باب:سنّت نبوی کا مقام ومرتبہ
حلقہ(14)اصولیین کے نزدیک سنّت کی تعریف(1۔2)
اصولیین کی اصطلاح میں سنّت : قرآن کے علاوہ نبیﷺ سے صادر ہونے والی اقوال ،افعال اور تقریرات جو کسی شرعی حکم کی دلیل بن سکیں وہ سنت ہیں ۔
گویا کہ نبیﷺ سے صادر ہونے والی اقوال ،افعال اور تقریرات جو آپﷺ کی خصوصیات میں سے ہیں وہ اصولیین کے یہاں سنت کی تعریف میں داخل نہیں ہیں۔اسی طرح آپﷺ کی صفات بھی، کیوں کہ یہ کوئی ایسا شرعی حکم ثابت نہیں کرتیں جس سے لوگ تعبد حاصل کرسکیں۔
اسی لیے ہم اصولیین کو دیکھتے ہیں کہ وہ عام طور پر ایسی چیزوں کے بارے میں گفتگو کرنے سے غفلت برتتے ہیں جو نبیﷺ کی خصائص میں سے ہیں، اوران میں سے جو بھی ان خصائص کے بارے میں گفتگو کرتا ہے تو وہ صرف اس بات کی وضاحت کے لیے کہ یہ لوگوں کے لیے لازم نہیں ہیں۔
فقہاء کی اصطلاح میں سنتّ:
۱۔ہروہ چیز جو نبیﷺ سے ثابت ہو لیکن فرض اور واجب نہ، جیسے تین بار وضوء کے اعضاء کا دھونا،اوربعض کے نزدیک کلی کرنا اور ناک میں پانی داخل کرنا ، اورجیسے دائیں کو بائیں پر مقدم کرنا، اسی طرح فجر کی فرض سے پہلے دورکعتیں وغیر ہ پڑھنا۔
۲۔اسی طرح فقہاء کبھی سنت کا اطلاق بدعت کے بالمقابل میں کرتے ہیں، جیسے ان کا اس شخص کے بارے میں کہنا جس نے اپنی بیوی کو حالت حیض اور اس طہر جس میں ہمبستری نہ کی ہو طلاق دیدے:۔یہ طلاق سنی ہے۔ طلاق بدعی کے مقابل میں۔ اور (بدعی طلاق) وہ ہے جو ایسے طہر میں واقع ہو جس میں ہمبستری حاصل ہوئی ہو، یا حالت حیض میں (طلاق) دی گئی ہو، اس لیے کہ اسلام اپنے عام قانون کے مطابق مطلقہ عورت پر عدت کے دراز ہونے کو شاق گردانتتا ہے۔(۲)
اصطلاح میں اس اختلاف کانتیجہ اس اغراض کےاختلاف کی طرف لوٹتا ہے جس کا اہل علم میں سے ہر ایک جماعت قصدکرتی ہے۔
چنانچہ محدثین نے ہمارے امام وپیشوا ،ہادی ورہبر رسولﷺ،کے بارے میں تلاش وجستجوکیا اور آپ کی سیرت، اخلاق،عادات،اخبار ،اقوال،افعال سے متعلق تمام چیز کونقل کردیا چاہے اس سے کوئی شرعی حکم ثابت ہو یا نہ ہو۔
اور اصولیین نے رسولﷺ کے بارے میں مجتہدین کے لیے قانون وضع کرنے اور لوگوں کے لیے دستورحیات بیان کرنے کی حیثیت سےتحقیق وجستجو کیا،چناں چہ آپ کے ان اقوال،افعال،اور تقریرات کا اہتما م کیا جن سے احکام ثابت ہوتے ہیں ۔
اور علمائے فقہ نے رسولﷺ ۔جن کے افعال کسی شرعی حکم کی دلالت سے خارج نہیں ہوتے۔ کے بارے میں تحقیق وجستجو کیا ،اور بندوں کے افعال کے تعلق سے شرعی حکم :واجب،حرام،مباح وغیرہ کے بارے میں تلاش کیا ہے۔
لیکن یہاں سنت سے ہماری مراد محدثین کی اصطلاح ہے، کیونکہ یہ اصولیین کی تعریف کو شامل ہے، اور سنت نبویہ کے بارے میں تمام گوشوں سے بحث کرتی ہے۔
شرح تعریف:
گذشتہ بیان سے یہ ثابت ہوا کہ محدثین کے نزدیک سنت : (نبیﷺ کے اقوال،افعال،تقریرات،اکتسابی اور پیدائشی اوصاف،آپ کی تمام خبریں،خواہ بعثت سے قبل یا بعد ہوں)
آپ کی خدمت میں تعریف کی شرح پیش ہے:
نبیﷺ کے اقوال کا مطلب: مختلف ظروف وحالات اور تقریبات کے موقع پر آپﷺ کی زبان سے جو کچھ بھی نکلی ہو، علماء اسے قولی سنت بھی کہتے ہیں،اور اس کی جمع :سنن الاقوال ہے۔اور اس کی مثال:
۱۔نبیﷺ کا فرمان ہے: ’’بے شک تمام اعمال کا دارومدار نیتوں پر ہے،اور آدمی کے لیے وہی کچھ ہے جس کی وہ نیت کرے،پس جس کی ہجرت اللہ اور اس کے رسول کی طرف ہو تو اس کی ہجرت اللہ اور اس کے رسول کی طرف ہوگی،اور جس کی ہجرت کسی دنیا کی حصولیابی یا کسی عورت سے نکاح کے لیے ہوتو اس کی ہجرت اس چیز کے لیے ہوگی جس کی اس نے نیت کی ہوگی۔‘‘(۴)
۲۔آپﷺ کا فرمان ہے:’’بے شک اللہ نے مخلوق کو پیدا کیا،اور جب ان کی پیدائش سے فارغ ہوا تو رحم نے کہا: یہ اس شخص کی جگہ ہے جو قطع رحمی سے تیری پناہ مانگے، اللہ نے کہا: ہاں، کیا تو اس بات سے راضی نہیں کہ میں اسے جوڑوں جو تجھے جوڑے،اوراس سے قطع تعلق کروں جو تجھ سے قطع تعلق کرے؟ رحم نے کہا: کیوں نہیں اے میرے رب! اللہ نے فرمایا: پس یہ تجھ کو دیا،رسولﷺ نے اس کے بعد فرمایا: کہ اگر تمہارا جی چاہے تو یہ آیت پڑھ لو (فهل عسيتم إن توليتم أن تفسدوا في الأرض وتقطعوا أرحامكم)(۵) یعنی ”کچھ عجیب نہیں کہ اگر تم کو حکومت مل جائے تو تم ملک میں فساد برپا کرو اور رشتے ناطے توڑ ڈالو۔“
۳۔آپﷺ کا فرمان: جس مسلمان کے پاس وصیت کی کوئی چیز ہو اس کے لیے درست نہیں کہ دو دن بغیر وصیت کے گزارے مگریہ کہ اس کی وصیت اس کے پاس لکھی ہوئی ہو(۶)،اور دیگر مثالیں ہیں۔۔۔
حواشی:
(۱)دیکھیں: فواتح الرحمات بشرح مسلم الثبوت(۲؍۹۶)،بھامش المستصفی للغزالی،الأحکام فی أصول الأحکام للآمدی(۱؍۱۲۷)،التحرير في أصول الفقه لابن الهمام ( 3/19/20 )، إرشاد الفحول الشوكاني، ص: 33.
(2) إرشاد الفحول للشوكاني، ص: 33.
(3) السنة ومكانتها في التشريع الإسلامي، ص: 47-49.
(4)اس حدیث کو بخاری نے صحیح میں كتاب بدء الوحي، باب كيف كان بدء الوحي (1)، اورمسلم نے صحیح میں، كتاب الإمارة، باب قول النبي - صلى الله عليه وسلم-: " إنما الأعمال بالنية " ( 4890) عمربن الخطاب رضی اللہ عنہ کی حدیث سے روایت کیا ہے۔
(۵)اس حدیث کو بخاری نے صحیح میں كتاب الأدب، باب من وصل وصله الله، رقم: ( 5987 )، اورمسلم نے صحیح میں، كتاب البر، باب صلة الرحم وتحريم قطيعتها ( 6518) ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی حدیث سے روایت کیا ہے۔
(6) اس حدیث کو بخاری نے صحیح میں ، كتاب الوصايا، باب الوصايا، ( 2738) اورمسلم نے صحیح میں ،كتاب الوصية ( 4207) میں ذکر کیا ہے۔