باب:سنّت کا مقام ومرتبہ

حلقہ (۲)

سنت  پرمضبوطی سے قائم رہنادین  ہے  (۱‑۲)

 

جب سنت نبوی کی اس قدر وسعت  اور ہمہ گیریت  ہے تو اس کو مضبوطی سے پکڑنا دین کو مضبوطی سے پکڑناہے،خواہ معاملہ کا تعلق  اہم سنت  سے ہو یا  اہم  ترین سنت سے ہو،  کیونکہ  یہ سب مطلق اتباع  اور پیروی و اقتداء  کے عمو م  میں داخل ہیں ۔

اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے :

((قل إن كنتم تحبون الله فاتبعوني يحببكم الله ويغفر لكم ذنوبكم والله غفور رحيم)) [آل عمران:31].

"کہہ دیجئے! اگر تم اللہ تعالیٰ سے محبت رکھتے ہو تو میری تابعداری کرو، خود اللہ تعالیٰ تم سے محبت کرے گا اور تمہارے گناه معاف فرما دے گا اور اللہ تعالیٰ بڑا بخشنے وا مہربان ہے ۔"

اور فرمایا :

((لقد كان لكم في رسول الله أسوة حسنة لمن كان يرجو الله واليوم الآخر وذكر الله كثيرًا)) [الأحزاب:21].

" یقیناً تمہارے لئے رسول اللہ میں عمده نمونہ (موجود) ہے، ہر اس شخص کے لئے جو اللہ تعالیٰ کی اور قیامت کے دن کی توقع رکھتا ہے اور بکثرت اللہ تعالیٰ کی یاد کرتا ہے۔"

امام غزالی   فرماتے ہیں : "سعادت و خو ش بختی  کی کنجی سنت کی اتباع ، اور  رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم کی آپ کے تمام مصادروموارد، حرکات و سکنات ، یہاں تک کہ آپ کے کھانے پینے، سونے و جاگنے کی ہیئت اورانداز گفتگو و کلام  میں اقتدا  و پیروی  کرنےمیں ہے۔  میں یہ نہیں کہتا کہ يہ اتباع صرف عبادات کے اندرآپ کے آداب تک محدود  ہے  – کیونکہ اس کے علاوہ  ابواب میں واردسنتوں سے بے اعتنائی کی کوئی وجہ نہیں ہے–   بلکہ یہ عادات کے تمام امور کو شامل ہے،کیونکہ اسى کے ذریعہ (سنت كا)مطلق اتباع حاصل  ہوتاہے۔"

جیسا کہ اللہ تعالی کا فرمان ہے :

 ((قل إن كنتم تحبون الله فاتبعوني يحببكم الله ويغفر لكم ذنوبكم)) [آل عمران:31].

’’ کہہ دیجئے! اگر تم اللہ تعالیٰ سے محبت رکھتے ہو تو میری تابعداری کرو، خود اللہ تعالیٰ تم سے محبت کرے گا اور تمہارے گناه معاف فرما دے گا ۔‘‘

اور اسی طرح اللہ کا فرمان ہے :

(( وما آتاكم الرسول فخذوه وما نهاكم عنه فانتهوا))(1) [الحشر:7].

"جو کچھ رسول دیں لے لو، اور جس سے روکیں رک جاؤ۔" [الحشر:7].

تو اس کے بعد  بھی  کیا کسی عقل مند کے لئے مناسب ہے کہ  وہ سنت کی پیروی کرنے میں  تساہل برتے ، اور کہے کہ: یہ تو عادت و اطوار  کے قبیل سے ہیں ، اس میں اتباع و پیروی کا کوئی معنی و مطلب ہی نہیں ہے ؟

سنت کے اقسام:

بلا شبہ ہم یہ بات جانتے ہیں کہ کچھ سنتیں مؤ کدہ  ہیں  جن کو اللہ کے رسول  صلی اللہ علیہ وسلم  اكثرانجام دیتے تھے ،  اور کچھ سنتیں ایسی ہیں جنہیں  آپ کبھی کبھار انجام دیتے تھے،  ان کو سنتِ غیر مؤ کدہ کہا جاتا ہے۔

ان سنتوں میں سے کچھ کا بہت زیادہ مقام و مرتبہ  اور عظیم ثواب ہے ، جیسے :مسلمان كا نماز کو  جماعت کے ساتھ ادا کرنا ۔ اوران میں سے کچھ سنتوں کا مقام  ومرتبہ کم  ہے ، جیسے : داہنے ہاتھ سے کھانا تناول کرنا ، اور اس کے علاوہ  زندگی کے وہ تفصیلات  جن کو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم انجام ديا کرتے تھے ۔

کچھ لوگوں   کی رائے یہ ہے کہ ان چھو ٹی چھوٹی سنتوں  پر مضبوطی سے جمنا  بلا وجہ تشدد  و سختی اور انسانی عقلوں   پر بندش ہے ، کیونکہ اس بات کی کوئی جانکاری  نہیں  کہ  دائیں ہاتھ سے کھانے اور با ئیں کو ترک کردینے سے کون سا فائدہ  حاصل ہوتا ہے ؟   خاص طور سے وہ جسے لوگ تہذیب  وتمدن کانام دیتے  ہیں، لوگوں پراس بات کو تھوپتا ہے کہ  وہ کھاتے وقت اپنے دونوں ہاتھوں کا استعمال کریں ، ایک ہاتھ سے چھری  پکڑیں اور دوسرے ہاتھ سے کانٹا  ۔

یہ  لوگ ان لوگوں میں سے ہیں جو تمام  چیزوں  کواپنی عقلوں کے میزان کے تابع رکھنا  چاہتے ہیں حتی کہ دین کے امور اور اس کے لائے ہوئے احکام و مسائل اور سلوک  و اخلاق کوبھی۔ حالانکہ بروقت وہ ا عتراف کرتے ہیں کہ عقل کی ایک حد اور دائرہ کارہے  جس سےوہ ابھی تک آگے نہیں تجاوز کرسکی ہے ، اسی طرح جبکہ ہر عقل مند یہ ادراک و شعور رکھتا ہے کہ در حقیقت عقل  مجرد کا کوئی وجودنہیں ہے ، بلکہ کسی بھی انسان کی عقل اس ماحول سے متأ ثر ہو تی ہے جس میں وہ نشو  نما پاتی ہے ، اس تہذیب و ثقافت سے جس  کی چھاپ  سے اس کی شخصیت پروان چڑھتی ہے ، اسی طرح اس مذہب و عقیدہ سے جسے وہ اختیار کرتی ہے اور اس کی طرف داری کرتی ہے ۔

لہذا  جب کوئی انسان عقیدہ اور دینی امور میں اپنی عقل سے فیصلہ  لیتاہے ، تو اس کے اوپر اس بات کا خدشہ ہوتا ہے کہ وہ  غلط فیصلے صادر کرے گا ،  کیونکہ دینی عقائد  کسی ماحول کی پیداوار، یا کسی تہذیب و ثقافت کے تابع ، یا کسی انسانی عقل کی طرف سے صادر ہونے والے نہیں ہو تے ہیں، بلکہ یہ اس سے اوپر  اور بہت بلند وبالاقوت و طاقت کی طرف سے ہوتے ہیں ۔

اسی حقیقت کے پیش نظر،اوراسلام کی طرف سے  انسانی عقل کا احترام  کرتے ہوئے  اسلام قبول  کرنے میں مطلق آزادی ہے،اور وہ دلی و فکری قناعت و اطمینان یا تسلیم ورضا کی بنیاد پر ہے ۔

اللہ کا ارشاد ہے :

((لَا إِكْرَاهَ فِي الدِّينِ ۖ قَد تَّبَيَّنَ الرُّشْدُ مِنَ الْغَيِّ ۚ(( (البقرۃ: 256)

"دین کے بارے میں کوئی زبردستی نہیں، ہدایت ضلالت سے روشن ہوچکی ہے۔" (البقرۃ: ۲۵۶)

لیکن اسلام میں داخل ہو نے کے بعد انسان کے لئے ضروری ہے  کہ  اسلامی تعلیمات ، اس کے اصول و مبادی ،اور اس کے قانون و قواعد   کے تابع ہو ،  چاہے اس کی عقل اس کو سمجھ سکے یا نہ سمجھ پائے ،  اور یہی معقول بات ہے ۔

اور یہ سارے احکام ‑ بلا شك وشبہ اور اس کےعقیدہ کے مطابق اگر وہ سچا مسلمان ہے                          ‑ اللہ علیم و خبیر اور حکیم کی طرف سے نازل شدہ ہیں ، جن كےاندراس نے اپنے پیداکردہ  بندوں کی اصلاح و بھلائی  کےجملہ اسباب وديعت كيے ہوئے ہیں ۔

تو پھر  یہ اعتراض اور افتراپردازی کیوں كى جاتى  ہے کہ  دین کے کچھ امورجو  اللہ تعالی کی طرف سےيا اللہ کے نبی ﷺ –جوکہ  اپنی خواہش اور مرضی سے کچھ بھی نہیں کہتے – كى طرف سے وارد ہیں، غیر معقول اور بے سود  ہیں ؟

لیکن جب ہم  ان تمام چیزوں کو تسلیم کرليتے ہیں جو   رسول اللہ ﷺ لےکر آئے  ہیں اور ہم ان پر عمل کر تے ہیں  ، چاہے وہ ان فرائض میں سے ہوں جوہم پر واجب ہیں یا ان کے علاوہ سےہوں , تو لازمی طور سے ہمیں ان فوائدكا پتہ چلے گاجوہمیں ان سنتوں پر عمل کرنے سےحاصل ہوتا ہے، كيونکہ اسلام جو اللہ کی طرف سے آيا ہے ,عقل يا انسانی طبیعت  کے  متضاد یا مخالف ہرگز نہیں ہو سکتا  جسے خود اللہ نے ہی پیدا کیا ہے۔

ہمیں ان فوائد اورثمرات کے بارے میں غورو فکر کرنا چاہیے جو اللہ کے رسول ﷺ کی سنت  کو مضبوطی سےپکڑنے اور ان پر عمل کر کے  حاصل کیا جا سکتا ہے ، خاص طور سے  وه سنتیں جوہمارے ذاتی اختیار اوراراده پرچھوڑدی گئی ہیں ، ہم اسے چاہے کریں يا  نہ کریں  ، چاہے وہ چھوٹی سنتیں ہو ں یا بڑی ۔

اس سلسلے میں ہم کچھ باحثین کى باتوں سے اتفاق کرتے ہیں  جس میں انھوں نے سنت سے تمسک  کے تین فوائد و اسباب بیان کئے ہیں ۔ (۲)

پہلا سبب:   

انسان کی ایک منظم طریقہ سے اس بات پرمشق کرنا  کہ وہ ہمیشہ  ضبط نفس ، شدید بیداری،  اور داخلی و باطنی احساس و  شعو ر   کی حالت میں زندہ رہے ۔

اللہ تعالیٰ نے انسان کو بقیہ تمام مخلو قات سے  آزاد ارادہ کےذریعہ ممتازومنفرد کیا ہے ، لیکن  اس بات کا امکان ہے کہ یہ ارادہ کالعدم و ناکارہ ہو جائےاگر انسان اپنے نفس کو ایسے عادات و اطوار اور اعمال کے حوالے کردیتا ہے  جو اس سے بغیر غورو فکر اور بغیر احساس و شعور کے صادر ہو تے ہیں ،  "کیونکہ وہ اعمال اور عادات جو لاشعوری وغیر ارادی طور پر صادر ہوتے ہیں، وہ انسان کی روحانی ترقی کے راستے میں رکاوٹ بن کر کھڑے ہوجاتے ہیں گویاکہ وہ ریس کرنے والے گھوڑوں کے راستے میں ٹھوکر لگانے والے پتھر ہیں۔"

لہذا ضروری ہے کہ یہ ارادہ انسان کے اندر پیہم زندہ اور متحرک ہو ، اور یہ بھی ضروری ہے کہ اس ارادہ کی غیر موجودگی میں اس  سے صادر ہونے والے اعمال کم ہوں ۔  کيونکہ ہروہ چیز جسےہم  انجام دیتے ہیں اس کا  ہمارےارادے سے طے شدہ ہونا اور ہمارى روحانی  نگرانی کے تابع ہونا ضروری ہے ،تاکہ ہم اپنی ذات کو ثابت کرسکیں۔

نفلی سنتوں پرعمل پیراہونا اس پر ہماری مدد کرتا ہے، اس كےليے کسی قدر محنت اور كبهى کبھارقدرےمشقت  اوربہت سارے چیلنج   کى ضرورت ہوتی  ہے، خاص طور سےہمارے اس عصر میں جس میں ہم سانس لے رہے ہیں ۔ چنانچہ اول وقت میں جماعت کے ساتھ  نماز ادا کرنے  کی پابندی  میں قدرے مشقت پائی جاتی  ہے ،  خاص طور سے جب یہ نماز فجر کی ہو ۔  

اسی طرح سےوہ نفلی نمازیں جو فرض نماز سے پہلے یا بعد میں ہو تی ہیں ان کا بھی اہتمام مصروفيات  سے بھرى تيز رفتار  زندگی  میں قدر  ے محنت ومشقت کا باعث ہے۔ اسى طرح دائیں ہاتھ سے کھانے میں اس چیزکو چیلنج کرنا ہےجسےہمارے زمانہ میں تہذیب وتمدن کا نام دیاجاتا ہے، جو کچھ معاشروں  پراس بات کو تھوپتاہے  کہ اس کے افراد ایک ہاتھ میں کانٹا لے کر اور دوسرے ہاتھ میں چھری یاچمچہ لے کر کھانا کھائیں۔

لہذا وه اپنے ارادہ کو ان امور میں استعمال کرے ،  اس كى  تجدید کرتار ہے ، اور اسے بیدار رکھے  تاكہ ايسا نہ ہوکہ وہ سو جائے ، یا  اپنى  باگ دوڑ ایسے عادات و تقالید کے حوالے کر دے جو بغیر سوچے سمجھے  صادر ہو تے ہیں،  جس كےنتيجہ  ميں اس  ارادہ کا خاتمہ ہو جائے۔

اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ جب ارادہ مردہ ہو جائے گاتو کیا نتیجہ ہو گا؟ ... ایک دن زندگی کى بہت سارى صعوبتوں اور پریشانیوں کا سامناکرنے کے لیے اس ارادہ کى ضرورت پڑے گی  مگر وہ نہیں ملے گی،  اور  اس  دن اس زمانہ کے انسان کے پاس  موجود تہذیب و ثقافت کے جملہ  وسائل كارآمد  نہیں ہوں گے۔  اور یہی وہ  راز ہے کہ ہم ان ممالک میں   جو تہذیب وتمدن کے اسباب اور خوشحالی کے وسائل سے مالا  مال ہیں، زندگی سے بھاگنے اور چھٹکارا پانے کى روش كو خود کشی  وغيرہ کی شکل  میں نہایت واضح اور نمایاں طور پر ديکھتے  ہیں۔  

محمد اسد    کہتے ہیں :‘‘ ہوسکتا ہےبذات خودیہ بات اہم نہ ہو کہ ہم دونوں ہاتھوں میں سےکس ہاتھ سے کھائیں ، لیکن جب ہم نظم و نسق اور تنظیم   کا اعتبار کرتے ہیں تو یہ بات بہت ہی اہمیت کا حامل ہوجاتی ہے کہ ہمارے اعمال  ایک نظام  کے مطابق ہوں ،  اور مطلق طور پر یہ آسان نہیں ہے کہ  انسان  ضبط نفس اور محاسبۂ نفس کے لئے  مسلسل متنبہ اورآ گاہ  رہے ، گر چہ یہ دونوں قوتیں  اس کے اندر غایت درجہ مہذب اورسائشتہ ہوں۔   عقل کی سستی  در حقیقت  جسم کی سستی سے کم نہیں ہوتی ہے ۔چنانچہ اگر آپ  کسی  ایسے آدمی سےجو بیٹھنے کی زندگی کا عادی ہو کسی مسافت تک چلنے کا مطالبہ کریں تو وہ تھوڑی دور نہیں چلے گا کہ تھک جائے گا ، اور  اپنى چال  کو جاری رکھنے  پر قادر نہیں ہو گا ،  جبکہ یہ معاملہ اس شخص کا  نہیں ہوگاجو  اپنی پوری زندگی چلنے کا عادی رہا ہے، اوراس پر اس کی مشق ہوئی ہے ، پھر وه اس قسم  کے عضلاتی محنت ومشقت  میں بالکل تکلیف محسوس نہیں کرتا ۔

پھر وہ  مزید کہتے ہیں: " جب ہمارے اوپردائمی طور پر یہ  ضروری ہوگیا کہ ہم جو کچھ بھی کرتے  ہیں اور ہم جو کچھ بھی ترک کرتے ہیں اسے ایک متعین  و معلوم عقلی  تمییز  کے تابع  ركهيں، تو ضبط نفس  پرہماری  طاقت و قوت  ‑ اور اس کے لئے ہماری استعداد   یہ دونوں دھیرے دھیرے  پروان چڑھتے ہیں ، پھر وہ دونوں ہمارے اندر ایک دوسری طبیعت و فطرت  بن جاتے ہیں ، اور روزانہ جب تک یہ مشق جاری رہتی ہے – ہماری ادبی سستی اسی حساب سے  کم ہو تی ہے ۔(۳)

شاید یہی وہ راز تھا  جس کی وجہ سے آپ ﷺسراہتے تھے کہ آدمی اپنے   گھر ہی میں نفلی نماز  اداکرے، کیو نکہ یہ  اس کی عزیمت  کو متحرک وبیدار کرنے  کا زیادہ باعث ہے ،  جہاں تک رہی بات   اس کو مسجد میں ادا کرنے کی  تو اس کے بہت سارے اسباب ہیں  ،اس طور  سے کہ  اس کے لئے ممکن نہیں ہوتا ہے کہ مسجد میں موجود ہو نے اور فرض کے ساتھ اس  نمازکو ادا کرنے کی وجہ سے  ارادہ کی تربیت میں شریک  ہو سکے ۔

تاکہ اس میدان میں سنت کےفوائد و ثمرات  ظاہر ہوں  ، چنانچہ سنت ایک عادت  اور آلاتی عمل  نہ بن جائے جسے مسلمان بغیر احساس و شعور کے انجام دے،  اس کے لئے ضروری ہے کہ اس پر عمل کرتےہوئے ہمیشہ بیدار  رہے ،  اور ہرگز یہ کو شش نہ ہو کہ اس کو ایک شکلی  عمل کی طرح انجام دے  جس میں کوئی روح  وجان نہ ہو اور نہ ہی اس سے کوئی فائدہ  ہو ، ورنہ وہ رسم ورواج اور  رمزی یا علامتی  نشان کی طرح بن جائے گا  جسے مسلم کی زندگی کو مہذب بنانے   میں اس کی حصہ داری کےبنا ادا کیاجاتارہےگا۔

کچھ مسلمان  نما ز میں داخل ہو تے وقت اپنی انگلیوں سے اپنے دانتوں کورگڑتے ہیں تاکہ وہ مسواک کی سنت  کو محفوظ و برقرار رکھیں  ،  ۔۔۔ نہیں ۔۔۔۔ بلکہ"مسواک منہ کی  طہارت و صفائی اور رب کی خوشنودی کا ذریعہ ہے۔" (۵)

یہ طہارت و خوشنودی  صرف مسواک سے ہی حاصل کی جا سکتی ہے ، اوررہی بات اس  حالت میں انگلیوں کی  تواگر وہ محض شکلی نہ سہی تواس سے بسااوقات ضرر پہنچ سکتا ہے ،   اور اس میں وہ مشقت بھی نہیں  ہے جو ارادہ کوتربیت و ٹریننگ دیتی ہے۔  

جب کہ اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا ہے کہ:" اگر مجھے اپنی امت پر  مشقت ودشواری کا خوف نہ ہوتا تو میں انہیں ہر نماز کے وقت مسواک کرنے کا حکم دیتا۔" (۵)

لہذا اگر انسان رسول ﷺ کی اقتداء کرنا چاہتا ہے ،تواسے اپنے نفس اور اپنی سستی کو سرنگوں اور درماندہ کر دینا چاہیے ۔

بلا شبہ سنت ایسا نہیں ہے  جیسا کہ مخالف ناقدین کا گمان ہے کہ یہ جفاکیش ظاہرپرست ریاکاروں  کی پیداوار ہے ،  بلکہ سنت  در حقیقت  اصحاب رسول ﷺ ، اور اصحاب عزیمت، اصحاب فہم و فراست اور پختہ مزاج لوگوں کی پیداوار ہے(6)  - جو کہ پہلے طبقہ کے لوگ تھے ،  بلا شبہ ان کی دائمی سمجھ بوجھ ،باطنی بیداری ، اور ان کا  ہر چیز میں  اتباع کااحساس و شعور –  ہی ان کی قدرت وطاقت   اور ان کی حیرت انگیز تاریخی  کامیابی کا اعجاز  تھا ۔(7)

حواشی :

(1)  الأربعين في أصول الدين، نقلاً عن"حجیۃ السنۃ"،  ص: 80-81.

(2)  الإسلام على مفترق الطرق , تاليف : محمد أسد  ترجمہڈاکٹر/ عمر فروخ , طباعت نمبر : 4،  بيروت، ص:104- 110.

(3)  الإسلام على مفترق الطرق , تاليف : محمد أسد  ترجمہڈاکٹر/ عمر فروخ , طباعت نمبر : 4،  بيروت، ص: 105- 106.

(4) مسندأحمد (6/ 47، 62، 124).

(5) بخاري، كتاب الجمعة، باب السواك يوم الجمعة، حديث نمبر : (887)، ومسلم، كتاب الطهارة، باب السواك، حديث نمبر: (42).

 (6)  یعنی ایسے لوگوں نے اسے مضبوطی سے پکڑا ہے۔

 

(7) الإسلام على مفترق الطرق , تاليف : محمد أسد  ترجمہڈاکٹر/ عمر فروخ , طباعت نمبر : 4،  بيروت، ص:106

أضف تعليق

كود امني
تحديث