حلقہ (۱)

وہ احادیث نبویہ جن سے فلک ، زمین اور انسان  کے بارے میں سائنسی اعجاز پر استدلال کیا گیا ہے

إن الحمد لله، نحمده، ونستعينه، ونستغفره، ونعوذ بالله من شرور أنفسنا ومن سيئات أعمالنا، من يهده الله فلا مضل له، ومن يضلل فلا هادي له، وأشهد أن لا إله إلا الله وحده لا شريك له، وأشهد أن محمداً عبده ورسوله.

تمام تعریفیں  اللہ تعالی کے لئے ہیں ، ہم اس کی حمد و ثنا بیان کرتے ہیں ، اسی سے مدد مانگتے ہیں ، اور اسی سے استغفار کر تے اور بخشش طلب کر تے ہیں ، اور ہم اللہ تعالی سے اپنے نفسوں کے شر اور اپنے  اعمال کی برائیوں سے پناہ مانگتے ہیں ،  جس کو اللہ تعالی ہدایت دیدے اسے کوئی گمراہ کرنے والا نہیں ، اور جس کو اللہ تعالی گمراہ کر دے اسے کوئی ہدایت دینے والا نہیں ، اور میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کو ئی  معبود برحق نہیں،  وہ اکیلا ہے،  اس کا کوئی شریک و ساجھی  ہے ، اور میں گواہی دیتا ہو ں کہ  محمدﷺ  اس کے بندے اور رسول ہیں ۔

(يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ حَقَّ تُقَاتِهِ وَلا تَمُوتُنَّ إِلاَّ وَأَنْتُمْ مُسْلِمُونَ) [آل عمران:102]. "اے ایمان والو! اللہ تعالیٰ سے اتنا ڈرو جتنا اس سے ڈرنا چاہئیے اور دیکھو مرتے دم تک مسلمان ہی رہنا۔"

(يَا أَيُّهَا النَّاسُ اتَّقُوا رَبَّكُمْ الَّذِي خَلَقَكُمْ مِنْ نَفْسٍ وَاحِدَةٍ وَخَلَقَ مِنْهَا زَوْجَهَا وَبَثَّ مِنْهُمَا رِجَالاً كَثِيراً وَنِسَاءً وَاتَّقُوا اللَّهَ الَّذِي تَتَسَاءَلُونَ بِهِ وَالأَرْحَامَ إِنَّ اللَّهَ كَانَ عَلَيْكُمْ رَقِيباً) [النساء: 1].

 "اے لوگو! اپنے پروردگار سے ڈرو، جس نے تمہیں ایک جان سے پیدا کیا اور اسی سے اس کی بیوی کو پیدا کرکے ان دونوں سے بہت سے مرد اور عورتیں پھیلا دیں، اس اللہ سے ڈرو جس کے نام پر ایک دوسرے سے مانگتے ہو اور رشتے ناطے توڑنے سے بھی بچو ،بے شک اللہ تعالیٰ تم پر نگہبان ہے."(يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ وَقُولُوا قَوْلاً سَدِيداً (70) يُصْلِحْ لَكُمْ أَعْمَالَكُمْ وَيَغْفِرْ لَكُمْ ذُنُوبَكُمْ وَمَنْ يُطِعْ اللَّهَ وَرَسُولَهُ فَقَدْ فَازَ فَوْزاً عَظِيما) [الأحزاب: 70 – 71].

"اے ایمان والو! اللہ تعالیٰ سے ڈرو اور سیدھی سیدھی (سچی) باتیں کیا کرو، تاکہ اللہ تعالیٰ تمہارے کام سنوار دے اور تمہارے گناه معاف فرما دے، اور جو بھی اللہ اور اس کے رسول کی تابعداری کرے گا اس نے بڑی مراد پالی."

درود و سلام کے بعد :

موجودہ دور میں قرآن کریم اور سنت نبوی میں سائنسی اعجاز کے متعلق  بہت گفتگو کی جارى ہیں  ، اس کے متعلق  متعدد کتابیں  ، ان گنت مقالے اور بحثیں لکھی جارہی ہیں ،    متعددتقریریں کى جا رہى ہیں ،  مختلف مجلسیں اور کانفرسیں منعقد کی جارہی ہیں ،  جن میں آ پ – صلی اللہ علیہ وسلم ‑  کی متعدد مرفوع  حدیثوں سے استدلال  کياجاتاہے ، ان میں سے کچھ صحیح ہوتی ہیں اور کچھ غیر صحیح ۔

بعد ازاں ، اللہ تعالی نے  میرے اوپر احسان و کرم کرتے ہوئے  مجھے جامعہ اسلامیہ (مدینہ منورہ) کے شعبۂ حدیث میں اعلی تعلیم حاصل کرنے  کا موقع عنایت فرمایا ،  تو میں نےحدیث نبوی شریف کی خدمت کرنے کو اپنی  ذمہ داری سمجھا ، لهذا میں نے، اپنے دیگرساتھیوں کی طرح،  اللہ کے رسول – صلی اللہ علیہ وسلم – کے اس قول کہ :«الدين النصيحة: لله، ولكتابه، ولرسوله، ولأئمة المسلمين، وعامتهم»(2).

"یقیناً دین خیر خواہی کا نام ہے: اللہ کے لئے، اس کی کتاب کے لئے، اس کے رسول کے لئے، مسلمانوں کے حاکموں اور ان کے عام لوگوں کے لئے."

 پر عمل کرتے ہوئے  اس مقدس کا م کو کرنے کا بیڑہ اٹھایا  ، جس کی ادنی سی جھلک  آپ کے سامنے ہے ۔  چنانچہ  میں نے ان حدیثوں کی چھان بین کرنا شروع کر دیا  جن سے  فلک ، زمین اور انسان  کے متعلق سائنسی  اعجاز کا استدلال کیا گیا ہے ، میں نے  ان  مختلف کتابوں ، مختلف بحثوں ، مختلف  مجلوں ،  متعددکانفرسوں ، اور تقرىروں سے  حتی الامکان  جانکاری اور واقفیت حاصل کرنے کی کوشش کی، پھر میں  نے اس کو کانٹ چھانٹ کر کے   اس کو  مناسب ابواب اور مباحث میں ترتیب دیا ، اور اس کی مکمل  تخریج  کی ، پھر  حدیث سے استدلال کئے گئے مسئلہ کو ذکر کیا ، ساتھ ہی ساتھ اس کے وجہ استدلال کو بھی بیان کردیا ، پھر اس کے بعد  اس مسئلہ پر اپنی طرف سے مناسب تعلیق چڑھایا اگر وہا  ں پر تعلیق چڑھانا مناسب تھا ۔

اس بحث میں میرا  " انسان " سے مراد : انسان اور اس کے جسم کے  اعضاء کی  تخلیق ہے،  لهذا میں  نے اس (بحث)میں  نہ ہی روح ، اور نہ ہی  معنویات ،  اور نہ ہی طبی علاج کی حدیثوں  ،  اور نہ ہی تحفظاتی  طریقوں ، اور نہ ہی   نفسیاتی  بچاؤ کے طریقوں کا   تذ کرہ  کیا ہے ۔

"زمین"سے میری مراد: زمین ، اس کے ترکیب اوراس کے اجرام  ہیں ، لهذا میں نے  اس  میں پائے جانے والے   مختلف نباتات اور  حیوانوں  کا میں نے      ذکر نہیں چھیڑا ہے .

اور "فلک"سے میرا مطلب: فلک اور اس سے متعلق  علوی اجرام ، اس کی شکلیں ، اس کی  مختلف حالتیں اور اس کی دوری ہے،جیسا کہ علما ء  نےکہا  ہے اور اسى کو   اپنی بحث کا موضوع بنا یا ہے . (۳)

موضوع کی اہمیت :

یہ موضوع   میرے نزدیک کافی اہمیت کا حامل ہے ،  اس کے چند وجوہا ت ہیں :

۱- میرے علم کے حساب سے ، یہ اپنے  باب میں  سب سے پہلا ہے ۔

۲- یہ سنت کی خدمت اور اس كے دفاع   کےتحت آتا ہے ، کیونکہ سائنسی اعجاز   کے موضوع پر لکھنے والے  اور اس  کے متعلق گفتگو کرنے والے اکثر  لوگوں   کی کتابوں   کے تتبع اور واقفیت سے یہ بات ظاہر ہو تی ہے کہ  ان کے یہاں سنت (حدیث) کی کتابوں کی درایت اور سوجھ بوجھ نہیں ہے ،  اوران کے اندرصحيح اور غير صحيح احاديث کے مابين تميز كرنے كى صلاحيت نہیں ہے،جس کہ وجہ سے وہ ضعیف اور موضوع حدیثوں  سے  استدلال اور استنباط کرنے کے محذور میں پڑگئے،پھر وہ   لوگ انہی حدیثوں سے سنت نبوی کےسائنسی اعجاز کو ثابت کرتے ہیں۔

۳۔ سنت کے سائنسی  اعجاز کے متعلق   کچھ لکھنے والے اور گفتگو کرنے والے   حدیث کے  الفاظ میں سے کسی ایک لفظ سے استدلال کرتے   ہیں ،  جبکہ دوسرے اور (لفظ) اس سے زیادہ    اولی  ہوتے ہیں ، تخریج (حدیث ) کی درایت اور  علم نہ ہو نے کی وجہ سے  ، جو پا جاتے ہیں اسی پر اکتفا کرتے ہیں ، جبکہ یہ بحث   استدلال کئے گئے متعدد  حدیثوں کے الفاظ   کی وضاحت اور شرح کرتا ہے ،  تاکہ سنت اور   اس کے  علاوہ دیگر موضوع  کے متعلق سائنسی  اعجاز  پر ریسرچ کرنے والے اس سے استفادہ کر سکیں ۔

۴۔ جس حدیث سے مسئلہ کا استنباط کیا گیا ہے اگر وہ حدیث صحیح ہے ، اور اس سے استدلال کرنے کا طریقہ بھی مناسب اور عمدہ ہے ، تو یہ نبوت  کی وہ دلائل ہیں  جن سے مومن کے ایمان میں اضافہ اور پختگی ہوتی ہے ،  اور معاند ملحد  ساکت اور لا جواب ہو جاتا ہے ۔

اسی  اہمیت کے پیش نظر میں  نے اس موضوع کاانتخاب کیا ہے  ،  مزید اینکہ :

-        اس میں میرے لئے حدیث کے سب سے  اہم علم کی مشق ہے ، بلکہ یہ حدیث  کے تمام  علوم کا مجموعہ ہے ،  اور وہ ہے علم تخریج ۔

-        اس  کےذریعہ میں کچھ حد تک  جدید  علوم سے مطلع اور باخبر  ہو جا ؤ نگا ،  اسی طرح سے   میں   نے مرحلہ ثانویہ میں  سائنس کے شعبہ میں  جو کچھ پڑھا تھا اس  کا بھی  اعادہ ہو جائے گا ۔

-        تحقیق کا یہ طریقہ –  یعنی  قرآ ن و حدیث کے متعلق  سائنسی  اعجاز  کی بحث و تحقیق  -دعوت الی اللہ کے میدان میں  بہت ہی اہمیت کا حامل ہے ، خاص طور سے ایمان کی تقویت اور مضبوطی کے لئے ، اور خاص طور سے ایک ایسے  زمانہ میں ، جس میں مسلم نوجوان   جدید سائنس اور اس کی (جدید) اختراعات اور ایجادات  سے  مبہوت اور اس  کا گرویدہ ہو چکا ہے ،  اس لئے اس طرز  یا نوع کی بحث و تحقیق  ان نوجوانوں کو  قانع بنائے گا ، اور ان کے دلوں میں اپنے دین اور اپنے نبی کی سنت  کے تئیں اعتماد اور بھروسہ کو  بحال کرے گا۔

بلکہ اس قسم  کی تحقیق   ، کافروں اور ان کے علماء کی عقلوں کو اسلام کی جانب   دعوت دینے کا ایک اچھا اور ٹھوس  راستہ ہے ، کیونکہ وہ لوگ، اپنے جنس ، دین اور وطن کےمختلف ہونے کے باوجود، سائنس اور اس کی  دلیلوں اور اس کی  وضاحتو ں کو ماننے اور تسلیم کرنے کی  طرح کسی اورچیز  کو تسلیم نہیں کرتے ہیں۔

جب وہ کبھی مخلوق کے اسرار و  رموز میں سے کسی چیز کا انکشاف کرتے ہیں ، یا کسی نتیجہ  تک پہنچتے ہیں ، جس  نتیجہ یا تحقیق تک پہنچنا  جدید اور نئے نئے  طرز کے  آلات اور مشینوں کے سہارے ہی ممکن ہوا ہے، جو آج کے اس دور ہی میں دستیاب ہوئی ہیں،  پھر وہ لاکھوں  انسانوں میں سے صرف ایک شخص کو پاتے ہیں ، جو اس نتیجہ اور حقیقت  کی خبر  چودہ سوسال پہلے  ہی دے چکا ہے ، حالانکہ اس کے پاس ان آ لات اور مشینوں میں سے کوئی چیزنہ تھی ، جوآ ج  سائنسدانوں کے پاس ہیں۔  مزید اینکہ وہ شخص ان پڑھ تھا، لکھنا پڑھنا  نہیں جانتا تھا ؛  تو بلا شبہ وہ لوگ  اس کو تسلیم کریں گے  ، اور اس کا اعتراف اور اقرار کریں گے کہ  یہ باتیں تو کسی  انسان کی نہیں ہو سکتی  ہیں ،  اور یہ  چیز موجودہ  دور کے متعدد علم کے  اساطین   کے ساتھ واقع ہو چکا ہے ، انھوں نے اس  کا خود اقرار کیااور فیصلہ دیا ہےکہ قرآ ن و حدیث میں   بہت سارے امور کے بارے میں وارد اسرار و رموز  صرف اور صرف وحی ہوسکتے ہیں ،  اوربحمد اللہ ان میں سے کچھ لوگوں نے اسلام بھی قبول کیا ہے۔(۵)

اس لئے میرے لئے ضروری تھا کہ میں دعوت الی اللہ کے پہلؤوںمیں سے اس پہلو کی خدمت میں حصہ لوں ، اور یہ   ان حدیثوں کے دراسہ اور تحقیق کے ذریعہ ہی ممکن ہے  جن  کے ذریعہ سائنسی  اعجاز  کے موضوع پر  استدلال کیا گیاہے،  نیز ان میں سے صحیح اور ضعیف کے درمیان  فرق  واضح کروں۔

-        میں چاہتا ہوں کہ حدیث نبوی کے ماہرین کی توجہ حدیث نبوی کے دراسہ کے اس طرز کی طرف مبذول  کراؤں ، تاکہ یہ بات ان کی جانکاری میں رہے ،  چنانچہ وہ  سنت نبوی سے کھلواڑ کرنے والوں اور اس کی  اچھی طرح سے  سمجھ نہ رکھنے والوں کا رد کر سکیں ۔ 

-        یہ سائنسی اعجاز کا اہتمام  کرنے والے لوگوں کے مسار (طرز)  کو درست  کرنے کے راستہ میں ایک ادنی سی کوشش ہے  ۔

عمومی طور پر اس موضوع کا انتخاب  کرنے کےیہی اسباب ہیں۔

البتہ رہی بات فلک، زمین اور انسان کی تخلیق  اور اس کے جسم کی ترکیب سے متعلق ان احادیث کو جمع کرنے کی، جن کے ذریعہ ان تینوں امور   میں سائنسی  اعجاز پر استدلال کیاگیا ہے، تویہ ان کی اہمیت کے پیش نظر ہے،  کیونکہ یہ اللہ تعالی کی قدرت  پر دلالت کرنے والی سب سے بڑی نشانیوں میں سے ہیں ، اوریہ قرآ ن کریم کی آ یتوں کےایک بڑے حصہ پر محیط  ہے ،اور ان کے اندر ان کے خالق پر دلالت کرنے والی اتنی نشانیاں ہیں جنہیں  صرف وہی (خالق)شمار کر سکتا ہے ۔

اللہ تعالی کا فرمان ہے : (سَنُرِيهِمْ آيَاتِنَا فِي الآفَاقِ وَفِي أَنْفُسِهِمْ حَتَّى يَتَبَيَّنَ لَهُمْ أَنَّهُ الحقّ) [فصلت:53].

"عنقریب ہم انہیں اپنی نشانیاں آفاق عالم میں بھی دکھائیں گے اور خود ان کی اپنی ذات میں بھی یہاں تک کہ ان پر کھل جائے کہ حق یہی ہے۔"

اللہ تعالی نےانسان کو اپنی مخلوقات کے بارے میں غور و فکر کرنے  کی ہدایت دی ہے ، اور انہی میں سےخود انسان ، زمین اور فلک  ہیں۔

اللہ تعالی کا فرمان ہے : (فَلْيَنظُرْ الإِنسَانُ مِمَّ خُلِقَ) [الطارق: 5].

"انسان کو دیکھنا چاہيے کہ وه کس چیز سے پیدا کیا گیا ہے۔"

نیزاللہ تعالی کا فرمان ہے : (وَفِي الأَرْضِ آيَاتٌ لِلْمُوقِنِينَ (20) وَفِي أَنفُسِكُمْ أَفَلا تُبْصِرُونَ) [الذاريات: 20-21].

"اور یقین والوں کے لئے تو زمین میں بہت سی نشانیاں ہیں ۔ اور خود تمہاری ذات میں بھی، تو کیا تم دیکھتے نہیں ہو۔"

 نیزاللہ تعالی کا فرمان ہے : : (أَفَلَمْ يَنْظُرُوا إِلَى السَّمَاءِ فَوْقَهُمْ كَيْفَ بَنَيْنَاهَا وَزَيَّنَّاهَا وَمَا لَهَا مِنْ فُرُوجٍ (6) وَالأَرْضَ مَدَدْنَاهَا وَأَلْقَيْنَا فِيهَا رَوَاسِيَ وَأَنْبَتْنَا فِيهَا مِنْ كُلِّ زَوْجٍ بَهِيجٍ (7) تَبْصِرَةً وَذِكْرَى لِكُلِّ عَبْدٍ مُنِيبٍ) [ق: 6-8].

" کیا انہوں نے آسمان کو اپنے اوپر نہیں دیکھا؟ کہ ہم نے اسے کس طرح بنایا ہے اور زینت دی ہے اس میں کوئی شگاف نہیں ، اور زمین کو ہم نے بچھا دیا اور اس میں ہم نے پہاڑ ڈال دیئے ہیں اور اس میں ہم نے قسم قسم کی خوشنما چیزیں اگا دی ہیں۔"

نیزاللہ تعالی کا فرمان ہے : (قُلْ انْظُرُوا مَاذَا فِي السَّمَوَاتِ وَالأَرْضِ وَمَا تُغْنِي الآيَاتُ وَالنُّذُرُ عَنْ قَوْمٍ لا يُؤْمِنُونَ) [يونس: 101].

"آپ کہہ دیجئے کہ تم غور کرو کہ کیا کیا چیزیں آسمانوں میں اور زمین میں ہیں اور جو لوگ ایمان نہیں لاتے ان کو نشانیاں اور دھمکیاں کچھ فائده نہیں پہنچاتیں۔"  

اس بحث کو مکمل طور پر اور مطلوبہ شکل میں منظر عام پر لانے میں مجھےکئی پریشانیوں  کا سامنا کرنا پڑا ، ان میں کچھ اس طرح سے ہیں :

۱- ان مراجع کا متعدد اور الگ لگ جگہوں میں ہو نا جنہوں نے احادیث نبویہ کے ذریعہ سائنسی  اعجاز پر استدلال  کیا ہے ،ان میں سے کوئی کتا ب ، کوئی چھوٹی بحث ،  کچھ کسی جریدہ یا مجلہ میں چھپا ہو ا مقالہ  ہے،  انہی میں سے کچھ  تقریریں ، سیمنار اور کانفرنس کی کارروائیاں ہیں  ، جن سے  مادہ کو جمع کرنے میں کافی محنت  درکار تھی۔

۲۔اکثر   کانفرنسوں کی کارروائیاں جن  کا میرے موضوع سےتعلق  تھا  ،  نشر نہیں کی گئی تھیں ،جس کی وجہ سے  مجھے  مصر کا علمی سفر طے کرنا پڑا، جہا ں پر (اسلام اور موجودہ  علوم ) کے بارے میں ایک سے زیادہ  کانفرسیں منعقد کی گئی تھیں ، ان میں سب سےاہم کانفرسوں کے نام یہ  ہیں : (المؤتمر الدولي الإسلامي عن الإعجاز الطبي في القرآن والسنة، جو بتاریخ (26/9 28/9/1985ء) منعقد ہوئى، اور (المؤتمر الطبي الإسلامي الدولي عن الشريعة الإسلامية، والقضايا الطبية المعاصرة) جو بتاریخ  (2-5 /فرورى 1987ء)  منعقد ہوئی۔"  

۳۔ کچھ ایسی حدیثیں جن سے استدلال کیا گیا ہے ، لیکن میں حدیث کی تمام کتابوں میں ان پر مطلع نہیں ہو سکا  ، بلکہ موضوع حدیثوں کی کتابوں  میں  بھی میں ان سےواقف نہیں ہو سکا ۔ (۷)

۴۔ مجھ جیسے  شخص کے لیےجسے سائنس کے بارے میں اچھی جانکاری نہیں ہے    سائنسی  موضوعات  کی دشواری ‑  چاہے اس کا تعلق  علم طب سے ہو ، یا علم  ارض ، یا علم فلک سے‑ ، اور اسی وجہ سے ان کو سمجھنے میں، پھر استدلال کی صورتوں کو بیان کرنے کےلیے ان کی تلخیص کرنے، پھر اس پر تعلیق  چڑھا نے  میں مجھے  کافی  محنت کرنی پڑی۔

۵۔ موضوعات کےالگ الگ ہونے اوربکھرے ہونے کی وجہ اس کو  جمع کرنے ، اور آپس میں مربوط ابواب و مباحث میں ترتیب دینے میں مجھے کافی  جد جہد کرنا پڑا ۔

اللہ تعالی کی حمد و ثنا اور صرف اس کی توفیق  سے ،پھراس رسالہ کے   مشرف کی رہنمائی  سے ان دشواریوں  پر قابو پایا جا سکا،  پس ساری تعریفیں اللہ کے لیے ہیں جس کی نعمت سے نیک کام سرانجام پاتے ہیں۔

اس بحث کے نیچرکا تقاضہ تھا کہ میں نے اسے :  مقدمہ ،  تمہید ،  دوابواب ،  خاتمہ   ، پھر ضروری  فہارس اورملحق  میں تقسیم کیا۔

مقدمہ میں: میں نے رسالہ کا موضوع ، اس کی اہمیت ، اس کو اختیار کرنے کے اسباب  و وجوہات ، نیز اس کو تیار کرنے میں پیش آنے والی دشواریوں اور پریشانیوں  ، بحث کا خطہ  اوربحث کا منہج بیان کیا ہے  ، پھر کلمہ شکر  کے ساتھ اس کا  اختتام کیا ہے ۔

تمہیدمیں:  میں نےسائنسی اعجاز  کی تعریف ،  اور سائنسی  تفسیر کی تعریف کے بارے میں گفتگو کی ہے ، اور ان دونوں کے مابین فرق کو بیان کیا ہے ،  پھر ان دونوں کی نشو ونما اور سائنسی  اعجاز کی ترقی وارتقا  کوبیان کیا ہے ۔

رہی بات  دو بابوں اور ان کی فصلوں ، اور فصلوں کے مباحث کی  تو ان کو میں  نے درج ذیل طریقوں             پر ترتیب دیا ہے :

پہلا باب: وہ حدیثیں جن سے انسان کے متعلق  سائنسی اعجازپر  استدلال کیا گیا ہے۔ 

پہلا فصل : انسان کی تخلیق کے متعلق  حدیثیں :

پہلا مبحث: مخلوقات کی ترتیب اور سب سے آ خر میں انسان کا  تذکرہ ۔

دوسرا مبحث: انسانی جسم کی اصلیت ۔

تیسرا مبحث: لوگوں کے مابین فطری فروق ، ان کے اپنے جسمانی تکوین(ساخت) کی طرف لوٹتا ہے ۔

چوتھا مبحث: انسان کےمنی کی صفت ، عورت کے منی کی صفت ،  اور جنین کی تخلیق، مشابہت اور مذکر و مؤنث (نر اورمادہ) ہونےمیں ان دونوں کےاثر  کا بیان ۔

پانچواں مبحث:  منی کے ہر (قطرہ) سے  ولادت نہیں ہوتی ہے ۔

چھٹا مبحث:  موانع حمل کا دائرہ ا ثر۔

ساتواں مبحث: مسخ شدہ شخص کی افزائش نسل نہیں ہوتی ہے ۔

آ ٹھواں مبحث:  سقط( ناتمام بچہ ، یا ساقط شدہ بچہ)

نواں مبحث:  ماں کا موروثی اثر ، اور اس کے نطفہ کے لیےجو اختیار کرنا مستحب ہے۔

دسواں مبحث: قرابت داروں سےشادی کا موروثی کا اثر ۔

گیارہواں مبحث: ماں کی عمر کا اس کے بچوں پر  اثر ۔  

بارہواں مبحث: اصل کا کھینچنا۔

تیرہواں مبحث: سمع و بصرکاوارث بنانا۔

چودہواں مبحث:  جنین کے مراحل۔

پندرہواں مبحث: جنین کی پیشانی پر لکھنے کا بیان ۔

دوسرا  فصل : انسان کے جسم کے اعضاء سے متعلق حدیثیں ۔

پہلا مبحث: جلد کا رنگ ،اوراس سےآدمی  کو کوئی فضیلت اور برتری حاصل نہیں ہوتی ہے۔

دوسرا مبحث: مفاصل کی تعداد ۔

تیسرا مبحث: جسم  کا  باہم ایک دوسرے کو(مدد کے لیے)بلانا ۔

چوتھا مبحث: داہنے حصہ  کو مقدم کرنے کا راز۔  

پانچواں مبحث:  انسان کے سلوک و برتاؤ سے پیشانی کا تعلق ۔

چھٹا  مبحث: کان اور آ نکھ کا شگاف ،  اور کان کو آ نکھ پر مقدم کرنا ۔

ساتواں مبحث:   دل  کی اصلاح، جسم کی اصلاح ہے ۔

آ ٹھواں مبحث: دم کی جڑ کا آخری حصہ ۔

نواں مبحث: رحم کا رحمن سے مشتق ہونا ۔

دوسرا باب : وہ حدیثیں جن سے فلک اور زمین کے متعلق  سائنسی اعجازپر  استدلال کیا گیا ہے ۔

پہلا فصل : زمین کے متعلق  حدیثیں ۔

پہلا مبحث:  زمین کا گیند نما ہو نا ۔

دوسرا مبحث:  کائنات کے نسبت  سے زمین کا حجم ۔

تیسرا مبحث:  ساتوں زمینیں ہماری اس زمین پر ہیں ۔

چوتھا مبحث:   پہاڑ، میخیں ہیں۔

پانچواں مبحث:  مکہ زمین کے سوکھے ہو ئے حصہ کا مرکز  ہے۔

چھٹا مبحث:  عرب ممالک  میں ہریا لی و شادابی  کی واپسی ۔

ساتواں مبحث:  مٹی کے اقسام

آ ٹھواں مبحث: سمندر کے نیچے آ گ ہے ۔

 دوسرا فصل : فلک سے متعلق حدیثیں ۔

پہلا مبحث:  کائنات میں کوئی خالی جگہ نہیں ہے ۔

دوسرامبحث: سمتوں کا بیان ۔

تیسرا مبحث: کسوف اور خسوف کا ظا ہر    ہونا ۔

سب  سےآ خر میں خاتمہ ہے ،  جس میں ، میں نے نتائج  کا  تذکرہ کیا ہے  ۔

(یہ علمی مادہ فضیلہ الشیخ ڈاکڑ احمد بن حسن الحارثی  کا تیار کردہ ہے ، اور یہ ان کے ماجستیر(ایم۔ اے)  کے رسالہ  کا ایک جزہے)

 

حواشی:

(1)  اس کی تعریف تمہید میں آئے گی۔  دیکھیے :

(2) مسلم كتاب الإيمان باب بيان أن الدين النصيحۃ (1/74 حدیث نمبر :55) امام بخاری نے صیغہ جزم کے ساتھ تعلیقا بیان کیا ہے اور اس کی تبویب اپنی صحیح (1/137) میں کتاب الایمان کے ضمن میں کی ہے۔

 (3)    دیکھیے : مفتاح السعادة،  از:طاش كبرى زادہ  (1/348).

(4)   شیخ البانی رحمہ اللہ تعالی نے کہا: "ہمیں حدیث کے طبى نقطہ نظر سے ثابت ہونے کی بہت زیادہ پرواہ نہیں ہے، کیونکہ حديث بذات خود ايك ثبوت و برهان ہے ، اسے بیرونی حمایت کی ضرورت نہیں ہے، تاہم نفس جب یہ دیکھتا ہے کہ صحیح سائنس، صحیح حدیث  کی موافقت کرتا ہے تو ایمان ویقین میں اضافہ ہو جاتا ہے".   السلسلۃ الصحيحۃ (1/61 حدیث نمبر :39)

(5)   شیخ عبدالمجید زندانى نے   جدید سائنس میں مہارت ركهنے والےچودہ سائنسدانوں کے ساتھ انٹرویوز، اور سائنسی بات چیت منعقد کی، جس كا اختتام اس   پر ہوا کہ ان میں سے کچھ نےاعتراف كيا  کہ یہ مذہب برحق ہے، اور ان میں سے کچھ دوسرے لوگوں نے اسلام قبول كرليا. یہ انٹرویوز اور بات چیت سعودی ٹیلی ویژن پر(إنه الحق) "یہى برحق ہے" کے عنوان سےنشر کیے گئے،  اور اس کے بعد ان انٹرویوز كو(هيئة الإعجاز العلمي في القرآن والسنة) يعنى"كمىشن برائےقرآن اور سنت میں سائنسی معجزات" نے اسی عنوان کے ساتھ ایک کتابچہ میں طبع كى .

(6)  هيئة الإعجاز العلمي في القرآن والسنة (كمىشن برائےقرآن اور سنت میں سائنسی معجزات) -مسلم ورلڈ لیگ- نے قرآن اور سنت میں سائنسی معجزات کے بارے پہلی عالمی کانفرنس کے کچھ ابحاث كو نشر كيا تها، لیکن اس کی اشاعت سن 1412 ہجرى کے آخری دنوں میں ہو ئی تھی, میں نے ٹائپ رائٹر پر چھپی ہوئی تحقیقات کی بجائے اسى منشور كا حوالہ دیاہے جس میں اسے بھی مندرج کر لیا گیا ہے۔

 رہى بات کویت میں اسلامی طب کی تنظیم كى، تو اس کے ابحاث کا بڑا حصہ معالجاتى اور تحفظاتى طب، نيز   عام طور پر عرب میں طب سے متعلق  ہے۔

 

(7)    زمین کے گیند نما ہونے کے مبحث کی حدیث نمبر(2)  دیکھیے۔

أضف تعليق

كود امني
تحديث