مبحث چہارم: مرد و عورت کے مادۂ منویہ کی صفت اور تخلیقِ جنین نیز مشابہت اور نر و مادہ ہونے میں اس کے اثر و تاثیر کا بیان (۳)
④ عائشہ رضی اللہ عنہا کی حدیث: ((أن امرأة قالت لرسول الله صلى الله عليه وسلم: هل تغتسل المرأة إذااحتلمت وأبصرت الماء؟ فقال: (نعم)، فقالت عائشة: تربت يداك وأُلَّت [۱]. قالت: فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: (دعيها، وهل يكون الشبه إلامن قبل ذلك إذاعلا ماؤُها ماءالرجل، أشبه الولد أخواله، وإذاعلاماءُ الرجل ماءها، أشبه الولد أعمامه)) ’’ایک عورت نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے عرض کی: کیا عورت غسل کرے جب اسے احتلام ہو جائے اور پانی دیکھے؟ آپ نے فرمایا: ’’ہاں‘‘ عائشہ رضی اللہ عنہا نے اس عورت سے کہا: تیرے ہاتھ خاک آلود اور زخمی ہوں، کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: ’’اسے کچھ نہ کہو، کیا (بچے) کی مشابہت اس کے علاوہ کسی اور چیز سے ہوتی ہے، جب (نطفے کی تشکیل کے مرحلے میں) اس کا پانی مرد کے پانی پر غالب آجاتا ہے تو بچہ اپنے ماموؤں کے مشابہ ہوتا ہے اور جب مرد کا پانی غالب آجاتا ہے تو بچہ اپنے چچاؤں کے مشابہ ہوتا ہے‘‘۔ (*)
عائشہ رضی اللہ عنہا سے اس حدیث کے دو طرق ہیں:
اوّل: عروہ بن زبیر، اور پھر ان سے دو طرق سے روایت ہے:
(الف) مسافع بن عبد اللہ الحجی: اس کی تخریج امام مسلم [۲] ـ نقل کردہ لفظ انہیں کے ہیں ـ احمد [۳] ابو عوانہ [۴] طحاوی [۵] اور بیہقی [۶] وغیرہ نے اس سند سے کی ہے:’’عن يحيى بن زكريا بن أبي زائدة، عن أبيه،عن مصعب بن شيبة، عنه‘‘۔
(ب) زہری: اس کی تخریج امام مسلم [۷] نے بھی کی ہے، اور امام ابو داؤد [۸] نسائی [۹] دارمی [۱۰] ابو عوانہ [۱۱] ابن حبان [۱۲] اور بیہقی [۱۳] وغیرہ نے اسی سند سے اسی طرح بطریق زہری تخریج کی ہے، مگر یہ کہ اس میں سوال پوچھنے والی کا نام ام سلیم بتایا گیا ہے، اور اس میں آدمی کے پانی اور نہ ہی عورت کے پانی کی سبقت کا ذکر ہے۔
اور مالک نے اسے زہری سے روایت کیا ہے، وہ عروہ سے روایت کرتے ہیں کہ ام سلیم رضی اللہ عنہ نے بیان کیا، [۱۴] اور اس میں عائشہ رضی اللہ عنہا کا ذکر نہیں ہے۔
ابن عبد البر کہتے ہیں: ’’میری علم کے مطابق جس کسی نے بھی اس حدیث کو امام مالک سے روایت کیا ہے اس میں عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت کرنے کا ذکر نہیں ہے، صرف ابن ابو الوزیر اور عبد اللہ بن نافع نے ذکر کیا ہے‘‘[۱۵] پھر اس کے بعد انہوں نے ابن ابو الوزیر اور عبد اللہ بن نافع کی سند کو بیان کیا ہے۔
اور اسے عبد الرزاق نے معمر سے روایت کیا ہے، انہوں نے زہری سے اور انہوں نے عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت کیا ہے [۱۶] اور عروہ کا ذکر نہیں کیا، جس سے اس میں انقطاع ظاہر ہے۔
دوم: قاسم بن محمد عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت کرتے ہیں، (( قالت: سئل رسول الله صلى الله عليه وسلم عن الرجل يجد البلل ولا يذكراحتلاماً؟ قال: (يغتسل)، وعن الرجل يرى أنه قد احتلم ولايجد البلل؟ قال: (لاغسل عليه)،فقالت أم سليم: المرأة ترى ذلك، أعليهاغسل؟ قال: (نعم، إنما النساءشقائق الرجال))۔ انہوں نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے ایسے آدمی کے متعلق پوچھا گیا جو تری کو تو پاتا ہے مگر اسے احتلام یاد نہیں؟ آپ نے فرمایا: ’’وہ غسل کرے‘‘، اور اس آدمی کے بارے میں پوچھا گیا جسے اتنا تو معلوم ہو کہ اسے احتلام ہوا ہے مگر وہ تری کو نہیں پاتا ہے؟ آپ نے فرمایا: ’’اس پر کوئی غسل نہیں ہے‘‘، تو ام سلیم رضی اللہ عنہا نے عرض کی: عورت وہ چیز دیکھے تو کیا اس پر غسل (واجب) ہے؟ آپ نے فرمایا: ’’ہاں، بیشک عورتیں مردوں ہی کی طرح ہیں‘‘۔
اس حدیث کی تخریج امام ابوداؤد [۱۷] اور لفظ انہیں کے ہیں ترمذی [۱۸] احمد [۱۹] اور بیہقی [۲۰] وغیرہ نے قاسم بن محمد سے اس سند سے کی ہے: ’’عن حماد بن خالد الخياط، عن عبدالله بن عمرالعمري، عن عبيد الله بن عمر،عن القاسم بن محمد‘‘۔
اس سند میں عبد اللہ بن عمر المبکّر ضعیف ہیں۔ [۲۱] اور اس میں وارد اس جملہ: ‘‘إنماالنساء شقائق الرجال’’ کی تقویت ایک تیسرے سند کے ذریعہ ام سلیم کی حدیث سے ہوتی ہے۔
بعض علمائے حدیث اس جانب گئے ہیں کہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی یہ حدیث دراصل ام سلیم ہی کی حدیث ہے۔
حافظ ابن حجر فتح الباری میں لکھتے ہیں: ’’قاضی عیاض اھل الحدیث سے نقل کرتے ہیں کہ صحیح بات یہ ہے کہ یہ قصہ ام سلیم کے ساتھ واقع ہوا نہ کہ عائشہ کے ساتھ، اور یہ اس بات کا تقاضہ کرتی ہے کہ ھشام کی روایت کو ترجیح دی جائے، اوریہی(ترجیح) امام بخاری کے عمل سے ظاہر ہے‘‘[۲۲] پھر آپ لکھتے ہیں: ‘‘لیکن ابن عبد البر نے ذہلی سے دونوں روایتوں کی تصحیح نقل کی ہے [۲۳] اور ابو داؤد نے روایتِ زہری کی تقویت کی طرف اشارہ کیا ہے [۲۴]، کیوں کہ مسافع بن عبد اللہ نے عروہ عن عائشہ کے ذریعہ زہری کی متابعت کی ہے‘‘[۲۶]
ابن عبد البر کہتے ہیں: ’’ابن شہاب عن عروہ عن عائشہ والی حدیث علمائے حدیث کے نزدیک صحیح ہے‘‘ [۲۷]
پس ابوداؤد، ذہلی اور ابن عبد البر کا عائشہ رضی اللہ عنہا کی حدیث کو قوی قرار دینا اور اس پر مستزاد یہ کہ اس کی تخریج امام مسلم نے کی ہے، حافظ ابن حجر ، دونوں حدیثوں کے مابین امام نووی کی اس جمع و تطبیق کو: ’’ممکن ہے عائشہ اور ام سلمہ دونوں نے بیک وقت اس کی تنکیر کی ہو، اگرچہ اھل الحدیث کا کہنا ہے کہ : صحیح یہی ہے کہ وہاں ام سلمہ تھیں ، نہ کہ عائشہ‘‘ [۲۸] کومستحسن قرار دیتے ہوئے کہتے ہیں: ’’یہ اچھی تطبیق ہے، کیوں کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس ایک ہی مجلس میں ام سلمہ اور عائشہ کا موجود ہونا ممتنع نہیں ہے‘‘۔ [۲۹] واللہ اعلم۔
حوالہ جات و حواشی:
________________________________________
[۱] (أُلَّتْ) کے بارے میں نووی کہتے ہیں: ‘‘اس لفظ کے ہمزہ پر ضمہ، لام تشدیدپر فتحہ اور اور تاء ساکن ہوگی، روایت میں اسی طرح ہے، اور اس کا معنی و مفہوم ہےاسے زخم پہنچے، یہ أَلَّۃُ ہمزہ کے فتحہ اورلام تشدید سے ہے جس کے معنی الحربۃ یعنی جنگی ہتھیار کے ہیں‘‘۔شرح النووی(3/225).
ابن اثیرؒ کہتے ہیں: (ألت): ’’یعنی جب ان کو یہ بات پہنچی تووہ اس کو پکارتے ہوئی چیخ اٹھیں،اور ہمزہ کے ضمہ اورلام کے تشدید کے ساتھ بھی مروی ہے،یعنی:نیزہ کے ذریعہ مارنے لگیں،اورالت :چوڑے دھاردار نیزے کو کہتے ہیں،لیکن اس معنی میں کافی بعد پایا جاتا ہے،جو حدیث کے لفظ سے میل نہیں کھاتا‘‘النهاية (1/21، 62).اورجو حدیث میں وارد ہے وہی (معنی) مقدّم ہوگا۔
(*) الطب النبوي والعلم الحديث (3370).
[۲] صحيح مسلم –كتاب الحيض– باب وجوب الغسل على المرأة بخروج المني منها (1/251ح(...)/33).
[۳] المسند (6/92)،وفيه (يحيى عن ابن زكريا) اور یہ غلط ہے،اسی طرح مسافح (نافع) سے بدل گیا ہے،اوراسی طرح فتح الباری(1/388). میں بھی آیا ہے۔
[۴] مسند أبي عوانة (1/293).
[۵] مشكل الآثار (3/276).
[۶] السنن الكبرى (1/168) و (10/265).
[۷] صحيح مسلم (1/251ح314).
[۸] سنن أبي داود – كتاب الطهارة – باب في المرأة ترى ما يرى الرجل (1/162– 164ح 237).
[۹] سنن النسائي – كتاب الطهارة – باب غسل المرأة ترى في منامها ما يرى الرجل (1/112، 113ح 196).
[۱۰] سنن الدارمي (1/165).
[۱۱] مسند أبي عوانة (1/292).
[۱۲] الإحسان (2/241، 242ح1163) اوران کے یہاں :زہری،عن عروہ،عن زوج النبی ہے،لیکن ان کا نام نہیں ذکرکیا ہے،اوروہ عائشہ رضی اللہ عنہا ہیں۔
[۱۳] السنن الكبرى (1/168).
[۱۴] الموطأ (1/51ح84).
[۱۵] التمهيد (8/333).
[۱۶] مصنف عبدالرزاق (1/283ح1092) اسی طرح عبد الرزاق نے روایت کیا ہے،جیسا کہ ابن عبد البرنے التمهيد (8/334) میں اس کی طرف اشارہ کیا ہے، نہ کہ جیسا کہ علامہ اعظمی نے کہا ہے کہ: شاید ناسخ نے عروہ کے لفظ کو ساقط کردیا ہے‘‘۔
[۱۷] سنن أبي داود (1/161، 162ح 236).
[۱۸] سنن الترمذي – كتاب الطهارة – باب في من يستيقظ فيری بللاً،ولايذكراحتلاماً (1/189، 190ح113)، اور ان کے یہاں سوال کرنے والی ام سلمہ ہیں، جب کہ ظاہر یہی ہے کہ سائلہ ام سلیم تھیں جیسا کہ ابوداؤد کے یہاں ہے، اس طرح کہ ام سلیم نے یہ سوال کیا تو ام سلمہ نے عورت کے محتلم ہونے کی تنکیر کی تھی۔
[۱۹] المسند (6/256).
[۲۰] السنن الكبرى (1/168).
[۲۱] تقريب التهذيب ص (314).
[۲۲] انظرالفتح (1/388).
[۲۳] انظرالتمهيد (8/336).
[۲۴] انظرسنن أبي داود (1/165).
[۲۵] فتح الباری میں نافع سے بدل گیا ہے،جبکہ درست :(مسافح )ہے،اوروہ مسافح ابن عبد اللہ الحجی ہیں،جیسا کہ گزرچکا۔
[۲۶] فتح الباري (1/388).
[۲۷] المصدرالسابق (8/336).
[۲۸] شرح مسلم (3/222).
[۲۹] فتح الباري (1/۳۸۸)
التعليقات
https://www.cialispascherfr24.com/tadalafil-cialis-10mg/
https://www.cialispascherfr24.com/tadalafil-acheter/
https://www.cialispascherfr24.com/tadalafil-moins-cher-homme/