باب: اعجاز نبوی

حلقہ (۱۳) سابقہ احادیث سے استدلال

بعض اطباء اور مولفین و مصنفین نے گزشتہ کچھ احادیث کے ذریعہ درج ذیل امور میں جدید میڈکل سائنس پر اسلام کی سبقت و اولیت پر استدلال کیا ہے:

عورت کے لیے مادۂ منویہ کا اثبات:

اس بات کا استدلال دکتور محمد علی البار نے اپنی کتاب: ’’خلق الانسان بین الطب والقرآن‘‘(1) کے اندر حلقہ (۸) کی حدیث نمر (۳) اور حدیث نمبر (۲) سے، اور دکتور محمود ناظم النسیمی نے اپنی کتاب: ’’الطب النبوی والعلم الحدیث‘‘(2) کے اندر حلقہ (۸) کی  حدیث نمبر (۲) اور حلقہ (۹) کی حدیث نمبر (۴) سے، اور محمد کامل عبدالصمد نے اپنی کتاب: ’’الاعجاز العلمی فی الاسلام ۔السنۃ‘‘(3) کے اندر حلقہ (۸) کی حدیث نمبر (۳) سے کیا ہے۔

اس طرح سے کہ یہ احادیث اس بات کو ثابت کرتی ہیں کی عورت کے لیے بھی منی ہوتی ہے جس طرح کہ مرد کے لیے منی ہوتی ہے، اور دونوں جنین (شکم مادرمیں پرورش پانے والا بچہ) کی تکوین  و ساخت میں مشترک ہوتے ہیں۔ دکتور البار نے تو اس بارے میں تفصیلی گفتگو کی ہے، آپ حاصل کلام کے طور پر لکھتے ہیں:

بے شک جدید سائنس نے اس بات کو ثابت کیا ہے کہ خواتین کے یہاں دو قسم کا پانی (مادۂ منویہ) پایا جاتا ہے:

اول: لیس دار چپچپا پانی جو رسیلا ہوتا ہے اور کود کر نہیں نکلتا، اور یہ  اندامِ نہانی اور اس سے متصل غدودبارتھولین( Bartholin's gland)کی رطوبت ہوتی ہے، جنین کی تشکیل و تکوین میں اس کا کوئی تعلق نہیں ہوتا ہے، بلکہ یہ جماع کے دوران عورت کی شرمگاہ کو مرطوب رکھتا ہے اور اس کا مساعد ہوتا ہے نیز یہ جراثیم کش ہوتا ہے۔(4)

دوم: کود کر نکلنے والا پانی، اور یہ بیضہ دانی کے تھیلے سے مہینے میں ایک ہی بار اس وقت خارج ہوتا ہے جب کہ یہ تھیلا بیضہ دانی کے کنارے زرد پانی بننے کے قریب ہوتا ہے، اور یہ اپنے مکمل نشو و نما اور  کمال کے وقت نمودار ہوتا ہے، اور پیٹ کے اندرونی حصہ پر پانی زور سے نکلتا ہے اور بوق (بچہ دانی کا آخری سرا)  بیضہ کو جلدی سے لے لیتا ہے، اور اسے پتلا کرکے پہنچاتا ہے یہاں تک کہ حیوانِ منوی سے ملتا ہے جو عورت کے رحم میں دخول کرتا ہے۔

نیز یہ پانی مکمل روپ سے بیضہ کو کیچ کرتا ہےجس طرح کہ آدمی کا پانی حیواناتِ منویہ کو کیچ کرتا ہے۔

اور یہ بات مکمل روپ سے نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے اس قول کے مطابق ہے: ’’بے شک آدمی کا پانی سفید اور عورت کا پانی زرد (پیلا) ہوتا ہے۔‘‘(5)

عورت کے پانی کی صفت:

دکتور مامون شفقہ نے اپنی کتاب: ’’القرار المکین‘‘(6) کے اندر اور دکتور محمد علی البار نے اپنی کتاب: ’’خلق الانسان۔۔۔‘‘(7) کے اندر نیز محمد کامل عبدالصمد نے اپنی کتاب: ’’الاعجاز العلمی فی الاسلام ـوالسنۃ‘‘(8) کے اندر حلقہ (۸) کی حدیث نمبر (۲) سے اس کا استدلال کیا ہے۔اور جدید میڈیکل سائنس کی اکتشافات اور اس کی دقیق تصویری آلات کی شکلوں کو واضح طور پر بیان کیا ہے کہ بیضہ جس پانی کو اٹھاتا ہے اس کا رنگ زرد ہوتا ہے۔

دکتور مامون شفقۃ جنھوں نے کہ بیضہ دانی میں بیضہ کے نشو نما  کے مراحل کی تصویریں پیش کی ہیں، لکھتے ہیں: ’’وقد تأكدت من ذلك بنفسي، وبَزَلْتُ(9) هذا السائل من المبيض، أثناء عملية جراحية، فكان أصفراً‘‘(10) یعنی میں نے خود اس بات کی تصدیق کی ہے، اور میں نے سرجری کے دوران میں اس سیّال مادّے کو انڈاسے صاف کیا تو اسے زرد پایا۔

جنین کی تخلیق مرد کے پانی اور عورت کے پانی سے ہوتی ہے:

دکتور محمد علی البار نے اپنی کتاب: ’’‘خلق الانسان۔۔۔‘‘(11) میں، دکتور مارشال جونسون، عبدالمجید الزندانی، اور   مصطفیٰ احمد نے اپنی بحوث : ’’وصف التخلیق البشری: مرحلۃ النطفۃ‘‘(12) میں، محمد کامل عبدالصمد نے اپنی کتاب: ’’الاعجاز العلمی فی الاسلام ـوالسنۃ‘‘(13) میں حلقہ (۱۲) کی حدیث نمبر (۱۰) سے، اور دکتور حامد محمد حامد نے اپنی کتاب: ’’رحلۃ الایمان فی جسم الانسان‘‘(14) میں حلقہ (۸) کی حدیث نمبر (۲) اور حلقہ (۱۲) کی حدیث نمبر (۱۰) سے، اور دکتور مامون شفقۃ نے اپنی کتاب: ’’القرار المکین‘‘(15) میں حلقہ (۸) کی حدیث نمبر (۲) اور حلقہ (۱۰) کی حدیث نمبر (۷) سے، نیزمحمود مھدی استانبولی نے اپنی کتاب: ’’دلائل النبوۃ فی ضوء المعارف الحدیثۃ‘‘(16) میں حلقہ (۸) کی حدیث نمبر (۲) سے اس کا استدلال کیا ہے۔

ان لوگوں نے اس کا خلاصہ اس طرح بیان کیا ہے کہ: یقیناً یہ تمام احادیث جدید میڈیکل سائنس پر سبقت رکھتی ہیں، کیوں کہ کم از کم تیرہ سو سال قبل ہی اس بات کو ثابت کیا جا چکا ہے کہ جنین کی تخلیق و پیدائش بیک وقت مرد کے پانی اور عورت کے پانی سے ہوتی ہے۔

دکتور البار حلقہ (۱۲) کی حدیث نمبر (۱۰) کے متعلق لکھتے ہیں: ’’یہ حدیث شریف بھی مکمل اعجاز ہے۔۔۔۔بے شک انسانوں نے سائنسی علوم کے ذریعہ انیسویں صدی عیسوی میں جانا ہے کہ انسانی جنین مرد اور عورت کے نطفہ سے تیار ہوتی ہے، اور بیسویں صدی عیسوی کے اوائل میں اس بات میں مضبوطی حاصل ہوئی ہے کہ اس میں کوئی شک و تردد کی بات نہیں ہے۔‘‘(17)

جنین کی مشابہت میں مرد کے پانی اور عورت کے پانی کا مؤثر ہونا:

دکتور محمود ناظم النسیمی نے اپنی کتاب: ’’الطب النبوی والعلم الحدیث‘‘(18) میں حلقہ نمبر (۷) کی حدیث نمبر (۱) اور حلقہ نمبر (۸) کی حدیث نمبر (۲) اور حلقہ نمبر (۱۰) کی حدیث نمبر (۷) سے، نیز دکتور محمود شفقۃ نے اپنی کتاب: ’’القرار المکین‘‘(19) میں حلقہ نمبر (۱۰) کی حدیث نمبر (۷) اور حلقہ نمبر (۷) کی حدیث نمبر (۱) سے اس کا استدلال کیا ہے۔

دکتور محمود ناظم النسیمی لکھتے ہیں: ’’آدمی کا نطفہ اور عورت کا بیضہ دونوں کروموزوم [کروموسومز](chromosomes )میں موجود جینز کے راستے موروثی صفات و خصوصیات کو منتقل کرتی ہیں، پس اگر ماں کے بالمقابل باپ کے جینز حمل پانے والے بیضہ میں غالب آتے ہیں تو اس کے صفات اسی جینز کے تابع ہوتے جو باپ کا جین ہوتا ہے اور یہ جنین کی بناوٹ و شکل، موجودہ و مستقبل کی جسمانی صفات و خصوصیات، اور اس کی فکری و نفسیاتی چیزوں میں ظاہر ہوتی ہے۔ اور اس کے برعکس اگر ماں کے جینز غالب ہوتے ہیں تو جنین اس کی خصوصیات پاتا ہے۔

اسی طرح باپ اور ماں یہ توارثی صفات اپنے باپ دادا سے پاتے ہیں اور پھر دونوں اپنی آئندہ نسل میں منتقل کرتے رہتے ہیں، اس طرح انسان اپنے والدین یا اجداد یا چچاؤں یا ماموؤں میں سے کسی ایک کے مشابہ ہوتا ہے۔

توارثی صفات کی اس سائنسی حقیقت کی طرف احادیثِ نبویہ اشارہ کرتی ہیں۔۔۔۔۔‘‘(20)

نیز اس مفہوم کو دکتور مامون شفقہ نے بھی ذکر کیا ہے مگر پورے جزم و یقین کے ساتھ نہیں بیان کیا ہے۔

حوالہ جات و حواشی:

________________________________________

(1)  خلق الإنسان بين الطب والقرآن، ص (121 – 123).

(2)  الطب النبوي والعلم الحديث (3/326، 327).

(3)  الإعجاز العلمي في الإسلام – السنة، ص (170، 171).

(4)  حلقہ (۸)کی حدیث نمبر (۳) سے دکتور البار کا استدلال میری سمجھ میں نہیں آیا۔

(5)  ظاہر ہوتا ہے کہ محمد کامل عبدالصمد نے دکتور البار کے کلام کو نہیں سمجھا گرچہ کہ محمد کامل نے دکتور البار کی عظمت و علمیت کا اعتراف کیا ہے اس طرح کہ انھوں نے دوسرے پانی کو نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے اس قول سے مربوط کیا ہے: ’’نعم إذا رأت الماء‘‘ [جو کہ حلقہ (۸) کی حدیث نمبر (۳) ہے] اور یہ مستبعد ہے، اور دکتور البار نے اس کو [حلقہ (۸) کی حدیث نمبر (۲)] سے مربوط کیا ہے۔

(6)  القرار المكين ص (46، 47).

(7)  خلق الإنسان بين الطب والقرآن ص (123).

(8)  الإعجاز العلمي في القرآن – السنة، ص (174، 175).

(9)  بزل الشراب: صَفَّاه. المعجم الوسيط (1/54/مادة بزل).

(10)  القرار المكين ص (47) کا حاشیہ.

(11)  خلق الإنسان بين الطب والقرآن ص (169– 189، 194، 390).

(12)  وصف التخلق البشري: مرحلة النطفة – ص (5)، یہ اسلام آباد پاکستان میں ’’الإعجاز العلمي في القرآن والسنة‘‘ نامی ہونے والے پہلے عالمی کانفرنس  کے مقالہ جات میں سے ایک ہے۔

(13)  الإعجاز العلمي في الإسلام – السنة – ص (171).

(14)  رحلة الإيمان في جسم الإنسان ص (51).

(15)  القرار المكين ص (179).

(16)  دلائل النبوة في ضوء المعارف الحديثة ص (362 – 366).

(17)  خلق الإنسان بين الطب والقرآن، ص (390).

(18)  الطب النبوي والعلم الحديث (3/369، 370).

(19)  القرار المكين ص (179، 180).

(20)  الطب النبوي والعلم الحديث (3/369، 370).

أضف تعليق

كود امني
تحديث