باب: اعجاز نبوی

حلقہ (۱۵) مبحث پنجم: (ہر پانی سے بچہ نہیں پیدا ہوتا)

حدیث: ’’ہر پانی [منی کے قطرے] سے بچہ پیدا نہیں ہوتا، اور جب اللہ تعالیٰ کسی چیز کو پیدا کرنے کا ارادہ فرمالیتا ہے تو اسے کوئی چیز روک نہیں سکتی۔‘‘(*)

اس حدیث کی  تخریج مسلم(1) اور وہ اس حدیث کی تخریج میں ائمہ ستہ سے منفرد ہیں ،  ابن طھمان(2)، ابن المبارک(3)، طیالسی(4)، احمد(5)، ابو یعلیٰ(6)، طحاوی(7)، طبرانی(8)، ابن مندہ(9)، بیھقی(10) اور ابن عبدالبر(11) وغیرہ نے  عن ابی الوداک عن ابی سعید الخدری کے طریق سے کی ہے، ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ: اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم سے عزل کے متعلق سوال کیا گیا؟ تو آپ نے فرمایا: ’’ہر پانی سے بچہ نہیں ہوتا ہے۔۔۔۔۔‘‘ الحدیث(12) اور حدیث کے یہ الفاظ مسلم کے ہیں۔

استدلال:

اس حدیث سے دکتور محمد علی البار نے اپنی کتاب: ’’خلق الانسان۔۔۔‘‘(13) میں، دکتور حامد محمد حامد نے اپنی کتاب: ’’رحلۃ الایمان۔۔۔‘‘(14) میں، دکتور مارشال جونسون اور ان کے معاونین شیخ عبدالمجید زندانی اور مصطفیٰ احمد نے اپنے مقالے: ’’وصف التخلق البشری: مرحلۃ النطفۃ‘‘(15) میں، دکتور محمد فائز المط نے اپنی کتاب : ’’من معجزات الاسلام‘‘(16) میں، محمد کامل عبدالصمد نے اپنی کتاب: ’’الاعجاز العلمی فی الاسلام۔القرآن‘‘(17) میں، محمد سید ارناؤوط نے اپنی کتاب: ’’الإعجاز العلمی۔۔۔‘‘(18) میں، اور دکتور محمد عبداللہ الشرقاوی(19) نے استدلال کیا ہے۔ سبھوں نے اس حقیقت کو واضح کیا ہے کہ  میڈیکل سائنس کو اس کا دریافت بیسویں صدی عیسوی میں ہوا، وہ یہ کہ حیوانِ منوی ایک ہی ہوتا ہےجو کہ بیضہ کو بارآور(حمل  کاری) بناتا ہے تاکہ اس کے ذریعہ اللہ کے حکم سے جنین کی تخلیق ہو۔

اور اس کی تفصیلی تشریح و وضاحت دکتور عبد البار کی تشریح ہے، وہ کہتے ہیں:

’’یقیناً یہ حدیث مکمل اعجاز ہے، کوئی بھی شخص اس بات سے واقف نہیں تھا کہ منی کا معمولی حصہ ہی بچے کی تخلیق کا ذریعہ بنتا ہے، کوئی بھی شخص اس بات کا تصور نہیں کرتا تھا کہ منی کے ایک وقت کے اخراج  میں دو سو ملین سے لے کر تین سو ملین تک حیوانِ منوی ہوتے ہیں اور ان میں سے فقط ایک ہی حیوانِ منوی بیضہ کی حمل کاری کا ذریعہ بنتا ہے۔ ڈاکٹر لیزلی أری اپنی کتاب: (DEVELOPMENTAL ANATOMY) کے ساتویں ایڈیشن میں لکھتے ہیں:

پستان دار جانوروں کے طبی معائنہ سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ بیضہ کی حمل کاری کے لیے (منی کے ایک وقت کے اخراج میں سے) صرف ایک فیصد منی ہی کافی ہوتی ہے، جب کہ طبی اعتبار سے یہ بات طے ہے کہ ایک بار کے انزال میں تخم اور بارآوری کے لیے بیس ملین حیواناتِ منویہ ہوتے ہیں۔ اور اسی کے ساتھ ہی میڈیکل کی رو سے یہ بات طے ہے کہ بہت سے حمل بعض حالات میں اس سے کم مقدار میں ہوتے ہیں، جیسا کہ حیواناتِ منویہ کی ناقص مقدار براہ ِراست رحم (ARTIFICIAL INSEMINATION) میں انجکٹ کی جاتی ہے اور اس طریقے کو مصنوعی حمل کاری کا نام دیا جاتا ہے۔

اور حدیث اس بات میں واضح ہے کہ منی کے ہر قطرے سے بچہ نہیں ہوتا ہے بلکہ اس کے معمولی مقدار سے بچہ ہوتا ہے اور چودھ صدی پیشتر زندگی گزارنے والے لوگ اس حقیقت سے واقف تھے جب کہ جدید سائنس بیسویں صدی عیسوی میں اس سے واقف ہوئی ہے،  کیوں کہ اِس کا علم اُنھیں علیم و خبیر کی طرف سے ہوئی تھی۔‘‘

پھر کہتے ہیں: ’’حدیث کے اس مفہوم پر قرآن کریم کی یہ آیت بھی دلالت کرتی ہے:﴿ٱلَّذِيٓ أَحۡسَنَ كُلَّ شَيۡءٍ خَلَقَهُۥۖ وَبَدَأَ خَلۡقَ ٱلۡإِنسَٰنِ مِن طِينٖ ٧ ثُمَّ جَعَلَ نَسۡلَهُۥ مِن سُلَٰلَةٖ مِّن مَّآءٖ مَّهِينٖ ٨﴾ ترجمہ: جس نے نہایت خوب بنائی جو کچھ بھی بنائی اور انسان کی بناوٹ مٹی سے شروع کی۔ پھر اس کی نسل ایک بے وقعت پانی کے نچوڑ سے چلائی۔ [السجدہ: ۶۔۷]

مفسرین کا کہنا ہے: ’’سُلَٰلَة‘‘ خلاصہ(20) [نچوڑ] کو کہتے ہیں، اور بے وقعت پانی کے خلاصے ہی سے بچے کی تکوین ہوتی ہے، اس طرح کروڑوں ملین حیواناتِ منویہ میں سے ایک کو چننے کے لیے اس کا انتخاب در انتخاب ہوتا ہے، اُن حیواناتِ منویہ میں سے بیس فیصد تخم ریزی کے لائق نہیں ہوتے ہیں، پھر رحم کی نالی میں ان کی ایک بڑی تعداد مرجاتی ہے، پھر عنقِ رحم پر ایک بڑی تعداد مر جاتی ہے، پھر ان کا ایک مجموعہ رحم کے دائیں دیوار کی طرف جاتی ہے اور ایک دوسرا مجموعہ رحم کے بائیں دیوار کی طرف جاتی ہے، اور یہ نہیں معلوم ہوتا ہے کہ بیضہ کس طرف ہوتا ہے اس لیے ان کا جو مجموعہ بیضہ کے علاوہ مکان کی طرف جاتی ہے وہ ہلاک ہو جاتی ہے، اور پھر بیضہ کی طرف اس کے قریب صرف پانچ سو حیوانِ منوی ہوتے ہیں اور پھر یہاں بھی صرف ایک ہی حیوانِ منوی چننے کے لیےان سبھوں کے مابین انتخاب در انتخاب اور چناؤ ہوتا ہے تاکہ اس کے ذریعہ بیضہ کی تخم ریزی کی جائے۔

اسی طرح ایسے ہی خود بیضہ کے اندر بھی انتخاب در انتخاب ہوتا ہے،جب عورت کی بیضہ دانی میں بیضوں کی تعداد کئی ایک پہنچ جاتی ہے، اور وہ اپنی ماں کے پیٹ میں جنین کی شکل اختیار کرتا ہے جب کہ: عورت کے اندر اولین وہلہ میں چھ ملین بیضے پیدا ہوتے ہیں لیکن ان میں سے زیادہ تر دنیا میں خروج کرنے سے قبل ہی خشک و ہلاک اور فوت ہوجاتے ہیں، پھر وہ ناپید ہوتے رہتے ہیں یہاں تک کہ دوشیزہ ماہواری کی عمر کو پہنچ جاتی ہے تو صرف تیس ہزار انڈے بچتے ہیں، اور ہر مہینے ان بیضے کے مجموعے میں اضافہ ہوتا رہتا ہے لیکن اضافہ کی تکمیل صرف ایک ہی تک محدود رہتی ہے، اور شادی شدہ عورت کی زندگی میں عورت کے انڈوں کی تعداد چار سو سے زائد نہیں ہوتی ہے۔

اس طرح وہاں  حیوانِ منوی کے لیے انتخاب در انتخاب ہوتا ہے اور یہاں بیضہ کے لیے بھی انتخاب در انتخاب ہوتا ہے۔ ہاں جدید میڈیکل ریسرچ (مجلة: MEDICINE DIGEST، شمارہ: جنوری 1981ء) بھی یہی کہتی ہیں کہ: حمل کے تمام معاملات میں اٹہتر فیصد طبعی طور پر ساقط ہو جاتے ہیں اور پچاس فیصد حمل اس طرح ساقط ہو جاتا ہے کہ ماں کو معلوم ہی نہیں ہوتا کہ وہ حاملہ ہوئی تھی، کیوں کہ رحم براہِ راست حاملہ ہونے کے بعد ’’بیکٹیریل بال‘‘ کو باہر پھینک دیتا ہے، اور ماں کا خیال ہوتا ہے کہ جو خون حیض کے مقررہ مدت میں یا اس کے کچھ بعد آیا ہے یہ وہی حیض کا خون ہے جس کی وہ منتظر تھی اور اسے یہ نہیں معلوم ہوتا ہے کہ یہ ساقط ہونے والا خون ہے۔

اس طرح حیوانِ منوی اور بیضہ دونوں میں سے صرف ایک ایک چننے کے لیے انتخاب در انتخاب ہوتا ہے۔

اللہ تعالیٰ نے کیا ہی سچ فرمایا ہے: ﴿ثُمَّ جَعَلَ نَسۡلَهُۥ مِن سُلَٰلَةٖ مِّن مَّآءٖ مَّهِينٖ ٨﴾ ترجمہ: پھر اس کی نسل ایک بے وقعت پانی کے نچوڑ سے چلائی۔ [السجدہ: ۷]

اور رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے کیا ہی سچ فرمایا ہے: ’’ہر پانی سے بچہ نہیں ہوتا ہے‘‘۔(21)

تعلیق و جائزہ:

دکتور البار نے اس کی نہایت عمدہ و واضح تشریح کی ہے مگر انھوں نے صرف ایک ہی قضیے پر اپنی توجہ مرکوز رکھی ہے جس کا تعلق مرد کے پانی سے ہے، اور وہ قضیہ یہ ہے: ہر ایک حیواناتِ منویہ سے تخم و حمل کاری نہیں ہوتی ہے، اور اس موضوع پر بحث و گفتگو کرنے والوں  نے اکثریت نے انہی کی پیروی کی ہے۔

درحقیقت اس مرحلہ سے پہلے ایک دوسرا مرحلہ ہے وہ یہ کہ مرد کا پانی (منی) حیواناتِ منویہ اور اس پانی پر مشتمل ہوتا ہے جس میں وہ حیواناتِ منویہ تیرتے ہیں اور غذا حاصل کرتے ہیں، اور اس پانی کا نسبۃ مئویۃ (1/2– 1%) ہوتا ہے، اور حدیث میں وارد : ’’ما من كل الماء يكون الولد‘‘ کا مصداق بھی یہی ہے۔

اور اس مرحلہ کی جانب انھوں نے اپنی کتاب: ’’خلق الانسان۔۔۔‘‘ کے اندر اپنے اس بیان سے پہلے والے بیان میں ہلکا سا اشارہ کیا ہے اور اس کی مختصر : ’’الوجیز فی العلم الأجنۃ القرآنیۃ‘‘ میں اس کا ذکر کیا ہے۔ ایسے ہی دکتور مارشال جونسون اور ان کے معاونین نے اس کا ذکر کیا ہے، اور اسی پر دکتور حامد محمد حامد نے اقتصار کیا ہے اور اس کی مختصر تشریح دکتور محمد عبداللہ الشرقاوی نے کی ہے۔

حوالہ جات و حواشی:

________________________________________

(*)  خلق الإنسان بين الطب والقرآن، ص (111) وفي مواضع أخرى تأتي عند الاستدلال.

(1)  صحيح مسلم – كتاب النكاح – باب حكم العزل (2/1064ح 1438، 133).

(2)  مشيخة ابن طهمان (ص 151ح 94).

(3)  مسند عبدالله بن المبارك (ص 110، 111ح 186).

(4)  مسند الطيالسي (ص288، 289 ح 2175).

(5)  المسند (3/47، 49، 59، 82، 93).

(6)  مسند أبي يعلى (2/384ح 1153).

(7)  شرح معاني الآثار (3/33، 34).

(8)  المعجم الأوسط (2/96ح 1186).

(9)  التوحيد (2/114، 183ح 258، 330).

(10)  السنن الكبرى (7/229)، والأسماء والصفات (ص 140، 141).

(11)  التمهيد (3/140).

(12)  پہلی سطر کو چھوڑ کر ابو سعید سے اس حدیث کے اور بھی طرق ہیں، عنقریب ہی اس مبحث کے بعد آنے والے مبحث: (موانع حمل کا دائرۂ اثر) میں اس کی تخریج آرہی ہے۔

(13)  خلق الإنسان بين الطب والقرآن ص (111، 112، 386، 388، 521) اور ایک دوسری جگہ میں لیکن دوسری سطر میں عزل کے بیان کے مقام پر، والوجيز في علم الأجنة القرآني ص (14، 15)، اور اسے اپنی کتاب: (هل هناك طب نبوي) کے ص (123) پر نقل کیا ہے.

(14)  رحلة الإيمان في جسم الإنسان ص (51).

(15)  مقالہ بعنوان: (وصف التخلق البشري، مرحلة النطفة)، مطبوع في كتاب: علم الأجنة في ضوء القرآن والسنة، ص (40).

(16)  من معجزات الإسلام، ص (91).

(17)  الإعجاز العلمي في الإسلام – القرآن – ص (180)، ناقلاً عن الدكتور البار.

(18)  الإعجاز العلمي في القرآن الكريم، ص (309).

(19)  مجلة الجندي المسلم، العدد (35)، ص (33) میں شائع شدہ  مقالہ.

(20)  اس تفسیر کو میں نے سوائے آلوسی کے اور کسی کے یہاں نہیں پایا، آلوسی کہتے ہیں: "والسلالة: من سللت الشيء، إذا استخرجته منه، فهي ما سل من الشيء، واستخرج منه؛ فإن (فُعالة) اسم لما يحصل من الفعل، فتارة تكون مقصودة منه كالخلاصة، وأخرى غير مقصودة منه كالقلامة، والكناسة، والسلالة من قبيل الأول فإنها مقصودة بالسل". اهـ.  روح المعاني (18/13)، وانظر (21/124).

(21)  خلق الإنسان...، ص (386 – 388).  

أضف تعليق

كود امني
تحديث