مقدّمہ

نبوی امثال(proverb)  کا تعارف Episod:1

 الحمد لله رب العالمين، والصلاة والسلام على رسوله الأمين، وعلى آله وصحبه أجمعين، ومن تبعهم بإحسان إلى يوم الدين، أما بعد...

ہر قسم کی تعریف ہے اس اللہ کیلئے جو تمام جہان کا پالنے والا ہے، اور  درود وسلام کے نذرانے ہوں اسکے امین رسول پر، انکےخاندان پر اور تمام اصحاب پر، اور قیامت تک انکے سچے متبعین وپیروکاروں پر۔

حمد وصلاۃ کے بعد: 

بے شک  بلند حقائق  جب حسی ڈھانچے میں ڈھال دئے جائیں تو  اپنی معانی واہداف میں شاندارشکل حاصل کرکے ذہنوں سے قریب ہو جاتے ہیں،اور تمثیل (مثالوں کے ساتھ بات کو پیش کرنا)وہ  ڈھانچہ ہے جوغیر موجود چیز کو موجود سے، اور  معنوی چیز کو حسی  سے تشبیہ دے کر اور نظیر کو نظیر پر قیاس کرکے  معانی کوایسے زندہ صورت میں ظاہر کرتا ہے جس سے وہ ذہن میں راسخ ہوجاتی ہیں۔اور کتنا ہی شاندار معنی   ہے جسے تمثیل جمال وخوبصورتی دیتا ہے،جس کی وجہ سے  وہ نفس  کی طرف زیادہ مرغوب ہوجاتاہے ، اور عقل  اس سے قانع  ہوجاتا ہے، اور یہ (تمثیل)سنت کی توضیح میں سنت نبوی  کے اسالیب میں سےمانا جاتا ہے۔

امثال کی تعریف:

امثال جمع  ہےمَثَل   کی،  دونوں(میم وثاء) کی زبر کے ساتھ، اور مَثَل، ومِثْل ومَثِیْل: یہ  لفظ ومعنی کے اعتبار سے :شَبَہ،وشِبْہ وشبیہ کے جیسے ہیں۔

علامہ زمخشری رحمۃ    اللہ علیہ نے کہا ہے: ’’مَثَل اصل میں مِثْل کے معنی میں ہے ،یعنی:نظیرکے۔کہا جاتا ہے: مَثَلٌ ومِثْلٌ ومَثِيْلٌجیسے شَبَہ،وشِبْہ وشبِیہ کے، پھر فرمایا: اور  یہ  کبھی حال،یا صفت،یا عجیب وغریب شان والے قصّہ کیلئے مستعار ہوتا ہے‘‘ (1)۔

اور ابن قیم رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: ’’یہ(مَثَل)  ایک چیز کو دوسرے سے اسکے حکم میں تشبیہ دینا ہے، اور معقول کو محسوس سے قریب کرنا یا دومحسوس میں سے  ایک کو دوسرے سے  قریب کرنا اور ان میں سے ایک کو  دوسرا اعتبار کرنا ‘‘(2)۔

اور قاضی بیضاوی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ:‘‘مَثَل اصل میں نظیر کے معنی میں ہے  کہا جاتا ہے: مَثَلٌ ومِثْلٌ ومَثِيْلٌجیسے شَبَہ،وشِبْہ وشبِیہ کے،پھر  رائج ومشہورممثل لہ  قول کے لئے کہاجانے لگا، اور اسی چیز کی مثال دی جاتی ہے جس میں غرابت ہو، اسلئے اس میں تبدیلی سے محفوظ رکھا گیا، پھر اسکا ہرحال،یا قصہ، یاشان والی صفت  کیلئے جس میں غرابت ہو  استعمال ہونے لگا، جیسا کہ اللہ کا ارشاد ہے:

((مَثَلُ الْجَنَّةِ الَّتِي وُعِدَ الْمُتَّقُونَ))[سورة محمد: 15]

‘‘جس جنت کامتقی لوگوں سےوعدہ کیاگیاہےاسکے اوصاف یہہیں’’۔

اور اللہ تعالیٰ کا قول ہے: ((وَلَهُ الْمَثَلُ الأَعْلَى)) [سورة الروم: 27] (3).

‘‘اس کی شان بہت بلندہے’’۔یا ‘‘اس کی صفت سب سےبرترہے’’۔

اور ادب میں مَثَل کہتے ہیں: ‘‘مشہور بیان کیا ہواقول جسکے ذریعہ اس حال کی تشبیہ دینی مقصود ہوتی ہےجس میں وہ  بیان کیا گیا ہو اس  حال سے جسکے لئے وہ کہا گیا ہو ،یعنی اسکے بیان  کئے ہوئے کو  اسکے اصل سے تشبیہ دی جاتی ہے، جیسے: : " رُبَّ رميةٍ من غير رامٍ"(کبھی تیر اندازی وہ بھی کرلیتا ہے جو تیر اندازی نہیں جانتا،یعنی کبھی اناڑی کا تیر بھی نشانہ پر لگ جاتا ہے)۔اور  سب سے پہلا اس مثل کا کہنے والا حکم بن یغوث  نقری تھا، یہ مثل ایسے غلطی کرنے والے کے لئے کہا جاتا ہے جو  کبھی صحیح  کر جاتا ہے،اس لئے  کسی مورد (اصل) کا پایا  جانا ضروری ہے جس کے ساتھ بیان کئے ہوئے  کو تشبیہ دیا جائے۔

اور مثل کا کبھی حال ،صفت اورعجیب وغریب  شان والے قصہ پر بھی اطلاق کیا جاتا ہے، اور اِنہیں تینوں معانی  کی طرف علامہ زمخشری رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی کتاب (الکشاف) میں اشارہ فرمایا ہے ،چنانچہ ان  کا کہنا ہے: اور مَثَل اصل کلام عرب میں مِثل ونظیر کے معنی میں ہے،پھر  ایسے مشہور قول کیلئے کہا جانے لگا جس کی کسی اصل سے مثال بیان کی جائے، انہوں نے کوئی مثل نہیں بیان کیااور نہ ہی اسے آسانی  کا اہل سمجھا اور نہ ہی اسے استعمال وقبول کیلئے مناسب سمجھا  مگر اسی قول میں جس میں بعض وجوہ کے طور پر غرابت  پائی گئی۔ پھر کہا: اور کبھی مَثَل حال ،یا صفت، یا شان والے قصہ کیلئے استعمال ہوتا ہے جب اس میں غرابت پائی جائے۔

اسی طرح مثل کا ایک چوتھا معنی بھی ہے جس کی  تعریف کی طرفعلمائے بیان (ایک علم جس میں تشبیہ،استعارہ،مجاز،کنایہ وغیرہ  سے بحث کی جاتی ہے۔) گئے ہیں   ، مثل ان کے نزدیک:وہ مجاز مرکب ہے  جسکا علاقہ اسکے استعمال کے ظاہر ہونے پر متشابہ ہوتا ہے، اور اسکا اصل  تمثیلی استعارہ ہے، جیسے تمہارا کسی معاملہ میں متردّد شخص کے لئے کہنا: " مالي أراك تُقدِّم رِجْلاً وتؤخِّر أخرى".مجھے کیا ہوگیا کہ تمہیں ایک پیر آگے بڑھاتے دیکھتا ہوں اور دوسرا پیچھےـ

اسی طرح مثلکے  ضابط وتعریف میں کہا گیا ہے کہ: معنی کو ایسے  محسوس شکل میں ظاہر  کرنا  ہےجس سے خوبصورتی ورونق  حاصل ہو۔اور اس معنی کے لئے مثل میں کسی مورد (اصل) کی شرط نہیں ہے، اسی طرح اس میں مجاز مرکب  کا پایا جانا شرط نہیں ہے۔

اور امثال  افعال کے مقادیر  ہوتے ہیں، اور مثال بیان کرنے والااس کاریگر کی طرح ہوتا ہے جو اپنی صنعت کا اندازہ رکھتا ہے، اوراس درزی   کی طرح  ہوتا ہےجوکپڑے سلوانے والے شخص کے سائز کے مطابق  کپڑے کا اندازہ کرتا ہے،پھراسے   پھاڑتا ہے اورتراشتاہے، اور ہر چیز کا ڈھانچہ وسائزہوتا ہے، اور کلام  کا قالَب اور اسکی مقدارامثال ہیں۔

اورخفاجی رحمۃ اللہ علیہ کا  کہنا ہے کہ: ’’مثل اسلئے نام پڑا کیونکہ یہ انسان کےتصورمیں ہمیشہ قائم رہتا ہے، چنانچہ انسان اسے اپناتا ہے، اس سے نصیحت وعبرت حاصل کرتا ہے، اور اس سے امید وبیم کرتا ہے‘‘۔

حواشی:

 (1) دیکھیں: البرهان في علوم القرآن، 1/ 490.

 (2) إعلام الموقعين لابن القيم، 1/ 150، والأمثال في القرآن الكريم، 1/ 9.

 (3) تفسير البيضاوي، 1/ 186.

 (4) دیکھیں: البرهان في علوم القرآن، 1/ 487.

 

 

أضف تعليق

كود امني
تحديث