باب:سنت کا مقام ومرتبہ

حلقہ (۱)

مقدِّمہ

 

 

الحمد لله أنزل على نبيه الكتاب والحكمة، وأقام بهما على العباد الحجة، وضمن فيهما السداد والعصمة، فمن اتبع فقد اهتدى، ومن أعرض فقد ضلّ وغوى.

 وأصلِّي وأسلِّم وأبارك على عبد الله ورسوله الصادق الأمين، نبينا محمد المرسل رحمةً للعالمين، وعلى آله وأصحابه, ومن تبعهم بإحسان إلى يوم الدين.  

ہر قسم کی تعریف اللہ تعالیٰ کے لیے ہے ، جس نے اپنے نبی (صلی اللہ علیہ وسلم )پر کتاب اور حکمت (سنت) کو نازل کیا ، اور ان دونوں کے ذریعہ اپنے بندوں پر حجت اور دلیل قائم کیا ،اور ان دونوں کو راست روی ،  درستگی اور بے گناہی کا ضامن قرار دیا ،جس نے اس کی  اطاعت و پیروی کی  وہ ہدایت  پا گیا ، اور جس نے اس سے اعراض کیا  وہ گمراہ ہوا اور سیدھے راستہ سے بھٹک گیا ۔

           درود وسلام نازل ہو اللہ کے بندے اور اس کے امین وصادق رسول ،ہمارے نبی  محمد ﷺ پر ، جن کو دونوں جہان کے لئے رحمت بنا کر بھیجا گیا ، اور آپ کے  آل و اصحاب  پر  اور قیامت تک آپ کے دین کی سچی  اتباع و پیروی کرنے والوں پر  ۔

حمد وصلاۃ کے بعد:

بے شک نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی پاکیزہ سنّت قرآن کریم کے پہلو بہ پہلو، اسلامی دین  کی اساس اور اس کے بنیادی  ستون کی حیثیت رکھتی ہے ،جس کے بغیر دین کا کوئی  معاملہ  درست ہوسکتا ہے، نہ ہی کوئی  فہم وسمجھ حاصل ہوسکتاہے۔

چنانچہ پاکیزہ سنت نبوی کے بغیر سیرت ضائع ہوجائےگی، اسوہ و نمونہ مفقود ہو جائےگا، رسالت  کا  سلسلہ منقطع  ہوجائےگا ،  قرآن کا مفہوم  مبہم اور پیچیدہ ہو جائےگا ، اور دین کی فہم وسمجھ کا خاتمہ ہو جائےگا ۔

جب معاملہ اس طرح ہے تو سنت  اور اس کی حجّیت ، قدرو منزلت  اورمقام ومرتبہ کے بارے میں  مطالعہ وتحقیق کرنا  ، اسلامی فکر کی تعمیر  اور امت مسلمہ کی نمایاں ذہنیت سازی میں بہت ہی  اہمیت کا حامل ہے ۔ خاص طور سے جب ہم اس بات کو پیش نظررکھیں کہ موجودہ دور میں کس قدرسنت کےخلاف زبر دست حملے ہورہے  ہیں، دشمنانِ امت  اندرونی وبیرونی دونوں محاذپرسازشوں کا جال بن رہے ہیں ، اور امت کی شخصیت کو مسخ کر نا چاہتے ہیں،نیزلوگوں کونبوی ہدایت ورہنمائی سے پھیرنے اور برگشتہ کرنے،اس کےثابت شدہ احکام سےچھٹکارا دلانےاوراس کےانوارو تجلیات سےدوررکھنےکےلیےمسلسل کو ششیں ہورہی ہیں۔

اس کے لیے وہ کبھی حدیث کی بعض قسموں کے  عدم حجیت کا باطل دعویٰ کرتے ہیں ،اور کبھی یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ احادیث میں جو کچھ وارد ہے  وہ قرآن کریم کی شرح و بیان نہیں کرتا ہے ،لہذا لوگوں سے اس کا مطالبہ نہیں کیا جائے گا۔ اور وہ کبھی  سنت نبوی کےسب سے پہلے حاملین اور سب سے قدیم رواۃ  پر طعن اور قدح کرتے ہیں ،اور ان کی عدالت و ثقاہت  کی نفی کرتے ہیں ،اور کبھی یہ دعویٰ  کر ڈالتے ہیں کہ  ـنعوذ باللہ ـ   سنت (حدیث) ارشادات ونصائح اور آداب و سلیقے   سے زیادہ کچھ نہیں ہے ،جن پر مسلمان کے لئےعمل کرنا  ضروری نہیں ہے ، اور وہ اس سے دست بردار ہوسکتا ہے۔ وہ اپنے فاسدمسلک اورخبیث  افکار کے لئے واہیات باتوں، گھٹیا خیالات ،کمزور ترین شبہات  کا سہارا لیتے  ہیں ۔

منکرین حدیث کی باطل دلائل:

بعض منکرین حدیث کا گمان ہے کہ حدیث میں جو کچھ آیا ہے اس پر عمل کرنا اس وقت تک مناسب نہیں ہے جب تک کہ اس کے واردہونے کےسارے ظروف اور اس کے ظاہر ہونے کے اسباب  کی جانکاری نہ حاصل کر لی جائے، اسی طرح وہ تمام چیزیں جن کا ان کے نزدیک حدیث کی دلالت میں اثرہوسکتا ہے ۔اور اگر سنت رسول  کسی ایسے حکم پر دلالت کرے  جس پر قرآن کریم دلالت نہ کرتا ہو  تو اس حدیث کو نہیں لیا جائے گا،اور حدیث کے لئے ضروری ہے کہ ان کے جامد عقلوں پر  پیش کیا جائے ، اگر ان کے قاصر دماغ،اور بیمار دل  اس کو قبول کرلیں تو وہ حدیث صحیح ہو گی اور اس پر عمل کیا جائے گا،لیکن اگر ان کے کند ذہن میں  وہ حدیث پوری  نہیں اترتی ہے تو اس کو چھوڑدیا جائے گا  اور اس سے بےاعتنائی برتی جائے گی۔

منکرین حدیث کا رد: 

ان کم عقلوں اور بیوقوفوں کو  عقل کا ناخن لینا چاہیے ، اور جان بوجھ کر یا تجاہل عارفانہ کر کے اس حقیقت کو کبھی نہیں بھولنا چاہیے کہ اللہ کے رسول  صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت  ایک اصل واساس ہے ، جس پر اللہ کی کتاب دلالت کرتی ہے ،اور یہ قاعدہ ہے کہ  ’’اصل‘‘ کے متعلق کیا اور کیسے کا سوال نہیں کیا جاتا ہے ؟ بلکہ مومن لوگ اس کو حکم (فیصل) بناتے ہیں  اور اس کو قبول کرتے ہیں،اور پھر اس کے تئیں اپنے دلوں میں کوئی حرج  نہیں محسوس کرتے ہیں ، بلکہ اس کو  مکمل طور پر تسلیم کرتے ہیں  اور اس کی دلالت کی مکمل تابعداری کرتے ہیں۔(۱)

منکرین حدیث کے ذاتی موقف یا نظریہ کا انجام:

منکرین حدیث اپنے باطل نظریہ کی وجہ سے  بذات خود اپنے اوپر ظلم کرتے ہیں  ، اور دوسروں پر بھی ظلم کرتے ہیں ، کیونکہ وہ شریعت کی مخالفت کرنے  والےہیں ، اور مخالفت کو شرعی وجائزٹھہرالیاہے، کیونکہ  انہوں نےمحکوم ہونے کے بجائے اپنے آپ کو حاکم بنالیاہے، بلکہ اپنے آپ کو  شارع  سمجھ لیاہے،  کیونکہ  انہوں نے – سنت کا انکار کرکے یا اس میں تشکیک پیداکرکے– اپنے لئے دین کا انکار کرنا اور شیطان مردود کے وسوسے کو قبول کرنا مشروع اورجائزٹھہرالیاہے،اور یہ کھلی ہوئی گمراہی ہے۔

ارشاد باری تعالیٰ ہے:

((وما كان لمؤمن ولا مؤمنة إذا قضى الله ورسوله أمرًا أن يكون لهم الخيرة من أمرهم ومن يعص الله ورسوله فقد ضل ضلالاً مبينًا)) [الأحزاب:36].

’’اور (دیکھو) کسی مومن مرد و عورت کو اللہ اور اس کے رسول کےفیصلہ کے بعد اپنے کسی امر کا کوئی اختیار باقی نہیں رہتا، (یاد رکھو) اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کی جو بھی نافرمانی کرے گا وه صریح گمراہی میں پڑے گا۔ ‘‘ 

اور اشاد باری تعالیٰ  ہے:

  (( فلا وربك لا يؤمنون حتى يحكموك فيما شجر بينهم ثم لا يجدوا في أنفسهم حرجًا مما قضيت ويسلموا تسليمًا)) [ النساء:65].

’’سوقسم ہے تیرے پروردگار کی! یہ مومن نہیں ہوسکتے، جب تک کہ تمام آپس کے اختلافات میں آپ کو حاکم نہ مان لیں،پھر جو فیصلے آپ ان میں کردیں ان سے اپنے دل میں کسی طرح کی تنگی اور نا خوشی نہ پائیں اور فرمانبرداری کے ساتھ قبول کرلیں۔‘‘

اوراللہ کے نبی  صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے :

’’جس نے میری سنت سے اعراض کیا، وہ مجھ سے نہیں ہے ۔‘‘ (۲)

اورعمر بن خطاب  رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ : ’’اہل رائےسنتوں(حدیثوں ) کے دشمن ہیں ۔حکایت ،افسانہ اور من گھڑت باتوں نے انہیں  سنت (حدیث ) کو یاد کرنے سے تھکادیا  ، اور ان سے سنتیں ایک دم چھوٹ گئیں،  جس کی وجہ سے حدیثوں کی سوجھ بوجھ اور  احساس و شعور  ختم ہو گیا ، تو انھوں نے رائے سے کہنا شروع کیا،چنانچہ خود گمراہ ہوئے اور دوسروں کو بھی گمراہ کیا۔ ‘‘ (۳)

سنت (حدیث ) کے فوائد : 

 بلا شبہ سنت نبوی چودہ  صدی سے زائد عرصے سے اسلامی عروج وترقی  کو سمجھنےکی کنجی رہی ہے ، تو   ہماری موجودہ  زوال وکمزوری کو سمجھنے کےلیے کنجی  کیوں نہیں بن سکتی؟

بلاشبہ اللہ کے رسول ﷺ کی سنت(حدیثوں)پر عمل کرنا، اسلام کے وجود کی حفاظت اور اس کی ترقی کا کام ہے ، اور  سنت(حدیثوں ) کو ترک کرنا ،اسلام کی کمزوری وانحلال ہے۔(۴)

کیونکہ سنت بشمول نبی ﷺ کے اقوال وافعال، تقریرات اور صفات کےاسلامی زندگی یعنی مسلم ممالک  میں فرد مسلم  ،مسلم خاندان  اور مسلم جماعت  کی زندگی کے لیے تفصیلی طریقہ کار کا تصویروخاکہ پیش کرتی ہے۔

اگرقرآن کریم    انسانوں کے لیے عام ضابطہ اورقواعد کلیہ پیش کرتا ہے ، اور عمومی خاکہ تیار کرتا ہے،  اور کچھ ضروری  جزوی احکام کے بعض نمونےمتعین کرتا ہے،تو سنت (حدیث) قرآن کریم کے مجمل احکام کی تفصیل اوراس کے مبہم  امور کی توضیح و تشریح  بیان کرتی ہے   ،  اور اس کے ارشادات کی عملی شکل پیش کرتی ہے۔

  اور یہیں سے ہم سنت نبوی میں  اللہ پر ایمان لانے ،فرشتوں پر ایمان لانے ، اس کی کتابوں ، اس کے رسولوں اور قیامت کے دن پر ایمان لانے،  اور اچھی برُی تقدیر پر ایمان  لانے کی تفصیلات کا  ملاحظہ کرتے ہیں ۔

عالم برزخ کا بیان :

برزخی زندگی جس سے لوگ موت کے بعد اپنی قبروں میں دوچار ہونگے،جیسے سوال وامتحان، عذاب یا نعیم، بعث ونشور کی ہولناکی، شفاعت عظمیٰ کا موقف،حساب الٰہی،اس کے بعد نامۂ اعمال کی تقسیم ،  دیوان کا کھول دیاجانا، میزان کانصب کیاجانا ،  پل صراط کا قیام،  اور اللہ کی اطاعت و فرما نبرداری کرنے والوں کے لئے  جنت میں ایسی انعامات و اکرامات  کی نوازش   ہونا جس کا    نہ تو کسی آنکھ   نے مشاہدہ کیا ہو گا ، اور نہ کسی کان نے سنا ہو گا، اور نہ ہی کسی انسان کے دل میں اس کا تصور و خیا ل آیا ہو گا، اور اسی طرح سے اللہ کی نا فرمانی کرنے والوں کے لئے  جہنم میں  حسی اور معنوی عذاب کی متعدد اقسام   تیار ہونا وغیرہ ، ان تمام چیزوں کو سنت (حدیث)خوب تفصیل سےبیان کرتی ہے  گویا کہ وہ سب منظر آنکھوں کے سامنے  دکھائی دیتا ہے ۔

عبادات  کی تفصیلات :

 اسی طرح ہم سنت نبوی میں شعائر والی عبادات  کی تفصیلات کثرت سے پاتے ہیں  جو کہ عملی دینداری  کے جوہر کی نمائندگی کرتی ہیں ، مثال کے طور پر چارعبادات : نماز ، زکوٰۃ ، روزہ اور حج ،  ان میں سے کچھ عبادتیں   فرض ولازم ہیں جیسے : روزانہ پانچ وقت کی نمازیں ،  ہر ہفتہ میں جمعہ کی نماز ،   ہر سال یا ہر فصل کی کٹائی پر واجبی زکوٰۃ،  ہر سال رمضان کا روزہ رکھنا ، اور مستطیع کے لیےپوری عمر میں  ایک بار بیت اللہ شریف کا حج کرنا …اور ان میں کچھ عبادتیں نفلی بھی ہیں ۔

جب  ہم نماز جیسے فریضہ پر نظر ڈالتے ہیں تو سنت کونماز کی کتابوں اوراس کے بکثرت ابواب سے بھری ہوئی پاتے ہیں،جیسےکہ نمازکےمقدمات: طہارت، وضو، غسل، تیمم، موزوں پرمسح … الخ … اوراس کے ملحقات: اذان، اقامت، جماعت، امامت، اوقاتِ نماز، تعداد نماز، کیفیت نماز، ارکان،سنن، مبطلات صلاۃ، نمازکی اقسام کا بیان  جن میں سے کچھ فرض نمازیں ہیں، اورکچھ سنن مؤکدہ ہیں جیسے سنن رواتب  اوروتر، اور کچھ  غیر مؤکدہ ہیں،جیسے : قیام اللیل  اور چاشت کے وقت کی نماز ،  اسی طرح وہ نماز  جو جماعت کے ساتھ پڑھی جاتی ہے     اورجو جماعت کے ساتھ نہیں پڑھی جاتی ، اسی طرح  وہ نمازیں جو سال میں صرف ایک بار یا دو بار ادا کی جاتی ہے جیسے : عیدین کی نماز ،   اور اسی طرح سے وہ نمازیں  جو عام اسباب کی بنا پر ادا کی جاتی ہیں جیسے : صلاۃ کسوف اور  صلاۃ استسقاء   ،یا کسی خاص سبب کی وجہ سے پڑھی جاتی ہو جیسے: صلاۃ استخارہ ۔

اور جب ہم زکوٰۃ کی طرف آتے ہیں   تو اس موضوع  سے متعلق ہمیں وہ  حدیثیں ملتی ہیں  جن میں ان اموال کا بیان ہے جن میں زکوٰۃ واجب ہوتا ہے ،  نیز   ان کا نصاب ، ہر نوع میں  واجب زکوٰۃ کی مقدار ، واجب ہونے کا وقت  اور کن کن  افراد پر واجب ہوتا ہے؟  

اور اسی طرح سے روزہ ، حج  اور عمرہ  کے بارے میں  بھی کہا جائےگا،کیونکہ سنت نے  ہی ان تمام چیزوں کے احکامات کو تفصیل کے ساتھ بیان کیا ہے ۔

یہ عبادات سنت کی کتابوں میں ایک بہت بڑے حصہ پر مشتمل ہیں ، یہاں تک کہ "الجامع الصحيح للبخاري" جیسی کتاب میں تقریبا ایک چوتھائی  حدیثیں  ان ہی عبادات  کے مختلف موضوعات پر مشتمل ہیں۔

اگر ہم ان مو ضوعات میں ذکر و اذکار ،ادعیہ ماثورہ  اور تلاوت قرآن کا اضافہ کر دیں  – جو کہ بلا شبہ عبادات کا ایک حصہ ہیں –  تو ہمارے لئے سنت میں عبادات سے متعلق حدیثوں کی وافر مقدار واضح ہو جائے گی ، جبکہ بخاری نےاپنی جامع کا اختتام اسی طرح کی ایک حدیث سے کیا ہے ۔(۵)

اسلامی اخلاق کی تفصیل:

 اسی طرح ہمیں سنت نبوی میں اسلامی اخلاق کی  مفصل رہنمائی اور وضاحت ملتی ہے ، جس کی اتمام و تکمیل کے لئے اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول  محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو مبعوث کیا ، اور وہ مشتمل ہے ایسےانسانی اخلاق و آداب پر جن کے بغیر عمدہ اور شریف زندگی کا  تصور ہی نہیں کیا جا سکتا  ، سنت نے اسے ایمان کی شاخوں اور مو منوں کے فضائل میں شمار کیا ہے ، اور اسی طرح اس کی ضد کو نفاق کی نشانیوں اور منافقوں کے رذائل میں سے شمار کیا ہے ، جیسے: سچائی وامانت ، سخاوت وبہادری ، وفا داری ،شرم و حیا ، نرمی و مہربانی ، عدل و انصاف ، احسان ، خاکساری ، صبر ، غصہ کے وقت تحمل و بردباری ، قدرت کے باوجود عفو و درگذر ، والدین کے ساتھ حسن سلوک ، صلہ رحمی ، مسافروں ، مسکینوں اور یتیموں کی کفالت و دیکھ ریکھ ۔

 اسی طرح سنت (حدیث ) ان چیزوں پر مشتمل ہے جن کو ہم’’ربانی اخلاق‘‘ کے نام  سے موسوم کرتے ہیں ،جو کہ روحانی اخلاق کا اصل الاصول ہے ، جیسے : اللہ تعالیٰ سے محبت کرنا ، اس کی طرف رجوع کرنا ، اس پر بھروسہ کرنا ، اس کے لئے مخلص ہونا ، اس کی رحمت کی امید رکھنا ، اس کے عذاب سے خوف کھانا ، اس کے قضا و فیصلہ سے راضی ہونا،  اس کی طرف سے   مصیبت پر  صبر کرنا ،   اس کی نعمتوں  کا شکر بجا لانا ، اسی کے لئے محبت کرنا ، اسی کے لئے نفرت کرنا ، اس کے ولیوں سے دوستی رکھنا ، اس کے دشمنوں سے دشمنی کرنا ،  حرام چیزوں سےبچنا،  لوگوں کےپاس جوچیزیں ہیں ان سے بے رغبتی  اختیار کرنا ،  اوراللہ کے پاس جو چیز ہے اس کی رغبت رکھنا … اس کے علاوہ اور بھی اخلاق  و مقامات ہیں جن کا سچّے اہل ِتصوف نے اہتمام کیا ہے ، یہاں تک کہ ان کاکہناہےکہ : تصوف ہی اخلاق ہے ، لہذا جس کے اخلاق میں جتنا اضافہ ہو گا ، اس کے تصوف میں بھی اتنا اضافہ ہو گا ۔

اسی طرح ہم  سنت میں اسلامی آداب و سلیقہ  کی ان تفصیلات  کو پاتے ہیں  جن کا تعلق  مسلمان کے روز مرہ کی زندگی سے ہے ، اور انہی سے  امت مسلمہ کا مشترک ذوق اور مشترک ادب وجود میں آتا ہے ۔ جیسے : کھانے اور پینے  ، چلنے اوربیٹھنے ، سلام ومبارکبادی، زیارت اور اجازت طلبی ، سونے اور جاگنے ، لباس اور زینت ، گفتگو اور خاموشی ، ملاقات اور جدائی کے  آداب و سلیقے۔

چنانچہ  مسلمان جب کھاتا اور پیتا ہے تو اللہ تعالیٰ کا نام لیتا ہے ، دائیں ہاتھ سے کھاتا اور پیتا ہے ، اور اپنےقریب   سے کھاتا ہے ، اور کھانے میں میانہ روی اختیار کرتا ہے ، اور جب کھانے سے فارغ ہوتا ہے تو اللہ تعالیٰ کا حمد و ثنا  بیان کرتا ہے ۔

اسی طرح سنت نبوی  مسلمان کےلیے اس کے روزمرہ  کےبرتاؤ میں متعین آداب کا  ایک مفصل مجموعہ  پیش  کرتی ہے،جس سے مشترکہ روایات وجود میں آتی ہیں جومسلم معاشرہ کودیگر   معاشروں سے یگانہ کرتی ہیں۔  اسی طرح  سنت نبوی  فرد  مسلم  کی ایک مستقل شخصیت   بناتی ہے جو اپنی  ظاہری اور باطنی  لحاظ سے نمایاں اور ممتاز ہو تی ہے،جس کا کسی دوسری شخصیت میں گم ہوجانا دشوار ہوتا ہے۔

اسی طرح ہم سنت نبوی میں خاندانی زندگی کو ایک مضبوط اساس و بنیادپر قائم کرنے،اس  کے تعلقات کو منظم کرنے، اس کی روش کو منضبط کرنے، انہدام  و انتشار کے عوامل سے اس  کی حفاظت کرنے، اس کی حفاظت و نگہداشت  کے لئے ضروری  وسائل   کی طرف رہنمائی کرنے،نیزباہمی اتفاق  کے دشوارہوجانےاورطلاق کی نوبت آنے کی صورت میں دونوں فریق کے لئےکیا ضروری ہے، ان سبھی چیزوں کی تفصیلات  پاتے ہیں ،  چناچہ  ہم سنت نبوی میں  شوہریا بیوی کے حسنِ انتخاب ، پیغام نکاح اور اس کے احکام و مسائل ، شادی اور اس کے آداب  ،  حقوق زوجین ،  طلاق ،   رجوع  ،  عدت ، ایلاء ، ظہار  اور نان ونفقہ کے احکام و مسائل ، اولاد اوروالدین کے آپسی حقوق، بیوی  اور باپ کی طرف سے رشتہ داروں کے حقوق   …  اور اس کے علاوہ  دیگر  حقوق کے سلسلے میں کافی اہتمام اور توجہ پاتےہیں،جن پر’’ خاندانی فقہ‘‘ قائم ہے یا جسے ’’شخصی احوال‘‘ (پرسنل لا)  کا نام دیا جاتا ہے۔

سنت میں سماجی تعلقات اور لین دین کا تذکرہ:

اسی طرح   سنت نبوی میں  ایسے احکام  و مسائل کثرت سے ملتے ہیں جن کا تعلق  معاملات ،      اور مسلمانوں کے مابین  ایک دوسرے کے ساتھ سماجی تعلقات  سے ہے ، جیسے :  خرید و فروخت  ، ھبہ و قرض ،  مشارکہ و مضاربہ  ،  اجرت و کرایہ ، کفالہ و  حوالہ ، رھن و شفعہ ، وقف و وصیت ، حدود و قصاص، شہادات اور ان کے علاوہ دیگراحکام و مسائل جن سے’’فقہ معاملات‘‘منسوب   ہے۔

 شرعی پالیسی(سیاست شرعیہ) :

  اسی طرح   سنت نبوی میں  ایسے احکام  و مسائل  بھی موجود ہیں  جو  عدالتی ، مالی  اور ادارتی  امور میں  حاکم اور محکوم کے مابین تعلق کو منظم  کرتے ہیں ،  جس سے ’’ سیاسہ شرعیہ‘‘  ’’اموال‘‘ اور ’’خراج‘‘کی کتابیں   ماخوذ ہیں ۔

بین الاقوامی تعلقات :

 اسی طرح   سنت نبوی میں  ایسے احکام  و مسائل  بھی موجود ہیں  جو   اسلامی  اور غیر اسلامی ممالک کے ما بین تعلقات کومنظم کر تی ہیں، اورحالت امن اورحالت جنگ میں  مسلمانوں کے غیر مسلموں کے ساتھ  تعلقات کے دائرہ کار کاخاکہ پیش کرتی ہیں۔ اور اسی  پر فقہ  ’’سیر ‘‘  یا  ’’جہاد‘‘  قائم ہے۔ (۶)

امام ابن قیم  رحمۃ اللہ علیہ نے  اس نبوی ہدایت  کے سلسلہ میں بہت عمدہ اور نفیس بات کہی  ہے جس کے ساتھ رسول اللہ ﷺمبعوث کئے گئے    تھے، چنا نچہ آپ رقم طراز ہیں : 

رسول اللہ ﷺ کا انتقال ہو گیا ،اورآسمان میں کوئی اڑنے والا پرندہ نہیں ہے مگر آپﷺنے اس کے متعلق امت کے لیے کوئی نہ کوئی جانکاری چھوڑی ہے،اورآپ  نے اپنی امت کے لوگوں کو ساری چیزیں سکھا دی  یہاں تک کہ قضاء حاجت کے آداب  ، ہم بستری  ، سونے ، اٹھنے  بیٹھنے ،   کھانے  پینے  ،  سواری پر چڑھنے اور اترنے ، سفر و قیام ، خاموشی  و گفتگو ،  تنہائی  و  میل جول ، فقیری و مالداری ،اور صحت و بیماری کےآداب ، زندگی و موت کے تمام احکام  و مسائل بیان کردیے،  اور ان کے لئے عرش و کرسی  ،  فرشتے و جن ، جنت و جہنم ، قیامت اور اس کی ہولناکی کے اس طرح اوصاف  بیان کیے کہ گویا وہ نظروں  کے سامنے ہوں ۔  اسی طرح آپ نے امت کے لوگوں  کو ان کے رب و معبود سے مکمل طورپرمتعارف کرایا ، یہاں تک کہ گویا وہ لوگ  اس کا ا س کے اوصاف کمال اور  صفات جلال کے ساتھ  مشاہدہ کر رہے ہوں ۔ اسی طرح آپ نے اپنی امت کے لوگوں کو سابقہ نبیوں اور ان کی  امتوں  اور ان کے ساتھ جو کچھ واقع ہو ا ، یا ان پر  جو آلام و مصائب    نازل ہوئے ، ان سب سے  اس طرح آشنا کرادیا  گویا کہ وہ ان کے درمیان موجودرہے ہوں ، اسی طرح  آپ نے انہیں اچھائی اور برُائی کے راستوں سے اس  طر ح واقف کرایا   کہ آپ سے پہلے کسی نبی نے اپنی قوم کے لوگوں   کو اس  طر ح سے واقف نہیں کرایا تھا ،   نیزنبی صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں  مو ت کے احوال، اوراس کے بعد عالم برزخ  میں پیش آنے والے حالات،اور اس کے اندر روح اور بدن کو ہونے والے انعام یا عذاب سےاس طرح متعارف کرایا کہ  اس سے پہلےآپ کے علاوہ کسی بھی نبی نے متعارف نہیں کرایا تھا ،  اسی طرح سے آپ نے اپنی قوم کے لوگوں کو توحید ، نبوت ،آخرت  ، اور تمام اہل کفر اور گمراہ لوگوں  کا ردکرنے اور جواب دینے کی دلیلوں سے  متعارف کرایا ،  اور انہیں جنگوں کی چالوں ، دشمنوں سے مڈ بھیڑ  ،  اور کامیابی و نصرت   کے وہ طریقےبتلائے کہ اگر وہ لوگ اسے جانے، سمجھے اورکما حقہ اس کی رعایت کیےہوتے توکبھی کوئی دشمن ان کے سامنے نہ ٹکتا۔ اسی طرح آپ نے انہیں ابلیس کے مکر و فریب  اور اس کے ان راستوں سے  آگاہ کیا   جن سے وہ انسانوں کے پاس آتا ہے ،  نیز آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ابلیس کے مکر وفریب سے بچنے  کے طریقوں کو بھی بتایا  اور لو گ کس طرح سے اپنے آپ کو اس کے شر سے بچائیں  اور  اس کادفعیہ کریں  ۔

الغرض یہ کہ  آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  لوگوں کے پاس دنیا و آخرت کی تمام بھلائیوں کے ساتھ تشریف لائے ،  اور اللہ نے انہیں اس کے ماسوا کسی اور کا محتاج نہیں بنایا،چنانچہ آپ کی شریعت  مکمل شریعت  ہے ،   اس   شریعت محمدیہ سے زیادہ مکمل کوئی   اورشریعت  اس دنیا میں آئی ہی نہیں (۷)۔

 

حواشی :

(1) حجیۃ السنۃ، ص : 13-14.

(2) بخاري، كتاب النكاح، باب الترغيب في النكاح،  حدیث نمبر : (5063)،  ومسلم،  كتاب النكاح،  باب استحباب النكاح لمن تاقت نفسه إليه...، حدیث نمبر : (1401).

(3) ابن عبد البر (جامع بيان العلم)، حدیث نمبر: (1924، 2003،   2005)، اللالكائي  (شرح أصول الاعتقاد), (1/ 123).

(4) دیکھیے : الإسلام على مفترق الطرق، ص: 87.

(5) وه حديث یہ ہے : " كلمتان حبيبتان إلى الرحمن، خفيفتان على اللسان، ثقيلتان في الميزان: سبحان الله وبحمده، سبحان الله العظيم" يعني دو کلمے ایسے ہیں جو رحمن (الله) کے نزديك محبوب و پسندیدہ ، زبان پر ہلکے اورميزان میں بهاري ہیں: سبحان الله وبحمده، سبحان الله العظيم ۔  یہ ابو ہریرہ كي حديث سے ہے.

(6)  دیکھیے: المدخل إلى دراسة السنة، ص: 63- 67.

 

(7) إعلام الموقعين، (4/ 375).

أضف تعليق

كود امني
تحديث