اسلام میں اخلاق کا مقام و مرتبہ
پہلا : رسالت کی تعلیل اخلاق کی تقویم (درستگی واصلاح) ہے ، رسول اللہ ﷺ کا فرمان ہے : "مجھے مبعوث ہی اس لئے کیا گیا ہے کہ عمدہ اخلاق کی تکمیل کردوں۔"(1)
دوسرا: عمروں کی زیادتی اور گھروں کی تعمیر کا سبب ہے ، نبی کریم ﷺ کا فرمان ہے : "اچھے اخلاق ، اور اچھی ہمسائیگی گھروں کو آباد کرتے ہیں، اور عمروں میں اضافہ کرتے ہیں۔" (2)
تیسرا: حسن ِاخلاق پر اجر عظیم مرتب ہوتا ہے، رسول کریم ﷺ کا فرمان ہے : " قیامت کے دن بندے کے میزان (نامہ اعمال ) میں اچھے اخلاق سے زیادہ کوئی چیز بھاری نہیں ہوگی۔"(3)
اسی طر ح آپ ﷺ کا فرمان ہے : "بندہ اپنے اچھے اخلاق کے ذریعہ قیام کرنے والے روزہ دار کے مقام ومرتبہ کو پہنچ جاتا ہے۔"(4)
چوتھا: مومن لوگ ایمان کے مراتب میں ایک دوسرےپربرتری رکھتے ہیں، اور ان میں سب سے افضل و برتر وہ شخص ہے جس کے اخلاق ان میں سے سب سے اچھے ہوں، جیسا کہ حدیث میں وارد ہے کہ :" کیا میں تمہیں تم میں سے سب سے اچھے لوگوں کے بارے میں نہ بتلاؤں! تم میں سے سب سے اچھے لوگ وہ ہیں جن کے اخلاق سب سے اچھے ہوں۔"(5)
پانچواں: بلا شبہ رسول اللہ ﷺ کے نزدیک سب سے پسندیدہ اورمحبوب مومن، اورقیامت کے دن آپﷺ سے سب سے زیادہ قریب مقام ومنزلت والا وہ شخص ہے جس کے اخلاق سب سے اچھے اور بہتر ہیں ، اللہ کے رسول ﷺ کا فرمان ہے : "بلا شبہ میرے نزدیک تم میں سے سب سے زیادہ محبوب اور قیامت کے دن تم میں مجھ سے سب سے زیادہ قریب وہ لوگ ہیں جن کے اخلاق سب سے اچھے ہیں۔"(6)
چھٹا: حسن ِاخلاق جہنم سے چھٹکارا پانے اور جنت کی کامیابی کی حصولیابی کے لئے لازمی امر اور ضروری شرط ہے، اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
(ويل لكل همزة لمزة) .
"بڑی خرابی ہے ہر ایسےشخص کی جو عیب ٹٹولنے واﻻ غیبت کرنے والاہو۔" (7)
ساتواں: اللہ کے نبی ﷺ اللہ تعالیٰ سے اچھے اخلاق کی دعا مانگاکرتے تھے - جبکہ آپ اخلاق حسنہ کے اعلی مقام پر فائز تھے- چنانچہ آپ ﷺ فرماتے تھے:
(اللهم حسّنت خَلقي فحسن خُلُقي)
" اے اللہ تو نے میرى خلقت کو اچھا و خوبصورت بنایا ہے ، پس تو میرے اخلاق کو بھی سنوار دے۔"(8)
اسی طرح آپﷺ یہ دعا بھی کرتے تھے :
(اللهم اهدني لأحسن الأخلاق فإنه لا يهدي لأحسنها إلا أنت، واصرف عني سيئها فإنه لا يصرف عني سيئها إلا أنت)
" اے اللہ مجھے اچھے اخلاق کی ہدایت دے، کیونکہ تیرے سوا کوئی اچھے اخلاق کی طرف ہدایت نہیں دے سکتا ہے، اور تو مجھےاس کی برائی سے دور رکھ ، کیونکہ تیرے سوا کوئی بھی مجھے اس کی برائی سے بچا سکتا ہے۔" (9)
آٹھواں: اللہ تعالیٰ نےاپنے نبی کی اچھے اخلاق کے ذريعہ تعریف کی ہے، چنانچہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے :
(وإنك لعلى خلق عظيم)
’’اور بیشک آپ بہت بڑے (عمده) اخلاق پر ہیں۔‘‘ (10)
نواں: اخلاق کے موضوع سے متعلق بہت ساری آیتیں اورحدیثیں وارد ہوئی ہیں۔
حواشی:
(۱) اس حدیث کی تخریج امام احمد نے ۲/۳۸۱میں کیا ہے، اور امام بخاری نے ادب المفرد میں حدیث نمبر ۲۷۳، صفحہ ۱۰۴ میں کیا ہے، اور امام البانی نے اپنے صحیح میں حدیث نمبر ۴۵ـ۱/۷۵۔
(۲) اس حدیث کی تخریج امام احمد نے ۲/۱۵۹، میں کیا ہے، اور علامہ البانی صاحب نے اپنے صحیح میں حدیث نمبر ۵۱۹ـ۲/۳۴۔
(۳) اس حدیث کی تخریج امام احمد نے ۶/۴۴۶ میں کیا ہے ، اور ابو داؤد نے کتاب" الادب" باب" في حسن الخلق "، حدیث نمبر ۴۷۹۹ـ ۴/۲۵۳، اور ترمذی ، کتاب " البر و الصلۃ"، باب " ما جاء في حسن "۔
(۴) الخلق، حدیث نمبر ۲۰۷۰ـ۳/۲۴۴، اور کہا ہے کہ : یہ حدیث حسن صحیح ہے، اور علامہ البانی نے اس کو " الصحیحۃ" حدیث نمبر ۸۷۶ ـ۲/۲۰۵۶۲ میں صحیح قرار دیا ہے۔
(۵) اس حدیث کی تخریج ابو داؤد نے سابقہ موضوع میں حدیث نمبر ۴۷۹۸، کیا ہے ، اور علامہ البانی نے اس کو " الصحیحۃ" حدیث نمبر ۷۹۵ ـ۲/۴۳۷ میں صحیح قرار دیا ہے۔
(۶) اس حدیث کی تخریج امام احمد نے ۲/۴۶۷ میں کیا ہے ، ہیثمی نے زوائد میں ۱۰/۲۰۶ میں کہا ہے کہ: اس کی روایت احمد نے کیا ہے، اور اس کے رجال صحیح رجال ہیں، اور خرائطی نے " مکارم الاخلاق"(۲۲) میں کیا ہے ۔
(۷) اس حدیث کی تخریج امام احمد نے ۴/۱۹۳، میں کیا ہے، اور خرائطی نے " مکارم الاخلاق"(۲۳) میں کیا ہے، ہیثمی نے زوائد میں۸/۲۱ میں کہا ہے کہ: احمد کے رجال، صحیح رجال ہیں۔
(۸) سورة الهمزة ،آيت نمبر ۱۔
(۹) اس حدیث کی تخریج امام احمد نے ۱/۴۰۳، میں کیا ہے، ہیثمی نے زوائد میں۱۰/۱۷۳ میں کہا ہے کہ: اس کی روایت احمد اور ابو یعلی نے کیا ہے،اور ان دونوں کے رجال صحیح رجال کی طرح سے ہیں ، سوائے عوسجۃ بن الرماح کے ، وہ ثقہ ہیں۔ اور خرائطی نے بھی اس کی تخریج " مکارم الاخلاق"(۹) میں کیا ہے۔
(۱۰) اس حدیث کی تخریج امام مسلم نے کتاب " الصلاة في حديث طويل"، باب " صلاة النبي صلى الله عليہ وسلم ودعائہ بالليل "۶/۵۸، نووی کی شرح کے ساتھ۔
التعليقات