہے۔

 

امام نووی کہتے ہیں: اور آپ کا یہ فرمان: ‘‘آنثَا’’ پہلے حرف پر مد اور نون کی تخفیف کے ساتھ ہے، اور پہلے حرف کو مقصور اور نون پر تشدید کے ساتھ  بھی یہ روایت کی گئی ہے۔ [۴۲]

 

امام مسلم (معاویہ بن سلام سے مروی دوسری سند کے بارے میں کہتے ہیں: یہ پہلی سند ہی کی طرح ہے، سوائے اس کے کہ انہوں نے ‘‘أذكر’’ اور ‘‘آنث’’ (اس کے یہاں بیٹا اور بیٹی کی ولادت ہوتی ہے) کے الفاظ کہے، اور یہ نہیں کہا: ‘‘أذكرا’’ اور ‘‘آنثا’’ (ان دونوں کے یہاں بیٹا پیدا ہوتا ہے اور ان دونوں کے یہاں بیٹی پیدا ہوتی ہے)۔

 

اور وہ نسائی، ابو عوانہ، ابن مندہ اور حاکم کے لفظ ہیں۔ اور رہے طبرانی تو ان کے یہاں یہ لفظ ہیں: ‘‘ذكرا’’ اور ‘‘أنثى’’۔

 

حوالہ جات و حواشی:

 

________________________________________

 

[۱] المسند (2/90).

 

[۲] مسند أبي يعلى (10/132ح5759).

 

[۳] تقريب التهذيب، ص (332).

 

[۴] المصدرالسابق، ص (601).

 

[۵] انظر فتح الباري (1/388).

 

[۶] سنن النسائي – كتاب الطهارة – باب غسل المرأة ترى في منامها ما يرى الرجل (1/115ح198).

 

[۷] المسند (6/409).

 

[۸] سنن الدارمي (1/195).

 

[۹] الآحاد والمثاني (6/58ح3264).

 

[۱۰] المعجم الكبير (24/240ح610).

 

[۱۱] الآحاد والمثاني (6/58ح3265).

 

[۱۲] المعجم الكبير (24/240ح 611).

 

[۱۳] تقريب التهذيب،ص (392).

 

[۱۴] سنن ابن ماجه – كتاب الطهارة – باب في المرأة ترى في منامها ما يرى الرجل (1/197 ح602).

 

[۱۵] الآحاد والمثاني (6/59ح 3266).

 

[۱۶] مصنف ابن أبي شيبة (1/80، 81).

 

[۱۷] المسند (6/409).

 

[۱۸] المعجم الكبير (24/240، 241 ح 612) و (ح613) ابن ابی شیبہ کے طریق سے۔.

 

[۱۹] تقريب التهذيب،ص (401).

 

[۲۰] بخاری کے الفاظ یہ ہیں: "وإذا سبق ماؤها".

 

(*)  خلق الإنسان بين الطب و القرآن ص (391).

 

[۲۱] صحيح البخاري – كتاب أحاديث الأنبياء – باب خلق آدم وذريته (6/362ح3329)،واللفظ من هذاالموضع، وكتاب مناقب الأنصار – باب: 51 (7/272ح2938) وكتاب التفسير – باب قوله تعالى {من كان عدوا لجبريل} [البقرة:97] (8/165ح4480).

 

[۲۲] المسند (3/108، 189).

 

[۲۳] السنن الكبرى – عشرة النساء – ص (167، 168ح189)،والتفسير (1/173– 175ح 12).

 

[۲۴] مسند أبي يعلى (6/458، 459ح 3856).

 

[۲۵] دلائل النبوة (6/260، 261).

 

[۲۶] المسند (3/271).

 

[۲۷] مسند أبي يعلى (6/138– 140ح 3413).

 

[۲۸] الإحسان (9/255، 256ح 7380).

 

[۲۹] الأحاديث الطوال – ملحق بآخر المعجم الكبير – (25/205ح7).

 

[۳] دلائل النبوة ص (300، 301).

 

(*) الطب النبوي والعلم الحديث (3/326)،ابتدا میں تھوڑے سے تصرف کے ساتھ تاکہ موقع و محل کے مناسب ہو جائے۔

 

[۳۱] صحيح مسلم – كتاب الحيض – باب صفة مني الرجل، ومني المرأة وأن الولد يخلق من مائهما (1/252، 253ح 315).

 

[۳۲] السنن الكبرى – عشرة النساء – (ص 165ح188).

 

[۳۳] صحيح ابن خزيمة (1/116ح 232).

 

[۳۴] مسند أبي عوانة (1/293).

 

[۳۵] مشكل الآثار (3/275، 276).

 

[۳۶] الإحسان (9/254، 255ح 7379).

 

[۳۷] المعجم الكبير (2/93ح1414).

 

[۳۸] التوحيد (1/227، 228ح 86).

 

[۳۹] المستدرك (3/481).

 

[۴۰] معرفة الصحابة (3/283، 284ح 1384).

 

[۴۱] السنن الكبرى (1/169)، ودلائل النبوة (6/263).

 

[۴۲] شرح مسلم (3/228).

 

أضف تعليق

كود امني
تحديث