فقہ السنّہ (فہمِ سنّت)
حلقہ (۵)
پانچویں حدیث
برتن میں کتّے کے منہ ڈالنے کیوجہ سے اس کے دھونے کا بیان
ابو ہریرہ – رضی اللہ عنہ – سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول – صلی اللہ علیہ وسلم – نے ارشاد فرمایا : (إذا شرب الكلب في إناء أحدكم فليغسله سبعاً)
" جب کتّا تم میں سے کسی کے برتن میں سے (کچھ) پی لے تو اس برتن کو سات مرتبہ دہونا چاہئے "۔
مسلم کی ایک روایت میں ہے : (أولاهن بالتراب)" کہ پہلی بار مٹی سے صاف کرو"۔ مسلم میں ہی عبد اللہ بن مغفل سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول – صلی اللہ علیہ وسلم – نے فرمایا : (إذا ولغ الكلب في الإناء فاغسلوه سبعاً وعفروه الثامنة بالتراب)
’’ جب کتّا برتن میں منہ ڈال دے تو اس کو سات بار دھلو، اور ا ٓٹھویں بار مٹّی سے رگڑ کر صاف کرو ‘‘ ۔ اور مسلم میں ایک لفظ : (فليريقه)، ہے" یعنی اسے بہادے"۔
اور ترمذی کی ایک روایت میں : (أخراهن، أو أولاهن بالتراب). " یعنی پہلی یا آ خری بار مٹی سے دھلا جائے "۔
یہ بہت اہم حدیث ہے ، اس میں کتے کے چھونے ، اور اس کے (برتن) میں منہ ڈالنے ، سے متعلق طہارت حاصل کرنے کے بارے میں کافی اہم مسائل پر مشتمل ہے ، درج ذیل" وقفات " میں ہم اسے پیش کر رہے ہیں :
پہلا وقفہ :
آ پ کا قول : (إذاولغ): ولوغ سے مراد یہ ہے کہ: "جب کتا اپنے زبان کے کنارے سے پی لے" ۔
کچھ لوگوں نے کہا ہے کہ :" جب وہ اپنے زبان کو پانی اور دیگر سائل(مائع) چیز میں ڈال دے ،اور اس کو ہلا دے ، چاہے اس نے پانی پیا ہو یا نہ پیا ہو" ۔
اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ : " جب برتن میں غیر سائل چیز ہو تو اس کو(لعاق) " زبان سے چاٹنا " کہا جاتا ہے، اور جب برتن خالی ہو تو اس کے لئے ( لحاس) " زبان سے چاٹنے" کا لفظ استعمال کیا جاتا ہے" ۔
اور یہاں پر تمام چیزوں کے لئے حکم عام ہے ، چاہے برتن خالی ہو یا بھرا ہوا ہو ، یا اس میں کوئی سائل چیز ہو جیسے : پانی وغیرہ ، جیسا کہ کچھ اہل علم نے اس کو ذکر کیا ہے ۔
دوسرا وقفہ:
ا ٓ پ کا قول : (في إناء أحدكم): یہاں پر اضافت کا کوئی فائدہ نہیں (ملغی )ہے ، کیو نکہ طہارت اور نجاست کا حکم برتن کے ملکیت پر موقوف نہیں ہے ۔ اور اسی طرح آپ کےقول : (فليغسله) میں،یہ ضروری نہیں کہ ہے کہ دھونے والا اس برتن کا مالک ہو ۔
تیسرا وقفہ:
ا ٓپ کا قول : (فليرقه) " یعنی اس برتن میں جو کچھ ہے اس کو پھینک دو یا بہا دو"۔
چو تھا وقفہ:
اس حدیث سے جمہور اہل علم نے " کتے کی نجاست " پر استدلال کیا ہے ، چاہے اس کے منہ کی نجاست ہو یا اس کے پورے جسم کی ۔
ان لوگوں کا کہنا ہے کہ: اس کے منہ کی نجاست اللہ کے رسول – صلی اللہ علیہ وسلم – کے اس فرمان:" کتا جس برتن میں منہ ڈال دے ، تو اس کو دھویا جائے گا" سے لیا گیا ہے ، کیو نکہ غسل صرف " نجاست " یا " حدث" کیو جہ سے کی جاتی ہے ، اور اس حدیث میں " حدث" کا ذ کر ہی نہیں آیا ہے ، لہذا " نجاست " کی تعین ہو گئی ۔
پھر یہ کہ اللہ کے رسول‑ صلی اللہ علیہ وسلم ‑ نے (اس) پانی کو بہانے کا حکم دیا ہے ، اور ظاہر ہے پانی کو (بغیر کسی عذر) کے بہانے میں مال کا ضیاع ہے ، اگر (وہ) پانی طاہر ہوتا تو ا ٓپ اس کو ضائع کرنے کا حکم نہیں دیتے ، لہذا بہائے گئے پانی کی نجاست سے کتُے کے منہ کی نجاست کا دلیل ملتا ہے ۔
جہاں تک رہی بات اس کے تما م جسم کے نجس ( ناپاک) ہونے کی تو اس کے منہ کی نجاست پر قیاس کر کے اس کے پورے جسم کو نجس (ناپاک) مانا گیا ہے ۔ کیونکہ اس کا منہ اس کے تمام اعضاء میں سب سے زیادہ اشرف اور مکرم ہے ، تو اس کے بدن کے بقیہ اعضاء تو بدرجۂ اولی نجس ہو ں گے۔
اسی طرح سے جب اس کے لُعاب کی نجاست کی تعیین ہو گئی ، اور لُعاب کہتے ہیں : اس کے منہ کی تھوک ، یا (رال ) کو ، اور عرق جسم سے نکلنے والا ایک حصہ ہے ، تو ا س کے تمام پسینے ناپاک ہوئے،اور پورے بدن ناپاک ٹہرے۔
پانچواں وقفہ:
کیا یہ نجاست کسی معین کتُے کے لئے خاص ہے ، یا تما م کتُوں کے لئے عام ہے ؟
اما م مالک – رحمہ اللہ – کہتے ہیں کہ : یہ حکم خاص ہے ان کتُوں کے لئے جن کا پالنا منع ہے ، جہاں تک رہی بات ان کتُوں کی ، جن کو پالنے کی اجازت یا رُخصت ہے جیسے: شکاری کتا ، کھیتی اور جانوروں کی نگرانی اور دیکھ بھال کرنے والا کتُا وغیرہ ، تو یہ حکم ان کے لئے عام نہیں ہے ، لیکن صحیح بات وہی ہے جو جمہور اہل علم کا مذہب ہے ، ان کے نزدیک یہ حکم تمام کتُوں کے لئے عام ہے ، جہا ں تک رہی بات ان کتُّوں کی جن کے بارے میں رُخصت دی گئی ہے ، تو وہاں رُخصت بطور حاجت وضرورت کےلئے ہے ۔
چھٹا وقفہ:
اس حدیث سے جمہور اہل علم نے استدلال کیاہے کہ وہ برتن جس میں کتُا منہ ڈال دے ، تو وہ نجس ہو جاتا ہے ، اور اسی طرح اس برتن میں موجود تمام چیزیں ‑ پانی وغیرہ – نجس ہو جاتی ہیں ، کیونکہ اللہ کے رسول – صلی اللہ علیہ وسلم – نے برتن کو "سات بار" دھونے کا حکم دیا ہے اور " آ ٹھویں بار" مٹی سے دھونے کا حکم دیا ہے ، اور دھونے کا حکم صرف " حدث " یا "نجاست " کے لئے ہے ، جیسا کہ انھوں نے (جمہور علماء) نے امام مسلم کی مرفوعا روایت کردہ حدیث : (طهور إناء أحدكم...)سے استدلال کیا ہے ، اور طہارت کے لئے شرط ہے کہ نجاست کے بعد ہو۔
ساتواں وقفہ:
دھونے کی تعداد کے سلسلے میں متعدد حدیثیں وارد ہو ئی ہیں ، ان میں سے کچھ روایتیں درج ذیل ہیں :
۱۔ پہلی روایت : (فليغسله سبعاً أولاهن بالتراب) " اس کو سات مرتبہ دھلو ، اور پہلی بار مٹی سے صاف کرو"۔
۲۔ دوسری روایت : (فاغسلوه سبعاً وعفروه بالتراب)" اس کو سات بار دھلو ، اور (ایک بار ) مٹی سے مانجھ کر صاف کرو "۔
حدیث کی صحت اور متعدد روایتوں کیوجہ سے اہل علم نے یہ استنباط کیا ہے کہ" سات مرتبہ " دھونا واجب ہے ، جب کہ کچھ اہل علم نے اس کی مخالفت کر تے ہوئے صرف "ایک بار" دھونے کو واجب کہا ہے ۔
آ ٹھواں وقفہ:
اس حدیث سے جمہور اہل علم نے یہ استنباط کیا ہے کہ برتن کو "ایک مرتبہ " مٹی سے دھو نا واجب ہے ، کیونکہ آ پ – صلی اللہ علیہ وسلم – کا فرمان ہے : (أولاهن بالتراب)" کہ پہلی بار مٹی سے دھلو "۔ ایک روایت میں ہے کہ : (وعفروه الثامنة بالتراب)
" آٹھویں بار مٹی سے مانجھ کر صاف کرو " ۔ ایک روایت میں ہے کہ : (إحداهن بالتراب)" کہ پہلی بار مٹی سے دھلو"۔
لیکن سوال پیدا ہوتا ہے کہ آ خر اس دھونے کی جگہ کون سی ہوگی ؟ یعنی کیا مٹی سے" پہلی بار" دھویا جائے گا یا اخیر میں؟۔
راجح بات : اس سلسلے میں راجح بات یہ ہے کہ" پہلی بار "ہی اس جگہ کو مٹی سے دھویا جائے گا ، اور" سات مرتبہ "پانی سے دھویا جائے گا، ( واللہ اعلم )۔
نواں وقفہ:
کیا مٹی کے علاوہ دوسری اور چیزوں جیسے: صابن ، اشنان وغیرہ صفائی اور نظافت میں کفایت کریں گے؟۔
جواب: علماء نے کہا ہے کہ کوئی اور دوسری چیز کفایت نہیں کرے گی، کیو نکہ کتُے کے منہ میں ایک ایسا مادہ پایا جاتا ہے جس کو صرف مٹی ہی زائل کر سکتی ہے ، اس میں اللہ تعالی کی بے انتہا حکمت پوشیدہ ہے ۔ اگرچہ بعض لوگ یہ گمان کرتے ہیں کہ اس سے غلط فہم ہے ، بلکہ مٹی سے ہی دھلنا ضروری ہے ، اور اگر دیگرمنظّفات کو ملا لے تو کوئی حرج نہیں۔
دسواں وقفہ:
کچھ اہل علم نےذکر کیا ہے کہ اگر کتا اپنے ہاتھ یا پَیر کو کسی برتن میں داخل کر دے ، تو اس کا حکم ولوغ پر قیاس کرتے ہوئے اور تمام کتوں کے نجس ہونے کو بنیاد بناتے ہوئے عام ہوگا ،اور وہ مادہ جو اس کے لُعاب (رال) میں ہوتا ہے ، وہ اس کے عرق میں موجود رہ کر اس کے جسم میں گردش کرتا رہتا ہے۔
جبکہ کچھ لوگوں نے کہا ہے کہ : "یہ حکم صرف کتُے کے منہ ڈالنے کے ساتھ خاص ہے "۔
پہلی بات زیادہ مناسب ہے ۔ واللہ اعلم ۔
گیارہواں وقفہ:
کیا دوسرے اور حیوانوں کو کتُے پر قیا س کی جاسکتا ہے ؟
جمہور اہل علم کے نزدیک درست بات یہ ہے کہ کتُوں پر کسی اور کو نہیں قیاس کیا جاسکتا ہے ، ۔واللہ اعلم۔کیونکہ اس سلسلے میں خاص نص وارد ہے ، گر چہ دوسرے اور نجس جانور ہیں جیسے : خنزیر ، وغیرہ ، لیکن منہ ڈالنے کی وجہ سے برتن کے دھونے کے بارے میں کُتّے پر قیاس نہیں کیا جائے گا۔
التعليقات