مقدّمہ

 

الحمد لله رب العالمين والصلاة والسلام على رسوله الأمين وعلى آله وصحبه أجمعين ومن تبعهم بإحسان إلى يوم الدين، أما بعد...

 

ہر قسم کی تعریف لائق سزاوار ہے اس اللہ کے لئے جو سارے جہان کا پروردگار ہے، اور درودوسلام  کے بیش بہا نذرانے ہوں اللہ کے امین رسول  پر،ان کےخاندان پر، انکے تمام اصحاب  پر،اور قیامت تک ان کی سچی اتباع وپیروی کرنے والوں پر۔

حمد وصلاۃکے بعد:

بے شک اسباب ونتائج سےمرتبط واقعات وحادثات کی طرف  کان  شوق سے مائل ہوتےہیں۔اور جب گزرے لوگوں کی داستان  وخبروں  میں عبرت ونصیحت کی جگہیں  شامل ہوجائیں  تو اسکی معرفت کا شوق وتجسّس دل میں اسکی عبرت کو راسخ کرنے کے قوی ترین اسباب میں سے ہوتا ہے۔اور موجودہ زمانے میں ادبی قصے عربی زبان وادب کے خاص فن میں سے ہوگئے ہیں،اور اسکی بلیغ ترین صورتوں میں سے کتاب وسنت کے قصے وواقعات ہیں۔

قصے کا معنی:  

القص ّکہتے ہیں : اثر کا تلاش کرنا،نشان   راہ کی پیروی کرنا، کہا جاتا ہے: قصصتُ أثرہ:یعنی میں نے اسکی پیروی کی، اور القصص مصدر ہے،  فرمان باری ہے: ((فَارْتَدَّا عَلَى آثَارِهِمَا قَصَصًا)) [الكهف:64].’’وہ دونوں اپنے نقش پا پرلوٹآئے‘‘۔

اور ام ّ موسیٰ کی زبانی   فرمایا : ((وَقَالَتْ لِأُخْتِهِ قُصِّيهِ)) [القصص:11]

‘‘موسیٰ (علیہ السلام) کی والده  نے  اس کی بہن سےکہاکہ تو  اس کےپیچھےپیچھےجا’’

یعنی اس کے نقش پا کی تلاش کریہاںتک کہ تو دیکھ لےکہ اسےکون لیتاہے۔

اور اسی طرح قصص : اخبار متّبعہ کو بھی کہتے ہیں،

فرمان باری ہے:((إِنَّ هَذَا لَهُوَ الْقَصَصُ الْحَقُّ)) [ آل عمران:62]،‘‘یقیناً صرف یہی سچابیان ہے’’۔

اور ارشاد باری ہے ((لَقَدْ كَانَ فِي قَصَصِهِمْ عِبْرَةٌ لِأُوْلِي الأَلْبَابِ)) [يوسف:111].

‘‘ان کےقصّوں میں عقل والوں کےلئےیقیناًنصیحت اور عبرت ہے’’۔

اور قصۃ  کہتے ہیں: معاملہ،خبر،شان،حال کو۔

اور نبوی قصّے سے مراد: سچے حادثات ، سابقہ رسالات ونبوّت اور گزشتہ قوموں کے حالات کی خبریں ہیں۔اور سنت   نبوی بہت  ساری ماضی کے وقائع وحادثات ،لوگوں کے احوال واخباراور انکے ساتھ پیش آنے والے امور پر مشتمل ہے، اور ان کی منہ بولتی تصویر کو پیش کیا ہے۔

 

نبوی قصّے کی قسمیں:

نبوی قصّے  چند انواع پر مشتمل ہیں اور وہ درج ذیل ہیں:

پہلی قسم: انبیائے کرام  کے قصّے، جن میں ان کے ساتھ رونما ہونے والے حادثات کا تذکرہ ہے،جیسے ابراہیم علیہ السلام   کا شہر مکہ میں اپنے لخت جگر اسماعیل  علیہ السلام اور انکی بیوی کے پاس تشریف لانا، اور موسی علیہ السلام کا خضر کے ساتھ واقعہ اور انکے علاوہ دیگر انبیاء کے واقعات ۔

دوسری قسم: ایسےقصے   جن کا تعلق گزشتہ حادثات اور اخبار ماضیہ سے ہیں، جیسے اصحاب غار کا واقعہ، اور ۹۹ آدمیوں کے قاتل کا واقعہ،اور مالداروں سے تجاوز ودرگزر کرنے والا اور تنگ دست سے تخفیف کرنے والے شخص کا قصہ   اور اس جیسے دیگر قصے ۔

قصے کے فوائد:

قصّے کے بہت سارے فائدے ہیں، جن میں سے چند درج ذیل ہیں:

 

۱۔انبیائے کرام کی تصدیق، انکے ذکر کا احیاء اور ان کے فضائل کا بیان جیسا کہ ابراہیم علیہ السلام کے خانہ کعبہ کے تعمیر کا قصّہ۔

۲۔یہ  ادب کی قسموں میں ایک قسم ہے جسکی طرف کان مائل ہوتا، اور اس کی عبرت دل میں رسخ  ہوجاتی ہے۔ارشاد باری ہے

((لَقَدْ كَانَ فِي قَصَصِهِمْ عِبْرَةٌ لِأُوْلِي الأَلْبَابِ)) [يوسف:111].

‘‘ان کےقصّوں میں عقل والوںکےلئےیقیناًنصیحت اور عبرت ہے’’۔

۳۔دنیا وآخرت میں عمل صالح کے ثمرات وفوائد کا تذکرہ کرکے اس پر ابھارتی اور اسکی طرف ترغیب دیتی ہیں جیسا کہ اصحاب غار کے واقعہ میں ہے۔

۴۔برے اعمال سے نفرت  دلاتی ہیں ، اور انکے برے انجام سے باخبر کرتی ہیں جیسا کہ تین لوگوں کے واقعہ میں ہے، اور ان میں سے گنجا اور برص(سفید کوڑھ ، ایک مرض سفید سیاہ دو طرح کا ہوتا ہے) والا شخص ہے۔

 

نبوی قصّے حقیقت پر مبنی ہوتے ہیں اور خیالات سے دور ہوتے ہیں:

ہمارا مکمل وپختہ ایمان ہے کہ  حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم اپنی نبوت ،اپنی دعوت، اوراپنے کلام میں بالکل سچے ہیں،کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم جو کچھ بولتے ہیں وہ وحی ہوتی ہے،جیساکہ فرمان باری ہے:

((وَمَا يَنْطِقُ عَنِ الْهَوَى * إِنْ هُوَ إِلَّا وَحْيٌ يُوحَى)) [النجم:3-4].

اور نہ وه اپنی خواہش سےکوئی بات کہتےہیں وه تو صرف وحی ہے جو اتاری جاتی ہے۔

لہذا قصے میں پائی جانے والی سچائیاں حقیقت پر مبنی ہوتی ہیں،اورخیالات وتصوّرات سے بہت دور ہوتی ہیں۔ بلکہ سنت صحیحہ کے قصے وواقعات معتمد ترین مصادر مانے جاتے ہیں، اور اس میں جو کچھ بیان کیا جاتا ہے وہ پورے طور پر واقع کے مطابق ہوتا ہے۔

 

تربیت وتہذیب میں قصے کے اثرات:

اس میں کوئی شک نہیں کہ حقیقت وسچائی پر مبنی واقعات وقصے کانوں کو نہایت  محبت و شوق سے کھٹکھٹاتے ہیں اور انسانی دلوں  میں   آسانی   وسہولت سے سرایت کرتے ہیں ، اور روٹینی (روایتی) و القائی دروس ولکچرز  ملل  واکتاہٹ پیدا کرتے ہیں، اور نئی نسل اسکا صحیح  طریقے سے متابعت نہیں کرسکتی، اور مشکل و کافی وقت میں ہی اسکے عناصر کا استیعاب کرپاتی ہے، اسی لئے حکایتی و قصصی اسلوب زیادہ نفع آور ہے، اور زیادہ فائدہ مانند ہے۔

اور نفس عام طور سے قصے وکہانیوں کے سننے کی طرف زیادہ مائل ہوتی ہے، اور ذہن میں دیرپا رہتی ہے،اسلئے مربیان کے لئے ضروری ہے کہ اسے تعلیم وتربیت کے میدان میں استعمال کریں یا اس سے فائدہ اٹھائیں۔

اور نبوی قصّے میں بہت سارے سرسبزوشاداب مضامین(میٹیریل) ہیں جو مربیان کو ان کے مقاصد میں کامیاب ہونے میں معاون ومدگار ثابت ہوسکتے ہیں،اور انہیں انبیائے کرام کی سیرت اور اقوام ماضیہ کے اخبار سے متعلق تہذیبی وثقافتی توشے ومعلومات فراہم کرسکتے ہیں۔

اور معلمّ ومربّی شخص نبوی قصے کو اپنے اس اسلوب میں بیان کرسکتا ہے جوتعلیمی مراحل کےہرمرحلہ کے طلبا کے فکری مستوی کے مناسب وسازگارہو۔

سنت نبوی میں قصے کی اہمیت کے پیش نظر ہم نے کتب حدیث سے چند قصوں کا درج ذیل منہج کے مطابق انتخاب کیا ہے:

۱۔سند کے اعتبار سے صحیح قصوں پر اکتفا کرنا،کیونکہ اسی میں ہماری کفایت وبے نیازی ہے۔

۲۔معتمد کتب حدیث سے احادیث کا تخریج کرنا۔

۳۔متن حدیث میں وارد مشکل الفاظ کی تشریح کرنا، اور ضرورت پڑنے پر حدیث کی اجمالی شرح کرنا۔

۴۔قصے سے مستنبط ہونے والے اہم فوائد ذکرکرنا۔

۵۔شروح السنۃ، غریب الحدیث، کتب اللغۃ جیسے اصلی مصادر کی طرف رجوع کرنا اور اسکی طرف حاشیہ میں اشارہ کرنا۔

یہ اور اسکے ساتھ ہم اللہ تعالیٰ سے دعا کرتے ہیں کہ اسے نفع بخش بنائے، بےشک وہ   بہت بڑا کرم نواز  وسخاوت والاہے، اور تمام طرح کی تعریف  ہوسارے جہان کے پالنہار کے لئے۔

 

 

 

 

 

 

 

أضف تعليق

كود امني
تحديث