باب: اعجاز نبویﷺ

حلقہ (16)  مبحث ششم: موانع حمل کا دائرۂ اثر  [1 ـ 3]

(الف) حدیث : ’’إذا أراد الله خلق شيء ، لم يمنعه شيء‘‘ ترجمہ: ’’جب اللہ تعالیٰ کسی چیز کو پیدا کرنے کا ارادہ فرمالیتا ہے تو اسے کوئی چیز روک نہیں سکتی۔‘‘(*)

(ب) حدیث : ’’ما عليكم أن لا تفعلوا ، ما من نسمة كائنة إلى يوم القيامة إلا وهي كائنة‘‘ ترجمہ: ’’اس بات کا تم پر کوئی حرج نہیں کہ تم (ایسا) نہ کرو، اس لیے کہ قیامت تک جو روح بھی پیدا ہونے والی ہے وہ (اپنے وقت پر) پیدا ہو کر رہے گی۔‘‘(**)

ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث کی یہ دو عبارتیں ہیں:

پہلی عبارت اُس حدیث کا دوسرا حصہ ہے جسے ابو الوَدَّاک نے ابو سعید رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے، اور اس کی تخریج پہلے ہی گزر چکی ہے۔(1)

اور رہی دوسری عبارت تو ابو سعید سے یہ کئی طرق سے مروی ہے، ان میں سے کچھ یہ ہیں:

پہلا طریق : ابن محیریز : اس کی تخریج بخاری(2)، مسلم(3)، ابوداؤد(4)، مالک(5)، ابن ابی شیبہ(6)، احمد(7)، نسائی (سنن کبریٰ میں)(8)، ابو یعلیٰ(9)، اور طحاوی(10) وغیرہ نے اسی طریق سے اسی طرح کی ہے، اور بعض محدثین کے یہاں معمولی فرق بھی پایا جاتا ہے۔

دوسرا طریق : قزعہ بن یحی : اس کی تخریج مسلم(11)، ابوداؤد(12)، ترمذی(13)، حمیدی(14) اور نسائی (سنن کبریٰ میں)(15) وغیرہ نے ’’سفیان بن عیینہ عن ابی نجیح عن مجاھد عن ابی سعید‘‘ کے طریق سے اسی طرح  کی ہے۔ اور بخاری (16)نے اسے مجاہد سے معلقاً روایت کیا ہے۔

امام ترمذی کہتے ہیں: ’’ابو سعید رضی اللہ عنہ کی حدیث حسن صحیح ہے، اور یہ اس طریق کے علاوہ اور بھی طریق سے ابو سعید رضی اللہ عنہ سے مروی ہے۔ اور نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے اصحاب میں سے اہل علم کی ایک جماعت نے عزل کو مکروہ قرار دیا ہے۔‘‘

تیسرا طریق : عبدالرحمٰن بن بشر بن مسعود :اس کی تخریج مسلم(17)، نسائی(18)، احمد(19) اور دارمی(20) وغیرہ نے  انھیں سے محمد بن سیرین کے طریق سے روایت کیا ہے۔ اور اس حدیث کے الفاظ یہ ہیں : ’’لا عليكم أن لا تفعلوا ذاكم؛ فإنما هو القدر‘‘ ترجمہ: ’’تمھیں اس بات کا کوئی نقصان نہیں کہ تم یہ کام نہ کرو، یہ تو صرف تقدیر (کا معاملہ) ہے۔‘‘ یہ مسلم کے الفاظ ہیں۔

چوتھا طریق : معبد بن سیرین : اس کی تخریج مسلم(21)، ابن طہمان(22)، ابن الجعد(23)، احمد(24)  اور ابو یعلیٰ(25) وغیرہ نے انھیں کے طریق سے عبدالرحمٰن بن بشر والی روایت کے الفاظ کی طرح  کی ہے۔

(ج) دکتور محمد علی البار کہتے ہیں : ’’صحیحین میں جابر رضی اللہ عنہ سے متفق علیہ روایت ہے، وہ کہتے ہیں: ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے دور میں عزل کرتے تھے، ایک آدمی رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس آیا اور عرض کیا: ’’إن لي جارية خادمتنا و [ساقيتنا] (26) – وفي رواية: سانيتنا ، وهو بنفس المعنى – وأنا أطوف عليها ، وأكره أن تحمل‘‘ ’’میری ایک لونڈی ہے وہی ہماری خادمہ ہے اور وہی ہمارے لیے پانی لانے والی بھی ہے ،۔اور ایک روایت میں (سانیتنا) کال لفظ ہے جس  کابھی معنی پانی پلانے والی ہے۔اور میں اس سے مجامعت بھی کرتا ہوں، اور میں ناپسند کرتا ہوں کہ وہ حاملہ ہو۔ تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: ’’اعزل عنها إن شئت، فإنه سيأتيها ما قدر لها‘‘ ’’اگر تم چاہو تو اس سے عزل کر لیا کرو، (لیکن) یہ بات یقینی ہے کہ جو بچہ اس کے لیے مقدر میں لکھا گیا ہے وہ آکر رہے گا۔‘‘ وہ شخص چند دن رکا  رہا، پھر آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا : بے شک وہ لونڈی حاملہ ہو گئی ہے۔ تو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: ’’قد قلت : سيأتيها ما قدر لها‘‘ ’’میں نے تمھیں بتا دیا تھا کہ جو اس کے لیے مقدر کیا گیا ہے وہ آکر رہے گا۔‘‘(***)

(د) حدیث : ’’إن الله إذا أراد أن يخلقه [فلم] (27) يمنعه‘‘ ترجمہ: ’’جب اللہ کسی کو پیدا فرمانے کا ارادہ فرما لیتا ہے تو اسے کوئی روک نہیں سکتا۔ ‘‘

حدیث کے جس متن کو دکتور البار نے پیش کیا ہے وہ جابر رضی اللہ عنہ کی دو حدیثیں ہیں، لیکن اگر سائل کا نام حذف کردیا جائے تو دونوں حدیثیں ایک ہی ہوں گی، اس کی تفصیل حسب ذیل ہے:

دونوں میں سے پہلی حدیث : جابر رضی اللہ عنہ کا یہ فرمان : (ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے دور میں عزل کرتے تھے۔) متفق علیہ(28) ہے۔

دوسری حدیث : جابر رضی اللہ عنہ کا کہنا : (ایک آدمی رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس آیا۔۔۔) مکمل حدیث۔۔۔۔ اور یہی محل استدلال ہے۔ اور یہ حدیث جابر رضی اللہ عنہ سے کئی طرق سے مروی ہے، اس کا تذکرہ اور اس پر بحث و گفتگو آنے والے حلقہ میں پیش کی جائے گی۔

 

حوالہ جات و حواشی :


(*) - خلق الإنسان بين الطب والقرآن، ص (388) اور دیگر مقامات پر جو آگے آرہی ہے.

(**) - العلم الحديث حجة للإنسان أم عليه (2/137) اور ان کے یہاں حرف (لا)  ساقط ہو گیا ہے.

(1) دیکھئے: اس سے پہلے کا مبحث، مبحث چہارم: (ہر پانی سے بچہ نہیں پیدا ہوتا).

(2) -صحيح البخاري – كتاب البيوع – باب بيع الرقيق (4/420ح 2229)، وكتاب العتق – باب من ملك من العرب رقيقاً فوهب وباع وجامع (5/170ح 2542)، وكتاب المغازي – باب غزوة بني المصطلق.. (7/428، 429ح 4138)، وكتاب النكاح – باب العزل (9/305ح 5210)، وكتاب القدر – باب وكان أمر الله قدراً مقدور (11/494ح 6603)، وكتاب= =التوحيد – باب قول الله تعالى: ( هو الله الخالق البارئ المصور له الأسماء الحسنى يسبح له ما في السماوات والأرض وهو العزيز الحكيم ) [الحشر: 24] (13/390ح7409).

(3) - صحيح مسلم – كتاب النكاح – باب العزل (2/1061، 1062ح1438).

(4) - سنن أبي داود كتاب النكاح – باب ما جاء في العزل (2/624ح2172).

(5) - الموطأ (2/594ح95).

(6) - مصنف ابن أبي شيبة (4/2/222).

(7) - المسند (3/68، 88).

(8) - السنن الكبرى – عشرة النساء – (ص175– 177ح 202–204).

(9) - مسند أبي يعلى (2/429ح 1230).

(10) - شرح معاني الآثار (3/33).

(11) - صحيح مسلم (2/1063ح (....) /132).

(12) - سنن أبي داود (2/623ح2170).

(13) - سنن الترمذي – كتاب النكاح – باب ما جاء في كراهية العزل (3/444ح 1138).

(14) - مسند الحميدي (2/330ح 747).

(15) -  السنن الكبرى – عشرة النساء – (ص177ح205).

(16) - صحيح البخاري – كتاب التوحيد – باب قول الله تعالى: ( هو الله الخالق البارئ المصور له الأسماء الحسنى يسبح له ما في السماوات والأرض وهو العزيز الحكيم ) [الحشر:24]= =(13/391).

(17) - صحيح مسلم (2/1062، 1063ح (...) /130، 131).

(18) - سنن النسائي – كتاب النكاح – باب العزل (6/107، 108ح 3327).

(19) - المسند (3/11).

(20) - سنن الدارمي (2/148).

(21) - صحيح مسلم (2/1062، 1063ح (....) /128، (....)).

(22) - مشيخة إبراهيم بن طهمان (ص111ح56).

(23) - مسند ابن الجعد (1/554ح1188).

(24) - المسند (3/22، 49، 68، 72).

(25) - مسند أبي يعلى (2/479ح 1306).

(26)یہ لفظ روایت میں وارد نہیں ہوئی ہے.

(***) - خلق الإنسان بين الطب والقرآن (ص388، 389).          

(27) عنقریب ہی اس لفظ کے متعلق گفتگو ہوگی.

(****) مقالہ : (الجوانب الطبية للعزل، في الفقه الإسلامي) الدكتور/ سعيد محمود يان العوضي، أبحاث وأعمال= المؤتمر العالمي الأول عن الطب الإسلامي. (ص442)، الكويت – ربيع الأول عام 1401هـ.

(28) - صحيح البخاري – كتاب النكاح – باب العزل – (9/305ح 5207 – 5209)، وصحيح مسلم: كتاب النكاح – باب حكم العزل – (2/1065ح1440) دونوں نے ’’عطاء بن أبي رباح، عنه‘‘ کے طریق سے روایت کی ہے۔ اور اس کے بعض طرق میں دونوں کے یہاں یہ الفاظ آئے ہیں : ’’والقرآن ينزل‘‘ ’’اور قرآن نازل ہو رہا تھا‘‘، اور صرف مسلم کے یہاں ابو الزبیر عن جابر کے طریق سے یہ زیادتی ہے: ’’فبلغ ذلك النبي صلى الله عليه وسلم فلم ينهنا‘‘ ’’اور یہ بات نبی صلی اللہ علیہ و سلم کو پہنچی اور آپ نے ہمیں منع نہیں فرمایا‘‘۔

أضف تعليق

كود امني
تحديث