باب: سنت کا مقام ومرتبہ

حلقہ(۳)

سنت پر مضبوطی سے   قائم رہنا دین ہے  (۲‑۲)

دوسرا سبب:

 ہمارےسنت پرمضبوطی سے  عمل پیرا ہونے کا دوسرا سبب امت مسلمہ کی زندگی میں  سنت کی سماجی اہمیت  و افادیت  ہے۔

بلا شبہ سنت افراد کے احساسات  ،ان کے میلانات اور ان کے جذبات  کو  متحد رکھتی ہے  ،کیونکہ اس کے اندر اس کے اسباب موجود ہیں۔چنانچہ یہ مسلمانوں کے مابین  ایک دوسرے پر مہربانی کرنے   اور آپس میں ایک دوسرے  سے  محبت کرنے کی دعوت دیتی ہے ، اور کچھ امور میں انہیں کلی طور سے منظم کرتی ہے جیسے : جماعت کی نماز میں تمام مسلمان  اپنے سماجی  طبقے اور پیشےکےاختلاف کے باوجودایک ساتھ ایک صف میں قدم سے قدم ملا کر کھڑے ہو تے ہیں ..،کیا وہ سب اپنے کردار اوراخلاق میں سنت کی اتباع کرنے کی وجہ سے ایک شخص کی طرح نہیں ہوجائیں گےجوکہ محمدﷺ ہیں جن کی وہ سب ان دونوں کے اندر اقتدا کرتے ہیں؟

اسی طرح کچھ مادی اجتماعی اعمال  جن میں ہم اللہ کے  رسول ﷺ کی پیروی  کرتے ہیں وہ مسلمانوں کی قلبی  وروحانی  وحدت کو  بر قرار رکھنے میں مدد کرتے ہیں،    یہی وجہ کہ رسول اللہ ﷺ جب نماز کے لئے اقامت کہی جاتی تھی تو صفوں کو برابر اور درست کراتے تھے  اور آپ ان سے یہ کہتے تھے  کہ: ’’اختلاف مت کرو ( صفوں  میں غیر منظم اور بے ترتیب سے  مت کھڑے ہو ) ورنہ تمہارے دل مختلف ہو جائيں گے۔‘‘ (۱)

ذرا  آپ ملاحظہ فرمائیں  کہ کس طرح سے اللہ کے نبی ﷺ نے  ان کے مادی صفوں کی وحدت  کے مابین اور ان کے روحانی اور قلبی وحدت کےمابین ربط وتعلق پیدا کیا ؟ اور اسی طرح سے ان دونوں(یعنی  مادی وحدت اور روحانی وحدت)کے مابین ان  کے  اختلاف كا بھی معاملہ ہے ۔

بلا شبہ اس وقت سنت  معاشرہ و سماج کے شکل کو  مستحكم اور  مضبوط بنا دیتی ہے، اور نزاع و دشمنی کو بڑھنے اور پروان چڑھنے سے روکتی ہے، کیو نکہ اس کے تمام افراد  ایک ہی اساس و بنیاد کی طرف رجوع کرتے ہیں ۔ اور جب  اس اساس و بنیاد کے اردگرد کسی شک وشبہ  کا گزر نہیں ہے، تو  اس اجتماعی تنظیم كو تبدیل کر نے كى كوئى حاجت اور رغبت  نہیں ہے جس سے وہ وجود میں آئی ہے  ۔

 اور جب  معاشرہ      اس طریقہ سے میلانات اور رجحانات کےاختلاف سے محفوظ  رہےگا؛  کیونکہ وہ شریعت الہٰی اوررسول کی اقتدا پر مبنی ہے، تو  اس وقت وہ اپنی پوری طاقت کو ایسے مسائل کا معالجہ کرنے میں  استعمال کرسکتاہے جو اسے حقیقی مادی اور عقلی رفاہیت و خوشی سے سرفراز کرسکتے ہیں۔

ليكن اگرافراد کے میلانات اور رجحانات مختلف ہو ں ؛   کیو نکہ ان کے رجحانات اور خواہشات الگ الگہیں ،اور ان کی نشو نما بھی   مختلف ہے ،  تو  وہ محبت و مودت اور ہمدردی کے زمین پر ہرگز نہیں مل سکتے ہیں، اور اسی طرح سے ان کے اجتماعی نظریات بھی جدا جدا ہو تے ہیں ،  ہرشخص کی یہ رائے ہوتى ہے کہ خوش بخت  زندگی اور مثالی حل  صرف اسی کے پاس ہے ،  چناچہ اجتماعی اغراض و مقاصد  متعدد ہو جاتے ہیں ، اور لوگوں کی نشو نما مختلف عادات و اطوار پر ہوتی ہے ،  اور  جب یہ مختلف عادات و اطوار طويل سالوں كى  مشق و عمل کے نتيجہ میں نکھرکر سامنے آتے ہیں تو وہ افراد کے مابین رکاوٹ  بن جاتے ہیں  اوركچھ لوگوں کے فہم دوسرے لوگوں کے اغراض ومقاصد كے تئيں خراب  اور برے ہو جاتے ہیں ۔

اور یہی راز ہے ہراس سوسائٹی  و معاشرہ میں  اکثر و بيشتراجتماعی اختلافات و تنازعات کا، جس میں  متعدد پارٹیاں اور گروہ  ہوتے ہیں ، جن کاہر گروہ ایسے  مبادی و اصول  كا حامل ہوتا ہے جوبسا اوقات دوسرےكے اصول و مبادی سے ٹکراتے   اور متعارض  ہوتے ہیں، بسا اوقات معاملہ   بڑھ جاتا ہے ،تو ايك متعصب  گروہ حکمرانی کرتا ہے، چنانچہ وہ اپنے موافق اور اپنے  مخالف سبھی لوگوں کو ان مبادی و اصول كى پابندى كر نے پر ابھارتا ہے۔ جس کی وجہ سے   وہ کشمکش پیدا ہوتی ہے جس کا ہم اپنے موجودہ   دور میں بہت سےحلقوں میں   مشاہدہ کرتے ہیں ۔

جہاں تک ان لوگوں کی بات ہےجو اپنے آپ کو قرآن کریم کی شریعت  اور اللہ کے نبی ﷺ کی سنت کے ساتھ مقید ركهتے ہیں  تو  ان کے معاشرہ و سوسائٹی کے حالات  كا ايك مستقل و پائیدار مظہرہونا چاہیے؛   کیونکہ وہ لوگ ایک مطلق  اساس کی طرف رجوع کرتے ہیں ۔(۲)

تیسرا سبب :  

ہمارے ہر چھوٹی و بڑی اور فرض و نفل تمام سنتوں پرمضبوطی سے عمل پیرا ہونے  کا دوسرا سبب یہ ہے کہ: سنت ہی زندگی میں اسلام کے عملی نفاذ کی  معرفت اور جانکاری کا  طریقہ ہے۔ہماری روزمرہ کی زندگی میں سنت پر عمل کرنے کا یہ نظام    رسول ﷺ  کے افعال کی اقتدا پر مبنی ہوتاہے ، اوراسى طرح ہم كسى كام کے کرنے یا ترک کرنے میں ہمیشہ اس بات كا مكلف  ہوتے ہیں کہ ہم اپنے اِن اعمال کے مماثل  رسول ﷺ کے اقوال وافعال کے بارے میں سوچیں۔(3)

بلا شبہ  محمدﷺ کی زندگی اسلام کی تعلیم اور اس کے اصول و مبادی کی   سچی عملی تصویر تھی ،  کیا آپ کا اخلاق قرآن نہیں تھا ، جیسا کہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں ....؟اور یہ چیز ہمیں آمادہ کرتی ہے کہ ہم آپ ﷺ کی سیرت کی جانکا ری  اور آپ کی زندگی کی باریکیو ں کی جانکاری حاصل کریں ،  تاکہ  ہم نظریاتی سنت کے ذریعہ اسلام سے متعارف ہو سکیں ، اور اقتدا  کے ذریعہ عملی طور پر اس کانفاذکریں ،اور اس کے ذریعہ ہم اللہ تعالیٰ  کی رحمت کے دائرہ میں داخل ہو جائیں گے ،  کیا  محمد ﷺ کو دونوں جہان کے لئے رحمت  بنا کر نہیں بھیجا گیا  ؟....   اور عظیم ترین آدمی  کی شخصیت  ایک دور حد تک ہماری روزمرہ کی زندگی  کی روش میں جاگزیں ہوجائے گی۔

لیکن اگر ہم اللہ کے رسول ﷺ کی سنت سے اعراض کرتے ہیں  ، تو آپ  ﷺ کے مابین اور ہمارے مابین اجنبیت پیدا ہو جائے گی ، اور نتیجتہ  ہمارے اور اس اسلام کے بیچ اجنبیت پیدا ہو جائے گی جس کے آپ  علم بردار  رہے،اس کی طرف دعوت دی ، اور ایمانداری و سچائی کے ساتھ اس کو عملی طور پر اپنی زندگی میں  کر کے دکھا یا ۔اور بالآخر   یا ابتداہی سے ہم دوسرے مفکرین اور انسانوں کے بنائے ہوئے  تہذیب و ثقافت کے آغوش میں گر پڑیں گے ، جن کی عقلوں اور ان کے فلسفوں کے بارے میں زمانہ نے یہ ثابت کردیا ہے کہ وہ انسان کی قیادت و رہنمائی کے اہل نہیں ہیں، بلکہ اس  کی قیادت اس کا  خالق کرتا ہے  اس چیز  کا عملی اور فکری طور پر التزام اور اہتمام کر کے  جسے محمد ﷺ  اللہ تعالیٰ کی طرف سے لے کر آئے ہیں۔

ان اسباب کی معرفت کے بعد شاید ہمیں   اللہ کے رسول ﷺ سے صادر ہونے والی ہر چیز کو مضبوطی سےپکڑنے  کی معقولیت  اورفائدےکا ادراک ہو جائے ، یہاں تک کہ دایئں ہاتھ سے کھانے کا   جو اپنے زمانے کے عادات و تقالید کو چیلنج کرتے ہوئے مسلمانوں کے اندرارادی شعور وبیداری   کی تربیت  میں حصہ لیتا ہے ، اسی طرح سے جب تمام لوگ اپنے داہنے  ہاتھ سے کھاتے ہیں تویہ اجتماعی امتزاج میں ہاتھ بٹاتا ہے  ،اس کے علاوہ دیگر سنتوں کا بھی یہی معاملہ ہے، پھر    یہ نفس کو اسلام کا احترام کرنے،اس کےنبی اور ان سے صادر ہونے والی ہر چیز کی جانکاری حاصل کرنے پر ابھارتا ہے ، اس طرح سے ہمیں آپ ﷺ کی زندگی سے متعلق تمام چیزوں کی معرفت حاصل ہو جاتی ہے ،  اور جس کے نتیجہ میں ہمیں اسلام کے متعلق ہر چیز کی نظریاتی اورعملی طور پر جانکاری حاصل ہو جاتی ہے۔(۴)

اللہ تعالیٰ ہمیں سنت پر جما دے ، اور نبی کریم ﷺ کی ہدایت  پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔

ان شاءاللہ ہم عنقریب اس بحث میں سنتِ نبوی : اس کی تعریف ، اس کا مرجع و مصدر،  اس کی حجیت ، شریعت سازی میں اس کا رتبہ ومقام ،  اوراحکام  پر دلالت کرنے کے حساب سے  اس کے انواع و اقسام، اس کے علاوہ دیگر  مباحث کے بارے میں بات کریں گے تاکہ اس کی اہمیت ،مقام و مرتبہ اور قدرو منزلت واضح اور ظاہر ہو جائے، تاکہ جو زندہ رہے وہ دلیل وبرہان کے ساتھ زندہ رہے اورجوہلاک ہو وہ دلیل وبرہان کے ساتھ ہلاک ہو۔

  ہم اللہ تعالیٰ ہی سے توفیق و درستگی، اور   اپنی   اورتمام بندوں کی ہدایت  کا سوال کرتے ہیں۔

((سبحانك لا علم لنا إلا ما علمتنا إنك أنت العليم الحكيم)) [البقرة:32].         

’’اے اللہ! تو پاک ہے،ہمیں صرف اسی چیز کا علم ہے  جو تو نے ہمیں سکھایاہے۔بلاشبہ توخوب جاننے والا حکمت والا ہے۔‘‘ (البقرہ:32)

حواشی:

(1) مسلم، كتاب الصلاة،  باب تسويۃ  الصفوف وإقامتها،  حديث نمبر: (972).

(2) الإسلام على مفترق الطرق , تاليف : محمد أسد  ترجمہڈاکٹر/ عمر فروخ , طباعت نمبر : 4،  بيروت، صفحہ نمبر : 108

 (3)   مصدر  سابق صفحہ نمبر: 108.

 

(4) دیکھیے :  المدخل إلى توثيق السنۃ،  صفحہ نمبر:  18- 25.

أضف تعليق

كود امني
تحديث