باب: عقیدہ سے متعلق حدیثیں
حلقہ(3)
توحید کی طرف دعوت(۲-۲)
چوتھا نکتہ:
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا قول: (اگر وہ اس کی اطاعت کریں) یعنی: اس کی شہادت دیں اور اس کے مطیع ہوجائیں، پس جب آپ انہیں توحید کے لئے شہادتین کی نطق کو ضروری ہونے کے بارے میں خبر دیں، اور وہ اس کو مان لیں، اور ان دونوں شہادتوں کی گواہی دیں، تو تم دوسرے حکم کی طرف منتقل ہو۔
ایک دوسری روایت میں ابن خزیمہ رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک ہے کہ(اگر وہ اس چیز کا جواب دیں)، اور ایک روایت میں ہے(جب وہ اسے جان لیں)، ان تمام الفاظ کے معنی میں کوئی فرق نہیں ہے، ان کا معنی ایک ہے، اور یہ دعوت الی اللہ میں تدرّج یعنی جستگی کی اہمیت پر دلالت کرتے ہیں اور یہ کہ (دعوت کے کام میں ) سب سے پہلے اہم امور سے آغاز کیا جائے۔لہذا شہادتین کے اقرار کے بعد، اور اللہ کی توحید کے بعد دیگر اسلام کے ارکان اور اصولوں کی طرف منتقل ہونا چاہئے۔
پانچواں نکتہ:
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان(آپ انہیں باخبر کردیں کہ اللہ تعالیٰ نے ا ن پر دن ورات میں پانچ وقت کی نمازیں فرض کی ہیں)،
اس میں نماز کی اہمیت پر دلیل ہے، اور یہ وجوب وفرضیت میں شہادتین کے بعد آتا ہے، اسی طرح اس میں ہر عاقل وبالغ مسلمان مرد اور عورت پر نماز کے فرض ہونے کی دلیل ہے، اور دن ورات میں پنجوقتہ نمازیں فرض ہیں، اور اسی سے یہ سمجھ میں آتا ہے کہ پنج وقتہ فرض کے علاوہ بقیہ نوافل، رواتب (سنن مؤکدہ) اور وتر ہیں۔ اور تمام نوافل لازمی طور پر فرض نہیں ہیں لیکن یہ مستحب ہیں، جو ہرمسلمان مرد و عورت کے حق میں تاکید کا درجہ رکھتی ہیں، جیسا کہ ان کی فضیلت میں بہت زیادہ نصوص وارد ہوئےہیں۔
چھٹّا نکتہ:
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا قول( اگر وہ آپ کی اس میں اطاعت کریں) یعنی : ایمان لائیں اور اس بات کی تصدیق کریں کہ اللہ تعالیٰ نے ان پر اسے فرض کیا ہے اور وہ اس فرض کی انجام دہی میں جُٹ جائیں، پس اگر وہ بغیر کہےاس کو بجا لانے کی طرف سبقت کریں تو اس وقت کوئی حرج نہیں، بخلاف شہادتین کے، کیونکہ ان دونوں میں لفظ سے کہنا شرط ہے، جیسا کہ اس کا بیان گزرچکا۔
ساتواں نکتہ:
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا قول( تو آپ انہیں اس بات کی خبر دیدیجئے کہ اللہ تعالیٰ نے ان پر صدقہ فرض کیا ہے جو ان کے مالداروں سے لیا جائے گا اور ان کے فقراء پر لوٹا دیا جائے گا) اس نص میں چند مسائل ہیں:
پہلا مسئلہ:
اس حدیث میں مالدار سے مقصود جو نمووالے اموال میں نصاب کا مالک ہو تو اس میں زکاۃ واجب ہوتا ہے۔اور عام طور سے اس کا اطلاق ہر اس چیز پر ہوتا ہے جو ایسی چیز کا مالک ہو جس سے اس کی ضرورت پو ری نہ ہو،اگر چہ وہ نصاب کو نہ پہنچے۔
اور فقیر وہ ہے جس کے پاس مال نہ ہو اور نہ کوئی مناسب حلال کمائی ہو، اسے اس مقدار میں دیا جائے گا جو کھانے، لباس، گھر، اس کی ذاتی ضروریات، اور جس کا نفقہ اس پر لازم ہے اس کے لئے کافی ہو۔
دوسرا مسئلہ:
اس جملہ سے بعض علماء نے استدلا ل کیا ہے کہ زکوٰۃ امام اور اس کے نائب کے پا س جمع کیا جائے گا، لیکن اکثر فقہاء نے اس بات کو ترجیح دی ہے کہ انسا ن کے لئے اس کا خود تقسیم کرنا مستحب ہے۔
امام احمد رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ: ’’میرے نزدیک زیادہ پسندیدہ ہے کہ اسے خود نکالے اور اگر سلطان کے پاس اس کو دیدےتب بھی جائز ہے‘‘۔
اسی طرح بہت سارے علماء نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اس قول (فقیر کی طر ف اسے لوٹادیا جائے گا) سے اس بات کی دلیل پکڑے ہیں کہ:
پوری زکاۃ یا اس کے بعض حصہ کو اللہ تعالی ٰ کے قول میں وارد آٹھوں قسموں میں سے کسی ایک قسم میں دینا جائز ہے:
(إنما الصدقات للفقراء والمساكين والعاملين عليها والمؤلفة قلوبهم وفي الرقاب والغارمين وفي سبيل الله وابن السبيل...)(1)
’’صدقے صرف فقیروں کے لئے ہیں اور مسکینوں کے لئے اور ان کے وصول کرنے والوں کے لئے اور ان کے لئے جن کے دل پرچائے جاتے ہوں اور گردن چھڑانے میں اور قرض داروں کے لئے اور اللہ کی راه میں اور راہرو مسافروں کے لئے، فرض ہے اللہ کی طرف سے، اور اللہ علم وحکمت واﻻ ہے‘‘۔
پس جب انسان اپنی زکوٰۃکو کسی ایک فقیر، یا کئی فقیروں کو دے، یا اسے فقراء ومساکین اور اللہ کی راہ میں جہاد کرنے والوں میں تقسیم کردے، تو۔ ان شاء اللہ۔ یہ سب جائز ہے۔ اور زکاۃ دینے والے شخص کو زکاۃ دینے کے لئے اس کے مستحقین کو تلاش کرنا چاہئے، تا کہ صحیح مصرف میں کام آسکے۔ کسی ایسے شخص کو نہ دے جس کے بارے میں تاکید ی طورپر علم نہ ہو کہ وہ زکاۃ کے مستحقین میں سے ہےیا نہیں۔
تیسرا مسئلہ:
بعض اہل علم نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اس قول(ان کے مالداروں سے زکوٰۃ لی جائے گی اور ان کےفقیروں کی طرف لوٹا دی جائے گی) سے استدلال کیا ہے کہ زکاۃ آدمی صرف اپنے شہر میں ہی دے گا، دوسرے شہروملک کی طرف زکاۃ منتقل کرنا درست نہیں، لیکن بہت سارے محققین ،جن میں سے امام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ ہیں اس کے خلاف ہیں، ان کا کہنا ہے کہ:
’’ زکاۃ اور جو اس کے حکم میں ہے اسے کسی شرعی مصلحت کی بنا پر منتقل کرنا درست ہے‘‘۔ا.ھ۔
جیسے کہ دوسرے ملک میں قریبی رشتے دار کافی محتاج ہیں، یا مسلمانوں کے ملکوں میں سے کسی مُلک میں بھُکمری عام ہے، یا کسی جگہ میں ااسلامی جہاد ہورہا ہے تو اس میں زکوٰۃ کا بعض حصّہ دینا جائز ہے، اور اس طرح دیگر امور میں.
دوسرے ملک کی جانب زکوٰۃ کو منتقل کرنے کے جواز کے قول کے باوجود علمائے کرام رحمہم اللہ اس بات پر متفق ہیں کہ زکوٰۃ میں اصل یہی ہے کہ اسے اس شہر میں تقسیم کیا جائے جہاں اس مال میں زکوٰۃ واجب ہوا ہے۔
جیسا کہ وہ اس بات پر بھی متفق ہیں کہ جب پورےشہر والے پوری زکوٰۃ یا اس کے بعض سے مستغنی وبے نیاز ہوجائیں، اس کے مستحقین کے اصناف کے نہ پائے جانے ، یا ان کی تعداد کے کم ہونے اور مال زکوٰۃ کے زیادہ ہونے کی وجہ سے، تو اسے غیر (ملک یا شہر) کی طرف منتقل کرنا جائز ہے۔
لہذا مسلمان کو اپنے مال کی زکوٰۃ کو اس کےمستحقین تک پہنچانے کے لئے تلاش وجستجو اور سعی کرنی چاہئے،پس اگر انہیں اپنے شہر میں ہی ویسے لوگ ملیں، تو بلاشبہ وہ زیادہ بہتر ہیں، ورنہ اسے دوسری جگہ مستحقین کو دیدیں۔
چوتھا مسئلہ:
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان( پس اگر وہ اس میں آپ کی بات مان لیں تو انہیں اس بات کی خبر دید یجئے کہ اللہ تعالیٰ نے ان پر زکاۃ واجب کیا ہے، جو مالداروں سے وصول کی جائے گی، اور فقیروں کو لوٹادی جائے گی)
تو اس میں شہادتین اور نماز کے بعد زکوٰۃ کا ذکر کیا جانا اس بات کی دلیل ہے کہ زکوٰۃ نماز کے بعد سب سے واجب ترین رکن ہے، اور اکثر قرآن شریف میں نماز اور زکوٰۃ ایک ساتھ وارد ہوئے ہیں۔ایسا زکوٰۃ کی عظمت شان کی وجہ سے ہے ، ارشاد باری تعالیٰ ہے :
(وأقيموا الصلاة وآتوا الزكاة) (2)
’’ نماز قائم کرو اور زکاۃ دو‘‘۔
قرآن وسنت میں اس کی کا فی ترغیب آئی ہے، اور اس کی ادائیگی نہ کرنے والوں کے لئے سخت دھمکی آئی ہے، اسی میں سے اللہ سبحانہ کا قول:
(خذ من أموالهم صدقة تطهرهم وتزكيهم بها)(3)
’’آپ ان کے مالوں میں سے صدقہ لے لیجئے، جس کے ذریعہ سے آپ ان کو پاک صاف کردیں اور ان کے لیے دعا کیجئے‘‘۔
اور اللہ کا فرمان ہے:
(وما تقدموا لأنفسكم من خير تجدوه عند الله هو خيراً وأعظم أجرا واستغفروا الله إن الله غفور رحيم) (۴)
’’اور جو نیکی تم اپنے لئے آگے بھیجو گے اسے اللہ تعالیٰ کے ہاں بہتر سے بہتر اور ثواب میں بہت زیادہ پاؤگے اللہ تعالیٰ سے معافی مانگتے رہو۔یقینا اللہ تعالیٰ بخشنے والا مہربان ہے‘‘۔
علاوہ ازیں اس کے دیگر بہت (سے دلائل ہیں)۔
اور مال میں زکوٰۃ دینا اللہ کے نزدیک بہت بڑے اجر وثواب کا کام ہے، اسی طرح زکوٰۃ کی ادائیگی کرنے والے کو زکوٰۃ گناہوں کی نجاستوں اور اس کی گندگیوں سے پاک وصاف کرتا ہے۔ اس کے اخلاق کو جود وسخا جیسے عظیم صفت سے مزیّن کرتا ہے،اس کو بخل وکنجوسی سے بچاتا ہے، اس کے مال کو آفات سے پاک کرتا ہے اور اسے بڑھاتا ہے، اس کے علاوہ دیگر عظیم حکمتیں اور بڑے فائدے ہیں جسے اس مال کےساتھ اللہ کا حق ادا کرنے والا ہی جان سکتا ہے۔
آٹھواں نکتہ:
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا قول: (تم ان کے بہترین مال میں زکاۃ لینے سے بچو)۔
کرائم سے مقصود: عمدہ مال ہے، اور یہاں اس سے مراد: اس کے حق میں ممکن کمال کا جامع ہے، : جیسےجانورکا،کافی مقدار میں دودھ والا ہونا، اس کا بہترین شکل وصورت کا ہونا،یا زیادہ گوشت اور اون والا ہونا۔
گویا کہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم بہترین مال لینے سے بچو،بلکہ متوسط مال لو۔
اسی طرح صاحب مال کے لئے مناسب نہیں کہ برا اور خراب مال نکالے، بلکہ اسےبھی متوسّط مال دینا چاہئے، اگر اس کا دل عمدہ وبہترین مال نکالنے پے راضی ہو تو یہ بہتر اور بہت اجر وثواب کا کام ہے۔
نواں نکتہ:
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا قول: اور مظلوم کی دعوت سے بچو، کیونکہ اس کے اور اللہ کے درمیان کوئی حجاب و پردہ نہیں) یہاں دو مسئلے ہیں:
پہلا مسئلہ:
رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا ۔اس جملہ کا بیان کرنا ۔جس میں مظلوم کی بددعا سے سخت تحذیر ہے آپ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے قول:(ان کے بہترین مالوں میں زکاۃ لینے سے دور رہو) کے بعد اس کا ذکر ہونا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے اس بات کا اشارہ ہے کہ بہترین مال کا لینا صاحب مال پر ظلم کرنا ہے ، اور اس کےحق میں زیادتی سے کام لینا ہے۔
دوسرا مسئلہ:
اس میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے ظلم کے بارے میں سخت دھمکی ہے، پس آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے کلام کا مطلب ہے:
’’ مظلوم کی بددعا سے بچو، اپنے اور اس کی بددعا کے درمیان عدل قائم کرکے اور ظلم کو ترک کرکے بچاؤ وآڑ بناؤ، تاکہ مظلوم تم پر بد دعا نہ کرے اور اس کی دعوت قبول ہوجائے۔کیونکہ اس کے اور اللہ کے درمیان کوئی آڑ نہیں، بلکہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ اسے قبول فرماتا ہے۔ اور اس میں ظلم کی تمام اقسام سے بچنے کا حکم ہے چاہےزکوٰۃ لینے میں ہو، یا تمام ولایات اور ذمہ داریوں میں ہو۔اس لئے ہر ذمہ دار شخص کو ظلم سے بچنا چاہئے، کیونکہ مظلوم کی دعائیں قبول ہوتی ہے، یہاں تک کہ فاجر وفاسق ہی کیوں نہ ہو‘‘۔
جیسا کہ امام احمد رحمۃ اللہ علیہ نے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مرفوعا روایت کیا ہے :
(دعوة المظلوم مستجابة، وإن كان فاجراً ففجوره على نفسه)(5)
’’مظلوم کی دعوت قبول ہوتی ہے، اگر چہ فاجر کیوں نہ ہو،کیونکہ اس کا فجور اس کے نفس پر ہوتا ہے‘‘۔
حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ اس کی سندحسن ہے۔
حواشی:
(1) سورہ توبہ: آیت:۶۰
(2) سورہ بقرہ: آیت : ۴۳
(3) سورہ توبہ: آیت: ۱۰۳
(4) سورہ مزمّل: آیت: ۲۰
(5)اسے امام احمد رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی مسند میں روایت کیا ہے ،3/56، حديث نمبر: 8577.