علمی فائلیں

رمضان فولڈر

ماہِ رمضان میں جود وسخاوت کے مظاہر سنّت کے آئنے میں

 ڈاکٹر محمد بن عدنان السمّان(ایگزیٹو منیجر  آف سنت نبوی اوراس کے علوم کی ویب سائٹ)

صحیحین  میں ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ:’’ رسول اکرملوگوں میں سب سے زیادہ سخاوت وفیاضی کرنے والے تھے،اورآپ ﷺ کی سخاوت رمضان میں اس وقت زیادہ بڑھ جاتی تھی جب آپ جبرئیل سے ملاقات کرتے،آپﷺ ان سے ہر رات ملاقات کرتے اور قرآن کا دور فرماتے تھے،چنانچہ بھلائی میں آپﷺ کی سخاوت  تیز ہوا سے بڑھ کرہوتی تھی‘‘۔

سخاوت نبویﷺ میں  یہ حدیث ایک قاعدہ کی حیثیت سے ہے، اور شریعت میں سخاوت کہتے ہیں جیسا کہ حافظ ابن حجررحمہ اللہ نے بیان کیا ہے: مناسب شخص کو مناسب چیز دینا سخاوت کہلاتا ہے، اور یہ صدقہ سے عام ہے۔

اور چونکہ ماہ رمضان خیرات وقربات اور  نیکوں کے حصول میں تنافس اور بلندی درجات میں مقابلہ بازی کرنے کے مواسم میں سے ایک موسم ہےاسی لیے نبوی سخاوت  وفیاضی کی یہ امتیاز  ہے جس کی اس حدیث نے تصویر کشی کی ہے،اورانہی میں سے درج ذیل ہے:

۱۔عبادت میں سخاوت :

رمضان عبادت وطاعت کے مواسم میں سے ایک موسم ہے، اسی لیے نبیﷺ اس کو خاص اہمیت دیتے تھے اور کثرت سے طاعات وعبادات کو کرتے تھے یہاں تک کہ رات  کی آخری تہائی میں اپنے رب کی عبادت اور اس سے مناجات وسرگوشی کے لیے فارغ ہوجاتے ،چنانچہ ان مبارک راتوں میں اپنی مسجد میں اللہ کا تقرب حاصل کرنے کے لیے اعتکاف کرتے تھے۔

بے شک روزہ،قیام،تلاوت قرآن،ذکر الہی، دعا،عمرہ اور صدقہ یہ سب ان عبادات اور طاعات کے کاموں میں سے ہیں جو عبادت کے ذریعہ دلی بے نیازی  اور سخاوت کے مظاہر میں سے ہے، اسی لیے حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے اپنے  اس قول میں سخاوت اوراس  قرآن کے دور کے درمیان انوکھا ربط بیان کیا ہے جس کی طرف حدیث میں اشارہ کیا گیا ہے  : کہا گیا ہے کہ اس میں اس بات کی حکمت ہے کہ بے شک  قرآن کا مدارسہ اور اس کا دور کرنے میں مزید دلی بے نیازی کی وصیت کی تجدید ہے، اوربے نیازی سخاوت کا سبب ہے۔ 

 ۲۔تلاوت قرآن کے ذریعہ سخاوت :

قرآن کا پڑھنا  سخاوت ِعبادت کا ایک حصّہ ہے،لیکن یہاں مستقل طور پر ذکر کرنا اس ماہ کی اہم خصوصیت کی وجہ سے ہے،حدیث میں بیان کیا گیا ہے:آپﷺ جبرائیل سے ملاقات کرتے وقت بہت زیادہ سخی وفیاض ہوجاتے، آپﷺ ہر رات ان سے ملاقات کرتے  اور قرآن کا دور فرماتے تھے۔

اوریہیں سے امام نووی رحمہ اللہ  نے اس معنی کو سمجھا   اوراس حدیث کے فوائد کو بیان کرتے ہوئے فرمایا: ’’رمضان میں کثرت سے تلاوت کرنا مستحب ہے، اور یہ کہ تمام اذکار سے بہتر ہے ،کیونکہ اگر ذکر افضل ہوتا یا اس کے مساوی ہوتا تو آپﷺ ان دونوں کو کرتے۔‘‘

۔بے شک رمضان تلاوت ،حفظ اور تدبر کے ذریعہ قرآنی چشمہ سے  سیرابی حاصل کرنے  کا عظیم   موقع ہے،یقینا قرآن کریم کا نزول اس عظیم شہر میں ہوا۔(شَهْرُ رَمَضَانَ الَّذِيَ أُنزِلَ فِيهِ الْقُرْآنُ هُدًى لِّلنَّاسِ وَبَيِّنَاتٍ مِّنَ الْهُدَى وَالْفُرْقَانِ)

ترجمہ:’’ ماه رمضان وه ہے جس میں قرآن اتارا گیا جو لوگوں کو ہدایت کرنے والاہے اور جس میں ہدایت کی اور حق وباطل کی تمیز کی نشانیاں ہیں، ۔‘‘(البقرہ:۱۸۵)

چناں چہ اس آیت کریمہ میں جیسا کہ امام ابن کثیررحمہ اللہ نے  بیان کیا ہے: اللہ تعالیٰ  تمام مہینوں کے درمیان روزے کے ماہ کی تعریف کررہا ہے  کہ اس نے قرآن عظیم کے نزول کے لیے اس(ماہ) کا انتخاب فرمایا،پھراللہ تعالیٰ نے قرآن کریم کی تعریف کرتے ہوئے کہا:’’جس نے اسےبندوں کے دلوں کی ہدایت کے لیے نازل کیا،یعنی  جو اس پر ایمان لائے،اسکی تصدیق   اور پیروی کرے۔‘‘

اور ’’اس میں نشانیاں ہیں۔‘‘ یعنی اس میں واضح اور روشن دلیلیں ہیں تدبر اور غور و فکر کرنے والا اس سے صحیح راہ پر پہنچ سکتا ہے یہ حق و باطل حرام و حلال میں فرق ظاہر کرنے والا ہے ہدایت و گمراہی اور رشد و برائی میں علیحدگی کرنے والا ہے۔

۳۔مال وصدقہ کے ذریعہ سخاوت : جیسا کہ ہم نے تلاوت قرآن کے ذریعہ سخاوت کے بارے میں بیان کیا ہے اسی طرح مال وصدقہ کی سخاوت بھی عبادت کی سخاوت میں داخل ہے،لیکن اسے مستقل طور سے ذکر کرنا رمضان میں مالی سخاوت  کی  امتیازی خصوصیت کی وجہ سے ہے،اور یہ کئی پہلوؤں سے ظاہر ہے:

۔اس بات کی صراحت کی نبیﷺ لوگوں میں سب سے زیادہ سخی تھے،چنانچہ آپﷺ کریم  ودینے والےتھے، آپﷺاپنے فعل وقول سے مال وعطا کے ذریعہ سخاوت کرتےتھے،اورآپﷺ اتنا کچھ دیتے کہ جس سے فقر کا اندیشہ نہیں رہتا‘‘۔

ارشاد باری تعالیٰ ہے: ( من ذَا الَّذِي يُقْرِضُ اللّهَ قَرْضاً حَسَناً فَيُضَاعِفَهُ لَهُ أَضْعَافاً كَثِيرَةً) { البقرة / 245 }.

ترجمہ:’’ ایسا بھی کوئی ہے جو اللہ تعالیٰ کو اچھا قرض دے پس اللہ تعالیٰ اسے بہت بڑھا چڑھا کر عطا فرمائے‘‘۔

یہاں تک کہ آپﷺ نے (جودوسخا کے) اس مفہوم کو صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے دلوں میں عملی طور پر راسخ کردیا تھا،آپ ﷺ نے ان سے ایک بار پوچھا کہ انسان کے نزدیک محبوب ترین مال کون سا ہے،ایا  اس کی اپنی کمائی کا مال ہے یا جو اسے ورثہ میں ملا ہے، پھر خود ہی آپﷺ نے ان کے لیے یہ وضاحت فرمائی کہ انسا ن کے لیے وہی ہے جو وہ خرچ کرے اور جسے وہ اپنی آخرت کے لیے پیش کرے یا آگے بڑھائے۔

اورآپ ﷺ نے اپنے قول کے ذریعہ بھی اس مفہوم کو بہت ساری حدیثوں میں بٹھایا ہے،انہی میں سے آپﷺ کا فرمان ہے: ( ما من يوم يصبح العباد فيه إلا ملكان ينزلان , فيقول أحدهما اللهم أعط منفقاً خلفاً,ويقول الآخر: اللهم أعط ممسكاً تلفا) متفق عليه

’’ کوئی دن ایسا نہیں جاتا کہ جب بندے صبح کو اٹھتے ہیں تو دو فرشتے آسمان سے نہ اترتے ہوں۔ ایک فرشتہ تو یہ کہتا ہے کہ اے اللہ! خرچ کرنے والے کو اس کا بدلہ دے۔ اور دوسرا کہتا ہے کہ اے اللہ! روکنے والے اوربخیل کے مال کو تلف کر دے۔‘‘

نیز حدیث قدسی میں نبویﷺکا فرمان ہے:’’اے ابن آدم خرچ کر میں تجھ پر خرچ کروں گا۔‘‘(متفق علیہ) 

اور اس کے علاوہ احادیث ہیں جو اس عظیم عبادت کی اجر اور فضل کو بیان کرتی ہیں۔

 ۔مالی سخاوت کی قسم میں سے جس کی اس مبارک ماہ میں مزید تاکید ہو جاتی ہے روزہ داروں کو افطار کرانا ہے، فرمانﷺ ہے:’’ جس نے کسی روزہ دار کو افطار کرایا تو اسے بھی اس کے برابر ثواب ملے گا، بغیر اس کے کہ روزہ دار کے ثواب میں سے کچھ کمی کی جائے۔‘‘  اسے احمد نے روایت کیا ہے۔                      

         اور اللہ ہی توفیق دینے والا ہے۔

 

 

 

 

 

 

 

 

 

أضف تعليق

كود امني
تحديث