مبحث چہارم:  مرد و عورت کے مادۂ منویہ کی صفت اور تخلیقِ جنین نیز مشابہت اور نر و مادہ ہونے میں اس کے اثر و تاثیر کا بیان

 

 

ام سلیم رضی اللہ عنہا کی حدیث: وہ بیان کرتی ہیں کہ انہوں نے اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ و سلم سے اس عورت کے متعلق سوال کیا  جو اپنے خواب میں وہ چیز دیکھتی ہے جو ایک مرد دیکھتا ہے (مراد احتلام ہے)؟ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: ‘‘جب عورت اس طرح دیکھے تو اسے غسل کرنی چاہیے’’ ام سلیم رضی اللہ عنہا نے کہا: میں اس بات پر شرماگئی، (پھر) آپ بولیں: کیا ایسا بھی ہوتا ہے؟ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: ‘‘ہاں، پھر مشابہت کہاں سے  ہوتی ہے؟ یقیناً مرد کا پانی گاڑھا سفید ہوتا ہے، اور عورت کا پانی پتلا اور زرد ہوتا ہے، ان دونوں میں سے جس (کے حصے) کو غلبہ مل جائے یا (نئی تشکیل میں) سبقت لے جائے تو اسی سے (بچے کی) مشابہت ہوتی ہے‘‘ [۱]

ام سلیم رضی اللہ عنہ کا یہ سوال اور دیگر صحابۂ کرام سے بھی مروی ہے: مثلاً انس، ام سلمہ، عائشہ اور ابن عمر رضی اللہ عنہم، اسی طرح یہ خولہ بنت حکیم سے بھی مختصراً مروی ہے۔

اس مبحث میں انس ، ثوبان، ابن عباس اور ابن مسعود رضی اللہ عنہم سے مروی بھی احادیث ذکر کی گئی  ہیں، نیز بعض اور اصحابِ نبی صلی اللہ علیہ و سلم سے حدیثیں پیش کی گئی  ہیں جن کا نام نہیں لیا گیا ہے۔

رہی ام سلیم رضی اللہ عنہا کی یہ حدیث تو یہ ان سے کئی طرق سے مروی ہے:

اوّل: سعید بن ابو عروبہ ، قتادہ سے اور وہ انس سے اور وہ ام سلیم سے روایت کرتے ہیں۔ اس کی تخریج امام مسلم [۲] نسائی [۳] ابن ماجہ [۴] ابن ابی شیبہ [۵] احمد [۶] ابو یعلیٰ [۷] ابو عوانہ [۸] ابن حبان [۹] اور بیہقی [۱۰]نے اسی سند سے اسی کے مثل کی ہے۔ مگر یہ کہ سعید بن ابو عروبہ سے روایت کرنے والے بعض راویوں نے اسے انس کی مسند قرار دی ہے۔

امام نووی رحمہ اللہ ‘‘المجموع’’ میں لکھتے ہیں:’’تمام روایت میں جمع و تطبیق کی صورت یہ کہ اس قصہ کے وقت انس، عائشہ اور ام سلمہ وغیرہ موجود تھے‘‘۔ [۱۱]

لیکن فتح الباری کے اندر حافظ ابن حجر نے امام نووی کا تعاقب کیا ہے وہ کہتے ہیں: ’’جو بات ظاہر ہوتی ہے وہ یہ کہ انس وقوعِ قصہ کے وقت موجود نہیں تھے، بلکہ انہوں نے یہ بات اپنی والدہ ام سلیم سے سنی‘‘۔ [۱۲]

مگربعض دیگر طرق سے یہ حدیث مسند انس میں آئی ہوئی ہے۔ [۱۳] تو شاید اس کی وجہ یہ ہے کہ انس رضی اللہ عنہ کبھی اپنی ماں کا ذکر کرتے ہیں اور کبھی نہیں کرتے ہیں۔ واللہ اعلم۔

دوم: امام احمد نے مختصراً اس سند سے روایت کیا ہے: عن ابن نمير،عن محمد بن عمرو،عن أبي سلمة، عنها، [۱۴]۔

 محمد بن عمرو ابن علقمہ صدوق ہیں، ان کی بہت سی اوہام ہیں۔ [۱۵]

اور ان کی متابعت عبد العزیز بن رفیع نے ابو سلمہ سے کی ہے، اس کی تخریج امام طبرانی [۱۶] نے کی ہے، اور عبد العزیز بن رفیع ثقہ ہیں۔ [۱۷]

سوم: امام احمد ہی نے مغیرہ سے روایت کی ہے، وہ کہتے ہیں: ہم سے اوزاعی نے بیان کیا، وہ کہتے ہیں کہ مجھ سے اسحاق بن عبد اللہ بن ابو طلحہ انصاری نے بیان کیا، وہ اپنی دادی ام سلیم سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے کہا:کہ وہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی بیوی ام سلمہ رضی اللہ عنہا کی ہمسایہ تھیں تو وہ ان کے پاس حاضر ہوتیں، پس نبی صلی اللہ علیہ و سلم آئے۔۔۔۔۔۔۔اور اس حدیث میں آدمی اور عورت کے منی کی وصف کا بیان نہیں ہے، اس میں ہے کہ: ام سلمہ نے کہا: کیا عورت کے لیے بھی منی (کا خروج) ہے؟ آپ نے فرمایا: ‘‘ہاں، کیسے لڑکا ان کے مشابہہ ہوتا ہے! بیشک عورتیں مردوں کی مانند ہیں’’ [۱۸]

ہیثمی کہتے ہیں: ’’اس حدیث کی روایت امام احمد نے کی ہے، اور یہ صحیح میں اختصار کے ساتھ ہے، اور اسحاق نے ام سلیم سے نہیں سنا ہے‘‘ [۱۹]۔

ابو حاتم سے اس حدیث کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے کہا : اسحاق بن عبد اللہ بن ابو طلحہ، ام سلمہ سے روایت کرنے میں مرسل ہیں ، [۲۰] اس بنا پر یہ روایت منقطع ہے۔

اس حدیث کی تخریج امام دارمی [۲۱] اور ابو عوانہ [۲۲] نے : ’’محمد بن کثیر عن الاوزاعی، عن اسحاق بن عبد اللہ، عن انس‘‘کے طریق سے اسی کے مثل  کی ہے۔ محمد بن کثیر ابن ابی عطاء ثقفی صدوق ہیں، کثیر الغلط یعنی بڑی غلطی کرنے والے ہیں۔ [۲۳]

مگر ان کی متابعت عکرمہ بن عمار نے اسحاق بن ابو طلحہ عن انس کے طریق سے کی ہے، اور اس کی تخریج امام مسلم [۲۴] اور ابو عوانہ [۲۵] نے ’’عکرمہ بن عمار عن اسحاق بن ابی طلحہ عن انس ‘‘سے کی ہے۔

لیکن اس روایت میں ہے کہ انس رضی اللہ عنہ نے کہا: ام سلیم رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس آئیں اور آپ سے عرض کیا -اور عائشہ آپ کے پاس موجود تھیں-، اور اس روایت میں یہ جملہ: ‘‘إنماهن شقائق الرجال’’ (بیشک عورتیں مردوں کی مانند ہیں) نہیں ہے۔

لیکن اس کی ایک شاہد عائشہ رضی اللہ عنہا کی حدیث موجود ہے جو آگے آرہی ہے:

چہارم: طبرانی نے اس سند سے روایت کیا ہے: ‘‘عن أحمد بن عبدالوهاب بن نجدة الحوطي،عن أبيه،عن إسماعيل بن عياش،عن عبد العزيز بن [عبيد] [۲۶] الله،عن حكيم ابن حكيم [بن] [۲۷] عباد بن حنيف، عن أبي أمامة بن سهل بن حنيف، عنها’’ اس کے الفاظ ام سلمہ کی آنے والی حدیث کی طرح ہیں، مگر یہ ذرا طویل ہے۔

عبد العزیز بن عبید اللہ بن صہیب حمصی ہیں، ان کے بارے میں حافظ ابن حجر کہتے ہیں:’’ضعیف ہے، ان سے اسماعیل بن عیاش کے علاوہ کسی اور نے روایت نہیں کیا ہے‘‘ [۲۸]۔ لیکن حدیث کا متن صحیح ہے، اسے مسلم وغیرہ نے روایت کیا ہے ،جیسا کہ گزرچکا۔

حوالہ جات و حواشی:

______________________________________

1.      الطب النبوي والعلم الحديث (3/370).

2.      صحيح مسلم – كتاب الحيض – باب وجوب الغسل على المرأة بخروج المني منها (1/250ح311).

3.      سنن النسائي – كتاب الطهارة – باب غسل المرأة ترى في منامها مايرى الرجل (1/122ح 195) اس  باب میں اولہ پراکتفا کیا گیا  مشابہت اورمنی کےاوصاف کا ذکر نہیں ہے،اورباب الفصل بين ماء الرجل وماء المرأة (1/155، 166ح200) میں مرد وعورت کے مادہ ٔ منویہ اورمشابہت کے وصف کا صرف تذکرہ کیا گیا ہے ، اورالسنن الكبرى (عشرةالنساء) ص (169، 170ح 191، 192)  میں تمام کا تذکرہ کیا گیا ہے۔

4.      سنن ابن ماجہ – كتاب الطہارة وسننھا – باب في المرأة ترى في منامها مايرى الرجل (1/197ح601).

5.        مصنف ابن ابي شيبۃ (1/80).

6.        المسند (3/121، 199، 282).

7.        مسند ابي يعلى (5/299، 426، 451ح 2920، 3116، 3164).

8.        مسندابو عوانہ (1/289، 290).

9.      الإحسان (2/241ح1161) مختصراً. وفي (8/22ح6151، 6152) بتمامہ في الأول.

10.    السنن الكبرى (1/169).

11.    فتح الباري (1/388) ان کے خیال کے مطابق مجھے المجموع میں نہیں ملی۔

12.    فتح الباري (1/388).

13.    عنقریب انس رضی اللہ عنہ کی حدیث میں آرہی ہے۔

14.    المسند (6/376).

15.    تقريب التہذيب ص (499).

16.  المعجم الكبير (23/257ح 532).

17.    تقريب التہذيب ص (357).

18.  المسند (6/377) اور اس میں مغیرہ ہے حالاں کہ یہ طباعت کی غلطی ہے، صحیح ابو مغیرہ ہے۔ جیسا کہ شیخ احمد شاکر نے تعليق علی السنن  الترمذي (۱/۱۹۱)  میں بیان کیا ہے۔

19.  المجمع (1/268).

20.    ابن ابي حاتم کی العلل (1/62ح163). اور انہیں کی کتاب المراسيل ص (13).

21.    سنن دارمي (1/165).

22.  مسندابو عوانہ (1/290).

23.    تقريب التہذيب ص (504).

24.    صحيح مسلم (1/250ح 310).

25.    مسندابو عوانہ (1/290).

26.    مطبوعہ نسخے میں عبد اللہ ہے جب کہ صحیح عبید اللہ ہے جیسا کہ تہذيب الكمال (1/320)، اور تہذيب التہذیب (2/385)،اور تقريب التہذيب میں ہے۔

27.  مطبوعہ نسخے میں (عن) کی تحریف ہو گئی ہے۔

28.  تقريب التہذيب،ص (358).

 

29.    تقريب التہذيب ص (109)

أضف تعليق

كود امني
تحديث