حلقہ (۳)

 

شرح مفردات (۲-۳)(۱)

 

(الْمِنْطَق):یہ میم کے کسرہ اورنون کے سکون اور طاء کے فتحہ کے ساتھ ہے، مراد: وہ چیز جس سے کمرباندھی جائے(کمربند،پٹکا)

(عِنْد دَوْحَة):یہ دال کے فتحہ،واوکے سکون پھرحاء کے فتحہ کے ساتھ ہے، اس سے مراد:بڑا درخت ہے۔

(فِي أَعْلَى الْمَسْجِد):یعنی:مسجد کی جگہ،کیونکہ اس وقت اس کی تعمیر نہ ہوئی تھی۔

(وَسِقَاء):سین کے کسرہ کے ساتھ؛ چھوٹا مشکیزہ کوکہا جاتا ہے۔

(ثُمَّ قَفَّى إِبْرَاهِيم):یعنی: پھروہ شام کی طرف واپس چلے گئے۔

(يَتَلَوَّى أَوْ قَالَ يَتَلَبَّط):یتلوّی یا یتلبّط کہا اور"يَتَلَبَّط" یہ طاء کے ساتھ ہے اور بغیرتشدید کے ہے،اسکا معنی ہوتا ہے زمین پر لوٹنا۔

(ثُمَّ سَعَتْ سَعْيَ الْإِنْسَانِ الْمَجْهُودِ):یعنی:جسے تھکاوٹ لاحق ہوئی اور وہ مشقت میں ڈالنے والا امر ہے۔

(فَقَالَتْ:صَهٍ):صاد کے فتحہ ، اور ہاء کے سکون  اور کسرہ وتنوین کے ساتھ،گویا کہ اس نے اپنے آپ کو خطاب کرکے کہا:کہ خاموش ہوجا۔

(غَوَاثٍ):اکثرکے نزدیک غین  مفتوح ہے اور واو تخفیف سے ہے اور ثاء مثلّث ہے، اور کہاجاتا ہے کہ: اصوات میں فعال کے وزن پر بس یہی ایک لفظ ہے جسکا اول حرف مفتوح ہے۔

اور ابن اثیر رحمۃ اللہ علیہ نے اسکا مضموم ہونا بیان کیا ہے،اور مراد: اس فریاد طلب کرنے والی پر، اور شرط کا جواب محذوف ہے جسکی تقدیر فأغثنی (میری مدد کر) ہے۔

(فَجَعَلَتْ تُحَوِّضهُ): حا ء  مہملہ(بغیرنقطہ) وضاد معجمہ(نقطہ  ) اورتشدید کے ساتھ،یعنی:اسے حوض کی شکل دینے لگیں۔

(لَوْ تَرَكْت زَمْزَم، أَوْ قَالَ: لَوْ لَمْ تَغْرِف مِنْ زَمْزَم):یہ راوی کی طرف سےشک ہے،اور حدیث کے اس حصّہ کو ابن عباس رضی اللہ عنہما نے مرفوعا بیان فرمایا ہے،اوراس میں اس بات کیاطلاعہے کہ یہ پوری حدیث مرفوع (نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے) ہے ۔

(عَيْنًامَعِينًا):یعنی: پوری زمین میں ظاہر وجاری ہوجاتا۔

(لَا تَخَافُوا الضَّيْعَة):ضاد کے فتحہ اور یا ء کے سکون کے ساتھ مراد: ہلاکت وتباہی

(رُفْقَة):راء کے پیش اور فاء کے سکون کے ساتھ،پھر قاف ہے،اور اس سے مراد مختلط جماعت کے لوگ ہیں خواہ وہ سفر میں ہوں یا غیر سفر میں۔

(عَائِفًا):عین مہملہ کے ساتھ،اس سے مراد پانی  کے اردگرد چکر لگانے والا منڈلانے والا۔

(فَأَرْسَلُوا جَرِيًّا):جیم کے فتحہ،راء کے کسرہ اور یاء کے تشدید کے ساتھ،اس سے مراد قاصد  وایلچیہے،اور بسا اوقات وکیل اور اجیر پر بھی اسکااطلاق ہوتا ہے۔اور کہا گیا ہے: کہ اس سے اسکا نام اسلئے پڑا کیونکہ وہ اپنے مرسِل یا موکِل کے مجریٰ پر چلتا ہے(یعنی اس کے دے گئے ایجنڈا پر چلتا ہے)، یااسلئے کہ وہ اسکی حاجت (پوری کرنے) میں بہت جلدی چلتا ہے۔

(فَأَلْفَى ذَلِكَ):فاءکے ساتھ، یعنی:پایا

(وَهِيَ تُحِبّ الْأُنْسَ):ہمزہ کی پیش کے ساتھ ،ضد وحشت، لیکن ہمزہ پر کسرہ بھی جائز ہے، یعنی:وہ اپنے جنس کو پسند کرتی ہے۔

(وَأَنْفَسَهمْ):فاء  کی زبر کے ساتھ، اور یہ نفاسۃ سے  بوزن أفعَلَصیغہ اسم تفضیل  ہے، ،یعنی:ان کے بارے میں انکی رغبت بڑھ گئی۔

(يُطَالِع تَرِكَته):راء کے کسرہ کے ساتھ،یعنی:وہاں کے چھوڑے ہوئے (خاندان) کا پتہ لگانے کیلئے آئے۔

(خَرَجَ يَبْتَغِي لَنَا):یعنی:ہمارے لئے روزی تلاش کرنےکےلئے نکلے۔

(عَتَبَة بَابك):عین وتاء وباء کے فتحہ کے ساتھ،جو کنایہ ہے عورت سے۔اور عورت کو دروازہ کی چوکھٹ کا نام اسلئے دیا کیونکہ اس میں عورت کی صفت پائی جاتی ہے اور وہ دروازہ اور اسکے اندر کی  چیزوں کی حفاظت کرنا ہے،اور یہ اسلئے کہ وطی(آنے جانے)کا محل ہے۔

(يَبْرِي نَبْلًا):یاء کے فتحہ اور باء کے سکون کے ساتھ، اور النَّبْل: نون کے فتحہ اور باء کے سکون کے ساتھ، مراد تیر کی ابتدائی شکل، نصل وریشہ (یعنی نوک ودُم) لگنے سے پیشتر، اور وہ عربی تیرہے۔

(فَصَنَعَا كَمَا يَصْنَع الْوَالِد بِالْوَلَدِ وَالْوَلَد بِالْوَالِدِ):یعنی:معانقہ ومصافحہ اور تقبیل ید وغیرہ۔

(جَاءَ بِهَذَا الْحَجَر): یعنی  مقام (ابراہیم)۔

 

حواشی:

(1) دیکھیں: فتح الباري لابن حجر العسقلاني، 6/ 400- 406.

 

 

أضف تعليق

كود امني
تحديث