باب:سنّت نبوی کا مقام ومرتبہ

حلقہ(۱۳)سنّت کی اصطلاحی تعریف(۲۔۲)

 

   سنّت کی راجح تعریف

ان تعریفات میں سے راجح دوسری تعریف ہے، جس میں اقوال صحابہ اور ان کے اقوال سنت میں شامل ہیں،لیکن یہ بات دھیان میں رہے کہ جب بھی سنّت کا اطلاق کیا جاتا ہے یا اس کی تعریف کی جاتی ہے تو یہ سنت رسولﷺ کی طرف منصرف ہوتی ہے،اور جب اس کا اطلاق صحابہ  سے منقول باتوں پر کیا جائے گا تو اسے مقید کہا جائے گا ،جیسے خلفائے راشدین کی سنت، یا سنّت راشدہ،اور اس ترجیح کے اسباب درج ذیل ہیں:

۱۔اللہ عزّوجل  نے اپنی کتاب پاک میں صحابہ وتابعین کا تزکیہ فرمایا ہے، چنانچہ فرمان باری تعالیٰ ہے:

(وَالسَّابِقُونَ الأَوَّلُونَ مِنْ الْمُهَاجِرِينَ وَالأَنصَارِ وَالَّذِينَ اتَّبَعُوهُمْ بِإِحْسَانٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ وَرَضُوا عَنْهُ وَأَعَدَّ لَهُمْ جَنَّاتٍ تَجْرِي تَحْتَهَا الأَنْهَارُ خَالِدِينَ فِيهَا أَبَداً ذَلِكَ الْفَوْزُ الْعَظِيمُ) (1)

’’ اور جو مہاجرین اور انصار سابق اور مقدم ہیں اور جتنے لوگ اخلاص کے ساتھ ان کے پیرو ہیں اللہ ان سب سے راضی ہوا اور وه سب اس سے راضی ہوئے اور اللہ نے ان کے لیے ایسے باغ مہیا کر رکھے ہیں جن کے نیچے نہریں جاری ہوں گی جن میں ہمیشہ رہیں گے یہ بڑی کامیابی ہے۔‘‘

امام شاطبی ؒ فرماتے ہیں: صحابہ کرام کی سنت ایسی ہے جس  پر عمل کیا جائے گا اور اس کی طرف رجوع کیا جائے گا،اور اس کی دلیل: اللہ عزوجل کا بغیر کسی استثناء کے ان کی تعریف کرنا،اوران کی عدالت  اور جو کچھ اس کی طرف لوٹتی ہے اس کی مدح کرنا ہے، جیسا کہ اللہ تعالی کا فرمان ہے: (كُنْتُمْ خَيْرَ أُمَّةٍ أُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ)(3).’’ تم بہترین امت ہو جو لوگوں کے لئے پیدا کی گئی ہے ۔‘‘نیزارشاد ہے: (وَكَذَلِكَ جَعَلْنَاكُمْ أُمَّةً وَسَطاً لِتَكُونُوا شُهَدَاءَ عَلَى النَّاسِ وَيَكُونَ الرَّسُولُ عَلَيْكُمْ شَهِيداً)(4)۔’’ ہم نے اسی طرح تمہیں عادل امت بنایا ہے تاکہ تم لوگوں پر گواه ہوجاؤ اور رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) تم پر گواه ہوجائیں۔‘‘

۲۔رسولﷺ نے صحابہ کرام سے علم حاصل کرنے پر ابھارا ہے، چناں چہ فرمان نبویﷺہے: تم لوگ میری سنت،اور ہدایت یافتہ خلفائے راشدین کی سنت کو لازم پکڑو اور اس پرمضبوطی سے جم جاؤ۔‘‘(۵)

نیزآپﷺ نے فرمایا: بے شک بنو اسرائیل بہتر فرقوں میں بٹ گئی،اورمیری امت تہتر فرقوں میں بٹ جائے گی،سب کےسب جہنمی ہوں گی مگرصرف ایک جماعت اس عذاب سے محفوظ رہے گی،صحابہ نے کہا اے اللہ کے رسول یہ کون سی جماعت ہے،فرمایا: جس پر میں اور میرے صحابہ ہیں۔‘‘

ہمارے سلف نے اس نبوی ارشاد کی قیمت کو سمجھا ،چناں چہ انہوں نے صحابہ کرام کے اقوال وافعال کی مسنونیت  کو ثابت کیایا ان کے اقوال وافعال کو سنت شمار کیا:

ابن عبدا لبر اپنی سند سے امام مالک بن انس سے روایت کرتے ہیں کہ عمر بن عبد العزیز نے فرمایا: رسولﷺ اورآپ کے بعد حکام نے کچھ ایسی  سنتوں کو جاری کیا جن کو لینا کتاب اللہ کی تصدیق کرنا ہے، اوراللہ کی اطاعت کی تکمیل کرنا ہے،اوراللہ کے دین کو تقویت دینا ہے، جواس پر عمل کرے گا وہ ہدایت یافتہ ہے،اورجو اس سے نصرت طلب کرے گا وہ غالب وفتحیاب ہوگا،اورجواس کی مخالفت کرے گاوہ مومنین کے راستہ  کو چھوڑنے والا ہوگا،اوراللہ اس  کو اسی طرف پھیردے گا جس طرف وہ پھرنا چاہتا ہے،اوراس کا ٹھکانہ جہنم ہوگا اورکیا ہی برا ٹھکانہ ہے(۶)۔‘‘

اورامام دارمی نے اپنی سند سے عون بن عبد اللہ بن عتبہ بن مسعودرضی اللہ عنہ سے بیان کیا ہے کہ انہوں نے فرمایا: مجھےیہ بات ناپسند ہے کہ نبیﷺ کے اصحاب نے اختلاف نہیں کیا،پس اگر ان کا کسی چیز پر اتفاق ہوا،اوراسے کسی نے ترک کردیا تو وہ سنت کو چھوڑنے والا ہوا،اوراگران کا کسی چیز پر اختلاف ہوااورکسی شخص نے ان میں سے ایک کے قول  کو لیا تو اس نے سنت کولیا (۷)۔‘‘

ابن عبدا لبر اپنی سند سے صالح بن کیسان  سے بیان کرتے ہیں کہ انہوں نے کہا: میں اور زہری اکٹھا ہوئے اورہم اس وقت علم حاصل کررہے تھے، تو ہم نے کہا: ہم سنن کو لکھیں گے،چنانچہ ہم نے نبیﷺ کی حدیثوں کو لکھا، پھرانہوں نے کہا: جوکچھ آپ کے صحابہ سےآیا ہے ہم اسے لکھیں گےکیونکہ یہ سنّت ہے، میں نے کہا: یہ سنت نہیں ہے، اس لیے ہم اسے نہیں لکھیں گے،اورانہوں نے لکھ لیا ،لیکن میں نےاسےنہیں لکھا،چنانچہ وہ کا میاب ہوگیا اورمیں برباد ہوگیا۔‘‘(۸)

اسی چیز نے امام بیہقی کو اپنی کتاب ’’السنن الکبری‘‘ میں نبیﷺ اورصحابہ وتابعین کے اقوال وافعال کو جمع کرنے پر آمادہ کیا، گویا سنّت ان کے نزدیک  مرفوع،موقوف اور مقطوع کو شامل تھی۔

۳۔ صحابہ کے یہاں دینی فقہ وبصیرت   تھی جس کی بدولت وہ فتوی واجتہاد پر دوسروں سے زیادہ قادر تھے،پس گویا جو بھی قول اورفتوی یا فعل ان سے صادر ہوتا وہ سنت کی اقتدا یا سنت پر قیاس  سے خارج نہیں ہوتا،لہذا زیادہ مناسب ہے کہ یہ سنت کے مفہوم میں داخل ہو۔

امام شاطبی کہتے ہیں: جمہور علما نے اقوال کی ترجیح کے وقت صحابہ کرام (کے اقوال وافعال)کو مقدم مانا ہے، چناں چہ ایک گروہ نے ابوبکر اور عمررضی اللہ عنہما کے قول کو حجت ودلیل بنایا، اور بعض نے خلفائے اربعہ کے قول کو دلیل بنایا ہے، اوربعض  نے صحابہ کے قول کو مطلق طور پر حجت ودلیل شمار کیا ہے،اوران اقوال میں سے  ہر ایک قول کا سنت سے کچھ نہ کچھ تعلق ہے۔

اور اس سلسلے میں تمہارے لیے یہ کافی ہے کہ: احادیث میں صحابہ کی محبت کو واجب قراردیا گیا ہے،، اوران سے بغض رکھنے والوں کی مذمت بیا ن کی گئی ہے، اوریہ کہ جو ان سے محبت کرے  گویا وہ نبیﷺ سے محبت رکھنے والا ہے، اورجو ان سے بغض کا اظہار کرے  وہ گویا نبیﷺ سے بغض رکھنے والا ہے،اوریہ اس  لیے نہیں کہ  انہوں نے آپ کا مشاہدہ کیا ہے،اورآپ کی مجاورت اختیار کیا،یا صرف آپ سے گفتگو کیا ہے، کیوں کہ اس میں کوئی خصوصیت  نہیں ہے،بلکہ یہ صحابہ کرام کی آپﷺ سے شدید اتباع  وپیروی کی وجہ سے ہے، نیزآپﷺ کی سنت پر کاربند ہونے ،ساتھ ہی ساتھ آپ کی سنت کی حمایت ونصرت کرنے کی وجہ سے ہے، اور جو اس مقام پر ہو وہ اس بات کا زیادہ مستحق ہے کہ اسے قائدورہبر مانا جائے، اور اس کی سیرت کو اپنایا جائے۔‘‘ (۹)

حواشی:                                     

(۱) سورہ توبہ ؍۱۰۰

(۲)یعنی بغیر استثناء کے۔

(۳)سورہ آل عمران؍۱۱۰

(۴) سورہ بقرہ:۱۴۳

(۵)اسے ابوداود نے اپنی سنن،کتاب السنۃ ،باب لزوم السنۃ ،(رقم:۴۶۰۷)،اورترمذی نے اپنی سنن،کتاب العلم،باب ماجاء  فی الأخذ بالسنۃ واجتناب البدع،(رقم:۲۶۷۶)، میں روایت کیا ہے، اور ترمذی نے اسے حسن صحیح کہا ہے۔ اورابن ماجہ نے اپنی سنن، مقدمہ،باب اتباع سنۃ الخلفاء الراشدین المھدیین،رقم(۴۲،۴۳) میں روایت کیا ہے۔

(۶) جامع بیان العلم(۲؍۱۱۷۶،رقم:۲۳۲۶)،والفقیہہ والمتفقہ للخطیب(۱؍۴۳۵،رقم:۴۵۵)َ

(۷) سنن الدارمی،مقدمہ،باب اختلاف الفقہاء(۱؍۱۵۱)َ

(۸)جامع بیان العلم (۱؍۳۳۳،رقم:۴۴۲)،اوراس کی سندصحیح ہے، اور عبد الرزاق نے اپنی مصنف میں(۱۱؍۲۵۸۔۲۵۹)۔

(۹)الموافقات(۴؍۴۵۶،۴۶۲،۴۶۳)۔

أضف تعليق

كود امني
تحديث