سنُت نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان اور سلف صالحین کے مفہوم میں (4-2)

 

 

 

۸۔ ابو مسعود انصاری سے روایت ہے  کہ اللہ کے رسول – صلی اللہ علیہ وسلم – نے فرمایا: ( يؤم القوم أقرؤهم لكتاب الله ، فإن كانوا في القراءة سواء فأعلمهم بالسنة، فإن كانوا في السنة سواء فأقدمهم هجرة .... ) ([1]) .

 

" کہ لوگوں کی امامت وہ شخص کرے جو کتاب اللہ کا سب سے زیادہ پڑھنے والا ہو، اگر لوگ قرأت میں برابر ہوں ، تو ان میں جو سنت کا سب سے زیادہ جاننے والا ہو ، اگر ان میں بھی  سب برابر ہوں تو ان میں جس نے پہلے ہجرت کی ہو وہ امامت کرے۔۔۔۔" (۱)۔

 

علا مہ شبیر عثمانی کہتے ہیں کہ :

 

"  جب قوم   کے لوگ علم اور دین میں ایک جیسے ہوں ، اورافضلیت   کی صورت میں بھی  شریک ہوں ،  اور اما مت تنازع اور اختلاف کا  سبب بن  جا ئے ،  اور ترجیحات کی  ضرورت آجائے ، تو ایسی  صورت میں باب کی حدیث کے مطابق عمل کیا جائے گا ،  چنانچہ کتاب اللہ  کوزیادہ  پڑھنے والے کومقدم کیا جائے گا، اورقر أ ت سے مراد: قرآ ن کو  اس کے معنی اور  اس کے احکام کو سمجھ کر پڑھنا، جیسا کہ صحابہ اور دیگر سلف صالحین  ‑ رضی اللہ  عنہم کا طریقہ اور عادت تھا،   چنانچہ ان کے قراء ان کے عالم  ہوتے تھے ، اور وہی لوگ  قصۃ بئز معونہ اور غزوہ یمامہ میں لفظ (قرّاء) سے مراد ہیں۔

 

اور کتاب اللہ کو اس کے معانی واحکام کو جان کر پڑھنے  کا حصول صرف  آپ صلی اللہ علیہ وسلم  سے مروی احادیث کے علم اور آپ کی سنتوں کی معرفت سے ہی ہوسکتی ہے، کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہی قرآن میں سے جو کچھ نازل ہوا اسے بیان کرنے والے تھے،  جیسے  سنت کا علم بغیر اس کے مآخذ  قرآن  کی جانکاری کے مکمل نہیں ہوسکتا ہے ،  تو گویا کہ قر آ ن کا علم اور سنت کا علم دونوں   ضرورت طلب ہیں ،  لیکن علم کے راستوں   پر چلنے والے کچھ لوگ ایسے ہیں :

 

 جن پر قرآ ن غالب ہے ۔ کیو نکہ اس کے ساتھ ان کا کافی اورنمایاں اہتمام رہا ہے ، جیسے  کہ صحابہ میں سے : عبدا للہ بن عباس ، اور اُ بی بن کعب رضی اللہ عنہم ۔

 

اور ان میں سے کچھ لوگ ایسے تھے  جن پر حدیث کا رنگ غالب رہا ، کیونکہ ان کا سب سے اہم مقصد سنتوں کی معرفت اور  جانکاری ، آثار کی تحقیق ، اور اس کی صحیح سمجھ  بوجھ  میں مشغول ہونا اور توجہ دینا تھا، اس طور پر کہ حدیث ان کا فن بن گیا ، جیسے : ابو ہریرہ  اور ابن عمر – رضی اللہ عنہما ‑ ،   لہذا   جب کوئی (شخص)  علم کی قوت  میں ان دونوں   لوگوں کی طرح  ہو گا تو  جو شخص علم قرآ ن میں غالب ہو گا  اس کو امامت کے لئے مقدم کیا جائے گا ، کیو نکہ قرآ ن کا بقیہ تمام دلیلوں پر مقدم ہو نا اس بات کا متقاضی ہے کہ جو شخص قرآن کے ساتھ اشتغال رکھے اسے   غیر کے ساتھ اشتغال رکھنے والے پر مقدم کیا جائے گا۔

 

 اور یہ قرآ ن کی شان  کو بلند کرنے، اور اس کے  علم  کے حصول کی طرف رغبت  دلانے کے لئے  ہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ اس کے  ذریعہ ایک قوم کو بلند کرتا ہے  اور اس کے ذریعہ دوسروں کو پست کرتا ہے۔

 

اگر وہ لوگ کتاب اللہ کے علم میں برابر ہیں ، تو ان میں سے جو سنت کے علم میں غلبہ رکھتا ہو، پس اگر وہ سنت میں بھی برابر ہوں ، تو ا ن میں سب سے پہلے ہجرت کرنے والے کو امامت کے لئے مقدّم کیا جائے گا...."  (۲).

 

۹۔ ابن عباس – رضی اللہ عنہما – سے روایت ہے ، وہ کہتے ہیں کہ اللہ کے رسول – صلی اللہ علیہ وسلم – نے حجۃ الوداع کے دن خطبہ دیا  چنانچہ آ پ نے فرمایا :

 

 (( إن الشيطان قد يئس أن يعبد بأرضكم، ولكن رضي أن يطاع فيما سوى ذلك مما تحقرون من أعمالكم، فاحذروا، إني قد تركت فيكم ما إن اعتصمتم به فلن تضلوا أبدا : كتاب الله وسنة نبيه ))

 

"شیطان اس بات سے مایوس ہو چکا  ہے کہ تمہارے سرزمیں میں اس کی عبادت کی جائے گی ، لیکن وہ اس بات سے راضی اور خوش  ہے کہ  اس کی اطاعت  اس کے علاوہ ان چیزوں میں کی جائے گی جسے تم اپنے اعمال میں سے حقیر سمجھتے  ہو ، لہذا ، تم ہوشیار رہو، بے شک  میں تمہارے درمیان دو چیزیں چھوڑ کر جا رہا ہوں اس کو جب تک مضبوطی سے تھامے  رہو گے ، تو کبھی گمراہ نہیں ہو گے  : اللہ کی کتاب (قر آن) اور اس کے نبی کی سنت (حدیث) "۔(۳)

 

۱۰۔ عروہ سے روایت ہے ، وہ کہتے ہیں کہ : میں نے عائشہ رضی اللہ عنہا سے دریافت کرتے ہوئے کہا :

 

أرأيتِ قول الله تعالى : (( إن الصفا والمروة من شعائر الله فمن حج البيت أو اعتمر فلا جناح عليه أن يطوف بهما )) [ البقرة /158 ] . فوالله ما على أحد جناح أن لا يطوف بالصفا والمروة، قالت : بئس ما قلت يا ابن أختي، إن هذه لو كانت كما أولتها عليها كانت لا جناح عليه أن لا يتطوف بهما، ولكنها أنزلت في الأنصار .... وقد سن رسول الله - صلى الله عليه وسلم - الطواف بينهما، فليس لأحد أن يترك الطواف بينهما )) 

 

"میں نے ام  المؤ منین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے پوچھا کہ اللہ تعالیٰ کے اس فرمان کے بارے میں آپ کا کیا خیال ہے (جو سورۃ البقرہ میں ہے کہ" صفا اور مروہ اللہ تعالیٰ کی نشانیوں میں سے ہیں۔ اس لیے جو بیت اللہ کا حج یا عمرہ کرے اس کے لیے ان کا طواف کرنے میں کوئی گناہ نہیں"۔

 

 اللہ کی قسم !اگر کوئی صفا و مروہ کی سعی نہ کرے تو اس میں کوئی حرج نہیں۔

 

عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا :‘‘بھتیجے! تم نے یہ بری بات کہی۔ اگر اس سے مراد وہ ہوتا جو تم نے لیا ہے تو اس طرح ہوتا:( لا جناح عليه أن لا يتطوف بهما ) "ان کے طواف نہ کرنے میں کوئی گناہ نہیں" لیکن بات در اصل یہ ہے کہ یہ آیت انصار کے  بارے میں اتری تھی ....اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے  ان دونوں کے مابین طواف کو  مسنون کیا ہے، لہذا کسی کے لئے ان دونوں کے مابین  طواف کا ترک کرنا درست نہیں" ۔(۴)

 

ابن حجر رحمۃاللہ علیہ عائشہ  رضی اللہ عنہا کے اس قول :( :سن رسول الله الطواف بين الصفا والمروة )  " یعنی  اللہ کے رسول نے صفا اور مروہ  کے درمیان  طواف کو مسنون کیا ہے" پر تبصرہ کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ:

 

"تنبیہ: عائشہ ۔رضی اللہ عنہا۔ کا قول کہ: اللہ کے رسول نے صفا اور مروہ  کے درمیان  طواف کو مسنون  کیا ہے: یعنی سنت کے ذریعہ فرض کیا  ہے، اور اس سے اس کے فرضیت کی نفی   - یعنی اس مشروع عبادت کی فرضیت کی نفی- مراد نہیں ہے اور اس کی تائید صحیح مسلم  میں عائشہ رضی اللہ عنہا کے اس قول سے ہوتی ہے:  "اور میرے عمر کی قسم! اللہ تعالیٰ تم میں سےکسی کے حج اور عمرہ کو اس وقت تک پورا نہ  کرے گا، جب تک کہ  وہ ان دونوں(صفا اور مروہ) کا طواف نہ کر لے گا"۔ (۵)

 

۱۱۔ ابو سعید خدری  سے روایت ہے ، وہ کہتے  ہیں کہ :

 

( خرج رجلان في سفر فحضرت الصلاة وليس معهما ماء فتيمما صعيداً طيبا، فصليا، ثم وجدا الماء في الوقت، فأعاد أحدهما الصلاة والوضوء، ولم يعد الآخر، ثم أتيا رسول الله - صلى الله عليه وسلم - فذكرا ذلك له، فقال للذي لم يعد : (( أصبت السنة وأجزأتك صلاتك ))، وقال للذي توضأ وأعاد ( لك الأجر مرتين )(6)

 

" دو شخص ایک سفر میں نکلے تو نماز کا وقت آ گیا اور ان کے پاس پانی نہیں تھا، چنانچہ انہوں نے پاک مٹی سے تیمم کیا اور نماز پڑھی، پھر وقت کے اندر ہی انہیں پانی مل گیا تو ان میں سے ایک نے نماز اور وضو دونوں کو دوہرایا، اور دوسرے نے نہیں دوہرایا، پھر دونوں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے تو ان دونوں نے آپ سے اس کا ذکر کیا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس شخص سے فرمایا جس نے نماز نہیں لوٹائی تھی کہ"تم نے سنت کو پا لیا اور تمہاری نماز تمہیں کافی ہو گئی"، اور جس شخص نے وضو کر کے دوبارہ نماز پڑھی تھی اس سے فرمایا :

 

"تمہارے لیے دوگنا ثواب ہے(۶) 

 

صاحب مر قاۃ  کہتے ہیں کہ : " أصبت السنة " ( تم نے سنت کو پا لیا)  یعنی: وہ شرعی   طریقہ جو سنت سے ثابت ہے ، یعنی تومشروع حکم کےموافق ہوگیا ،  اور یہ اس کےاجتہاد کو درست قرادینا ہے، اور دوسرے کے اجتہاد کو غلط  ٹھہرانا ہے"۔(۷)

 

۱۲۔ جابر –  رضی اللہ عنہ – سے روایت ہے کہ  اللہ کے رسول – صلی اللہ علیہ وسلم – نے اونٹ اور گائے کی قربانی کو سات  لوگوں کی  طرف سے مسنون قرار دیا ہے " (۸)

 

۱۳۔ ابن عباس – رضی اللہ عنہما – فرماتے ہیں کہ :"   اللہ کے رسول – صلی اللہ علیہ  سلم – نے  جتنی چیزوں کو مسنون قراردیا ہے اس کا مجھے علم ہے سوائے تین چیزوں کے:

 

۱۔ مجھے نہیں معلوم   کہ آ یا آ پ ظہر اور عصر میں قرأ ت کرتے تھے یا  نہیں ؟۔

 

۲۔ میں نہیں جانتا کہ  آ پ اللہ کے اس قول : (( وقد بلغت من الكبر عتيا) یا( عسيا ) کس طرح پڑھتے تھے ؟

 

۳۔ ابن عباس سے روایت کرنے والے حصین بن عبد الرحمن کہتے ہیں کہ : تیسری چیز میں بھو ل گیا۔  (۹)

 

۱۴۔ابو ہریرہ – رضی اللہ عنہ –  مشرکین کی جانب سے صحابی جلیل خبیب بن عدی کو باندھ کر قتل کرنے کے واقعہ کو بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ: ( فكان خبيب هو سن الركعتين لكل امرئ مسلم قتل صبرًا )

 

" خبیب  ۔رضی اللہ عنہ ۔نے  ہی  ہر باندھ کر قتل کئے جانے والے مسلمان کے لئے دو رکعت نماز پڑھنے کی سنّت جاری کیا۔"(۱۰)

 

اور ایک دوسری روایت میں ہے کہ : ( وكان خبيب هو سن لكل مسلم قتل صبرًا : الصلاة )

 

"خبیب نے ہی ہر  باندھ  کر قتل کئے جانے والے مسلمان کے لئے نماز پڑھنے کی سنت جاری کی۔"(۱۱)

 

اور ایک تیسری روایت میں ہے کہ : ( فكان أول من سن الركعتين عند القتل هو)

 

" جس نے سب سے پہلے قتل کے  وقت دو رکعت نما ز کی سنت جاری کی  وہ  وہی    ( خبیب ) ہیں۔" (۱۲)

 

علامہ قسطلانی رحمۃ اللہ علیہ   پہلی  روایت کے بارے میں کہتے ہیں کہ : ( وإنما صار فعل خبيب سنة لأنه فعل ذلك في حياة الشارع - صلى الله عليه وسلم - واستحسنه )  

 

" بلا شبہ خبیب کا یہ فعل  سنت   ہوگیا ، کیو نکہ اس کام کو انھوں نے شارع ‑ صلی اللہ علیہ وسلم – کی زندگی  میں انجام دیا ، اور آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) نے اسے مستحسن سمجھا"۔(۱۳)

 

دوسری روایت کے بارے میں کہتے ہیں کہ : ( وإنما صار ذلك سنة، لأنه فعل في حياته - صلى الله عليه وسلم - فاستحسنه وأقره )

 

" بلا شبہ ان کا یہ (عمل) سنت  بن گیا، کیونکہ انھوں نے  اس کام کو  آ پ  – صلی اللہ علیہ وسلم –  کی زندگی میں انجام دیا ، اور آپ نے اس کو اچھا سمجھا  ، اور اس کو باقی رکھا۔" (۱۴)

 

 اور اسی طرح  تیسری روایت کے بارے میں بھی کہتے ہیں کہ : ( واستشكل قوله: أول من سن، إذ السنة إنما هي أقوال رسول الله - صلى الله عليه وسلم-، وأفعاله، وأحواله، وأجيب بأنه فعلهما في حياته - صلى الله عليه وسلم- واستحسنهما)

 

"ان کے  قول   (أول من سن ) "یعنی سب سے پہلے جس نے مسنون کیا "  سے اشکال پیدا ہوتا ہے ، کیونکہ  سنت نام ہے    اللہ کے رسول – صلی اللہ علیہ وسلم – کے اقوال ،  افعال اور احوال کا، تو اس کا جواب یہ دیا گیا ہے کہ ان دونوں  کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں انجام دیا گیا اور آپ نے اسے اچھا قراردیا۔" (۱۵)

 

اورابو ہریرہ کی سابق حدیث   ،اور اس میں   خبیب رضی اللہ عنہ کے قتل کے واقعہ سے ثابت ہوتا ہے کہ: لفظ"السنۃ"  اور لفظ" سنّ"  کا معنی  یہ ہے:دین میں مشروع قابل اتباع فعل،  اس لئے کسی فقیہ کے لئے روا نہیں کہ قتل کے وقت دو رکعت  نماز پڑھنے کےمسنون ہونے پر استدلال کرے، اس      بنا  پر کہ حدیث میں لفظ (سنَّ) آیا ہے، لہذا  دو رکعت نمازپڑھنا مستحب سنت ہے، کیونکہ اس جگہ دو رکعت  نمازکی سنّیت کا حکم دوسرے  دلیل سے استفادہ کیا گیا ہے جو بلا شبہ لفظ(سنَّ) سے خارج ہے، اور وہ  رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا ان کے فعل کا  اقرار کرنا ہے۔

 

اور اسی طرح  کی بات  جابر ­ ‑ رضی اللہ عنہ – کی حدیث نمبر: (۱۲) کی  تفسیر میں کہی جائے گی۔

 

 جہاں تک رہی بات ابن عباس – رضی اللہ عنہما – کی حدیث نمبر: (۱۳)کا  ،تو اس میں صراحت کے ساتھ (سنَّ) یا (السنۃ) کا معنی  :" وہ مشروع کردہ چیزیں ہیں جو اپنےاحکام کےاعتبار سے مختلف ہیں جیسے : فرض ، یا واجب ، یا سنت ، یا مندوب ، یا مباح  وغیرہ، بلکہ اس کے حصری  اسلوب میں  ابن عباس – رضی اللہ عنہ – کا ممنوعات  کا علم بھی داخل ہے، جن سے اللہ کے رسول – صلی اللہ علیہ وسلم – نے اس کے احکام کے اختلاف  کے بر وصف منع کیا ہے۔  (۱۶)

 

اور سنت کا یہ  معنی ہر اس شخص کے لئے واضح اور معلوم ہو گیا تھا جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کی زندگی ہی میں  اسلام میں داخل ہوا تھا۔

 

 

 

 

 

حواشی :

 

(1) -  صحيح مسلم، كتاب الصلاة ، باب من أحق بالإمامۃ، حدیث نمبر : ( 1532) .

 

(2) -  فتح الملهم ( 4/20 ) ط : دار القلم.

 

(3) -  حاكم نے اپنے مستدرك ( 1/93) میں روایت کیا ہے اور کہا ہے کہ اس کی اسناد صحیح ہے، اور ذہبی نے ان کی موافقت کی ہے۔

 

(4) -  صحيح بخاري ، كتاب الحج ، باب وجوب الصفا والمروة وجعل من شعائر الله، حدیث نمبر : (1643)، و صحيح مسلم ، كتاب الحج، باب بيان أن السعي بين الصفا والمروة ركن لا يصح الحج إلا بہ، حدیث نمبر :  ( 3079) .  

 

(5) - فتح الباري 3/501.

 

(6) – سنن ابو داود ، كتاب الطهارة، باب المتيمم يجد الماء بعد ما يصلي في الوقت، حدیث نمبر : (338) .

 

(7)-  مرعاة المفاتيح ( 1/350) .

 

(8)-  امام أحمد نے اپنی مسند ( 3/335)  میں حسن سند کے ساتھ روایت کیا ہے۔

 

(9) - امام أحمد نے اپنی مسند ( 1/257) میں حسن سند کے ساتھ روایت کیا ہے۔

 

(10) -  صحيح بخاري ، كتاب الجهاد والسير ،  باب هل يستأسر الرجل ؟ ومن لم يستأسر ،ومن صلى ركعتين عند القتل ، حدیث نمبر : ( 3045) 

 

 (11) -صحيح بخاري ، كتاب المغازي، باب (تابع باب فضل من شهد بدراً) حدیث نمبر : ( 3989) .

 

 (12) -صحيح بخاري ، كتاب المغازي ، باب غزوة الرجيع، ورعل، وذكوان ... حدیث نمبر : ( 4086).

 

(13) - إرشاد الساري ( 5/165) .

 

(14) - إرشاد الساري ( 5/261) .

 

 (15) -إرشاد الساري ( 6/314) .

 

 (16) - السنۃ النبويۃوبيان مدلولها الشرعي ،صفحہ : 17.

 

أضف تعليق

كود امني
تحديث