باب: عقیدہ سے متعلق حدیثیں

حلقہ (۵)

توحید کی اہمیت (۲۔۲)

تیسرا نکتہ:

کلمہ تو حید کی فضیلت: اس کی فضیلت میں بہت سارے آثار وارد ہوئے ہیں جن میں سے بعض پر  اکتفا کیاجارہاہے۔

کلمۂ توحیدجنت میں جانے اور جہنم سے نجات پانے کا سبب ہے، پس جس نے اس کے معنی کا اعتقاد رکھ کے اس کا اقرار کیا، اور اس کے مقتضی پر قول وفعل سے عمل کرتے ہوئے اس کو ادا کیااس کے لیے مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کی شہادت سے جنت میں داخل ہونے اور جہنم سے نجات پانے کی خوشخبری ہے، چنانچہ اس سلسلہ میں صحیح مسلم میں آیا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک موذن کو (أشهد أن لا اله إلا الله) کہتے ہوئے سنا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

’’تو جہنم سے نکل گیا‘‘۔

اور عباد ہ بن صامت رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا کہ:

’’جس نے اس بات کی گواہی دی کہ اللہ کے سوا کوئی  معبودِ برحق نہیں ، اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے رسول ہیں، تو اللہ   اس پر جہنم کو حرام کر دے گا‘‘۔

اور صحیح میں عثمان رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

’’جو مرجائے اور اسے قلبی علم وعرفان تھا کہ اللہ کے علاوہ کوئی معبود برحق نہیں تو وہ جنت میں داخل ہوگا‘‘۔

 اور اس کے علاوہ دیگر مزید احادیث ہیں۔

اور لا الہ الا اللہ کی فضیلت میں سے ہے کہ اس کے قائلین قیامت کے روز نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی شفاعت پانے والوں میں سے سب سے سعادت مند ہوں گے۔جیسا کہ صحیح میں ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے آیا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

’’ میری شفاعت سے وہ شخص سر فراز ہوگا جولا الہ الا اللہ اپنے قلب یا جی میں اخلاص کے ساتھ کہے‘‘۔

اور اس کی فضیلت میں سے یہ بھی ہے کہ یہ ذکرِ الہی کے لیے بہتر ین کلمہ ہے، اور بروز قیامت بندہ کے میزان میں سب سے بھاری چیز ہوگا۔

مسند احمد میں عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ: ’’موسیٰ علیہ السلام نے کہا اے میرے رب! مجھے کچھ ایسی باتیں سکھادے جس سے تیرا ذکر کرتا رہوں اور تجھ سے دعائیں مانگتا رہوں، اللہ نے فرمایا: اے موسیٰ لا الہ الا اللہ کہو، موسیٰ علیہ السلام نے کہا: اے میرے رب یہ تو تیرے ہر بندے کہتے ہیں، اللہ نے کہا:

’’ اے موسیٰ لا الہ الا اللہ کہو، موسٰی نے کہا: لاالہ الا اللہ، میں تجھ سے کوئی خاص (دعا) چاہتا ہوں، اللہ نے کہا: اے موسیٰ اگر ساتوں آسمان وزمین اور اس میں بسنے والے لوگ بجز میرے ایک پلڑے میں رکھ دئے جائیں اور لاالہ الا اللہ دوسرے پلڑے میں تو لا الہ الا اللہ سب پر بھاری ہوگا‘‘۔

اور اس کی فضیلت میں سے ہے کہ کوئی بھی  چیزاسے اللہ  تک پہچنے سے  روکنہیں سکتی، جیسا کہ امام ترمذی وغیرہ نے عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما سے روایت کیا ہے کہ :

’’ لا الہ الا اللہ کو اللہ تک پہنچنےسے کوئی پردہ نہیں ہے‘‘۔

اور ترمذی نے ہی ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا:

’’ جب انسان سچے دل سے لا الہ الا اللہ کا اقرار کرتا ہے تو اس کے لئے آسمان کے دروازے کھول دئے جاتے ہیں یہاں تک کہ وہ عرش الہی کی طرف بڑھتا رہتا ہے بشرطیکہ کبیرہ گناہوں سے بچتا رہے‘‘۔

اور اس کی فضیلت میں سے یہ بھی ہے کہ یہ  کلمہ قبر اور حشر ونشر کی وحشت سے حفاظت کرتا ہے۔

امام احمد رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی مسند میں ذکر کیا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

’’  لا الہ الا اللہ کے کہنے والوں پر ان کی قبروں اور نشر کے وقت کوئی وحشت نہ ہوگی، اور گویا کہ میں لا الہ الا اللہ کے اہل میں سے ہوں، اور وہ لوگ اپنے سروں سے مٹی جھاڑتے ہوئے کھڑے ہوں گے اور کہیں گے:

 ہر طرح کی تعریف ہے اس اللہ کے لئے جس نے ہم سے غم کو دور فرمایا‘‘۔

اور یہ ایمان کے بلند شعبوں میں سے ہے، چنانچہ صحیحین میں ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے آیا ہے کہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

’’ ایمان کی ستّر سے زیادہ شاخیں ہیں، اور ایک روایت میں ۶۰ سے زیادہ شاخیں ہے، اور ان میں سے سب سے بہتر اور ایک روایت میں سب سے بلند لا الہ الا اللہ کہنا ہے ، اور ان میں سے سب سے کمترشاخ راستے سے تکلیف دہ چیز کو دور کرنا ہے، اور حیا بھی ایمان کی ایک شاخ ہے‘‘ـ

اور اس کے علاوہ اس کلمہ کے دیگر فوائد ہیں جو اس بات کے لئے کافی ہیں کہ یہ اس کے کہنے والے کے ایمان اور اس کے مطابق عمل پر دلالت کرتا ہے۔ چنانچہ یہ ایمان و کفر کے درمیان حدّ فاصل ہے۔

چوتھا فائدہ:

آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان(وأن محمدا عبده ورسوله)  کا مطلب یہ ہے کہ’’بندہ اس بات کی گواہی دے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے بندے اور رسول ہیں‘‘۔

پس آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا قول (عبد اللہ) یعنی: عابد مملوک ہے، پس وہ اللہ کے غلام ہیں، اور ان کا ربوبیت اور الوہیت میں کوئی اختیار نہیں ہے، اور وہ اللہ کے مقرّب بندے ہیں، اللہ رب العزّت نے انہیں رسالت ونبوت کا مکلف بنایا ہے اور اس کے ذریعہ شرف بخشا ہے۔

اور محمد صلی اللہ کی رسالت کی گواہی کا مقصد: آپ کی حکم کردہ باتوں میں اطاعت کرنا، اور آپ کی خبر کردہ امور کی تصدیق کرنا، اور منع کردہ چیزوں سے رکے رہنا، اور اللہ کی عبادت صرف اس کی مشروع کردہ چیزوں کے ذریعہ کرنا۔ 

اوریہیں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت پوشیدہ ہے، اور اسی سے شہادتین کے معنی کی تکمیل ہوتی ہے، اس لئے جو محمد صلی اللہ کے الہی پیغمبر ہونے کا انکار کرے گا وہ لا الہ الا اللہ کی شہادت کو قائم نہیں کرسکتا۔اور وہ شخص حقیقی مسلمان نہیں ہوسکتا جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کو چھوڑ کر غیر کی اطاعت کرتا ہو،اور آپ کی منع کردہ چیزوں کا مرتکب ہو اور آپ کی خبرکردہ چیزوں کے بارے میں شک کرتا ہو۔

 اس طرح سے معلوم ہوا کہ دو طرح کے لوگ ہیں جو اس (رسالت) کی شہادت کے بارے میں غلطی کا شکار ہیں:

ایک قسم تو ان لوگوں کا ہے جو رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں اس قدر غلو کرتے ہیں کہ انہیں الہی صفات کا درجہ دیدیتے ہیں، چنانچہ اللہ کے بجائے ان سے دعا کرتے ہیں، اور انہی کا وسیلہ پکڑتے ہیں، اور ان کی قبرکوازراہِ تبرک چھوتے ہیں، حالانکہ واقع حال کے اعتبار سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نہی کا ارتکاب کررہے ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کی مخالفت کررہے ہیں، اور آپ کی دین میں ایسی باتیں ایجاد کر رہے ہیں جو اس میں سے نہیں ہے، اس شخص کی طرح جو شب وروز آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اوامر کی مخالفت کرتا ہے، اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو الہی صفات کا درجہ دے کر آپ سے محبّت کا دعویٰ کرتا ہے،تو بلا شبہ یہ لوگ غلط راہ پر ہیں، اور درستگی سے ہٹے ہوئے ہیں، اور اُنہیں عقاب الہی سے دوچار ہونے کا اندیشہ ہے۔

 دوسرے قسم کے لوگ وہ ہیں جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کا تو اقرار کرتے ہیں لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اوامر کی مخالفت کرتے ہیں۔ چنانچہ مثال کے طور پروہ نماز میں تساہل سے کام لیتے ہیں، یا بالکلیہ زکوٰۃ کی ادائیگی نہیں کرتے یا اس کے بعض حصوں کی ادائیگی نہیں کرتے ، یا اپنے روزہ کو مخدوش ومجروح  کرلیتے ہیں..وغیرہ۔اور جن چیزوں سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے قولی اور فعلی طور سے منع کیا ہے اس کا ارتکاب کرتے ہیں، جیسے جھوٹ بولنا، خیانت کرنا، دھوکہ دینا، غیبت وچغلی کرنا، زنا اور لواطت جیسے فواحش کا ارتکاب کرنا، اور حرام چیزیں دیکھنا اور انھیں سننا وغیرہ۔

تو یہ دونوں قسم کے لوگ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت کی گواہی میں کھرے نہیں  ہیں،جب کہ اِن دونوں شہادتوں سے قول ،فعل ،عمل اور اعتقاد کو ثابت کرکے ہی فائدہ اٹھا یا جا سکتا ہے۔

 

پانچواں نکتہ:

 نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا قول(وأن عيسیٰ عبد الله ورسوله) عیسیٰ علیہ السلام اللہ کے بندے اور رسول ہیں، اور ایک روایت میں ہے، ان کی بندی کے بیٹے ہیں۔

اس جملہ میں اس چیز کا بطلان ہے جس کا نصاریٰ اعتقاد رکھتے ہیں کہ عیسیٰ علیہ السلام ہی اللہ ہیں یا اللہ کے بیٹے ہیں، اللہ تعالیٰ کی ذات اس چیز سے بہت بلند ہے۔

اللہ سبحانہ وتعالیٰ اپنے نبی عیسیٰ علیہ السلام کے بارے میں فرماتا ہے:

قَالَ إِنِّي عَبْدُ اللَّـهِ آتَانِيَ الْكِتَابَ وَجَعَلَنِي نَبِيًّا ﴿٣٠وَجَعَلَنِي مُبَارَ‌كًا أَيْنَ مَا كُنتُ وَأَوْصَانِي بِالصَّلَاةِ وَالزَّكَاةِ مَا دُمْتُ حَيًّا ﴿٣١وَبَرًّ‌ا بِوَالِدَتِي وَلَمْ يَجْعَلْنِي جَبَّارً‌ا شَقِيًّا ﴿٣٢وَالسَّلَامُ عَلَيَّ يَوْمَ وُلِدتُّ وَيَوْمَ أَمُوتُ وَيَوْمَ أُبْعَثُ حَيًّا ﴿٣٣ذَٰلِكَ عِيسَى ابْنُ مَرْ‌يَمَ ۚ قَوْلَ الْحَقِّ الَّذِي فِيهِ يَمْتَرُ‌ونَ ﴿٣٤(سورہ مریم:۳۰تا۳۴)

’’بچہ بول اٹھا کہ میں اللہ تعالیٰ کا بنده ہوں۔ اس نے مجھے کتاب عطا فرمائی اور مجھے اپنا پیغمبر بنایا ہے اور اس نے مجھے بابرکت کیا ہے جہاں بھی میں ہوں، اور اس نے مجھے نماز اور زکوٰة کا حکم دیا ہے  اورتازیست اس نے مجھے اپنی والده کا خدمت گزار بنایا ہے،  مجھے سرکش اور بدبخت نہیں بنایااور مجھ پر میری پیدائش کے دن اور میری موت کے دن اور جس دن کہ میں دوباره زنده کھڑا کیا جاؤں گا، سلام ہی سلام ہے۔ یہ ہےصحیح واقعہ عیسی    بن مریم (علیہ السلام) کا، یہی ہے وه حق بات جس میں لوگ شک وشبہ میں مبتلا ہیں‘‘۔

تو رب رحیم کی طرف سے اس بہترین نص سے یہ واضح ہوجاتا ہے کہ عیسیٰ علیہ السلام اللہ کے بندے ہیں، اوروہ اللہ نہیں ہیں جیسا کہ نصاریٰ اعتقاد رکھتے ہیں۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:

لَّن يَسْتَنكِفَ الْمَسِيحُ أَن يَكُونَ عَبْدًا لِّلَّـهِ وَلَا الْمَلَائِكَةُ الْمُقَرَّ‌بُونَ ۚ وَمَن يَسْتَنكِفْ عَنْ عِبَادَتِهِ وَيَسْتَكْبِرْ‌ فَسَيَحْشُرُ‌هُمْ إِلَيْهِ جَمِيعًا ﴿١٧٢(سورہ النساء:۱۷2)

’’مسیح (علیہ السلام) کو اللہ کا بنده ہونے میں کوئی ننگ و عار یا تکبر وانکار ہرگز ہو ہی نہیں سکتا اور نہ مقرب فرشتوں کو، اس کی بندگی سے جو بھی دل چرائے اور تکبر و انکار کرے، اللہ تعالیٰ ان سب کو اکٹھا اپنی طرف جمع کرے گا ‘‘۔

چھٹا نکتہ:

 اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا قول: (وکلمتہ ألقاھا إلی مریم وروح منہ)

اور عیسی ٰ علیہ السلام اللہ کے کلمہ ہیں جسے مریم کی طرف ڈالا ہے اور اس کی روح ہیں۔

امام احمد رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ:

’’(یعنی)وہ کلمہ جسے مریم کی طرف ڈالا تھا جس وقت ان سے کہا تھا (کن)  کہ تو ہوجا، تو عیسیٰ علیہ السلام ہو گئے تھے‘‘ ۔

اور ابن کثیر رحمۃ اللہ علیہ  فرماتے ہیں:

’’  اللہ رب العزّت نے اس کلمہ کے ذریعہ پیدا کیا تھا جس کے ذریعہ جبر ائیل علیہ السلام  کومریم کی طرف بھیجا تھا۔چنانچہ انہوں نے اللہ کے حکم سے اس کے اندر اس روح سے پھونکا۔اور عیسیٰ علیہ السلام اللہ عزوجل کے حکم سے ہوئے۔ اور وہ پھونک جسے اس کی قمیص کی جیب میں پھونکا تھا وہ اتر کر ان کی شرمگاہ میں داخل ہو گیا اور وہ ماں باپ کےحمل کاری(نر کا مادہ منویہ مادہ کےشرمگاہ میں ڈالنا تلقیح کہلاتا ہے) کے درجے میں ہو گیا۔اور سب اللہ عزّوجل کےمخلوق ہیں‘‘۔

آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا قول (وروح منہ) اور وہ اس کی طر ف سے(بھیجی ہوئی) روح ہیں، اس کے بارے می ابیّ بن کعب کہتے ہیں کہ ’’ عیسیٰ علیہ السلام اللہ کے روحوں میں سے ایک روح ہیں جسے اللہ تعالیٰ نے پیدا فرمایا ہے، اور اپنے اس قول سے بلوایا ہے( الستُ بربکم؟ قالوا: بلی) کیا میں تمہارا رب نہیں ہوں؟ تو انہوں نے کہا: کیوں نہیں؟‘‘۔

اللہ رب العزّت نے اسے مریم کی طرف بھیجا پس وہ اس میں داخل ہوگیا۔

اور امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:

 (وروح منہ) یعنی اور وہ اس کی طرف سےروح ہیں، اس کا مطلب ہے:

’’  اللہ کے حکم سے روح ان کے اندر تھا، جیساکہ اللہ تعالی فرماتا ہے:

وَسَخَّرَ‌ لَكُم مَّا فِي السَّمَاوَاتِ وَمَا فِي الْأَرْ‌ضِ جَمِيعًا مِّنْهُ ۚ إِنَّ فِي ذَٰلِكَ لَآيَاتٍ لِّقَوْمٍ يَتَفَكَّرُ‌ونَ ﴿١٣(سورہ جاثیہ: ۱۳)

’’اور آسمان وزمین کی ہر ہر چیز کو بھی اس نے اپنی طرف سے تمہارے لیے تابع کر دیا ہے۔ جو غور کریں یقیناً وه اس میں بہت سی نشانیاں پالیں گے ‘‘۔

فرماتے ہیں :’’ یعنی اس کے حکم سے‘‘۔

ساتواں نکتہ:

 اللہ کےرسولصلی اللہ علیہ وسلم کے قول(الجنّۃ حق، والنّارحق) جنت بھی حق ہے اور جہنم بھی۔ کا مفہوم یہ ہےکہ اس بات کی گواہی دے کہ جنّت جس کے بارے میں اللہ رب العزّت نے خبر دیا ہے کہ اس نے اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لانے والوں کے لئے تیار کر رکھا ہے حق ہے یعنی: ثابت ہے ،اس میں کوئی شک نہیں ہے۔

اور اس بات کی گواہی دے کہ جہنم جس کے بارے میں اللہ نے اپنی کتاب میں با خبر کیا ہے کہ اسے اللہ اور اس کے رسول کی تکذیب کرنے والوں کے لئے تیار کر رکھا ہے۔وہ بھی ثابت ہے۔جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:

سَابِقُوا إِلَىٰ مَغْفِرَ‌ةٍ مِّن رَّ‌بِّكُمْ وَجَنَّةٍ عَرْ‌ضُهَا كَعَرْ‌ضِ السَّمَاءِ وَالْأَرْ‌ضِ أُعِدَّتْ لِلَّذِينَ آمَنُوا بِاللَّـهِ وَرُ‌سُلِهِ ۚ ذَٰلِكَ فَضْلُ اللَّـهِ يُؤْتِيهِ مَن يَشَاءُ ۚ وَاللَّـهُ ذُو الْفَضْلِ الْعَظِيمِ ﴿٢١(سورہ الحدید:۲۱)

’’(آؤ) دوڑو اپنے رب کی مغفرت کی طرف اور اس جنت کی طرف جس کی وسعت آسمان وزمین کی وسعت کے برابر ہے یہ ان کے لیے بنائی ہے جو اللہ پر اور اس کے رسولوں پر ایمان رکھتے ہیں۔ یہ اللہ کا فضل ہے جسے چاہے دے اور اللہ بڑے فضل وا ہے‘‘ ۔

اور اللہ نے فرمایا:

فَاتَّقُوا النَّارَ‌ الَّتِي وَقُودُهَا النَّاسُ وَالْحِجَارَ‌ةُ ۖ أُعِدَّتْ لِلْكَافِرِ‌ينَ ﴿٢٤(البقرہ:۲۴)

’’اس آگ سے بچو جس کا ایندھن انسان اور پتھر ہیں، جو کافروں کے لئے تیار کی گئی ہے‘‘۔

آٹھواں وقفہ:

 علمائے کرام کا کہنا ہے کہ اس بات کا ایمان رکھنا کہ جنت حق ہے، اور جہنم حق ہے، اور جنت ایمان والوں کے لئے تیار کیا گیا ہے، اور جہنم کافروں کے لئے تیار کی گئی ہے، انہوں نے کہا کہ یہ سب آخرت کے دن پر ایمان لانے میں سے ہے جو ایمان کے ارکان میں سے پانچواں رکن ہے۔وہ ارکان ہیں:اللہ پر ایمان، فرشتوں پر ایمان، آسمانی کتابوں پر ایمان، اللہ کے رسولوں پر ایمان، آخرت کے دن پر ایمان اور تقدیر کے برے بھلے ہونے پر ایمان لانا ۔

پس جنت وجہنم حق وثابت ہیں ،اس میں کوئی شک نہیں ہے۔

ارشاد باری تعالیٰ ہے :

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا قُوا أَنفُسَكُمْ وَأَهْلِيكُمْ نَارً‌ا وَقُودُهَا النَّاسُ وَالْحِجَارَ‌ةُ عَلَيْهَا مَلَائِكَةٌ غِلَاظٌ شِدَادٌ لَّا يَعْصُونَ اللَّـهَ مَا أَمَرَ‌هُمْ وَيَفْعَلُونَ مَا يُؤْمَرُ‌ونَ ﴿٦يَا أَيُّهَا الَّذِينَ كَفَرُ‌وا لَا تَعْتَذِرُ‌وا الْيَوْمَ ۖ إِنَّمَا تُجْزَوْنَ مَا كُنتُمْ تَعْمَلُونَ ﴿٧يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا تُوبُوا إِلَى اللَّـهِ تَوْبَةً نَّصُوحًا عَسَىٰ رَ‌بُّكُمْ أَن يُكَفِّرَ‌ عَنكُمْ سَيِّئَاتِكُمْ وَيُدْخِلَكُمْ جَنَّاتٍ تَجْرِ‌ي مِن تَحْتِهَا الْأَنْهَارُ‌(التحریم:۷۔۸)

’’اے ایمان والو! تم اپنے آپ کو اور اپنے گھر والوں کو اس آگ سے بچاؤ جس کا ایندھن انسان اور پتھرہیں، جس پر سخت دل مضبوط فرشتے مقرر ہیں جنہیں جو حکم اللہ تعالیٰ دیتا ہے اس کی نافرمانی نہیں کرتے بلکہ جو حکم دیا جائے بجا تے ہیں۔ اے کافرو! آج تم عذر وبہانہ مت کرو۔ تمہیں صرف تمہارے کرتوت کا بدلہ دیا جارہا ہے۔ اے ایمان والو! تم اللہ کے سامنے سچی خالص توبہ کرو۔ قریب ہے کہ تمہارا رب تمہارے گناه معاف کردے اور تمہیں ایسی جنتوں میں داخل کرے جن کے نیچے نہریں جاری ہیں‘‘۔

اور اللہ کا فرمان ہے:

وَاتَّقُوا النَّارَ‌ الَّتِي أُعِدَّتْ لِلْكَافِرِ‌ينَ ﴿١٣١وَأَطِيعُوا اللَّـهَ وَالرَّ‌سُولَ لَعَلَّكُمْ تُرْ‌حَمُونَ ﴿١٣٢وَسَارِ‌عُوا إِلَىٰ مَغْفِرَ‌ةٍ مِّن رَّ‌بِّكُمْ وَجَنَّةٍ عَرْ‌ضُهَا السَّمَاوَاتُ وَالْأَرْ‌ضُ أُعِدَّتْ لِلْمُتَّقِينَ ﴿١٣٣(آل عمران:۱۳۱۔۱۳۳)

’’اور اس آگ سے ڈرو جو کافروں کے لئے تیار کی گئی ہے اور اللہ اور اس کے رسول کی فرمانبرداری کرو تاکہ تم پر رحم کیا جائے اور اپنے رب کی بخشش کی طرف اور اس جنت کی طرف دوڑو جس کی وسعت آسمانوں اور زمین کے برابر ہے، جو پرہیزگاروں کے لئے تیار کی گئی ہے‘‘۔

اور اللہ سبحانہ وتعالی ٰمزید فرماتا ہے:

فَإِنلَّمْ تَفْعَلُوا وَلَن تَفْعَلُوا فَاتَّقُوا النَّارَ‌ الَّتِي وَقُودُهَا النَّاسُ وَالْحِجَارَ‌ةُ ۖ أُعِدَّتْ لِلْكَافِرِ‌ينَ ﴿٢٤وَبَشِّرِ‌ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ أَنَّ لَهُمْ جَنَّاتٍ تَجْرِ‌ي مِن تَحْتِهَا الْأَنْهَارُ‌ ۖ كُلَّمَا رُ‌زِقُوا مِنْهَا مِن ثَمَرَ‌ةٍ رِّ‌زْقًا ۙ قَالُوا هَـٰذَا الَّذِي رُ‌زِقْنَا مِن قَبْلُ ۖ وَأُتُوا بِهِ مُتَشَابِهًا ۖ وَلَهُمْ فِيهَا أَزْوَاجٌ مُّطَهَّرَ‌ةٌ ۖ وَهُمْ فِيهَا خَالِدُونَ (البقرہ:۲۴۔۲۵)

’’اس آگ سے بچو جس کا ایندھن انسان اور پتھر ہیں، جو کافروں کے لئے تیار کی گئی ہےاور ایمان والوں اور نیک عمل کرنے والوں کو ان جنتوں کی خوشخبریاں دو، جن کےنیچے نہریں بہہ رہی ہیں جب کبھی وه پھلوں کا رزق دیئے جائیں گے اور ہم شکل ئے جائیں گے تو کہیں گے یہ وہی ہے جو ہم اس سے پہلے دیئے گئے تھے اور ان کے لئے بیویاں ہیں صاف ستھری اور وه ان جنتوں میں ہمیشہ رہنے والے ہیں‘‘ ۔

اور فرمان باری تعالیٰ ہے:

وَكَفَىٰ بِجَهَنَّمَ سَعِيرً‌ا ﴿٥٥إِنَّ الَّذِينَ كَفَرُ‌وا بِآيَاتِنَا سَوْفَ نُصْلِيهِمْ نَارً‌ا كُلَّمَا نَضِجَتْ جُلُودُهُم بَدَّلْنَاهُمْ جُلُودًا غَيْرَ‌هَا لِيَذُوقُوا الْعَذَابَ ۗ إِنَّ اللَّـهَ كَانَ عَزِيزًا حَكِيمًا ﴿٥٦وَالَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ سَنُدْخِلُهُمْ جَنَّاتٍ تَجْرِ‌ي مِن تَحْتِهَا الْأَنْهَارُ‌ خَالِدِينَ فِيهَا أَبَدًا ۖ لَّهُمْ فِيهَا أَزْوَاجٌ مُّطَهَّرَ‌ةٌ ۖ وَنُدْخِلُهُمْ ظِلًّا ظَلِيلًا ﴿٥٧(النساء:۵۵۔۵۷)

’’ اور جہنم کا جلانا کافی ہے،جن لوگوں نے ہماری آیتوں کا انکار کیا ، انہیں ہم یقینا آگ میں ڈال دیں گے جب ان کی کھالیں پک جائیں گی ہم ان کے سوا اور کھالیں بدل دیں گے تاکہ وہ عذاب چکھتے رہیں ، یقینا اللہ تعالیٰ غالب حکمت والا ہے اور جو لوگ ایمان لائے اور نیک اعمال کئے ہم عنقریب انہیں ان جنّتوں میں لے جائیں گے جن کے نیچے نہریں بہہ رہی ہیں، جن میں وہ ہمیشہ ہمیش رہیں گے، ان کے لئے وہاں صاف ستھری بیویاں ہوں گی اور ہم انہیں گھنی چھاؤں (اور پوری راحت) میں لے جائیں گے‘‘۔

اور اللہ عزّوجل کا ارشاد ہے:

إِنَّ الَّذِينَ لَا يَرْ‌جُونَ لِقَاءَنَا وَرَ‌ضُوا بِالْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَاطْمَأَنُّوا بِهَا وَالَّذِينَ هُمْ عَنْ آيَاتِنَا غَافِلُونَ ﴿٧أُولَـٰئِكَ مَأْوَاهُمُ النَّارُ‌ بِمَا كَانُوا يَكْسِبُونَ ﴿٨إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ يَهْدِيهِمْ رَ‌بُّهُم بِإِيمَانِهِمْ ۖ تَجْرِ‌ي مِن تَحْتِهِمُ الْأَنْهَارُ‌ فِي جَنَّاتِ النَّعِيمِ ﴿٩دَعْوَاهُمْ فِيهَا سُبْحَانَكَ اللَّـهُمَّ وَتَحِيَّتُهُمْ فِيهَا سَلَامٌ ۚ وَآخِرُ‌ دَعْوَاهُمْ أَنِ الْحَمْدُ لِلَّـهِ رَ‌بِّ الْعَالَمِينَ ﴿١٠(یونس:۷۔۱۰)

’’ جن لوگوں کو ہمارے پاس آنے کا یقین نہیں ہے اور وہ دنیوی زندگی پر راضی ہوگئے ہیں اور اس میں جی لگا بیٹھے ہیں اور جو لوگ ہماری آیتوں سے غافل ہیں ایسے لوگوں کا ٹھکانہ ان کے اعمال کی وجہ سے دوزخ ہے۔ یقینا جو لوگ ایمان لائے اور انہوں نے نیک کام کئے ان کا رب ان کو ان کے ایمان کے سبب ان کے مقصد تک پہنچادے گا نعمت سے بھرپور  باغوں میں جن کے نیچے نہریں جاری ہوں گی، ان کے منہ سے یہ بات نکلے گی ’’سبحان اللہ‘‘ اور ان کا باہمی سلام یہ ہوگا ‘‘ السلام علیکم’’ اور ان کی اخیر بات یہ ہوگی تمام تعریفیں اللہ کے لئے ہیں جو سارے جہان کا رب ہے‘‘۔

اسی لئے مومن کے لئے ضروری ہے کہ ان دونوں پر کامل یقین رکھے، اور ان دونوں کے لئے سامان تیار کرے ۔

إِنَّ فِي ذَٰلِكَ لَذِكْرَ‌ىٰ لِمَن كَانَ لَهُ قَلْبٌ أَوْ أَلْقَى السَّمْعَ وَهُوَ شَهِيدٌ ﴿٣٧(سورہ ق:۳۷)

’’اس میں ہر صاحب دل کے لئے عبرت ہے اور اس کے لئے جو دل سے متوجہ ہوکر کان لگائے اور وہ حاضر ہو‘‘۔

 شہادتین کے ساتھ جنت وجہنم پر ایمان کے  مِلنے کا اس حدیث میں جو تذکرہ ہے اس پر وہ چیز دلالت کرتی ہے جس کو امام بخاری ومسلم   رحمۃ اللہ علیہما نے ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت کیا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلمجب رات کو تہجد کے لئے کھڑے ہوتے تو کہتے :

(اللهم لك الحمد، أنت قيّم السموات والأرض ومن فيهن، ولك الحمد، أنت نور السموات والأرض، ولك الحمد أنت ملك السماوات والأرض، ولك الحمد أنت الحق، ووعدك الحق، ولقاؤك حق، وقولك حق، والجنة حق، والنار حق، والنبيون حق، ومحمد - صلى الله عليه وسلم- حق، والساعة حق، اللهم لك أسلمت، وبك آمنت، وعليك توكلت، وإليك أنبت، وبك خاصمت، وإليك حاكمت، فاغفر لي ما قدمت وما أخرت، وما أسررت وما أعلنت، أنت المقدم، وأنت المؤخر، لا إله إلا أنت، أو لا إله غيرك).

’’اے اللہ! تیرے ہی لیے تمام تعریفیں ہیں تو آسمان و زمین اور ان میں موجود تمام چیزوں کا نور ہے، تیرے ہی لیے تمام تعریفیں ہیں تو آسمان اور زمین اور ان میں موجود تمام چیزوں کا قائم رکھنے والا ہے اور تیرے ہی لیے تمام تعریفیں ہیں، تو حق ہے، تیرا وعدہ حق ہے، تیرا قول حق ہے، تجھ سے ملنا حق ہے، جنت حق ہے، دوزخ حق ہے، قیامت حق ہے، انبیاء حق ہیں اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلمحق ہیں۔ اے اللہ! تیرے سپرد کیا، تجھ پر بھروسہ کیا، تجھ پر ایمان لایا، تیری طرف رجوع کیا، دشمنوں کا معاملہ تیرے سپرد کیا، فیصلہ تیرے سپرد کیا، پس میری اگلی پچھلی خطائیں معاف کر۔ وہ بھی جو میں نے چھپ کر کی ہیں اور وہ بھی جو کھل کر کی ہیں تو ہی سب سے پہلے ہے اور تو ہی سب سے بعد میں ہے، صرف تو ہی معبود ہے اور تیرے سوا کوئی معبود نہیں‘‘۔

نوواں نکتہ:

 مسلمان کے لئے صرف اتنا ہی کافی نہیں ہے کہ نظری طور پر صرف یہ ایمان رکھے کہ جنت وجہنم حق وثابت ہیں، بلکہ اس کے ساتھ اس عمل کا بھی پایا جانا ضروری ہے جو ان دونوں کے ایمان لانے پر دلالت کرتا ہو۔اور یہ کہ مخلوق کا ٹھکانہ اسی(اللہ) کی طرف ہے۔ اورضروری ہے کہ ایمان نظری قولی کی ایمان عملی تصدیق کرے۔ اور اپنے عملی زندگی میں اسلام کے احکام کو تطبیق دے۔

لہذا جو شخص امتحان میں کامیاب ہونا چاہتا ہے اس کے لئے ضروری ہے کہ وہ مذاکرہ کرے اور اس کی تیّاری کرے، اور جو شخص صحیح سلامت(اپنی منزل تک) پہنچنا چاہتا ہے اور وہ اپنے گاڑی سے سفر کر رہا ہو تو اس کو اس سے پہلے اس کا حساب واندازہ کرنا ہوگا۔ اور جو شخص ایمان کو ثابت کرنا چاہتا ہے تو اسے قول و اعتقاد کے ساتھ عمل کو ضرور شامل کرنا ہوگا، لیکن جس نے اپنے عمل کے ذریعہ اسکی مخالفت کی ،تو اس کا بدلہ اس کے عمل کے جنس کے اعتبار سے ہوگایعنی جیساکرے گا ویسا بھرے گا۔

چھٹا فائدہ:

 آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا قول:(أدخله الله الجنة على ما كان من العمل).

توایسے شخص کو اللہ تعالیٰ (بہرحال) جنّت میں داخل کرے گا، خواہ اس کے اعمال کیسے ہی ہوں‘‘ ۔

یہ جملہ شروع حدیث میں وارد شرط کا جواب ہے ، جیسا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

(من شهد أن لا إله إلا الله، وأن محمداً عبده ورسوله، وأن عيسى عبد الله ورسوله، وأن الجنة حق، والنار حق..)

’’ جس نے اس بات کی گواہی دے کہ اللہ کے سوا کوئی سچا معبود نہیں ہے، محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے بندے اور رسول ہیں، اور     عیسیٰ علیہ السلام (بھی) اللہ کے بندے اور رسول ہیں، اور جنت حق ہے اور جہنم حق ہے‘‘۔

اس کا جواب ہے:(أدخله الله الجنة على ما كان من العمل)،

’’ توایسے شخص کو اللہ تعالیٰ (بہرحال) جنّت میں داخل کرے گا، خواہ اس کے اعمال کیسے ہی ہوں‘‘ ۔

اور ایک روایت میں ہے:(أدخله الله الجنة من أي أبواب الجنة الثمانية).

 ’’اللہ تعالیٰ اسے جنت میں آٹھوں دروازے میں سے جس سے چاہے گا داخل کرے گا‘‘۔

  اسی طرح کا بدلہ اس شخص کو ملے گا جو اللہ  تعالیٰ کی وحدانیت کا اقرار کرے گا،  رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع کرے گا، اور یوم         آخرت پر ایمان لائے گا، تو اس کا ٹھکانہ جنّت ہوگا، اور یہ تمہارے رب کی طرف سے پورا بدلہ ہوگا۔

  ان وضاحتوں سے یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ جو اس کی خلاف ورزی کرے گا، جیسے وہ شخص جو اللہ کی وحدانیت کو نہ مانے، اور اپنے     نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی نہ کرے،یا یوم آخرت کی تکذیب کرے، اور اس طرح دیگر چیزیں، تو اس کا ٹھکانہ جہنم ہوگا۔         (اس سےاللہ کی پناہ!)،اوراسےپورا بدلہ ملے گا۔

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

أضف تعليق

كود امني
تحديث