حلقہ (۱)

دُعا وذکر کی فضیلت

دُعا و  ذکر کی فضیلت   اور   اس کی ترغیب   کے سلسلے   میں بہت سی آیات اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی صحیح احادیث میں تذکرہ آیا  ہے، ہم ان میں سے جو کچھ میسّر ہے اسکا تذکرہ کرتے ہیں:اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

(( يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اذْكُرُوا اللَّهَ ذِكْرًا كَثِيرًا * وَسَبِّحُوهُ بُكْرَةً وَأَصِيلًا * هُوَ الَّـذِي يُصَـلِّي عَلَيْـكُمْ وَمَلائِكَتُهُ لِيُخْرِجَكُمْ مِنَ الظُّلُمَاتِ إِلَى النُّورِ وَكَانَ بِالْمُؤْمِنِينَ رَحِيمًا)) (1).

‘‘مسلمانو! اللہ تعالیٰ کا ذکربہت زیاده کرو، اور صبح وشام اس کی پاکیزگی بیان کرو، وہی ہے جو تم پراپنی رحمتیں بھیجتا ہے اور اس کےفرشتے (تمہارےلئےدعائے رحمت کرتےہیں) تاکہ وه تمہیں اندھیروں سے اجالےکی طرف لے جائے اور اللہ تعالیٰ مومنوں پربہت ہی مہربان ہے’’۔

 اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : ((فَاذْكُرُونِي أَذْكُرْكُمْ وَاشْكُرُوا لِي وَلا تَكْفُرُونِ))(2).

‘‘اس لئے تم میراذکرکرو، میں بھی تمہیں یادکروں گا، میری شکرگزاری کرو اور ناشکری سے بچو’’

اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے :

((إِنَّ فِي خَلْقِ السَّمَوَاتِ وَالأَرْضِ وَاخْتِلافِ اللَّيْلِ وَالنَّهَارِ لَآيَاتٍ لِأُولِي الأَلْبَابِ الَّذِينَ يَذْكُرُونَ اللَّهَ قِيَامًا وَقُعُودًا وَعَلَى جُنُوبِهِمْ وَيَتَفَكَّرُونَ فِي خَلْقِ السَّمَوَاتِ وَالأَرْضِ رَبَّنَا مَا خَلَقْتَ هَذَا بَاطِلًا سُبْحَانَكَ فَقِنَا عَذَابَ النَّارِ)) (3).

‘‘آسمانوں اور زمین کی پیدائش میں اور  رات دن کے ہیر پھیر میں یقیناً عقلمندوں کے لئے نشانیاں ہیں، جواللہ تعالیٰ کا ذکر کھڑے اور بیٹھے اور اپنی کروٹوں پر لیٹے   ہوئے  کرتے ہیں اور آسمانوں وزمین کی پیدائش میں غور وفکر کرتے ہیں اور کہتے ہیں اے ہمارے پروردگار!  تو نے یہ بے فائده نہیں بنایا،  تو پاک ہے پس  ہمیں آگ کے عذاب سے بچالے’’

اللہ تعالی ٰکا ارشاد ہے :

((يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِذَا لَقِيتُمْ فِئَةً فَاثْبُتُوا وَاذْكُرُوا اللَّهَ كَثِيرًا لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ)). (4).

‘‘اےایمان والو!   جب تم کسی مخالف فوج سے بھڑجاؤ تو  ابت قدم   رہو اور بکثرت اللہ کویاد کرو تاکہ تمہیں کامیابی حاصل ہو’’۔

اللہ تعالی ٰکا ارشاد ہے :

((يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لا تُلْهِكُمْ أَمْوَالُكُمْ وَلا أَوْلادُكُمْ عَنْ ذِكْرِ اللَّهِ وَمَنْ يَفْعَلْ ذَلِكَ فَأُوْلَئِكَ هُمُ الْخَاسِرُونَ)) (5).  

‘‘اےمسلمانو! تمہارے مال اور تمہاری اود تمہیں اللہ کےذکرسے غافل نہ کردیں۔ اور جو ایسا کریں وه بڑے ہی زیاں کارلوگ ہیں’’

 اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے :

((فَإِذَا قُضِيَتِ الصَّلاةُ فَانتَشِرُوا فِي الأَرْضِ وَابْتَغُوا مِنْ فَضْلِ اللَّهِ وَاذْكُرُوا اللَّهَ كَثِيرًا لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ)) (6).

‘‘پھر جب نماز ہوچکے تو زمین میں پھیل جاؤ اور اللہ کا فضل تلاش کرو   اور بکثرت اللہ کا ذکر کیا کرو تاکہ  تم فلاح  پالو’’

اور اللہ تبارک وتعالیٰ کا کثرت سے ذکر کرنا اور اسے دعا کرنا تمام اوقات میں مستحب ہے، صبح وشام، نیند کے وقت،نیند سے بیدارہونے کے وقت ، گھر   میں داخل ہونے کے وقت ، اس سے نکلتے وقت، مسجد میں داخل ہونے اور اس سے نکلنے کے وقت،جیسا کہ گزشتہ آیات میں ذکر ہوچکا ہے۔

اور اللہ تعالیٰ کے اس قول کی وجہ سے بھی:

((فَاصْبِرْ إِنَّ وَعْدَ اللَّهِ حَقٌّ وَاسْتَغْفِرْ لِذَنْبِكَ وَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّكَ بِالْعَشِيِّ وَالإِبْكَارِ)) (7) .

‘‘پس اے نبی!   تو صبر کر   اللہ  کا وعده بلاشک (وشبہ) سچا ہی ہے تو اپنے گناه کی معافی مانگتا ره اور صبح شام اپنے  پرور دگار کی تسبیح اور حمد  بیان کرتا ره’’

اور اللہ تعالی کے اس قول کی وجہ سے:

((فَسُبْحَانَ اللَّهِ حِينَ تُمْسُونَ وَحِينَ تُصْبِحُونَ *وَلَهُ الْحَمْدُ فِي السَّمَوَاتِ وَالأَرْضِ وَعَشِيًّا وَحِينَ تُظْهِرُونَ))(8).

‘‘پس اللہ تعالیٰ کی تسبیح پڑھا کرو  جب کہ تم شام کرو اور جب صبح کرو،تمام تعریفوں کےئق آسمان وزمین میں صرف وہی ہے تیسرے پہرکو اور ہر کے وقت بھی (اس کی پاکیزگی بیان کرو)’’۔

تلاوتِ قرآن کی فضیلت میں وارد احادیث:

صحیح مسلم میں عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں   کہ   رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نکلے اور ہم لوگ صفہ میں تھے۔ پس آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کہ تم میں سے کون چاہتا ہے کہ روز صبح کو بطحان یا عقیق کو جائے (یہ دونوں مدینہ کے بازار تھے) اور وہاں سے بڑے بڑے کوہان کی دو اونٹنیاں بغیر کسی گناہ کے اور بغیر اس کے کہ کسی رشتہ دار کی حق تلفی کرے لائے، تو ہم نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ! ہم سب اس کوچاہتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ پھر تم میں سے ہر ایک مسجد کو کیوں نہیں جاتا اور کیوں نہیں سیکھتا یا پڑھتا اللہ کی کتاب کی دو آیتیں، جو اس کےلئے دو اونٹنیوں سے بہتر ہیں اور تین بہترہیں تین اونٹنیوں سے اور چار بہتر ہیں چار اونٹنیوں سے اور اسی طرح جتنی آیتیں ہوں، اتنی اونٹنیوں سے بہتر ہیں۔(9).

اور صحیح  بخاری   میں عثمان رضی اللہ عنہ نبی   صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا

تم  میں  سب سے بہتر وہ  شخص  ہے  جو قرآن سیکھے اور لوگوں کو بھی سکھائے۔(10)

اور صحیح مسلم میں ابو امامہ باہلی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ کہتے ہوئے سنا: ‘‘قرآن پڑھو کیونکہ یہ بروز قیامت اپنے پڑھنے والے کے حق میں سفارش کرے گا’’۔

حضرت نواس بن سمعان رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ: قیامت کے دن قرآن مجید اور ان لوگوں کو جو اس  پر عمل کرنے والے تھے لایا جائے گا ان  کے آگے  سورة البقرہ  اور سورة آل عمران ہوںگی، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان سورتوں کے لئے تین مثالیں  ارشاد فرمائی ہیں جنہیں میں اب تک نہیں بھولا ، وہ   اس طرح  سے ہیں جس طرح کہ دو بادل ہوں یا دو سیاہ سائبان ہوں اور ان دونوں کے درمیان روشنی ہو یا صف بندھی ہوئی   پرندوں کی دو قطاریں ہوں، وہ اپنے پڑھنے والوں کے بارے میں جھگڑا کریں گی۔(12).

حضرت عبد اللہ بن مسعودرضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:

‘‘ جوشخص کتاب اللہ  کا ایک حرف پڑھے اسے اس کے عوض  ایک نیکی ملتی ہے اور  ایک نیکی کا دس نیکیوں کے برابر ثواب ملتا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایامیں نہیں کہتا ہوں کہ (الم)ایک حرف ہے۔بلکہ الف ایک حرف ہے۔ لام ایک حرف ہے اور میم ایک حرف ہے’’۔

دُعا وذکر کی فضیلت میں وارد احادیث:

رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم سے ذکر،تحمید، تہلیل، تسبیح، دعا اور استغفار کی فضیلت کے سلسلے میں بہت ساری احادیث آئی ہیں ، ہر وقت میں ، دن ورات کے آخری حصّہ میں اور پنج وقتہ نمازوں کے بعد سلام کہنے کے بعد ، ہم ان میں سے بعض کا تذکرہ کرتے ہیں:

۱۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ سلم کا ارشاد ہے:   ‘‘ مفرّدون  لوگ سبقت   لے گئے، لوگوں نے کہا کہ اے اللہ کے رسول ! مفرّدون کو ن لوگ ہیں؟ فرمایا: کہ اللہ کو بکثرت یا د کرنے والے اور بکثرت یاد کرنے والیاں۔

اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:اللہ کے نزدیک سب سے پسندیدہ کلام چار ہیں اور ان میں سے جس سے بھی ابتدا کرو کوئی حرج نہیں: سبحان اللہ ،والحمد للہ، ولا الہ الا اللہ، وا للہ اکبر)(15).

 صحیح مسلم میں ہی سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ : ایک دیہاتی رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور کہنے لگا مجھے کچھ کلام سکھائیے جو میں کہا کروں ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہو : لا إله إلا الله وحده لا شريك له، الله أكبر كبيراً، والحمد لله كثيرا، وسبحان الله رب العالمين، ولا حول ولا قوة إلا بالله العزيز الحكيم .

’’اللہ کے علاوہ کوئی عبادت کے لائق نہیں ، وہ اکیلا ہے اس کا کوئی شریک نہیں، اللہ سب سے بڑا ہے،بہت بڑا اور تمام تعریف اللہ کے لئے ہے،اللہ کی ذات پاکیزہ ہے جو جہانوں کا رب ہے، نہ کوئی طاقت ہے اور نہ کوئی قوت مگر اللہ کی مدد کے ساتھ جو غالب حکمت والا ہے‘‘۔

 دیہاتی نے کہا: ‘‘ یہ تو میرے رب کےلئے ہوا، میرے لئے کیا ہے؟

 آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) نے فرمایا تم کہو:(اللھم اغفرلی وارحمنی واھدنی وارزقنی)

‘‘اے اللہ! مجھے بخش دے اور مجھ پر رحم کر اور مجھے ہدایت دے اور مجھے رزق دے’’۔(۱۶)

اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نےیہ بھی فرمایا: باقیات صالحات (باقی رہنے والے نیک اعمال )یہ ہیں:

 سبحان اللہ، الحمد للہ، لا الہ الا اللہ، واللہ اکبر، ولا حول ولا قوۃ الا باللہ) (17).

اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ابن آدم نے اللہ کے ذکر سے بڑھ کر عذاب الہی سے  نجات دینے والا کوئی کام نہیں کیا’’(18).

اور معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ  کہتے ہیں کہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کیا میں تمہیں ایسا عمل نہ بتلاؤں، جو  تمہارے سب اعمال سے بہتر ،تمہارے  شہنشاہ کے نزدیک سب سے زیادہ پاکیزہ ، تمہارے درجات میں سب سے بلند ، اور تمہارے لئے سونا اور  چاندی خرچ کرنے سے زیادہ بہتر   ہے، بلکہ تمہارے لئے اس سے بھی بہتر ہے  کہ تمہارا مقابلہ تمہارے دشمن سے ہو،تم انکی گردنیں مارو اور وہ تمہاری گردن ماریں؟ـ صحابہ کرام نے کہا : کیوں نہیں اے اللہ کے رسول ، آپ نے فرمایا:  کہ وہ اللہ کا ذکر ہے(19).

اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:    جو بھی قوم کسی جگہ اللہ کا ذکر کرتی ہے  تو انہیں فرشتے گھیر لیتے ہیں، اور انہیں رحمت ڈھاک لیتی ہے، اور ان پر سکینت طاری ہوتی ہے اور اللہ تعالیٰ  ان کا اپنے (ملائکہ کے پاس ) ذکر (خیر) کرتا ہے۔(20).

اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس نے دس بار ان کلمات کو کہا:

لا إله إلا الله وحده لا شريك له، له الملك، وله الحمد، وهو على كل شيء قدير،

(یعنی اللہ کے علاوہ کوئی   برحق معبود نہیں ہے وہ اکیلا ہے اس کا کوئی شریک نہیں ہے، اسی کے لئے ساری بادشاہت ہے، اور اسی کے لئے ساری حمد ہے، اور وہ ہر چیز پر قادر ہے)  تو گویا اس نے اسماعیل علیہ السلام کی اولاد میں سے چارغلام یا لونڈیاں آزاد کیں(21).

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیاکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ  وسلم نے فرمایا  جس نے یہ کلمہ دن میں سو دفعہ پڑھا کہ: اللہ  کےسوا کوئی معبود  برحق نہیں،  وہ تنہا ہے اس کاکوئی شریک نہیں، اسی کے لیے بادشاہی ہے اور اسی کےلیےتعریفیں ہیں اور وہ  ہر  چیز   پر   قدرت رکھنے والا  ہے ۔تو اسے دس غلاموں کو آزاد کرنے کا ثواب ملےگا اور اس کے لیے سو نیکیاں لکھ دی جائیں گی اور اس کی سو برائیاں مٹا دی جائیں گی اور اس دن وہ شیطان کے شر سے محفوظ  رہے گا   شام تک کے  لیے اور کوئی شخص اس دن اس سے بہترکام کرنے والا نہیں سمجھا جائےگا، سوا اس کے جو اس سےزیادہ کرے  ،  اورجس نےسبحان الله وبحمده‏ دن میں سو مرتبہ کہا، اس کےگناہ معاف کردئیےجاتےہیں، خواہ  سمندر کی جھاگ کے برابر ہی کیوں نہ ہوں۔(22).

اور صحیحین میں ہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایادو کلمے جو زبان پر ہلکے ہیں لیکن ترازو پر (آخرت میں) بھاری ہیں اور اللہ رحمن کے یہاں پسندیدہ ہیں وہ یہ ہیں"سبحان الله وبحمده،‏‏‏‏ سبحان الله العظيم‏"‏‏۔(23).

اور امام ترمذی وغیرہ نے ابو سعید خدری اور ابوہریرہ رضی اللہ عنہما سے حسن سند کے ذریعہ روایت کیا ہے کہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:  لوگ جب کسی ایسی محفل میں بیٹھیں  جہاں وہ اللہ عزوجل کو یاد نہ کریں اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر درود نہ بھیجیں تو وہ (محفل) ان کے لئے باعث نقصان ہوگی ، پھر اگر اللہ چاہے تو انہیں عذاب دے اور چاہے تو ان کی مغفرت فرمادے۔(24).

اور ابو موسی اشعری رضی اللہ عنہ  فرماتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا: جو شخص اللہ رب العزت کا ذکر کرتا ہے اور جو اللہ کاذکر نہیں کرتا ہے اسکی مثال مردہ وزندہ شخص کی ہے۔(25).

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ: نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

 ‘‘ اللہ تعالی فرماتا ہے : میرے ساتھ بندہ جو گمان رکھتا ہے میں اسکے   قریب ہوں، اور میں اسکے ساتھ ہوتا ہوں جب وہ مجھے یاد کرتا ہے، پس اگر وہ مجھے اپنے جی میں یاد کرتا ہے تو میں بھی اسے اپنی جی میں یاد کرتا ہوں ،اور اگر وہ مجھے نیک لوگوں میں ذکر کرتا ہے تو میں اسے اس سے اعلی درجہ میں یاد کرتا ہوں ،اور اگر وہ مجھ سے ایک بالشت قریب آتا ہے تو میں اس سے ایک بازو قریب ہو تا   ہوں ، اور اگر وہ مجھ سے ایک بازوقریب آتا ہے تو میں اس سے ایک ہاتھ قریب آتا ہوں،اور اگر وہ مجھ تک چل کرآتا ہے تو میں اس تک دوڑ کرآتا ہوں ۔(26).

اور عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ :   آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہرحال میں اللہ کا ذکر کیا کرتے تھے(27).

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے  ہیں   کہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا : ‘‘جب  بھی کچھ لوگ  اللہ تعالی کے گھروں  میں سے کسی   گھر   میں جمع ہوکر کتاب اللہ کی تلاوت کرتے ہیں اور اسے آپس میں پڑھتے پڑھاتے ہیں، تو ان پر سکینت نازل ہوتی ہے، رحمت انہیں ڈھانپ لیتی ہے، فرشتے انہیں گھیر لیتے ہیں اور اللہ تعالیٰ ان کا تذکرہ   ان فرشتوں میں فرماتا ہے جو اس کے پاس ہیں، اور جس کو اسکا عمل پیچھا کردے تو اسے اسکا نسب  آگے نہیں بڑھا سکتا ہے’’۔(28).

 

حواشی:

 (1) سورة الأحزاب الآيات: 41: 43.

(2) سورة البقرة آية: 152.

 (3) سورة آل عمران الآيتان: 190، 191.

 (4) سورة الأنفال آية: 45.

 (5) سورة المنافقين آية: 9.

 (6) سورة الجمعة آية: 10.

 (7) سورة غافر آية: 55.

(8) سورة الروم الآيتان: 17، 18.

 (9) مسلم صلاة المسافرين وقصرها (803)، أحمد (4/154).

 (10) البخاري فضائل القرآن (4739)، الترمذي فضائل القرآن (2908)، أبو داود الصلاة (1452)، ابن ماجه المقدمة (211)، أحمد (1/69)، الدارمي فضائل القرآن (3338).

 (11) مسلم صلاة المسافرين وقصرها (804)، أحمد (5/249).

 (12) مسلم صلاة المسافرين وقصرها (805)، الترمذي فضائل القرآن (2883)، أحمد (4/183).

 (13) الترمذي فضائل القرآن (2910), اور فرمایا: یہ حدیث اس طریق سے حسن صحیح غریب ہے۔

 (14) مسلم الذكر، والدعاء، والتوبة، والاستغفار (2676)، أحمد (2/411).

 (15) مسلم الآداب (2137)، أحمد (5/21).

 (16) مسلم الذكر والدعاء والتوبة والاستغفار (2696)، أحمد (1/185).

 (17) مالك النداء للصلاة (489). اور علامہالبانینےاسےصحیحقراردیاہے، صحيح الجامع، رقم: (3214).

 (18) الترمذي الدعوات (3377)، ابن ماجه الأدب (3790)، أحمد (5/195)، مالك النداء للصلاة (490). اور اسے علامہ البانی نے صحیح گردانا ہے، دیکھئے: صحيح الجامع، برقم: (5644).

 (19) الترمذي الدعوات (3377)، ابن ماجه الأدب (3790)، أحمد (5/195)، مالك النداء للصلاة (490). اور اسے علامہ البانی نے صحیح گردانا ہے، دیکھئے: صحيح الجامع، برقم: (2629).

 (20) مسلم الذكر، والدعاء، والتوبة، والاستغفار (2700)، الترمذي القراءات (2945)، ابن ماجه المقدمة (225)، أحمد (2/252).

 (21) البخاري الدعوات (6041)، مسلم الذكر، والدعاء، والتوبة، والاستغفار (2693)، الترمذي الدعوات (3553)، أحمد (5/420).

 (22) البخاري بدء الخلق (3119)، مسلم الذكر، والدعاء، والتوبة، والاستغفار (2691)، الترمذي الدعوات (3468)، ابن ماجه الأدب (3798)، أحمد (2/375)، مالك النداء للصلاة (486).

 (23) البخاري الدعوات (6043)، مسلم الذكر، والدعاء، والتوبة، والاستغفار (2694)، الترمذي الدعوات (3467)، ابن ماجه الأدب (3806)، أحمد (2/232).

 (24) الترمذي الدعوات (3380)، أحمد (2/432). اور اسے علامہ البانی نے صحیح گردانا ہے، دیکھئے: صحيح الجامع، برقم: (5607).

 (25) البخاري في الدعوات، (6407).

 (26) البخاري في التوحيد، (7405).

(27) مسلم الحيض (373)، الترمذي الدعوات (3384)، أبو داود الطهارة(18)، ابن ماجه الطهارة وسننها (302)، أحمد (6/153، 6/278، 6/70).

 (28) مسلم الذكر، والدعاء، والتوبة، والاستغفار (2699)، الترمذي القراءات (2945)، أبو داود الصلاة (1455)، ابن ماجه المقدمة (225)، أحمد (2/252).

 

 

 

 

 

أضف تعليق

كود امني
تحديث