مبحث سوم:  لوگوں کے مابین فطری اختلافات،ان کی جسمانی ساخت وبناوٹ کے تفاوت پرمنحصرہے

 

ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی مرفوع حدیث: (الناس معادن، كمعادن الفضة والذهب، خيارهم في الجاهلية خيارهم في الإسلام، إذا فقهوا)’’لوگ سونے چاندی کی کانوں کی مانند (مختلف) کانیں ہیں، ان میں سے زمانۂ جاہلیت کے بہتر لوگ اسلام میں بھی بہتر ہیں جب کہ انہیں دین کی سمجھ ہو‘‘ (*) یہ حدیث جابر رضی اللہ عنہ سے بھی مروی ہے، ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی اس حدیث کی مندرجہ ذیل کئی طرق  ہیں:

اول: ابو الزناد، اعرج سے روایت کرتے ہیں اور وہ ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں، اس کی تخریج امام بخاری [۱] مسلم [۲] شافعی [۳] حمیدی [۴] اور احمد [۵] وغیرہ نے اسی سند سے اسی طرح کی ہے،  البتہ بخاری و مسلم کے علاوہ دیگر کے یہاں (کمعادن الذھب و الفضۃ) کی زیادتی موجود نہیں ہے۔

دوم: جریر، عمارہ سے اور وہ ابو زرعہ سے اور وہ ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں، اس کی تخریج امام بخاری [۶] مسلم [۷] اسحاق بن راہویہ [۸] اور قضاعی وغیرہ نے اسی سند سے اسی طرح پہلی سند کی متن میں موجود زیادتی کے ساتھ کی ہے، سوائے بخاری کے اور لوگوں کے یہاں یہ زیادتی بھی ہے: (وتجدون شر الناس ذا الوجهين،الذي يأتي هؤلاء بوجه وهؤلاء بوجه)’’اور تم لوگوں میں سب سے بد تر دو رخے شخص کو پاؤگے جو ان کے پاس ایک رخ (چہرہ) لے کر جائے اور ان کے پاس دوسرا رخ‘‘۔ اور اس میں (کمعادن الذھب و الفضۃ) کی زیادتی نہیں ہے۔

سوم: یحی بن سعید قطان، عبید اللہ سے اور وہ سعید بن ابو سعید سے اور وہ اپنے والد سے اور وہ ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں۔ اس کی تخریج امام بخاری [۱۰] مسلم [۱۱] احمد [۱۲] اور دارمی [۱۳] وغیرہ نے اسی سند سے کی ہے۔ اس سند کے متن کے ابتدائی حصہ میں یہ ہے: (قيل يا رسول الله من أكرم الناس؟ قال: أتقاهم) ’’کہا گیا: اے اللہ کے رسول! لوگوں میں سب سے بہتر کون ہے؟ آپ نے فرمایا: جو سب سے زیادہ پرہیزگار ہو‘‘  اور باقی حدیث اسی طرح ہے  بس (کمعادن الذھب و الفضۃ) کی زیادتی نہیں ہے۔

چہارم: عبید اللہ، سعید بن ابو سعید سے اور وہ ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں۔ اس کی تخریج امام بخاری [۱۴] نے تین طرح سے کی ہے  اسی لفظ کے ساتھ۔

(ابو سعید: کیسان) اس کا مطلب ہے کہ سعید نے اس حدیث کو اپنے باپ سے سنا اور پھر خود ہی ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے بھی سنا، اس طرح عبید اللہ نے اسے دو طرح سے بیان کیا ہے، اس بات پر ابن حبان [۱۵] کی وہ روایت بھی دلالت کرتی ہے جس کی تخریج انہوں نے اس طرح کی ہے: يحيى القطان عن عبيد الله، عن سعيد بن أبي سعيد، عن أبي هريرة(یحیی القطان، عبیداللہ سے،وہ سعید بن ابوسعید سے،وہ ابوہریرہ سے روایت کرتے ہیں)۔ واللہ اعلم۔

پنجم: یزید بن اصم عن ابی ھریرہ رضی اللہ عنہ۔ اس کی تخریج امام مسلم [۱۶] حمیدی [۱۷] اور احمد [۱۸]نے کی ہے۔ اور اس سند کا متن وہی ہے جس سے دلیل پکڑی گئی ہے مگر اس میں کچھ زیادتی ہے۔

ششم: یونس بن یزید ایلی، زہری سے اور وہ سعید سے اور وہ ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں۔ اس کی تخریج امام مسلم [۱۹] اور احمد [۲۰]نے اسی سند سے کی ہے، اور اس کے الفاظ وہی ہیں جو دوسری سند کے ہیں۔

ہفتم: حماد بن سلمہ، عمار سے اور وہ ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں۔ اس کی تخریج امام مسلم [۲۱] اور احمد [۲۲]نے اِسی سند سے اُسی کے مثل کی ہے، سوائے (کمعادن الذھب و الفضۃ) کے۔

عمار ابن ابی عمار   صدوق ہیں، کبھی کبھی خطا کرتے ہیں۔ [۲۳]

ہشتم: محمد بن عمرو، ابو سلمہ سے اور وہ ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں۔ اس کی تخریج سابقہ سندوں کے الفاظ کی طرح امام احمد [۲۴] نے محمد بن عمرو کے طریق سے تین طرح سے کی ہے۔

محمد بن عمرو بن علقمہ بن وقاص، ان کے بارے میں حافظ ابن حجر کہتے ہیں: ’’صدوق ہیں، اور ان کی بہت سی اوہام ہیں‘‘ [۲۵]

رہی جابر رضی اللہ عنہ کی حدیث: تو اس کی تخریج امام احمد [۲۶] نے عن ابی الزبیر عن جابر کی سند سے دو طریق سے کی ہے، اور ان میں سے ایک طریق میں ابو الزبیر نے جابر سے سماع کی صراحت کی ہے۔

ہیثمی کہتے ہیں: ‘‘ اس حدیث کی روایت احمد نے کی ہے، اور اس کے رجال صحیح کے رجال ہیں’’ [۲۷]

ابوموسیٰ کی حدیث:آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (إن الله تعالى خلق آدم من قبضة قبضها من جميع الأرض، فجاء بنو آدم على قدر الأرض، فجاء منهم الأحمر، والأبيض، والأسود، وبين ذلك، والسهل والحزن، والخبيث والطيب)’’بیشک اللہ تعالیٰ نے آدم کو اس مٹھی بھر مٹی سے پیدا کیا جو اس نے تمام زمین سے لی، اسی وجہ سے بنی آدم زمین کے مطابق ظاہر ہوئے، ان میں سے کوئی سرخ ہے، تو کوئی گورا، کوئی سیاہ فام تو کوئی درمیانی رنگت کا، کوئی نرم خو ہے تو کوئی سخت مزاج ہے اور کوئی برا ہے تو کوئی اچھاہے۔‘‘ (**) یہ حدیث صحیح ہے، اس کی تخریج پہلے ہی گزر چکی ہے۔ [۲۸]

استدلال:

مذکورہ دونوں حدیثوں سے دکتور محمد عثمان نجاتی اپنی کتاب ‘‘الحدیث النبوی و علم النفس’’ میں استدلال کرتے ہیں کہ یہ دونوں حدیثیں اس بات کی جانب اشارہ کر رہی ہیں کہ موروثی فطری اختلافات مثلاً رنگ و مزاج، طبعی استعداد و صلاحیت اور  تاثر و اشتعال انگیزی وغیرہ جسمانی ساخت و بناوٹ کے تفاوت پر انحصار کرتی ہیں۔

جدید تحقیقات سے یہ بات ثابت ہو چکی ہے کہ انسانی جلد میں  اعضاء جسم کے اختلافات کا وجود رنگوں کے اختلاف کا سبب بنتی ہے، اسی طرح یہ بھی ثابت ہو چکی ہے کہ  رنگ نسل در نسل منتقل ہوتا رہتا ہے، ان موروثی قانون و ضابطہ کے مطابق  جسے  منڈل (Mendel)نے ثابت کیا ہے۔

اور یہ بات بھی کہی ہے کہ: جدید تحقیقات، مثلاً حیوانات پر ایوان پاولو (Ivan Pavlov) اور  کالوِن ھال (Calvin Hall) کی تحقیقات اس بات کو ثابت کرتی ہیں کہ حیوانات کی طبعی استعداد اور تأثر انگیزی میں اختلافات دراصل جسمانی بناوٹ اور اعضاء کے اختلافات کا نتیجہ ہوتی ہے۔

دکتور موصوف کہتے ہیں: ’’ہم انسانوں کے مابین  اشتعال اور طبعی قوت و صلاحیت کے فروق و اختلافات  کا ملاحظہ و مشاہدہ کرتے رہتے ہیں، بہت سے لوگ زود رنج وتیزجذباتی اور غصہ ور ہوتے ہیں، ان میں سے بہتیرے پر سکون اور  کم جذباتی ہوتے ہیں،  بلاشک و شبہ ان اختلافات و فروق کا ایک بڑا حصہ جسمانی بناوٹ اور اعصابی و جسمانی ساخت کی نوعیت میں اختلافات کی وجہ سے ہوتا ہے‘‘ [۲۹]۔

حوالہ جات و حواشی:

______________________________________

(*) الحديث النبوي وعلم النفس (ص255)

(**) الحديث النبوي وعلم النفس (ص254)

1.      صحيح البخاري – كتاب المناقب – باب قول الله تعالى:(يَا أَيُّهَا النَّاسُ إِنَّا خَلَقْنَاكُمْ مِنْ ذَكَرٍ وَأُنثَى وَجَعَلْنَاكُمْ شُعُوباً وَقَبَائِلَ) [الحجرات:13]، (6/526ح3496)، اورباب علامات النبوة (6/604ح  3588)

2.      صحيح مسلم – كتاب فضائل الصحابة – باب خيار الناس (4/1958ح عقب ح 2526(

3.      مسند الشافعي (1/16ح15(

4.      مسند الحميدي (2/451ح1045)

5.      المسند (2/257)

6.      صحيح البخاري (6/525ح 3493)

7.      صحيح مسلم (4/1958 ح عقب ح 2526)

8.      مسند إسحاق بن راهوية (1/226ح 183)

9.      مسند الشهاب (1/354 ح 606)

10.  صحيح البخاري – كتاب الأنبياء – باب قول الله تعالى:(وَاتَّخَذَ اللَّهُ إِبْرَاهِيمَ خَلِيلاً) النساء:125، (6/387ح 3353)

11.  صحيح مسلم – كتاب الفضائل – باب فضائل يوسف عليه السلام (4/1846، 1847ح 2378)

12.  المسند (2/431)

13.  سنن الدارمي (1/73)

14.  صحيح البخاري – كتاب الأنبياء – باب (أَمْ كُنتُمْ شُهَدَاءَ إِذْ حَضَرَ يَعْقُوبَ الْمَوْتُ)سے (وَنَحْنُ لَهُ مُسْلِمُونَ)[البقرة: 133]تک (6/414ح 3374)، وباب قول الله تعالى:(لَقَدْ كَانَ فِي يُوسُفَ وَإِخْوَتِهِ آيَاتٌ لِلسَّائِلِينَ)[يوسف: 7]، (6/417ح 3383)، وكتاب التفسير – باب (لَقَدْ كَانَ فِي يُوسُفَ وَإِخْوَتِهِ) الآية (8/362ح 4689)

15.  الإحسان (2/20ح 647)

16.  صحيح مسلم – كتاب البر والصلة – باب الأرواح جنود مجندة (4/2031، 2032ح (.....)/160)

17.  مسند الحميدي (2/451ح 1046)

18.  المسند (2/539)

19.  صحيح مسلم – كتاب فضائل الصحابة – باب خيار الناس (4/1958ح 2526)

20.  المسند (2/524، 525)

21.  مسند الطيالسي (ص324ح 2476)

22.  المسند (2/485)

23.  تقريب التهذيب (ص408)

24.  المسند (2/260، 438، 498)

25.  تقريب التهذيب (ص 499(

26.  المسند (3/367، 383(

27.  مجمع الزوائد (1/121، 122(

28.  دوسرے مبحث میں۔

 

29.  الحديث النبوي وعلم النفس ص (255(

أضف تعليق

كود امني
تحديث