باب: اعجاز نبوی

حلقہ (۱۴) گزشتہ احادیث سے استدلال کا تتمہ اور اس کا جائزہ

مذکر و مؤنث ہونے میں مرد کے پانی اور عورت کے پانی کا مؤثر ہونا:

دکتور عبداللطیف یاسین نے اپنی کتاب: ’’صبی أم بنت‘‘(1) میں، اور دکتور محمود ناظم النسیمی نے اپنی کتاب: ’’الطب النبوی والعلم الحدیث‘‘(2) میں، اور محمد سید ارناؤوط نے اپنی کتاب: ’’الإعجاز العلمی فی القرآن‘‘(3) میں حدیث نمبر (۸) سے اس کا استدلال کیا ہے، ہاں محمد سید ارناؤوط نے استدلال کے لیے حدیث نمبر (۷) کو بھی شامل کیا ہے۔

جو کچھ ان لوگوں نے ذکر کیا ہے اس کا خلاصہ یہ ہے کہ: آدمی کے پائے جانے والے منی کے حیواناتِ منویہ (کروموسومز) کی دو قسمیں ہیں: پہلی قسم مذکر ہےجو نرینہ جنس کی علامات و خصوصیات ((y کا متحمل ہوتا ہے ، دوسری قسم مؤنث ہے جو زنانہ جنس کی علامات و خصوصیات(x) کا متحمل ہوتا ہے ۔ اور رہا عورت کا بیضہ تو وہ ہمیشہ مؤنث ہی ہوتا ہے۔ پس حیواناتِ منویہ کی دونوں قسموں میں سے جو بھی قسم دوسرے نوع پر غلبہ و سبقت پاتی ہے بچہ اسی کا ہوتا ہے یعنی اگر مذکر کو غلبہ و سبقت ملا تو بچہ نر ہوتا ہے اور اگر مؤنث کو غلبہ و سبقت ملا تو بچہ مادہ ہوتا ہے۔

پھر ان علماء نے  احادیث میں موجود سبقت و علو کو اسی مفہوم پر محمول کیا ہے۔

اور محمد سید ارناؤوط کا خیال ہے کہ یہ احادیث نبویہ کا عمدہ و انوکھا اعجاز ہے۔

جائزہ:

ان احادیث سے استدلال کرنے والوں نے جو کچھ استدلال کیا ہے وہ حدیث نبوی کے الفاظ کے ساتھ بے جا تصرف وتکلّف (ایسے معنی مراد لینا جس پر الفاظ کی دلالت واضح نہ ہو)اور ظاہری ہمت و جرأت ہے، اس طرح کہ ان لوگوں نے صرف مرد کے پانی کو مذکر و مؤنث ہونے میں مؤثر قرار دیا ہے، اور پانی کے لفظ کو حیوانِ منوی مذکر اور حیوانِ منوی مؤنث پر محمول کیا ہے۔

اور اس مفہوم پر محمول کرنے کی وجہ شاید یہ ہے کہ طبی معلومات یہ کہتی ہیں: مذکر و مؤنث ہونے کا سبب آدمی کا منی ہے، رہی عورت تو وہ دونوں جنسوں میں سے کسی ایک کو قبول کرتی ہے، اب اگر اس کا بیضہ حیوانِ منوی مذکر کے ساتھ حاملہ ہو تو بچہ نر ہوگا اور اگر حیوانِ منوی مؤنث کے ساتھ حاملہ ہو تو بچہ مادہ ہوگا۔

اور اس طبی معلومات کو اللہ تعالیٰ کے اس فرمان سے مؤکد کیا ہے: ﴿أَلَمۡ يَكُ نُطۡفَةٗ مِّن مَّنِيّٖ يُمۡنَىٰ ٣٧ ثُمَّ كَانَ عَلَقَةٗ فَخَلَقَ فَسَوَّىٰ ٣٨ فَجَعَلَ مِنۡهُ ٱلزَّوۡجَيۡنِ ٱلذَّكَرَ وَٱلۡأُنثَىٰٓ ٣٩﴾ ترجمہ:کیا وہ ایک گاڑھے پانی کا قطرہ نہ تھا جو ٹپکایا گیا تھا؟ پھر وہ لہو کا لوتھڑا ہو گیا، پھر اللہ نے اسے پیدا کیا اور درست بنایا۔ پھر اس سے جوڑے یعنی نر و مادہ بنائے۔ [القیامۃ: ۳۷ تا ۳۹]

پس انھوں نے گمان کیا کہ بے شک منی یہ صرف آدمی ہی کی منی ہے،باوجود اس کے کہ جن احادیث سے ان لوگوں نے استدلال کیا ہےوہ اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ عورت کے لیے بھی منی ہوتی ہے!!

اور جنھوں نے اس قضیہ کی تنبیہ کی ہے کہ عورت کے لیے بھی منی ہوتی ہے تو ان کا کلام معقول ہے، اور انھیں میں سے ایک دکتور مامون شفقہ بھی ہیں، جو مذکر و مؤنث سے متعلق حدیث نمبر (۸) کے بارے میں گفتگو کرتے ہوئے کہتے ہیں:

’’یہ معلوم بات ہے کہ آدمی کے خلیے میں دو جنس کے کروموس ہوتے ہیں، اور وہ دونوں (XY) ہیں، اور بچے کے لیے ان دونوں میں سے کسی ایک کا پایا جانا ضروری ہے۔ اور عورت کے خلیے میں بھی دو جنس کے کروموس ہوتے ہیں اور وہ دونوں (XX) ہیں، اور اس کے بچے کے لیے ان دونوں میں سے کسی ایک کا ہی ہونا ضروری ہے۔۔۔، اس طرح اگر بچہ نر ہوتا ہے تو وہ باپ کی جانب سے آنے والے کروموس (Y) کو اٹھاتا ہے اور اسی کی وجہ سے نر ہو تا ہے، اور ماں کی جانب سے آنے والا کروموس (X) اس بات کا متحمل نہیں ہوتا ہے کہ وہ کروموس (Y) کو نر بنانے سے روک دے۔

اس طرح یہاں: آدمی کے منی نے سبقت کی اور کروموس (Y) کے ذریعہ غلبہ حاصل کیا تو بچہ اللہ کے حکم سے نر ہوا، اور یہ اس مسئلے کے نصف حصے کی دقیق تشریح ہے۔

اور بیٹی کے پائے جانے کی صورت میں معاملہ ذرا تفصیل طلب ہے:

حقیقت میں نیا تیار ہونے والا مادہ صرف کروموس (X) کے پائے جانے سے نہیں تیار ہوتا ہے، وہ تو مذکر میں بھی موجود ہوتا ہے جیسا کہ ہم نےابھی دیکھا،اور وہ سنڈروم ٹرنر(Turner syndrome) میں موجود ہوتا ہے جس کا جین (XO) ہے، اور صحیح معنوں میں عورت کے دونوں بیضوں کے غائب ہونے کی وجہ سے اس تیار ہونے والے کا شمار مؤنث میں نہیں ہوتا ہے بلکہ تانیث یعنی مادہ ہونے کے لیے دو شرطوں کا پایا جانا ضروری ہے:

پہلی شرط: کروموس (Y) کا غائب ہونا۔ دوسری شرط: عورت کی طرف سے آنے والے کروموس (X) کا پایا جانا، اور جب  یہ، کروموس (Y) کو پائے گا تو اس سے تیار ہونے والا نر ہوگا، اور جب  عورت کی طرف سے آنے والا یہ کروموس غائب ہو جائے تو مرد کی طرف سے آنے والا کروموس (X) خود ہی اکیلے مادہ بنانے کی طاقت نہیں رکھتا بلکہ اس کے لیے دو کروموس (XX) کا ہونا ضروری ہے اور ان میں سے ایک مرد کا ہوتا ہے اور دوسرا عورت کا ہوتا ہے اور پھر نیا تیار ہونے والا مادّہ مادَہ ہوگا، اس طرح یہاں اس کے مؤنث ہونے میں حقیقی کردار عورت کی طرف سے آنے والے کروموس (X) کا ہوتا ہے، اور یہ اس مسئلے کے دوسرے حصے کی تشریح ہے۔ اور اللہ ہی زیادہ علم رکھتا ہے۔

پھر انھوں نے یہ کہہ کر  قضیہ کو معلق کر دیا ہے کہ: ’’شاید کہ یہ مسئلہ ابھی رازہائے سر بستہ میں ہے جس کا انکشاف اور دریافت عنقریب آنے والے دنوں میں ہوگا۔‘‘(4)

اور دکتور محمد علی البار نے تو اس مسئلے میں توقف اختیار کیا ہے، وہ کہتے ہیں: ’’حیواناتِ منویہ  کے پروان چڑھنے کے متعلق مذکر یا مؤنث ہونے میں عورت کے پانی کی تاثیر کے بارے میں ابھی تک ہم نہیں جان سکے۔‘‘(5)

اس کے بعد آپ نے ذکر کیا ہے کہ اس مسئلے کے بیان و وضاحت کے لیے دقیق بحوث و ریسرچ کو اپنانے کی ضرورت ہے۔

مگر یہ کہ آپ نے کسی کہنے والے کا یہ قول نقل کیا ہے کہ: دونوں کے مادّۂ منویہ پر غلبہ و سبقت سے مراد مذکر و مؤنث کا ایک دوسرے پر غلبہ حاصل کرنا ہے، اور اس کی تردید نہیں کی ہے۔

مجلہ الفیصل کے شمارہ: (۱۵۷) میں نشر ہونے والے دکتور محی الدین عمر لبنیہ کے مقالہ بعنوان: (والمرأة أيضاً تحدد جنس الجنين) سے میری واقفیت ہوئی، جس میں وہ لکھتے ہیں:

’’ نیو یارک سٹی کے بروکلین منطقہ میں دو سو بارہ (۲۱۲) عورتوں کی ولادت کے احوال و معاملات کا جائزہ لینے اور جنین کے جنس کی تعیین میں خواتین کے بعض مخصوص عوامل کی تحدید اور اس کے نتائج کو جاننے کے لیے ڈاکٹر مینکوف (H.Minkoff) اور ان کے معاونین و عملہ پر مشتمل امریکہ کی ایک طبی ٹیم تشکیل دی گئی۔ اور ان عورتوں کے یہاں ایک سو سولہ (۱۱۶) نر اور چھیانوے (۹۶) مادہ کی پیدائش ہوئی تھی۔

ان سائنس دانوں نے دریافت کیا کہ: اندامِ نہانی و رحم کے مابین نالی میں پیدا ہونے والی سوزش و اشتعال اور مولود کی جنس کے درمیان ربط و تعلق پایا جاتا ہے۔ ان کی تحقیق کے مطابق جو خواتین غایت درجہ  اندام نہانی  کی سوزش و اشتعال سے دوچار ہوئیں ان کے یہاں بچی کی ولادت ہوئی۔ اور انھوں نے اس تحقیق کو مندرجہ ذیل طریقے سے بیان کیا ہے:

عورت کے دونوں انڈاشیوں میں سے کسی ایک سے ہر ماہ نزولِ بیضہ کے دوران اندامِ نہانی کی رطوبت کے حمضیات میں حد درجہ کمی پائی جاتی ہے۔ اور ایسا عادۃً دورہ شھریہ (M.C.) کے توقف کے چودھویں دن ہوتا ہے۔ اس دوران حمضیاتِ رطوبت عنقِ رحم کے خالی جگہ (جوف) میں منتہیٰ درجۂ حرارت کی شکل میں موجود ہوتے ہیں۔ اور اندامِ نہانی کی رطوبت کے درجۂ حمضیات مرد کے نطفہ کو محرک و فعال بنانے میں مساعد اور مؤثر ہوتے ہیں۔ پس اگر (PH) درجۂ حموضہ [7] سے کم ہے تو نطفے کو رحم تک لے جانے والے مذکر جرثوموں کا چانس بڑھ جاتا ہے۔ اور رحم کی نالی میں التھاب کا سبب اس میں مخصوص مائیکرو حیاتی کی نمو و زیادتی ہے، جس کی وجہ سے PH))درجۂ حموضیہ [7] سے بڑھ جاتی ہے اور بیضہ کی تخم ریزی کے لیے نطفے کو رحم تک لے جانے والے مؤنث جرثوموں کو موقع مل جاتا ہے۔

اسی طرح امریکی میڈیکل سائنس کی طبی ٹیم نے یہ تحقیق بھی پیش کی: مھبِل (رحم کی نالی) میں مضبوط و کثیر جرثوموں کا ظہور اور بے پناہ غیر مخصوص مھبلی التھاب سے دوچار 43% خواتین نے نر بچہ جنم دیا۔ اور جن خواتین میں حمضیات کی نسبت 60% پہنچ گئی انھوں نے بچی کو جنم دیا۔ قدرتی طور پر مائیکرو حیاتی نشاط سے حموضہ کی اقصیٰ حد (V, PH) ہوا کرتی ہے، جس میں عموماً طبعی تاثیر منعکس ہو جایا کرتی ہے۔ اور نر جنین کے لیے اقل درجۂ حموضہ (PH) ہے۔

اور اس سبب کی وضاحت ان سائنس دانوں نے اس طرح کی ہے: صفتِ انوثہ ( X)کے ساتھ خاص جنسی کروموسومز کو اٹھانے والے نطفے، مھبلی التهابات کے لیے ضرر تاثیرات کا بکثرت مقابلہ کرتے ہیں اور ایسی صورت میں درجہ حموضة غایت درجہ بڑھی ہوئی ہوتی ہے.

مھبِل میں موجود مائیکرو حیاتیات کی موجودگی جو مرد کے نطفوں کی دونوں نوعیتوں کے حرکت و نشاط پر حد درجہ مؤثر ہوتا ہے، انتہائی ضروری ہے کہ اس پر تحقیق  ودراسۃ ہو تاکہ جنسِ جنین میں خصوصیت کے ساتھ عورت کے کردار کی وضاحت ہوسکے۔‘‘(6) انتہیٰ

لیکن یہ ساری معلومات مھبِل کے خلاء (درمیانی جگہ) اور رطوبات سے متعلق ہیں، اور حدیث مذکر و مؤنث ہونے کو عورت کے زرد پانی کی طرف لوٹاتی ہے، اور عورت کے پانی کی صفت کے بیان میں یہ بات گزر چکی ہے کہ زرد پانی  ہی وہ پانی ہے جو بیضہ کا متحمل و کفیل ہوتا ہے۔

اسی لیے یہ مسئلہ مزید دقیق و عمیق تحقیق و دراسہ کی احتیاج مند ہے۔ اور حقیقی علم تو اللہ ہی کے پاس ہے۔

حوالہ جات:

________________________________________

(1)  صبي أم بنت؟ ص (82، 83).

(2)  الطب النبوي والعلم الحديث (3/347 – 349).

(3)  الإعجاز العلمي في القرآن ص (299، 302).

(4)  مجلة الفيصل – عدد 157 – رجب 1410هـ، ص (85).

(5)  خلق الإنسان بين الطب والقرآن ص (391).

(6)  القرار المكين ص (181).

أضف تعليق

كود امني
تحديث