باب: اعجاز نبوی

حلقہ (۱۱) مبحث چہارم: مرد و عورت کے مادۂ منویہ کی صفت اور تخلیقِ جنین نیز مشابہت اور نر و مادہ ہونے میں اس کے اثر و تاثیر کا بیان (۵)

اور رہی ابن عباس رضی اللہ عنہما کی حدیث، تو اس کے تین طرق ہیں:

پہلا طریق : عبد الحمید بن بھرام نے شھر بن حوشب سے روایت کی ہے اور وہ ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت کرتے ہیں کہ انھوں نے فرمایا: یہودیوں کی ایک جماعت [رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم] کے پاس  ایک دن حاضر ہوئی، ان لوگوں نے عرض کیا: اے ابوالقاسم! آپ ہمیں ان چیزوں کے بارے میں بتائیے جن کے متعلق ہم آپ سے استفسار کرنا چاہتے ہیں اور جنھیں کوئی نبی ہی جان سکتا ہے۔ آپ (ﷺ) نے فرمایا: ’’پوچھو مجھ سے‘‘۔ ان لوگوں نے کہا: آپ ہمیں چار چیزوں کے بارے میں بتائیں جن کے تعلق سے ہم آپ سے سوال کر رہے ہیں۔ آپ ہمیں بتائیں کہ مرد کے مادۂ منویہ کے بالمقابل عورت کا مادۂ منویہ کیسا ہوتا ہے؟ کیسے اس سے مذکرہوتا ہے؟ اور کیسے وہ مؤنث ہوتی ہے؟۔ آپ (ﷺ) نے فرمایا: «’’فأنشدكم بالله الذي لا إله إلا هو، الذي أنزل التوراة على موسى، هل تعلمون أن ماء الرجل أبيض غليظ، وأن ماء المرأة أصفر رقيق، فأيهما علا، كان له الولد والشبه، بإذن الله. [فإنْ](1) علا ماء الرجل على ماء المرأة؛ كان ذكراً بإذن الله، وإن علا ماء المرأة على ماء الرجل كان أنثى بإذن الله‘‘؟. قالوا: اللهم نعم، قال: ’’اللهم أشهد عليهم‘‘» ترجمہ: ’’پس میں تمہاری رہنمائی اس اللہ کے واسطے سے کر رہا ہوں جس کے علاوہ کوئی معبودِ برحق نہیں صرف وہی معبودِ برحق ہے، جس نے موسیٰ (علیہ السلام) پر تورات نازل فرمائی، کیا تم جانتے ہو کہ آدمی کا پانی گاڑھا سفید ہوتا ہے اور عورت کا پانی پتلا زرد ہوتا ہے  پس ان میں سے جس کا پانی غالب آجائے بچہ اسی کی طرح اس کے مشابہ ہوتا ہے  اللہ کے حکم سے۔ اگر مرد کا پانی عورت کے پانی پر غالب آتا ہے تو اللہ کے حکم سے مذکر ہوتا ہے، اور اگر عورت کا پانی مرد کے پانی پر غالب آتا ہے تو اللہ کے حکم سے مؤنث ہوتی ہے‘‘؟ ان لوگوں نے کہا: ہاں  آپ نے سچ کہا، آپ نے فرمایا: ’’اے اللہ ان پر گواہ رہنا‘‘۔

اس حدیث کی تخریج طیالسی(2)، ابن سعد(3) (حدیث کے الفاظ انھیں کے ہیں)، احمد(4)، طبری(5)، طبرانی(6) اور بیہقی(7) (دلائل میں) وغیرہ نے عبدالحمید ابن بھرام کے طریق سے روایت کیا ہے۔

اس حدیث کی سند میں شھر بن حوشب نامی راوی ہیں جن کے بارے میں حافظ ابن حجر کہتے ہیں: (صدوق ہیں، بکثرت ارسال اور اوہام والے ہیں)(8)۔

دوسرا طریق : عبداللہ بن الولید العجلی بکیر بن شہاب سے روایت کرتے ہیں، وہ سعید بن جبیر اور وہ ابن عباس سے روایت کرتے ہیں، مستدل حدیث کے الفاظ میں تھوڑے اختصار کے ساتھ اُسی طرح حدیث ہے۔

اس حدیث کی تخریج احمد(9)، نسائی[سنن کبریٰ](10)، طبرانی(11) اور ابو نعیم(12) نے عبداللہ بن الولید العجلی کے طریق سے کی ہے۔

اور ترمذی نے بھی انھیں سے تخریج کی ہے انھوں نے صرف رعد اور جو کچھ اسرائیلیوں نے اپنے آپ پر حرام کر رکھا تھا اس کا ذکر کیا ہے۔(13) اور کہا ہے: یہ حدیث حسن غریب ہے۔

اور ابونعیم کہتے ہیں: ’’یہ سعید کی حدیث سے غریب ہے، اس میں بکیر متفرد ہیں۔‘‘ اور یہ بکیر: ابن شہاب کوفی ہیں، ان کے بارے میں حافظ ابن حجر کہتے ہیں: ’’مقبول ہیں‘‘(14) اور ان کی متابعت کی گئی ہے۔

تیسرا طریق : ابراہیم بن طھمان مسلم سے روایت کرتے ہیں، وہ مجاہد سے اور وہ ابن عباس سے روایت کرتے ہیں کہ انھوں نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس یہودیوں کا ایک گروہ آیا اور کہا: جو کچھ ہم پوچھنے جا رہے ہیں اسے اس نے بتادیا تو وہ نبی ہے۔ ان لوگوں نے کہا: اے محمد(ﷺ)! کہاں سے مشابہت آتی ہے؟ آپ نے فرمایا: ’’إنَّ نطفة الرجل بيضاء غليظة، ونطفة المرأة صفراء رقيقة، فأيهما غلبت صاحبتها فالشبه له، وإن اجتمعا كان منها ومنه‘‘ ترجمہ: بے شک آدمی کا نطفہ سفید گاڑھا ہوتا ہے اور عورت کا نطفہ پتلا زرد ہوتا ہے، پس ان میں سے جن کا نطفہ سبقت لے جائے بچہ اسی کے مشابہہ ہوتا ہے اور اگر اکٹھا ہو جائے تو عورت و مرد دونوں کی مشابہت اختیار کرتا ہے‘‘۔ ان لوگوں نے کہا: آپ نے سچ فرمایا۔

اس حدیث کی تخریج بزار(15) اور ابوالشیخ(16) نے ابراہیم بن طھمان کے واسطے سے دو طریق سے کی ہے۔

امام بزار کہتے ہیں: ’’ہماری علم کے مطابق یہ حدیث ابن عباس سے صرف اسی سند سے روایت کی گئی ہے۔ اور یہ حدیث کئی سندوں سے اسی طرح ان کے علاوہ لوگوں سے روایت کی گئی ہے، اور ابن عباس کی حدیث میں کچھ زیادتی ہے‘‘۔ اور اس زیادتی سے ان کا مقصود شاید اس فرمان: ’’وإن اجتمعا كان منها ومنه‘‘ سے ہے۔ کیوں کہ دوسری دو سندوں (جیسا کہ ابھی گزرا) سے یہ حدیث اسی طرح اس زیادتی کے بغیر آئی ہے۔

بزار کے شیخ کے ترجمہ سے مجھے واقفیت نہیں ہو سکی، ان کا نام :السکن بن سعید ہے۔ اور نہ ہی میں ابو الشیخ کے شیخ سے واقف ہو سکا اور ان کا نام: احمد بن الحسن ہے(17)۔

اور مجاہد سے روایت کرنے والے راوی کے بارے میں مجھ پر یہ بات واضح نہیں ہو سکی کہ کیا وہ راوی مسلم البطین ہیں یا مسلم الملائی الأعور ہیں، ان دونوں نے مجاہد سے روایت کی ہے، پہلے یعنی مسلم بن بطین ثقہ ہیں اور دوسرے یعنی مسلم الملائی الأعور ضعیف ہیں(18)۔

 

حوالہ جات و حواشی:

________________________________________

 (1)طبقات میں:(وإنْ) ہے اور اولیٰ وہی ہے جسے میں نے ذکر کیا ہے جو کہ طیالسی کے یہاں ہے، اور احمد کے یہاں:(إنْ(ہے۔

(2) مسند الطيالسي ص (356، 357ح 2731).

(3) الطبقات الكبرى (1/174، 517.(

(4) المسند (1/273).

(5) تفسير الطبري (جامع البيان...) (1/431، 432).

(6) المعجم الكبير (12/246، 247ح 13012).

(7) دلائل النبوة (6/266، 267).

(8) تقريب التهذيب ص (269).

(9) المسند (1/274).

(10) السنن الكبرى – عشرة النساء – ص (163، 164ح 187).

(11) المعجم الكبير (12/45، 46ح 12429).

(12) الحلية (4/304، 305).

(13) سنن الترمذي – كتاب التفسير – باب ومن سورة الرعد (5/274ح 3117).

(14) تقريب التهذيب ص (128).

(15) كشف الأستار (3/119ح 2375).

(16) العظمة (5/1632ح 1075).

(17) کتاب العظمہ کے محقق کا کہنا ہے کہ کتاب کے نسخوں میں سے ایک نسخے میں الحسن کے بعد الجنید کی زیادتی ہے۔

(18) تقريب التهذيب ص (530).

 

أضف تعليق

كود امني
تحديث