روزہ اخلاق کا مدرسہ ہے
عفت و پاکدامنی:
عبد الرحمن بن یزید بیان کرتے ہیں کہ: میں علقمہ اور اسود کے ساتھ عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوا، انہوں نے ہم سے کہا کہ ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں نوجوان تھے اور ہمیں کوئی چیز میسر نہیں تھی ۔ تو رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم سے فرمایا: ’’اے نوجوانوں کی جماعت ! تم میں جوبھی شادی کے اخراجات کی طاقت رکھے، اسے چاہيے کہ شادی کرلے، کیونکہ یہ نظر کو نیچی رکھنے والا اور شرمگاہ کی حفاظت کرنے والا عمل ہے اور جو( نکاح کی) طاقت نہیں رکھتا اسے چاہیے کہ روزہ رکھے کیونکہ روزہ اس کی خواہشات نفسانی کو توڑدے گا۔"(۱)
جب نیکی اور احسان والے مہینے رمضان میں جس میں کہ قرآن کریم کا نزول ہوا، ایمان کی باد نسیم چلتی ہیں، تو جود وسخا، تقوی و صلاح کے معطر خوشبوؤں اور جھونکوں سے مومنوں کے چہرے کھل جاتے ہیں، اور بھلائیوں کی طرف سبقت اور پیش قدمی کرنے اور نیکیوں کے سب سے بڑے ذخیرہ سے ہمکنار اور کامیاب ہونے کا میدان روشن ہوجاتا ہے، اور آپ جنت کے باب ریان کے لیے مستعد لوگوں کو خوش وخرم دیکھیں گے، وہ اس وجہ سے کہ اللہ تعالیٰ نے ان پر اس فضيلت والے مہینہ كى برکتوں اور اپنى رحمتوں کى نوازش كى ہے،جس میں گناہ گاروں کی خطائیں معاف کردی جاتی ہیں، اور اللہ رب العالمین نادم ہوكر توبہ كرنے والوں کی توبہ قبول فرماتا ہے، اور احسان اور نیکی کرنے والوں کے اجر وثواب كئى گنا بڑھا ديے جا تے ہیں۔
اس جود وكرم والے مہینہ میں . . رحمن کے فرشتے صدا بلند کرتے ہیں . . اے خیر وبھلائی کے متلاشی آگے بڑھ . . کامیاب لوگوں کے هم ركاب ہوجا۔ اس عظیم موسم کو اللہ رب العالمین کی قربت حاصل کرنے کے ليے غنیمت سمجھ، کیونکہ جو شخص اس ماہ میں خیر سے محروم ہوگیا، تو وہ انتہائی محروم، درمانده، بے یار و مدد گار ہے۔
ان چند دنوں میں مومنوں كو رحمت کے بادل اور ہدایت كى روشنیاں گھیر لیتی ہیں، چنانچہ آپ حد سے گزرنے والوں اور اللہ تعالیٰ کی عبادت میں غفلت و کوتاہی کرنے والوں کے اندر نیکی کی تڑپ اور نافرمانی پر ندامت وشرمندگی محسوس کریں گے، انہوں نے روزہ داروں کے ساتھ روزہ رکھا ، اور رکوع و سجود کرنے والوں کے ساتھ مسجدوں میں نماز پڑھىں۔
اس عظیم عبادت کى ان کے اعضاء و جوارح اور ان كى طبيعتوں کی اصلاح اور استقامت میں تاثير کیا ہی حيرت انگیزہے ۔
اس تاثیر کا راز اس بات میں پنہاں ہے کہ روزہ ایک گراں بہا عبادت اور عظیم رکن ہے، جو طبائع كو شائستہ بناتا ہے اور نفس کی عصمت وپاکدامنی اور صيانت وحفاظت پر تربیت کرتا ہے، اگر چہ روزہ بظاہر کھانے پینے سے باز رہنے کا نام ہے، لیکن اس كى حقیقت اللہ تعالیٰ كے منع كرده اقوال، اعمال اور اخلاق سے باز رہنے میں مضمر ہے ۔
جیسے شاعر کا یہ قول:
كم قد ظفرت بمن أهوى فيمنعني منه (الصيام) , وخوف الله , والحذر
كذلك الحـبُّ لا إتيان معـصيةٍ لا خير في لذّةٍ من بعدها سقـر(2)
میں بارہا اپنے محبوب سے ظفریاب ہوا، لیکن روزہ، خوف الٰہی اور چوکسی و ہوشیاری مجھے اس (کے ساتھ حرام کے ارتکاب) سے بچا لیتی ہے، حقیقی محبت یہی ہے نہ کہ معصیت کا ارتکاب ، ایسی لذت میں کوئی بھلائی نہیں جس کے بعد نار جہنم کا سامنا کرنا پڑے۔ (۲)
اور اس عظیم مفہوم کی تاکید نبی کریم ﷺ کے ان نوجوانوں کے متعلق فرمان سے ہوتى ہے جنھیں آپ نے قوت وطاقت اور شادی کی حاجت و ضرورت کے مرحلہ میں پایا: "اے نوجوانوں کی جماعت ! تم میں جوبھی شادی کے اخراجات کی طاقت رکھے، اسے چاہيے کہ شادی کرلے" کیونکہ نكاح شرم گاہ کی حرام شہوتوں سے حفاظت کرنے والا ہے۔ پھر اس کے بعد آپ نے ایک دوسری عبارت کے ذریعہ ان نوجوانوں كو مخاطب فرمایا جن کی مادی حالت بہت تنگ ہے، جس كے سبب وہ شادی کرنے سے قاصر ہیں: "اور جو( نکاح کی) طاقت نہیں رکھتا اسے چاہیے کہ روزہ رکھے کیونکہ روزہ اس کی خواہشات نفسانی کو توڑدے گا۔"
یہاں پر نبی کریم ﷺ ہماری توجہ مبذول کرارہے ہیں; چنانچہ عفت و پاکدامنی کےحصول ، عصمت کی صیانت وحفاظت کی تاکید اور حرام خواہشات کو ختم کرنے کے لیے روزہ کو اس شخص کے لیے جس کی روزی تنگ کردی گئی ہے نکاح (شادی) کا اچھا متبادل قرار دیا ہے،جس طرح کی وجاء یعنی دونوں خصیوں کاکوٹنا نکاح (شادی) کی شہوت کو ختم کرنے والا اور اس سے روکنے والا ہے۔
نبی کریم ﷺ نے یہ نہیں فرمایا کہ: اس کے لیے لازم ے کہ وہ بھوکا رہے ، جو کہ روزہ کا ایک اہم مظہر مانا جاتا ہے، کیونکہ محض مباح (جائز) چیزوں سے رک جانا نفس کو شائستہ بنانے اور اس کی اصلاح کرنے کے لیے کافی نہیں ہے، جب تک کہ اس کے ساتھ نیت بھی مربوط نہ ہو اور حرام چیزوں سے باز رہنے، اور اللہ تعالیٰ کا تقرب حاصل کرنے کے لئے اطاعت و فرمابرداری سے آراستہ ہونے کے لیے اعضا وجوارح تابع فرمان نہ ہوں۔ (۳)
۱۔ متفق علیہ، صحیح بخاری جلد۵/صفحہ ۱۹۵۰، صحیح مسلم جلد۲/صفحہ ۱۰۱۹۔
۲۔ابو عبد اللہ الواسطی کے قصیدہ کا اقتباس۔
۳۔دیکھیں: حدیث کی شرح فتح الباری جلد۹/صفحہ ۱۱۰، نووی صحیح مسلم کی شرح جلد۹/صفحہ۱۷۳۔
التعليقات