حلقہ(۴)

متن میں قابل اعتراض  باتوں کے جوابات

۱۔ ابن کثیر نے ذ کر کیا ہے  کہ یہ حدیث قرآ ن کریم کی دو حیثیتوں سے مخالف ہے :

أ‌-                  پہلی بات یہ ہے کہ اس (حدیث) میں آ سمان کی خلقت کا   تذ کرہ نہیں ہے۔

ب‌-           دوسری بات یہ ہے کہ اس (حدیث ) میں زمین اور اس میں پائی جانے والی تمام چیزوں کی تخلیق "سات دِن" میں ہونے کا   تذ کرہ ہے ۔

معلمی صاحب نے ان اعتراضات  کا جواب دیا ہے ، جس کا خلاصہ درج ذیل ہے :

۱-  پہلی بات یہ ہے کہ آدم (علیہ السلام ) کی تخلیق  آ سمان و ز مین کی تخلیق کے بعد ہوئی ہے ، قرآ ن کریم میں اس کا کوئی ذ کر نہیں  ہے کہ آ دم (علیہ السلام )  کی تخلیق ان چھ دنوں میں سے کس دِن ہوئی ؟  بلکہ اس کے بر عکس ، سورہ بقرہ کی ابتدائی آیتوں  اور کچھ آثار  میں آ دم (علیہ السلام ) کی پیدائش  کا پتہ چلتا ہے ، اور اس  سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ آ دم کی تخلیق سے پہلے ز مین پر آ بادی تھی ، اور لوگ اس پر صدیوں سے زندگی گزار رہے  تھے ، لہذا"چھ دِن" باقی رہ گئے ، جس میں زمین اور آ سمان کی تخلیق   ہوئی تھی ۔

۲۔ حدیث سے اس بات کا اشارہ ملتا ہے کہ آ سمان کی تخلیق "پانچویں دِن " ہوئی ، کیونکہ حدیث میں " نور " کا تذ کرہ ہے ، اور "ساتویں دِن "چوپایوں کو پیدا کیا  گیا  ، اور چوپایوں کو زندہ رہنے کے لئے حرارت اور روشنی کی ضرورت ہوتی ہے ، حرارت  اور روشنی کا مرجع و مصدر "اجرام سماوی " ہیں ،  لہذا  آ سمان کی تخلیق میں کل "دو  دِن" لگ گئے ۔ اور "چار دِن " زمین کی تخلیق کے لئے باقی بچ گئے ،  اس طرح سے قرآ ن اور حدیث کے مابین اتفاق ہو گیا ، اور دونوں کے مابین اختلاف  کا دعوی ختم ہو گیا (۱)۔

میرے لیے جو بات ظاہر ہورہی  ہے وہ یہ ہے کہ شیخ (معلمی )  رحمہ اللہ   کا جواب  - افسوس کے ساتھ – ایک غیر اطمنان بخش کوشش  ہے ، اور اس میں اتنی قوت و طاقت نہیں ہے  کہ اس کے ذریعہ مذ کورہ اعتراض کا جواب  دیا جائے ۔ اور ایسا درج ذیل ملاحظات   کی وجہ سے ہے :

أ۔ شیخ کا قول کہ " نور اور چوپایوں " کی تخلیق میں " آ سمان " کی تخلیق کی طرف اشارہ ہے ، یہ بات قابل تسلیم نہیں ہے ،کیونکہ نور (روشنی) آ سمان کے علاوہ چیز  ہے ، اور رہی بات یہ کہ " اجرام سماویہ" ہی حرارت اور نور کے مصدر و منبع  ہیں ، تو اس کا  مطلب یہ ہرگز  نہیں کہ یہی آ سمان ہیں ، بلکہ یہ کتاب وسنت کے خلاف ہے ، کیونکہ کتاب وسنت میں آ سمان سے مراد: وہ عظیم اجرام ہیں جن کے دروازے اور پہرے دار اور نگراں ہیں ، اور وہ ایک دوسرے سے گھرے ہوئے ہوں  ، اور ا س کا  سب سے نچلا حصہ زمین کا احاطہ کیے ہوئے ہے ،  لہذا     وہ   اجرام سماوی نہیں ہیں۔

اگر (بفرض محال ) شیخ  کی بات  تسلیم کر لی جائے ، تو یہ بات ہرگز نہیں تسلیم  کی جاسکتی کہ "چوپایوں "کی تخلیق  میں  " آ سمانوں " کی خلقت کی طرف اشارہ  ہے ،  ایسی صورت میں

  آ سمان کی تخلیق ایک ہی دن میں قرار دیے جانے   کی وجہ سے قرآ ن اور حدیث کے مابین شدید اختلاف پیدا ہو جائے گا ۔

اس لئے میری عقل اور رائےکے حساب سےصحیح جواب  وہی ہے جس کو شیخ البانی نے "مشکاۃ المصابیح " میں تعلیق چڑھاتے ہوئے لکھا ہے ، پھر اس کو انہوں نے  " مختصر العلو"     میں اختصار کیا ہے ،  چنانچہ وہ فرماتے ہیں :" اس کا خلاصہ یہ ہے کہ حدیث میں  جن "سات دِنوں " کا   تذ کرہ ہے وہ قر آ ن کریم کے "چھ دِنوں "کے علاوہ  ہیں ، اور دوسری بات حدیث  ان تمام چیزوں کے بارے میں تفصیل بیان کرتی ہے جس کو اللہ تعالی نے زمین پر ظاہر کیا ہے ،  لہذا یہ قر  آ ن کے مقابل میں زائد چیز  ہوئی ، یہ اس کے  مخالف  نہیں ہے ، اور یہ جمع اورتطبیق میرے"اخضر " کی حدیث کی  جانکاری ہونے سے پہلے کی ہے ،تو میں نے جمع و تطبیق کا جو طریقہ اپنایا تھا وہ  صحیح نکلا۔ "(۲)اھ۔

شیخ البانی کا  کلام درج ذیل  چیزوں کی تائید کرتا ہے :

أ- حدیث میں  آ سمان کی خلقت کی طرف اشارہ موجود  نہیں ہے ، جس سے یہ بات  اظہر من الشمس ہوجاتی ہے کہ حدیث ان تمام چیزوں کے بارے میں تفصیل کے ساتھ گفتگو کرتی ہے  جس کو اللہ تعالی نے اس روئےزمین پر ظاہر کیا ہے ۔

ب-  ابن ابو حاتم نے  اسےاللہ تعالی  کے اس قول : (هُوَ الَّذِي خَلَقَ لَكُمْ مَا فِي الأَرْضِ جَمِيعاً )

(وه اللہ جس نے تمہارے لئے زمین کی تمام چیزوں کو پیدا کیا ) [البقرة: 29])

کی تفسیر  قرار دیا  ہے (۳)۔ 

ج-  وہ (حدیث ) یعنی" اخضر "کی روایت ، اس مسئلہ میں نص کی حیثیت رکھتی ہے ، اور

 ( یہ اصول ہے کہ جب نص موجود ہو، تو  اجتہاد کرنا صحیح نہیں ہے  )  لہذا نص کے ساتھ اجتہاد نہیں کیا جا سکتا ہے ۔

د-  شیخ البانی کے قول کی تا ئید اس سے بھی ہو جاتی ہے کہ قر آ ن کریم میں جن "چھ ایام " کا    تذ کرہ  ہے وہ مختلَفْ فیہ ہیں  کہ آ یا  وہ دنیا کے دِنوں کی طرح سے ہیں یا  اس کے علاوہ ہیں ؟ ابن جوزی نے اللہ تعالی کے اس قول (في ستة أيام ) کا معنی " اس کی  مقدار میں" بیان کیا ہے ، کیونکہ دن کوسورج کے طلوع اور غروب ہونےسے جاناجاتا ہے، لیکن اس وقت تو سورج ہی نہیں تھا۔"(۴)

لہذا  یہ بات واضح ہو گئی کہ  حد یث میں ذ کر کردہ ایام  قرآ ن میں مذ کور ایام سے مختلف ہیں۔

۲-  اس حدیث کی یہ تعلیل کہ یہ دیگر  احادیث اور  آ ثار   کے مخالف ہے ، اس سے پتہ چلتا ہے کہ خلقت کی ابتدا "اتوار" کے دِن سے  ہے ، جیسا کہ" شیخ معلمی"  نے ذ کر کیا ہے ، اور شاید کہ انہوں نے اسے شیخ الاسلام ابن تیمیہ سےنقل کیاہے ، کیونکہ انہوں نے  ان لوگوں کے قول کو درست قرار دیا ہے جن  لوگوں کا کہنا ہے کہ : "تخلیق کی ابتدا اتوار کے دن سے ہوئی ہے ، اوراس کی تائید اس بات سے کی ہےدنوں کے نام اس پر دلالت کرتے ہیں، اوریہ کہ ”وہی  دیگر آثار و احادیث میں منقول اور ثابت ہے۔“(۵)  اور یہ تعلیل اس حدیث پر کوئی  قدح اورطعن نہیں کرتی ہے ، اور نہ ہی اس کی صحت پر اس کا کوئی برا  اثر پڑتا ہے ، کیونکہ صحیح حدیث کو کسی ضعیف حدیث سے" معلول "نہیں قراردیا جاسکتا ، جیسا کہ یہ معلوم اور مشہور ہے ، اور یہ احا دیث اور آ ثار  جو اس حدیث کی مخالفت کرتے ہیں”ان میں سے جو مرفوع ہیں ، وہ اِس حدیث سے بھی  زیادہ ضعیف ہیں۔ رہی بات غیر مرفوع کی تووہ عام طور پرعبداللہ بن سلام ، کعب ، وہب  اور ان لوگوں کے اقوال ہیں جو اسرائیلیات سے اخذ کرتے  ہیں۔“(۶)

 اِن احا دیث اور آ ثار  کے ضعف کی  تقویت درج ذیل امورسے ہوتی ہے:

أ۔  جنہوں نے اِس حدیث پر کلام کیا ہے ،  اُن میں سے کسی ایک  نے بھی  اِس حدیث  کونہ ان احادیث سے معلول قراردیا ہے اور نہ ہی ان آثارسےجن سے یہ پتہ چلتا ہے کہ خلقت کی ابتدا "اتوار " کے دِن سے ہوئی ہے ، بلکہ اس کی طرف امام ابن تیمیہ نے،  اس حدیث کی تردید کرنے کے لئے امام بخاری وغیرہ کے کلام پر اعتماد کرنے کے بعد، اشارہ  کیا ہے۔

لہٰذا اگر وہ (احا دیث اور آ ثار  )ضعیف نہ ہوتے ، تو وہ لوگ اس حدیث کی علت (خامی) بیان کرنے کے لئے دائیں بائیں کا  رخ نہ کرتے ، بلکہ وہ لوگ کہتے کہ: صحیح بات  یہ ہے کہ اتوار کے دِن خلقت کی ابتدا ہوئی ؛ کیونکہ یہ صحیح احادیث اور آثار میں وارد ہے۔

ب۔ اصحاب امہات تسعہ میں سے کسی نے بھی  ان احادیث اور آثارمیں سے   ایک کی بھی تخریج نہیں کی ہے ، جیسا کہ  (المعجم المفهرس لألفاظ الحديث النبوي ) میں اس حدیث کے الفاظ کا تتبع کر نے سے معلوم ہوتاہے، اور اسی طرح سے ان لوگوں نے بھی کیاہے جنھوں نے صحت  کی شرط  لگائی ہیں، جیسے: ابن خزیمہ اورابن حبان ۔

رہی بات "دِنوں " کے نام رکھنے کی دلالت کی ، تو " سھیلی " نے "الروض الأنف"  میں اس کی تردید کر دی ہے ، اور بیان کیا ہے کہ دِنوں  کا اتوار ، سوموار ... الخ    نام رکھنا ایک وقتی  اورپیش آمدہ چیز ہے ، اور قدیم لغت میں اس کے نام :شیار ، داول ، ذجبار ، دوبار ، ومونس، اور عروبہ ہیں ، اور یہ سب " سریانی " زبان میں ہیں ، پھر انہوں نے ذ کر کیا ہے کہ اگر  "عدد    سےمشتق ان ناموں " کا ذکر  قر آ ن کریم میں  آیا  ہوتا ، تو ہم یہ کہہ سکتے تھے کہ یہ نام  درست  ہیں کیونکہ ان کو ان کے مسمی  پر رکھا گیا ہے ، لیکن قرآن میں صرف دوناموں " جمعہ اور سبت" کا ہی  تذ کرہ موجود ہے ،  اور نہ ہی وہ  دونوں نام عدد سے مشتق ہیں ، اور اللہ کے رسول – صلی اللہ علیہ وسلم- نے ان کے  اسماء (ناموں) کو آغاز بخشنے کے لیے  نہیں ذ کر کیا ہے، بلکہ آ پ نے اپنی قوم کی لغت کو نقل کیا ہے، جنہوں نے ہو سکتا ہے ان اسماء کے معانی کو اپنے پڑوسی اہل کتاب سے اخذ کیا ہو پھر ان کی اتباع کرتے ہوئے ان اسماء کو ان پر ڈھال دیا ہو۔(۸)

۳۔ امام بیہقی کا قول: " کچھ علمائےحدیث کا گمان ہے کہ یہ (حدیث) غیر محفوظ ہے ؛ کیونکہ یہ اہل تفسیر اور مؤرخین کے نظریے کےمخالف ہے۔" اس کا جواب یہ ہے کہ : قابل حجت اور  لائق دلیل اللہ تعالی کا کلام  اور رسول کا قول ہے ، اور یہ حدیث اللہ کے رسول – صلی اللہ علیہ وسلم – سے ثابت ہے ،  اور کچھ مفسرین جیسے : ابن ابی حاتم  اور ابن جوزی ،   اور کچھ اہلِ تاریخ جیسے : ابن اسحاق، نےبھی اس کواختیارکیاہے، بلکہ ابن جوزی نے ابن انباری سے نقل کیا  کہ انہوں نے کہا ہے کہ :"اس پر اہل علم کا اجماع ہے۔" (۹)  یعنی جو کچھ مسلم کے  حدیث میں وارد ہواہے ، واللہ اعلم۔

۴۔ قرشی کا قول ہے کہ :" لوگوں کا اجماع ہے کہ سنیچر کے دِن  کسی کی تخلیق ہی نہیں ہوئی ہے ، بلکہ خلقت ( پیدائش ) کی ابتدااتوار  کے دِن سے ہوئی ہے ۔" اس قول کا   ذکر اس کا رد کرنے سے بے نیاز کردیتا ہے ۔

اور وہ " اتفاق " جس کو انہوں نے ذکر کیا ہے اسے صرف یہودی ہی جانتے ہیں ، ان کا گمان ہے – ان پر اللہ کی لعنت ہو – کہ اللہ تعالی  تھک گیا تھا ، اس لئے اس نے سنیچر کے دِن  استرا حت کیا ، اللہ تعالی بہت ہی بلند ہے ،(بے نیاز ہے ) اس سے  جو وہ لوگ اس کے بارے میں  اتنی بڑی بڑی باتیں کرتے ہیں ۔

۵۔ شیخ الاسلامکےاس حدیث کوردکرنے کی بنیاد دو امور (باتوں) پرہے - جیسا کہ پہلے گزر چکا ہے -،  لیکن  میرے نزدیک وہ   دونوں امور صحیح نہیں ہیں ۔

پہلا امر :

رہی  بات پہلے امر کی  تو وہ ان کا حدیث پر کچھ محدثین کے قدح و طعن کو  بنیاد بنانا ہے ، اور ان کے کلام پر رد و تردید تفصیل سے گزر چکی ہے ۔

حدیث  پر قدح و طعن  کرنے والوں کا ذکر کرتے وقت شیخ الاسلام کے کلام پر دو باتیں  قابل اعتراض ہیں :

پہلی بات : انہوں نےیحیی بن معین کو حدیث  پر قدح و طعن  کرنے والوں کی فہرست میں شامل کیا ہے ، ،   حالانکہ ایسا نہیں ہے ، شاید شیخ الاسلام کے   قلم سے تسامح ہو گیا ہو ، یا ناسخ  کی طرف سے غلطی ہو گئی ہو ، یا طباعت کی غلطی کی وجہ سے ایسا ہوا ہو، کیو نکہ  جس نے حدیث پر طعن کیا ہے وہ  دراصل" علی بن مدینی " ہیں ۔

دوسری بات :

 اسی طرح ان کابیہقی کو  ان لوگوں میں شامل کرنا  جنہوں نے حدیث کو ضعیف قرار دیا ہے ، حالانکہ جو شخص بیہقی کے حدیث پر طعن کرنے والوں کے اقوال کوبیان کرنے کے تسلسل سے واقف ہو گا ، اسے واضح طورپر پتہ چل جائے گا کہ وہ ان لوگوں  کی موافقت نہیں کرتے ہیں۔ (۱۰)

دوسرا امر:

جہاں تک رہا معاملہ دوسرے امر کا : تو یہ عقلی دلیل ہے  جس کو انہوں نے ذکر کیا ہے ،  وہ کہتے ہیں کہ :"یہ بات تواتر سے ثابت ہے کہ اللہ تعالی نے آ سمان اور زمین اور اس کے مابین کی چیزوں کو "چھ دِن " میں پیدا کیا ہے ، اور یہ بھی ثابت ہے کہ آخری خلقت  (پیدائش ) جمعہ کے دِن ہو ئی ہے ، تو اس سے لازم ہو جاتا ہے کہ سب سے پہلی پیدائش  ( خلقت) اتوار کے دِن ہوئی ۔"

اس دلیل کا رد اور توڑ بہت ہی آ سان ہے ، اور اس کی متعدد صورتیں ہیں :

پہلی صورت :

اس دلیل کا دوسرا مقدمہ نہ تو صحیح ہے اور نہ ہی قابلِ تسلیم ہے ، یہ بات کہاں ثابت  ہے کہ آ سمان اور زمین کی سب سے آ خری تخلیق جمعہ کے  دِن ہوئی ہے ؟  بلکہ جمعہ کے دِن جس کی تخلیق کی بات ثابت ہے وہ " آ دم علیہ السلام " ہیں ، اور آ دم علیہ السلام کی تخلیق آ سمان اور زمین کی تخلیق کے کافی دیر بعد ہوئی ہے ، جیسا کہ قرآ ن وسنت میں آ دم (علیہ السلام ) کی تخلیق کے قصہ کے سیاق سے معلوم ہوتا ہے ، اور جب مقدمہ باطل ہو گیا ،  تو نتیجہ بدرجہ اولی باطل ہو گا۔

دوسری صورت :

یہ بات تسلیم نہیں کی جاسکتی ہے کہ جن ایام کا    تذ کرہ  قر آ ن کریم میں ہے ، وہ  دِن ہمارے "دِنوں " کی طرح ہیں ،  یا مساوی ہیں ، (۱۱) ، اس لئے اس بات کا اثبات نہیں کیا جا سکتا ہے کہ تخلیق کی ابتدا اتوار کے دِن سے ہوئی ۔

تیسری صورت:

ہم اس بات کو تسلیم نہیں کرتے کہ جن ایام (دِنوں)کا    تذکرہ قرآن میں  ہے ، بالکل انہیں ایام( دِنوں) کا    تذکرہ حدیث میں بھی مذ کور ہے ، اور درست بات یہ ہے کہ دونوں الگ  الگ ہیں ، جیسا کہ اس ضمن میں دلیلیں گزر چکی ہیں ، واللہ اعلم ۔

استدلال:

  ڈاکڑ مامون شفقہ نے اس حدیث سے اپنی کتاب (القرار المكين ) میں استدلال کیا ہے  کہ انسان کی تخلیق سب سے آ خر میں ہوئی ہے، چنانچہ مخلوقات کی ترتیب اس طرح سے ہے : مٹی ، درخت ، چوپایہ  اور انسان  ۔

وہ کہتے ہیں کہ :"گرچہ علم جدید  تاکید کرتا ہے کہ زندگی اس تسلسل کے ساتھ معرض ِوجود میں آ ئی   یعنی : نباتات ، حیوانات ، اور بشر... مگر یہ حقیت ہمارے یہاں – الحمد للہ – علم جدیدکے وجود میں  آ نے سے پہلے کا  ہے ، ... ،اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :"... " اور حدیث ذ کر کیا ۔

پھر وہ کہتے ہیں کہ :"اور یہ بات وضاحت سے بے نیاز ہے کہ وہ ایام جن کا ذکر حدیث شریف میں ہے ، وہ ہمارے دِنوں کی طرح چوبیس گھنٹہ (والے )نہیں ہیں ، بلکہ وہ زمانہ ہے ، جس کی لمبائی کو صرف اللہ تعالی ہی جانتا ہے ، یعنی  اس کو دوسرے الفاظ میں یوں کہہ سکتے ہیں کہ وہ تخلیق کے مختلف مراحل اور اطوار  ہیں "۔

پھر وہ کہتے ہیں کہ  :" انسان کی تخلیق کاتسلسل مٹی سے نہیں ہے ، حدیث شریف صرف اس کی طرف اشارہ کرتی ہے....  بلکہ ایک بہت ہی اہم دوسری علمی حقیقت  کی طرف اشارہ کرتی  ہے ، اور وہ ہے : بذات خو د مٹی کی تخلیق اور پیدائش کا ہونا  "۔ 

پھر وہ مٹی کے پیدا کیے  جانے کے عمل کی وضاحت کرتے ہیں ، چنانچہ وہ کہتے ہیں کہ : "فرض کر لیں کہ دنیا کے کسی خطہ یا علاقہ  میں ایک زبردست آتش فشاں پھٹ پڑا،   اوراس  کالاوا (آتش سیال)بہنے لگا یہاں تک کہ زمین کے بہت  وسیع  رقبے کا احاطہ  کرلیا... پھر یہ ہوتا ہے کہ یہ وسیع علاقے بنجر ہو جاتے ہیں، اور ایک لمبی مدت تک ان میں  زندگی کی تمام شکلیں منعدم ہو جاتی ہیں .... اورآتش سیال ان وسیع علاقوں کو ڈھانکے رہتا ہے جبکہ اس کا درجہ حرارت بہت زیادہ   بلند ہوتا ہے،  پھر اس کے بعد کیا ہوتاہے ؟ اور زندگی دوبارہ کیسے  وجود میں آ تی ہے؟

اس کے بعدجو چیز  پیش آتی ہے اسے  ذ یل میں بیان کیا  جا رہا ہے:

"بارش  نازل ہوتی ہے اور  بھاپ بن کر اڑ جاتی ہے، پھر بارش ہوتی ہے اور بھاپ بن کر اڑ جاتی ہے، اور ہر بار آتش فشاں کی سطح  تھوڑی تھوڑی   ٹھنڈی  ہوتی رہتی ہے ، اور دھیرے دھیرے  جمنے اور پھٹنے لگتی ہے یہاں تک کہ بارش ہوتی ہے تو بھاپ  نہیں بنتی ہے، بلکہ اس میں سے کچھ زمین میں محفوظ ہوجاتی ہیں ،پھر شگافوں (دراروں) میں ابتدائی جاندارمخلوقات  ظاہر  ہوتے ہیں،  جنہیں ہم پہلی نباتات  (اولین پودوں) کی درجہ بندی  میں رکھتے ہیں، جیسے: پھپھوندیاں اور سرخس ، یہ پیدا ہوتے ہیں اور مرتے ہیں،  پھر ان کے علاوہ دوسرے پیداہوتے ہیں اور مرتے ہیں۔ اور اس طرح سے ان ابتدائی عضویاتی مواد کے ساتھ  ماحولیاتی عوامل کے  تفاعل کے تسلسل کے ساتھ، اورمنجمد ہو جانے والے آتش سیال میں  لگاتارکترن اورکٹاؤ کے ساتھ، اور ان تفاعلات (ہم آ ہنگی اورتعاون) اور توڑپھوڑ و بکھراؤکے محصولات  کے یکجاہوجانے سے مٹی بنتی ہے ، اور اس آتش سیال کے  چہرے کامٹی کا لبادہ اوڑھنےکے ساتھ، اعلی مخلوقات  اورقوی و مضبوط نباتات  جیسے : درخت کے ظہور پذیر  ہونے کے  لیےحالات ساز گار ہوجاتے ہیں .... اور اس طرح سے زندگی رواں دواں رہتی ہے .... آ تش سیال (لاوا) ....مٹی ....درخت.... پھر ہر مخلوق ایک  نئی مخلوق کے لئے مناسب حالات  وظروف  سازگار کرتی رہتی ہے، یہاں تک کہ خِلقت(تخلیق و پیدائش) کی تکمیل ہوجاتی  ہے۔

آتش فشاں کے لاوا میں رونما ہونے والی یہ چیز ، ایک چھوٹی تصویرہے اس چیزکی جو کرۂ ارض  پر اس وقت  رونما ہو ئی ،   جس وقت وہ  پوری کی پوری ایک دھماکہ خیزدہکتا ہوا آتش فشاں تھی...

لہٰذا   اللہ تعالی نے  سب سے پہلےمٹی کو پیدا کیا ، پھر  اس کے بعد درخت کو پیدا کیا  ...اور  چاہے اللہ تعالی نے تخلیق کی ابتدا سمندر سے کی ہو(جیسا کہ اعتقاد رکھا جا تا ہے )  یا تخلیق کی ابتدا خشکی سے کی ہو ، یہ حقیقت تبدیل نہیں ہوسکتی ہے ، اور وہ یہ ہے کہ (اللہ) تعالی نے سب سے پہلے مٹی کو پیدا کیا ہے ، پھر اس کے بعد درخت کو     پیدا کیا ،   اس کے بعد چوپایوں  کو  پیداکیا ، پھر اس کے بعد انسان کو پیدا کیا ..."۔اھ.

تعلیق:

وہ مثال جو بیان کی گی ہے ،  پھر اس کے بعد کہاگیا ہے کہ :" آتش فشاں کے لاوا میں رونما ہونے والی یہ چیز ، ایک چھوٹی تصویرہے اس چیزکی جو کرۂ ارض  پر اس وقت  رونما ہو ئی ،   جس وقت وہ  پوری کی پوری ایک دھماکہ خیزدہکتا ہوا آتش فشاں تھی۔

یہ قول صرف  انداز ہ اور تخمین پر مشتمل ہے ، اس کی نہ کوئی دلیل ہے اور نہ ہی کوئی برہان و ثبوت ،  جہاں تک رہی بات مٹی کو درخت پر مقدم کرنے  کی ، اور درخت کو انسان پر مقدم کرنے کی ، تو اس کی وجہ یہ ہے کہ" نبا تات"  کو نشو نما اور اُ گنے کے لئے مٹی کی ضرورت ہوتی ہے ، اور انسان کو بھی غذا حاصل کرنے کے لئے نباتا ت کی ضرورت ہوتی ہے ، بلکہ آدم (علیہ السلام ) کی تخلیق ہی  بذات خود مٹی سے کی گئی ہے ۔

نیز ان کےاس قول :" کہ   وہ        ایام جن کا ذکر حدیث شریف میں ہوا ہے ، وہ ہمارے دِنوں یعنی (چوبیس گھنٹہ ) کی طرح نہیں ہیں۔" کے ساتھ میرا ایک موقف ہے۔

اور وہ یہ ہے کہ : ان کو یہ کہاں سے پتہ چلا کہ یہ ایام  ہمارے ان دِنوں (چوبیس گھنٹہ) کی طرح نہیں ہیں؟  جبکہ حدیث کا آخری حصہ  اس بات پر صریح نص ہے کہ آ دم (علیہ السلام ) کی تخلیق جمعہ کے دِن سب سے آخری حصہ میں ہوئی ، جو عصر اور رات کے بیچ کا وقت تھا !!  شایدانہوں نے یہ گمان کیا ہے کہ یہ وہی ایام ہیں  جن کا ذکر قرآن میں ہے ، اور یہ بات گزر چکی ہے کہ حدیث  ان تمام چیزوں کی تفصیل ہے جنھیں اللہ تعالی نے زمین پر جاری کیا ہے ، یہ نہیں کہ یہ وہی ایام ہیں جوآسمان و زمین کی تخلیق کے بارے میں قرآن میں  مذکور ہیں، واللہ تعالی اعلم ۔

دیکھیے:

حواشی:      


(1)  الأنوار الكاشفۃ،ص :(190).

(2)  مختصر العلو ،ص: (112).

(3)   دیکھیے:  تفسير ابن أبي حاتم (1/103).

(4)   زاد المسير (3/211).

(5)  دیکھیے: مجموع الفتاوى (18/18). ان کا مکمل کلام  نقل کیا جا چکا ہے اور اس کا مناقشہ  آگے آئے گا۔

(6)  الأنوار الكاشفۃ، ص: (191).

(7)  دیکھیے: تفسير ابن كثير (4/88) اللہ كے فرمان: (إِنَّ عِدَّةَ الشُّهُورِ عِنْدَ اللَّهِ اثْنَا عَشَرَ شَهْراً) [التوبة:36].كى تفسير كے تحت۔

(8)   الروض الأنف (1/271) , الأنوار الكاشفۃ، ص : (191).

(9)  زاد المسير (3/211).

(10)   دیکھیے: الأسماء والصفات ،ص :(384).

(11)   دیکھیے:  زاد المسير (3/211، 212).

 

(12)  القرار المكين (127- 129).

أضف تعليق

كود امني
تحديث