سنت، نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان اور سلف صالحین کے مفہوم میں (4-4)
گذشتہ حلقے میں ہم نے جن نصوص کا تذکرہ کیا ہے وہ سب سنت کے متعلق صحابۂ کرام کے موقف اور اس سلسلے میں ان کے مفہوم کو بیان کرتی ہیں، اب یہاں چند دیگر نصوص کا ذکر کیا جا رہا ہے جو سنت کے تئیں ان کے بعد آنے والے لوگوں کے موقف و مفہوم کو بیان کرتی ہیں،اور وہ انہیں کے بیان کے مطابق ہے:
۱۔ غضیف بن حارث (متوفیٰ:۶۵ھ) رحمہ اللہ کہتے ہیں: (جب کوئی بدعت ظہور پذیر ہوتی ہے تو اسی کے مثل سنت چھوٹ جاتی ہے)۔ (1)
۲۔ عبد اللہ بن دیلمی رحمہ اللہ جو کبار تابعین میں سے ہیں، کہتے ہیں: (مجھ کو خبر پہنچی کہ دین کے چھوڑنے کا آغاز سنت کو ترک کرنے سے ہوگا، دین ایک ایک سنت کرکے جاتا رہے گا جیسے ایک ایک دھاگہ کر کے رسی ختم ہو جاتی ہے)۔ (2)
۳۔ ابو ادریس خولانی (متوفیٰ: ۸۰ھ) رحمہ اللہ کہتے ہیں: (جب کوئی قوم اپنے دین میں کوئی بدعت ایجاد کرتی ہے تو اللہ تعالیٰ اس کے بدلے ان سے ایک سنت اٹھا لیتا ہے)۔ (3)
۴۔قاضی شریح (متوفیٰ: ۸۰ھ) رحمہ اللہ کہتے ہیں: (بیشک تمہارے قیاس سے پیشتر سنت گزر چکی ہے، لہٰذا سنت کی پیروی کرو اور بدعت نہ نکالو،اس لیے کہ جب تک تو اثر یعنی سنت اختیار کرے رہے گا گمراہ نہیں ہوگا)۔ (4)
۵۔ ابو العالیہ (متوفیٰ: ۹۰ھ) رحمہ اللہ کہتے ہیں: (اسلام سیکھو، اس لیے کہ جب تم اسلام سیکھو گے تو اس سے منہ نہیں پھیرو گے، اور صراطِ مستقیم کو لازم پکڑو کیوں کہ یہی اسلام ہے، دائیں بائیں ہوکر اسلام میں تحریف نہ کرو، اور اپنے نبی کی سنت کو لازم پکڑو کہ جس پر آپ ﷺ کے صحابہ تھے، اور عداوت و دشمنی کی اس ہوا پرستی سے بچو جو لوگوں کے مابین بھڑک اٹھی ہے)۔(5)
۶۔ ابو سلمہ بن عبد الرحمٰن (متوفیٰ: ۹۴ھ) رحمہ اللہ نے حسن بصری (متوفیٰ: ۱۱۰ھ) رحمہ اللہ سے فرمایا: (مجھے معلوم ہوا ہے کہ تم اپنی رائے سے فتویٰ دیتے ہو، پس تم رسول اللہ ﷺ کی سنت یا اتاری ہوئی کتاب کے علاوہ سے فتویٰ نہ دیا کرو)۔ (6)
۷۔ عروہ بن زبیر (متوفیٰ: ۹۲ یا ۹۴ یا ۹۵ھ) رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں: (سنتیں، سنتیں، کیوں کہ سنتیں دین کا ستون و پایہ ہیں)۔(7)
۸۔ عمر بن عبد العزیز (متوفیٰ: ۱۰۱ھ) رحمہ اللہ کا بیان ہے: (جس سنت کا بیان ہوا ہے وہی علم ہے اور جو کچھ اس کے برخلاف آیا ہے وہ گمراہی ہے)۔ (8)
اور آپ نے یہ بھی بیان فرمایا: (رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی سنت کے ساتھ کسی اور کی رائے و عقل (قابل قبول) نہیں ہے)۔(9)
اور آپ نے یہ بھی فرمایا: (سنت کے بعد گمراہی میں پڑنے کا کوئی عذر نہیں ہے، گرچہ گمراہی میں پڑنے کو آدمی ہدایت سمجھے)۔(10)
آپ نے یہ بھی فرمایا: (رسول اللہ ﷺ نے جسے سنت قرار دیا اور آپ کے بعد حکام نے جسے سنت بتایا، اس کی پیروی اللہ عز و جل کے کتاب کی تصدیق، اس کے اطاعت کی تکمیل اور اللہ کے دین کو تقویت دینا ہے، اس میں کسی کے لیے تغیر و تبدل کرنا ممکن نہیں ہے، اور اس کے مخالفین کی رائے ناقابل التفات ہے، جس نے اس سنت کی پیروی کی وہ ہدایت یاب ہوا اور جس نے اس سے بصیرت حاصل کی وہ بصیرت افروز ہوا، اور جس نے مومنین کی راہ کے علاوہ کی پیروی کی، اللہ عز و جل اسے اسی طرف پھیردیتا ہے جس سے وہ دوستی کرتا ہے یا جس کے وہ قریب ہوتا ہے ،اور اس کا ٹھکانہ جہنم ہے اور وہ برا ٹھکانہ ہے)۔ (11)
۹۔ ابن سیرین (متوفیٰ: ۱۱۰) رحمہ اللہ کا بیان ہے: (جو کوئی آدمی کسی بدعت کی پیروی کرتا ہے تو سنت اس سے واپس ہوجاتی ہے)۔(12)
۱۰۔ مکحول (متوفیٰ: ۱۱۳ھ) رحمہ اللہ کہتے ہیں: (سنت دو طرح کا ہے: ایک وہ سنت ہے جس کی پیروی کرنا فرض اور اس کا چھوڑنا کفر ہے، اور دوسرا وہ ہے جس کی پیروی کرنا باعثِ فضیلت ہے اور دوسرے کی طرف اس کا ترک کرنا گناہ ہے)۔(13)
یہ اصولِ دین اور اس کی فروعات کو مشتمل ہے، اور اس کی تقسیم واجب و غیر واجب کی طرف کی گئی ہے، اور یہی غیر واجب فقہاء کے یہاں مقصود ہوتا ہے جب وہ سنت کی تعریف بایں طور کرتے ہیں: (جو نبی ﷺ سے بغیر فرض اور وجوب کے ثابت ہے)۔(14)
مکحول نے یہ بھی فرمایا: (قرآن کی طرف سنت کی احتیاج مندی کے بالمقابل قرآن سنت کا زیادہ احتیاج مند ہے)۔(15)
ان کا مقصود یہ ہے کہ قرآن کا سمجھنا اور اس کی تطبیق کرنا سنت کے بغیر ممکن نہیں ہے، احکام کے عام اصول اور کلی قواعد کی وجہ سے،اسی لیے قرآن کو سنت کے حوالے کیا جاتا ہے تاکہ احکام کی تبیین و وضاحت ابتدائی یا تفریعی یا نسخ کی شکل میں ہو سکے۔
۱۱۔ حسان بن عطیہ (متوفیٰ: ۱۲۰ھ) رحمہ اللہ کہتے ہیں: (جبریل علیہ السلام، رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم پر سنت کے ساتھ نازل ہوتے تھے جس طرح کہ وہ آپ پر قرآن کے ساتھ اترتے تھے، اور سنت کو اسی طرح پڑھاتے تھے جس طرح قرآن پڑھاتے تھے)۔ (16)
۱۲۔ عون بن عبد اللہ (متوفیٰ: ۱۲۰ھ) رحمہ اللہ کہتے ہیں: (جس کی وفات اسلام اور سنت پر ہوئی تو اس کے لیے ہر طرح کی بھلائی کے ساتھ خوشخبری ہے)۔ (17)
۱۳۔ یحیٰ بن کثیر (متوفیٰ: ۱۲۹ھ) رحمہ اللہ کہتے ہیں: (سنت کتاب پر فیصل ہے اور کتاب سنت پر فیصل نہیں ہے)۔ (18)
کتاب پر فیصل ہونے کا مفہوم یہ ہے کہ سنت قرآن کی تفسیر اور اس کے احکام کی تفصیل بیان کرتی ہے، اس طرح سنت قرآن کے حکمِ عام کو خاص اور حکمِ مطلق کو مقید اور اس کے مشکل مقامات کے توضیح و تشریح کرتی ہے۔
۱۴۔ زہری (متوفیٰ: ۱۳۵ھ) رحمہ اللہ کہتے ہیں: (جو ہمارے علماء گزر گئے ہیں وہ کہتے تھے: ‘‘سنت کو مضبوطی سے پکڑنا نجات ہے’’)۔ (19)
۱۵۔ اعمش (متوفیٰ: ۱۴۸ھ) کہتے ہیں: (میں کسی جماعت کو اس جماعت سے افضل نہیں جانتا جو اس حدیث کو سیکھتے اور اس سنت کو زندہ کرتے ہیں، اور تم لوگ زمین میں کتنے کم ہو؟ اللہ کی قسم تم لوگ سونے سے بھی زیادہ کم ہو)۔ (20)
۱۶۔ عبد اللہ بن عون بصری (متوفیٰ: ۱۵۱ھ) کہتے ہیں: (تین طرح کے لوگ ایسے ہیں جنہیں میں اپنے اور اپنے بھائیوں کے لیے پسند کرتا ہوں: وہ مسلم آدمی جو قرآن میں غور کرتا ہے، اس کو سیکھتا ہے، اسے پڑھتا ہے، اوراس میں تدبر نیز غور و فکر کرتا ہے۔ اور دوسرا وہ شخص: جو اس اثر و سنت میں غور و فکر کرتا ہے تو وہ اسی سے متعلق سوال کرتا ہے اور اپنی کوشش اسی میں صرف کرتا ہے۔ اور تیسراوہ شخص: جو لوگوں کو صرف اور صرف خیر کی وجہ سے چھوڑتا ہے)۔ (21)
۱۷۔ اوزاعی (متوفیٰ: ۱۵۷ھ) رحمہ اللہ کہتے ہیں: (پانچ چیزیں ایسی ہیں جن پر نبی ﷺ کے اصحاب گامزن تھے: جماعت کو لازم پکڑنا، سنت کی اتباع کرنا، مسجد کو آباد کرنا، قرآن کی تلاوت کرنا، اور اللہ کی راہ میں جہاد کرنا۔۔۔۔)۔ (22)
۱۸۔ سفیان ثوری (متوفیٰ: ۱۶۱ھ) رحمہ اللہ کہتے ہیں: (سنت کی اتباع کرو اور بدعت کو چھوڑ دو)۔ (23)
۱۹۔ فضیل بن عیاض (متوفیٰ: ۱۸۷ھ) رحمہ اللہ کہتے ہیں: (میں نے تمام اچھے لوگوں کو پایا کہ وہ سب کے سب سنت والے تھے اور بدعتیوں سے روکتے تھے)۔ (24)
۲۰۔ ابو خلال رحمہ اللہ کہتے ہیں: (یقیناً لوگوں پر ایک ایسا زمانہ آئے گا کہ ایک آدمی کھڑا ہو کر محمد ﷺ کی سنت کے بارے میں سوال کرے گا اور کسی ایسے آدمی کو نہیں پائے گا کہ وہ اسے اس سنت کے بارے میں بتائے)۔ (25)
اس مفہوم کی نصوص بکثرت ہیں، اور اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ حدیث نبوی اور صحابہ و تابعین کے کلام میں سنت کا مفہوم یہ تھا: سنت دین میں مشروع اور قابل اتباع طریقہ ہے اوریہ فرض یا واجب کے بالمقابل نہیں بولا جاتا تھا۔ اسی مفہوم میں حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کہتے ہیں: (یہ قاعدہ ہےکہ جب سنت کا لفظ حدیث میں وارد ہوتا ہے تو اس سے مراد واجب کا مقابل نہیں ہوتا ہے)۔ (26)
ابن رجب رحمہ اللہ کہتے ہیں: (سنت طریق و سلوک کو کہتے ہیں، اس طرح یہ اعتقادات اعمال اور اقوال کو مضبوطی سے تھامنے کو مشتمل ہے کہ جس پر رسول ﷺ اور خلفاء راشدین تھے۔ اور یہی سنت کا کامل مفہوم ہے۔ یہی وجہ ہے کہ سلف صالحین پہلے ہی سے سنت کو ان تمام چیزوں پر بولتے تھے۔ اور سنت کایہ مفہوم حسن، اوزاعی اور فضیل بن عیاض وغیرہ سے بھی مروی ہے)۔ (27)
سیوطی رحمہ اللہ صحابہ و تابعین کے بارے میں کہتے ہیں: (جب وہ لوگ سنت بولتے ہیں تو اس سے صرف اور صرف نبی ﷺ کی سنت مراد لیتے ہیں)۔ (28)
سنت جب حدیث اور صحابہ و تابعین کے کلام میں واقع ہو تواس کے مراد پر یہ تمام کی تمام نصوص ،صریح اور واضح طور پر دلالت کرتی ہیں۔
حواشی:
(1) الشرح والإبانة ص 143.
(2) أخرجه الدارمي ، المقدمة ، باب اتباع السنة ، رقم (97).
(3) البدع لابن وضاح ص 36.
(4) أخرجه الدارمي ، المقدمة ، باب تغير الزمان وما يحدث فيه ، رقم (202).
(5) شرح أصول الاعتقاد (1/62 رقم 17).
(6) أخرجه الدارمي ، المقدمة ، باب الفتيا وما فيه من الشدة ، رقم (163).
(7) أخرجه المروزي في (السنة) رقم (110).
(8) البدع لابن وضاح ص 38.
(9) السنة للمروزي رقم (94).
(10) السنة للمروزي رقم (95).
(11) أخرجه الآجري في الشريعة (1/48، 65، 307) اللالكائي في شرح أصول الاعتقاد(1/106رقم 135) والخطيب في الفقيه والمتفقه (1/73)
(12) أخرجه الدارمي ، المقدمة ، باب في كراهية أخذ الرأي، رقم (212).
(13) السنة للمروزي ، رقم (105).
(14) إرشاد الفحول ص 31.
(15) السنة للمروزي ، رقم (104).
(16) السنة للمرزوي ، رقم (102).
(17) شرح أصول الاعتقاد (1/67).
(18) السنة للمروزي ، رقم (103).
(19) شرح أصول الاعتقاد (1/106 رقم 137) ، وأخرجه الدارمي ، المقدمة ، باب اتباع السنة ، رقم (96).
(20) أخرجه عياض في الألماع ص 27، المحدث الفاصل ص 177.
(21) السنة للمروزي ، رقم (106) ، شرح أصول الاعتقاد (1/ 68 رقم 36).
(22) شرح أصول الاعتقاد (1/71 رقم 48) ، شرح السنة للبغوي (1/209).
(23) شرح السنة للبغوي (1/217).
(24) الشرح والإبانة لابن بطة ص 153.
(25) السنة للمروزي ، رقم (111).
(26) فتح الباري (10/340).
(27) جامع العلوم والحكم ص230.
(28) تدريب الراوي (1/189).