اُمّ المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کی فضائل
خطیب:شیخ اسامہ بن عبد اللہ بن خیّاط (امام وخطیب مسجد حرام،مکّہ مکرّمہ)
عناصر خُطبہ: ۱۔تکلیف وایذارسانی سے نفس کو محفوظ رکھنا سب سے عظیم صفت ہے۲۔صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو تکلیف دینا مومنین کو تکلیف دینے کی قسموں میں سب سے بڑھ کر ہے۔ ۳۔ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کو تکلیف دینا خود نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو ہی تکلیف دینا ہے۴۔ ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کی فضائل ۵۔امّت محمدیہ پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے واجب حقوق.
بلاشبہ مومن مردوں اور عورتوں کے لیے گناہ کے اعتبار سے سب سے بڑی اور نقصان کے اعتبار سے سب سے شدید ایذارسانی ان لوگوں کواپنی زبان درازی کے مذموم تیرکانشانہ بنانا ہے‘ جنہیں اللہ نے اپنے دین کی نصرت وحمایت، اپنے نبی کی صحبت، اپنے کتاب کی حفاظت اور اس کے دفاع اور اپنی شریعت کی تبلیغ واشاعت کے لیے منتخب کیا اور چن لیا ہے۔اوروہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاکبازآل واصحاب اورآپ کی ازواج مطہرات ‘ مومنوں کی مائیں ہیں ۔ اللہ ان سب سے راضی ہوں۔، اس ایذا رسانی کی کڑیاں گذشتہ ایام سے موجودہ دنوں تک مسلسل جڑی ہوئی ہیں اور اس کے صور واشکال متعددہیں یہاں تک کہ وہ آج کھلی جارحیت کی شکل میں ا پنی آخری حد کو پہنچ گئی ہے۔
سبھی تعریفیں صراط مستقیم کی طرف رہنمائی کرنے والے اللہ کے لیے لائق وزیبا ہیں،میں اس کے قدیم احسان اور بے پایاں فضل واحسان پر اس کی حمد و ثنا کرتا ہوں ،نیز میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے ماسوا کوئی سچا معبود نہیں وہ اکیلا ہے اس کا کوئی شریک وساجھی نہیں وہ واضح معبود برحق ہے۔میں گواہی دیتا ہوں کہ ہمارے سردار اور نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے بندے اور سول، پرہیزگاروں کے امام اور نبیوں کے خاتم(مہر) ہیں۔اے اللہ! تو اپنے بندے اور اپنے رسول محمد،آپ کے آل واصحاب ، تابعین نیز قیامت تک ان کے راستے پر چلنے والوں پر رحمت وسلامتی نازل فرما۔
حمد وصلاۃ کے بعد!
اللہ کے بندو!- اللہ سے ڈرو اور اس کے سامنے کھڑے ہونے کو یادکرو۔
جیساکہ اللہ کا فرمان ہے: ﴿يَوْمَ لَا يَنفَعُ مَالٌ وَلَا بَنُونَ إِلَّا مَنْ أَتَى اللَّـهَ بِقَلْبٍ سَلِيمٍ ﴾ [الشعراء:88-89]
"جس دن کہ مال اور اوﻻد کچھ کام نہ آئے گی، لیکن فائده واﻻ وہی ہوگا جو اللہ تعالیٰ کے سامنے بے عیب دل لے کر جائے"
اے مسلمانو! نفس کو ایذا رسانی سے بچانا، اسے الزام دہی سے دور رکھنا اور جارحیت سے باز رکھنا عقل والوں کا ایک اعلی خلق اور عظیم منقبت ہے، جو یہ یقین رکھتے ہیں کہ مومنوں کو ایذا پہنچانے کی عاقبت بہتان اور کھلا گناہ ہے جسے ایذا رسانی کرنے والا اٹھائے ہوئے ہوگا، اور جس کے وزن سے وہ بوجھل ہوجائے گا،اور جس دن وہ اپنے پروردگار کے سامنے پیش کیاجائے گااپنے انجام پر شرمنده اور ذلیل ورسوا ہوگا،جیساکہ اللہ سبحانہ کا فرمان ہے :
﴿ وَالَّذِينَ يُؤْذُونَ الْمُؤْمِنِينَ وَالْمُؤْمِنَاتِ بِغَيْرِ مَا اكْتَسَبُوا فَقَدِ احْتَمَلُوا بُهْتَانًا وَإِثْمًا مُّبِينًا ﴾[الأحزاب:58]
"اور جو لوگ مومن مردوں اور مومن عورتوں کو ایذا دیں بغیر کسی جرم کے جو ان سے سرزد ہوا ہو، وه (بڑے ہی) بہتان اور صریح گناه کا بوجھ اٹھاتے ہیں "
بلاشبہ مومن مردوں اور عورتوں کے لیے گناہ کے اعتبار سے سب سے بڑی اور نقصان کے اعتبار سے سب سے شدید ایذارسانی : ان لوگوں کواپنی زبان درازی کے مذموم تیرکانشانہ بنانا ہے‘ جنہیں اللہ نے اپنے دین کی نصرت وحمایت، اپنے نبی کی صحبت، اپنے کتاب کی حفاظت اور اس کے دفاع اور اپنی شریعت کی تبلیغ واشاعت کے لیے منتخب کیا اور چن لیا ہے۔یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاکبازآل واصحاب اورآپ کی ازواج مطہرات جو مومنوں کی مائیں ہیں ۔ اللہ ان سب سے راضی ہو۔،اس ایذا رسانی کی کڑیاں گذشتہ دنوں سے موجودہ ایام تک مسلسل جڑی ہوئی ہیں اور اس کے صور واشکال متعددہیں یہاں تک کہ وہ آج کھلی جارحیت وزیادتی کی شکل میں اپنی آخری حد کو پہنچ گیا ہے۔جس نے صدیقہ بنت صدیق‘مومنوں کی ماں‘رسول اللہ - صلی اللہ علیہ وسلم -کی چہیتی عائشہ بنت ابوبکر -رضی اللہ عنہا وعن ابیہا- کی سیرت کو طعن وتشنیع کا میدان بنالیا ہے،اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اس انتباہ کو نظرانداز کردیا ہے جو ام سلمہ رضی اللہ عنہا کی حدیث میں وارد ہے، کہ جب انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا کہ : إن الناس يتحرَّون بهداياهم يوم عائشة، فمُرهم فليدوروا معك حيث دُرْت، فقال -صلى الله عليه وسلم-: "لا تُؤذيني في عائشة، فإنه والله ما نزل عليَّ الوحي وأنا في لحافِ امرأةٍ منكنّ غيرها".
لوگ اپنے تحائف کے لیے عائشہ کی باری کو تلاش کرتے ہیں، لہذا آپ انہیں حکم کیجیے کہ وہ آپ کے ساتھ گھوما کریں جہاں بھی آپ گھومیں(یعنی جہاں بھی آپ کی باری ہوآپ کو تحائف پیش کیے جائیں)، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : مجھے عائشہ کے بارے میں تکلیف نہ پہنچاؤ،کیونکہ اللہ کی قسم!اس کے علاوہ تم میں سے کسی اور عورت کے لحاف میں میرے اوپر وحی نہیں نازل ہوئی۔‘‘اسے بخاری ومسلم نے روایت کیا ہے۔
اور ان کو ایذا پہنچانا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ایذا رسانی کا سبب کیونکر نہ ہو جب کہ وہ آپ کے نزدیک لوگوں میں سب سے زیادہ محبوب تھیں؟!
جیساکہ اس حدیث میں آیا ہے جسے بخاری اور مسلم نے اپنے صحیح میں عمروبن العاص رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے کہ انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا : (أيُّ الناس أحب إليك يا رسول الله؟! قال: "عائشة"، قال: فمن الرجال؟! قال: "أبوها"...).
’’اے اللہ کے رسول !آپ کے نزدیک لوگوں میں سب سے زیادہ محبوب کون ہے؟ ! آپ نے فرمایا : "عائشہ"، انہوں نے دریافت کیا : تومردوں میں سے؟! آپ نے فرمایا: "ان کے والد"، انہوں نے دریافت کیا: پھر کون؟ آپ نے فرمایا: پھر عمربن الخطاب ہیں اور چند آدمیوں کو گنایا۔،،
یہ بات آپ رضی اللہ عنہا کی فضیلت اور عظیم شرف واعزاز کے لیے کافی ہے۔
آپ وہی ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے بیوی کے طور پر منتخب کیا ہے، جیساکہ اس حدیث میں ہے جسے بخاری ومسلم نے عائشہ رضی اللہ عنہا سے ہی روايت کیا ہے کہ انہوں نے کہا: اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (أُريتُكِ في المنام ثلاث ليال، جاء بكِ الملكُ في سَرَقةٍ من حرير، فيقول: هذه امرأتك، فأكشِفُ عن وجهكِ فإذا أنتِ فيه، فأقول: إن يكُ هذا من الله يُمضِه).
’’مجھے تین راتوں تک تجھے خواب میں دکھایا گیا،فرشتہ تجھے ریشمین کپڑے کے ایک ٹکڑے میں لے کر آیا، اور کہنے لگا : یہ آپ کی بیوی ہے، تو میں تیرے چہرے سے کپڑا ہٹاتا ہوں تو تجھے اس کے اندردیکھتا ہوں، اس وقت میں کہتا ہوں : اگر یہ اللہ کی طرف سے ہے تو وہ اسے کر گزرے گا۔‘‘
اور انبیا کرام کے خواب بلا شبہ وحی ہوتے ہیں۔
وہ دنیا وآخرت دونوں میں آپ کی بیوی ہیں، جیساکہ اس حدیث میں آیا ہے جسے ترمذی نے اپنی جامع میں جید اسناد کے ساتھ عائشہ رضی اللہ عنہا سے ہی روایت کیا ہے کہ: جبرئیل ان کی تصویر کو ریشم کے ایک سبز رومال میں لے کرنبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور کہا:
(هذه زوجتك في الدنيا والآخرة) ’’یہ دنیا وآخرت میں آپ کی بیوی ہیں‘‘۔
- نیز مستدرک حاکم میں صحیح اسناد کے ساتھ عائشہ رضی اللہ عنہا سے ہی روایت ہے کہ انہوں نے کہا :
میں نے کہا : اے اللہ کے رسول! آپ کی بیویوں میں سے کون کون جنت میں ہیں؟! آپ نے فرمایا : (أما إنكِ منهنّ). ’’تو انہیں میں سے ہے،،۔
- نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں جبریل علیہ السلام کے سلام کی خبردی تھی، جیساکہ اس حدیث میں ہے جسے بخاری ومسلم نے عائشہ رضی اللہ عنہا سے ہی ذکر کیا ہے کہ انہوں نے کہا:اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (يا عائشة: هذا جبريل، وهو يقرأ عليكِ السلام"، قالت: وعليه السلام ورحمة الله، ترى ما لا نرى يا رسول الله؟!)
’’اے عائشہ ! یہ جبریل ہیں، وہ تجھ پر سلام پڑھتے ہیں۔،، انہوں نے کہا : ان پربھی سلامتی اور اللہ کی رحمت ہو، اے اللہ کے رسول!آپ وہ چیزیں دیکھتے ہیں جو ہم نہیں دیکھتے‘‘۔
- آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عورتوں پر ان کی فضیلت کو بیان کرتے ہوئے فرمایا : (كمُل من الرجال كثير، ولم يكمُل من النساء إلا: آسية امرأةُ فرعون، ومريم ابنةُ عمران، وفضل عائشة على النساء كفضل الثريد على سائر الطعام).
’’مردوں میں سے بہت سے لوگ کامل ہوئے، لیکن خواتین میں سے فرعون کی بیوی آسیہ اور عمران کی بیٹی مریم کے سواکوئی کامل نہ ہوئی، اور عورتوں پر عائشہ کی فضیلت ایسے ہی ہے جیسے ثرید نامی کھانے کی بقیہ سارے کھانوں پرفضیلت ہے۔‘‘ اسے بخاری ومسلم نے اپنے صحیح میں روایت کیا ہے۔
- نبی صلی اللہ علیہ وسلم ان سے بے حد محبت کرنے، اور اپنے نزدیک ان کے عظیم رتبہ وحیثیت کی وجہ سے ، مباح چیزوں سے لطف اندوز ہونے پران کی مدد کیا کرتے تھے، جیساکہ صحیحین میں عائشہ - رضی اللہ عنہا - سے مروی ہے کہ انہوں نے فرمایا : (لقد رأيتُ رسول الله -صلى الله عليه وسلم- يقوم على باب حجرتي والحبشة يلعبون بالحراب في المسجد، وإنه ليسترني بردائه لكي أنظر إلى لعبهم، ثم يقف من أجلي حتى أكون أنا التي أنصرف. وفي رواية: حتى أكون أنا التي أسأَم. وفي روايةٍ للنسائي: وما بي حبُّ النظر إليهم، ولكني أحببتُ أن يبلغ النساءَ مقامه لي ومكاني منه).
’’میں نے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا ہے کہ آپ میرے کمرے کے دروازہ پر کھڑے ہوتے اور حبشی لوگ مسجد میں نیزوں سے کھیل رہے ہوتے تھے، آپ مجھے اپنی چادر سے چھپاتے تھے تاکہ میں ان کے کھیل کو دیکھ سکوں، پھر آپ میری وجہ سے کھڑے رہتے یہاں تک کہ میں ہی واپس پلٹتی تھی۔ ایک روایت میں ہے : ’’یہاں تک کہ میں ہی اکتا جاتی تھی‘‘۔ نیز نسائی کی ایک روایت میں ہے کہ : ’’مجھے ان کی طرف دیکھنے کی چاہت نہیں تھی، لیکن میں چاہتی تھی کہ عورتوں کومیرے لیے آپ کے مقام (کھڑے ہونے) اور آپ کے نزدیک میرے رتبے کی خبر ہوجائے‘‘۔
امت پر ان کی برکتوں میں سے یہ کہ آپ رضی اللہ عنہا تیمم کی آیت کے نزول کا سبب بنی تھیں، جیساکہ صحیحین میں آپ رضی اللہ عنہا سے ہی روایت ہے کہ انہوں نے کہا : (خرجنا مع رسول الله -صلى الله عليه وسلم- في بعض أسفاره، حتى إذا كنا بالبيداء -أو بذات الجيش- انقطع عِقدي، فأقام رسول الله -صلى الله عليه وسلم- على التماسه، وأقام الناس معه، وليسوا على ماء، فأتى الناسُ أبا بكر -رضي الله عنها- فقالوا: ما ترى ما صنَعَت عائشة؟! أقامت برسول الله وبالناس وليسوا على ماء، وليس معهم ماء، قالت: فعاتبني أبو بكر، فقال ما شاء الله أن يقول، وجعل يطعن بيده في خاصرتي، فلا يمنعني من التحرُّك إلا مكان النبي -صلى الله عليه وسلم-، حتى أصبح على غير ماء، فأنزل الله آية التيمم، فتيمَّموا، فقال أُسيد بن حُضَيْر: ما هذا بأوّل بركتكم يا آل أبي بكر، قالت: فبعثنا البعير التي كنتُ عليه فوجدنا العِقد تحته).
’’ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ آپ کے ایک سفر میں نکلے،یہاں تک کہ جب ہم بیدا - یا ذات الجیش -نامی جگہ پر تھے تو میرا ہار گم ہو گیا،تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اسے تلاش کرنے کے لیے ٹہر گئے اور لوگ بھی آپ کے ساتھ ٹہر گئے، اور وہ لوگ کسی پانی کی (دستیابی کی)جگہ پر نہیں تھے، چنانچہ لوگ ابوبکر رضی اللہ عنہ کے پاس آئے اور عرض کیا :عائشہ نے جو کچھ کیا ہے اسے آپ نہیں دیکھتے؟! انہوں نے رسول اللہ کو اور لوگوں کو روک رکھا ہے اور وہ لوگ کسی پانی والے جگہ پر نہیں ہیں اور ان کے پاس پانی بھی نہیں ہے۔ وہ کہتی ہیں : تو ابوبکر نے مجھے عتاب کیا،چنانچہ انہوں نے اللہ نے جو کچھ چاہا کہا، اوراپنے ہاتھ سے میری کمر پر مارنے لگے،لیکن نبی صلی اللہ کے مقام کی وجہ سے میں حرکت کرنے سے باز رہی،یہاں تک کہ لوگوں نے بے آب جگہ پر صبح کی،تو اس وقت اللہ نے تیمم کی آیت نازل فرمائی۔چنانچہ لوگوں نے تیمم کیا۔ اس پر اسید بن حضیر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: ’’اے آل ابو بکر! یہ تمہاری پہلی برکت نہیں ہے‘‘۔ وہ کہتی ہیں : پھر ہم نے اس اونٹ کو اٹھایا جس پر میں بیٹھی ہوئی تھی تو ہار کو ہم نے اس کے نیچے پایا۔،،
امام احمد کی مسند کی ایک روایت میں ہے کہ : میں نے کہا : ’’جب مسلمانوں کے لیے اللہ کی طرف سے رخصت آئی تو میرے والد نے فرمایا : (والله ما علمتِ يا بُنيَّة، إنكِ لمباركة، ماذا جعل للمسلمين في حبسِكِ إياهم من البَركة واليُسْر).
’’اللہ کی قسم! اے بیٹی تجھے نہیں معلوم کہ تو ایک برکت والی ہے، مسلمانوں کے لیے،تیرے انہیں روک دینے میں کیا برکت اور آسانی پیدا کردی گئی ہے۔‘‘
- آپ رضی اللہ عنہا نے لوگوں کے ساتھ احسان وبھلائی کرنے میں شاندار مثالیں قائم کی ہیں،عروۃ بن زبیر نے خبر دی ہے کہ: معاویہ رضی اللہ عنہ نے ایک مرتبہ ان کے پاس ایک لاکھ درہم بھیجا، تو اللہ کی قسم شام کرنے سے پہلے پہلے انہوں نے اسے تقسیم کردیا، ان کی لونڈی نے ان سے کہا:(لو اشتريتِ لنا بدرهم لحمًا، فقالت: أما قلتِ لي؟!).
’’اگر آپ ہمارے لیے ایک درہم کا گوشت خرید لیتیں،تو انہوں نے کہا : تو نے مجھ سے کہا کیوں نہیں؟!‘‘
- عطاء بن رباح -رحمہ اللہ -سے مروی ہے کہ :معاویہ نے عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس ایک لاکھ کا ہار بھیجا تو انہوں نے اسے امہات المومنین کے مابین تقسیم کردیا۔
عائشہ رضی اللہ عنہا اپنی کثرت فضائل ومناقب کے باوجود اپنی تعریف وستائش کیے جانے سے ڈرتی اور احترازکرتی تھیں،چنانچہ بخاری نے اپنی صحیح میں ذکر کیا ہے کہ: ابن عباس رضی اللہ عنہما نے عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس آنے کی اجازت طلب کی جبکہ وہ مرض الموت میں مبتلا تھیں۔تو انہوں نے کہا : مجھے خدشہ ہے کی میری تعریف کی جائے گی۔تو ان سے کہا گیا کہ : وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا کے بیٹے ہیں اور مسلمانوں کے سرکردہ لوگوں میں سے ہیں۔ انہوں نے کہا: تو انہیں اجازت دے دو۔ابن عباس رضی اللہ عنہما نے پوچھا : آپ کیسا محسوس کررہی ہیں؟! انہوں نے جواب دیا : خیریت ہے اگر میں تقویٰ پر قائم رہوں۔ انہوں نے کہا :
(فأنتِ بخيرٍ إن شاء الله، زوجة رسول الله -صلى الله عليه وسلم-، ولم يتزوَّج بكرًا غيركِ، ونزل عُذرُكِ من السماء، فلما جاء ابن الزبير قالت له: جاء ابن عباس وأثنى عليَّ، وودِدتُ أني كنتُ نسيًا منسيًّا)
آپ تو ان شاء اللہ بخیرہی ہیں، آپ ‘رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اہلیہ ہیں،نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ کے علاوہ کسی کنواری سے شادی نہیں کی اورآپ کا عذر(بے گناہی) آسمان سے اترا۔جب ابن زبیر تشریف لائے تو آپ رضی اللہ عنہا نے ان سے کہا :ابن عباس آئے تھے اورانہوں نے میری تعریف کی،جبکہ میری چاہت یہ ہے کہ میں بھولی بسری ہوگئی ہوتی‘‘۔
- اللہ تعالی نے ان کی زندگی میں جو برکت رکھی تھی ،انہیں میں سے : وہ کثیر علم ہے جسے انہوں نے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کیا ہے، اور وہ وسیع فقہ ہے جسے لوگوں نے ان سے اخذ کیا ہے، ان کثرت فضائل کے ساتھ آپ رضی اللہ عنہا کے لیے یہ فضیلت کافی ہے جو انہوں نے خود بیان کیا ہے، چنانچہ وہ کہتی ہیں :
(تُوفِّي رسول الله -صلى الله عليه وسلم- في بيتي وفي يومي وليلتي، وبين سَحْري ونَحْري)
’’ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات میرے گھر میں،میری باری کے دن ، میری گود میں ہوئی۔‘‘
نیز عبد الرحمن بن ابو بکرتشریف لائے اور ان کے ساتھ ایک نرم مسواک تھی، تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم اس کی طرف دیکھنے لگے یہاں تک کہ مجھے یہ گمان ہوا کہ آپ اسے چاہتے ہیں، چنانچہ میں نے اسے لے لیا ، پھر اسے چبایا، اسے جھاڑا اور پاک کیا ،پھر اسے آپ کو پیش کیا۔آپ نے نہایت اچھی طرح مسواک کیا جس طرح مسواک کرتے ہوئے میں نے کبھی آپ کونہیں دیکھا تھا،پھر آپ اسے میری طرف بڑھانے لگے تو آپ کے ہاتھ سے گرگیا۔پھر میں آپ کے لیے وہ دعا کرنے لگی جو دعا جبریل آپ کے لیے کرتے تھے،اور آپ خود بھی بیمار پڑنے پر وہ دعا کرتے تھے۔لیکن آپ نے اپنی اس بیماری میں وہ دعا نہیں کی۔پھرآپ نے اپنی نگاہ آسمان(چھت) کی طرف اٹھائی اور فرمایا :
"في الرفيق الأعلى"، وفاضَت نفسه -صلى الله عليه وسلم-، فالحمد لله الذي جمع بين ريقه وريقي في آخر يومٍ من الدنيا)
’’ رفیق اعلی میں۔‘‘ ، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی روح پرواز کر گئی۔ پس ساری تعریفیں اللہ کے لیے ہیں جس نے دنیا کے آخری دن میں آپ کا لعاب اور میر ا لعاب اکٹھا کردیا۔‘‘ اسے امام احمد نے اپنی مسند میں صحیح اسناد کے ساتھ روایت کیا ہے۔
یقیناًیہ ایسے فضائل اور مناقب ہیں جن کی عظمت اور قُربت کے کیا کہنے! واقعی یہ اس بات کے لائق وزیبا ہیں کہ ام المومنین رضی اللہ عنہا کے حق کی ادائیگی کرتے ہوئے، ان کی نصرت وحمایت کرتے ہوئے، ان سے بہتان تراشی کا دفاع کرتے ہوئے، اور ان کے متعلق اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو تکلیف پہنچانے سے بچتے ہوئے، لوگوں کے درمیان ان کی نشرواشاعت اور ترویج کی جائے۔ کیوں کہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے اس مبینہ گناہ کا ارتکاب کرنے والے کو دھمکی دی ہے، اللہ رب العزت نے ارشاد فرمایا:
﴿وَمِنْهُمُ الَّذِينَ يُؤْذُونَ النَّبِيَّ وَيَقُولُونَ هُوَ أُذُنٌ ۚ قُلْ أُذُنُ خَيْرٍ لَّكُمْ يُؤْمِنُ بِاللَّـهِ وَيُؤْمِنُ لِلْمُؤْمِنِينَ وَرَحْمَةٌ لِّلَّذِينَ آمَنُوا مِنكُمْ ۚ وَالَّذِينَ يُؤْذُونَ رَسُولَ اللَّـهِ لَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ﴾[التوبة:61]
’’ ان میں سے وه بھی ہیں جو پیغمبر کو ایذا دیتے ہیں اور کہتے ہیں کان کا کچا ہے، آپ کہہ دیجئے کہ وه کان تمہارے بھلے کے لئے ہے وه اللہ پر ایمان رکھتا ہے اور مسلمانوں کی بات کا یقین کرتا ہے اور تم میں سے جو اہل ایمان ہیں یہ ان کے لئے رحمت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو جو لوگ ایذا دیتے ہیں ان کے لئے دکھ کی مار ہے ‘‘
اللہ تعالیٰ ہمیں اور آپ کو اپنے کتاب کی ہدایت اور اور اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت سے نفع پہنچائے۔ میں اپنی یہ بات کہتے ہوئے اللہ عظیم ذوالجلال سے اپنے لیے، آپ لوگوں کے لیے اور تمام مسلمانوں کے لیے ہر گناہ سے مغفرت طلب کرتا ہوں، بلاشبہ وہ بڑا بخشنے والا نہایت مہربان ہے۔
دوسرا خطبہ:
بے شک ہر طرح کی تعریف صرف اللہ کے لئے ہے، ہم اس کی حمد وثنابیان کرتے ہیں اور اسی سے بخشش طلب کرتے ہیں،اور اپنےنفس کی شرارتوں اور برے اعمال سےاللہ کی پناہ مانگتے ہیں، جسے اللہ ہدایت دے اسے کوئی گمراہ نہیں کرسکتا ،اور جسے وہ گمراہ کردے اسے کوئی ہدایت نہیں دے سکتا، میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے علاوہ کوئی سچا معبود نہیں،وہ اکیلاہے، اس کا کوئی شریک نہیں،اور میں یہ بھی گواہی دیتا ہوں کہ محمد اللہ کے بندہ اوررسول ہیں، اے اللہ! اپنے بندہ ورسول محمد پر ،ان کی آل پر اوران کے تمام اصحاب پر درود وسلام نازل فرما۔
حمد وصلاۃ کے بعد:
اے اللہ کے بندو!
امّت پر رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے حقوق میں سے یہ بھی ہے کہ :ان لوگوں کی تعظیم وتکریم کی جائے جنہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تعظیم وتکریم سے نوازا ہے، اوران لوگوں سے محبّت کی جائے جن سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے محبّت کیا ہے، کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم صرف پاکیزہ چیز پسند کرتے تھے،جیسا کہ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے ام المومنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے کہا تھا جب وہ ان کی مرض الموت میں ان کےپاس تشریف لائے:
(کُنْتِ أَحَبَّ نِسَاءِ رَسُوْلِ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم إِلَي رَسُوْلِ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم، وَ لَمْ يَکُنْ رَسُوْلُ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم يُحِبُّ إِلَّا طَيِّبًا وَ سَقَطَتْ قِلاَدَتُکِ لَيْلَةَ الْأَبْوَاءِ فَأَصْبَحَ رَسُوْلُ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم حَتَّي يُصْبِحَ فِي الْمَنْزِلِ وَ أَصْبَحَ النَّاسُ لَيْسَ مَعَهُمْ مَاءٌ، فَأَنْزَلَ اﷲُ عزوجل (فَتَيَمَّمُوْا صَعِيْدًا طَيِّبًا) فَکَانَ ذَلِکَ فِي سَبَبِکِ، وَ مَا أَنْزَلَ اﷲُ عزوجل لِهَذِهِ الْأُمَّةِ مِنَ الرُّخْصَةِ، وَ أَنْزَلَ اﷲُ بَرَاءَ تَکِ مِنْ فَوْقِ سَبْعِ سَمَوَاتٍ جَاءَ بِهِ الرُّوْحُ الْأَمِيْنُ، فَأَصْبَحَ لَيْسَ مَسْجِدٌ مِنْ مَسَاجِدِ ﷲِ يُذْکَرُ ﷲُ فِيْهِ إِلَّا يُتْلَي فِيْهِ آنَاءَ اللَّيْلِ وَآنَاءَ النَّهَارِ، فَقَالَتْ : دَعْنِي مِنْکَ يَا ابْنَ عَبَّاسٍ، وَ الَّذِي نَفْسِي بَيَدِهِ لَوَدِدْتُ أَنِّي کُنْتُ نَسْيًا مَنْسِيًا). رَوَاهُ أَحْمَدُ وَابْنُ حِبَّانَ وَأَبُويَعْلَي.
’’ آپ رسول الله صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم كو ان کی ازواج مطہرات میں سب سے زیادہ پسندتھیں اور رسول الله صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم صرف پاکیزہ چیز کوہی پسند فرماتے تھے، اور’’ ابوا ‘‘والی رات آپ کے گلے کا ہار گر گیا تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم صبح تک گھر نہ پہنچے اور صحابہ کرام رضی اللہ عنھم نے صبح اس حال میں کی کہ ان کے پاس وضو کرنے کیلئے پانی نہیں تھا تو اس موقع پر اللہ تعالیٰ نے آیت تیمم نازل فرمائی: ﴿فَتَيَمَّمُوْا صَعِيْدًا طَيِّبًا﴾ [النساء:۴۳]، ’’پس تیمم کرو پاکیزہ مٹی کے ساتھ۔‘‘ تو یہ سارا معاملہ، اور جو الله نے (تیمم کی شکل میں) اس امت پر رخصت نازل فرمائی، سب آپ کے سبب ہوا، نيز اللہ تعالیٰ نے آپ کی براءت (بے گناہی)سات آسمانوں کے اوپر سے نازل فرمائی جسے جبریل امین علیہ السلام لے کر نازل ہوئے،چنانچہ اللہ تعالیٰ کی مساجد میں سے کوئی مسجد ایسی نہیں ہے جس میں اللہ تعالیٰ کا نام لیا جاتا ہے مگر اس میں اس( سورہ براءت) کی رات ودن تلاوت کی جاتی ہے۔یہ سن کر آپ رضی اللہ عنہانے فرمایا : اے ابن عباس! مجھے رہنے دو ( میری تعریف نہ کرو)۔ اس ذات کی قسم جس کےہاتھ میں میری جان ہے! میری چاہت ہے کہ میں بھولی بسری ہوگئی ہوتی۔‘‘ اس حدیث کو امام احمد، ابن حبان اور ابویعلی نے روایت کیا ہے۔
ہم اسید بن حضیر رضی اللہ عنہ کےساتھ جو نقیبوں میں سے ایک تھے، ویسےہی کہتے ہیں جو انہوں نےعائشہ رضی اللہ عنہا سے کہا تھا کہ: (جزاكِ الله خيرًا، فوالله ما نزل بكِ أمرٌ قطّ تكرهينه إلا جعل الله لكِ فيها خيرًا).
’’اللہ آپ کو جزائے خیردے، اللہ کی قسم ! آپ کے ساتھ جوبھی ناگوار بات پیش آئی اللہ رب العزّت نے اس کے اندر کوئی نہ کوئی خیر پیدا کردیا۔‘‘
آپ رضی اللہ عنہاکے ساتھ زیادتی وجارحیت اور ایذارسانی کے نتیجے میں مرتّب ہونے والے اثرات میں سے: یہ غضب وغصّہ ہےجسے اس مسئلے نے بھڑکا دیاہے،اورآپ کی نصرت وتائیدکرنے،آپ کی طرف سے دفاع کرنے،آپ کی فضائل کی اشاعت کرنے، آپ کےمناقب بیان کرنے،آپ کی فقہ کا مطالعہ کرنےاورآپ کے علوم کو نشر کرنےکے متعلق وہ حرص، توجہ و خیال اور اس کے لیےایک دوسرے کو دعوت اور بلاوا دینا ہے۔ اور اس میں اس قدر بھلائی ہے جو احاطہ وصف سے باہرہے، اور جسے بیان وشمار نہیں کیا جاسکتا۔
لہذا اللہ کے بندو! اللہ سے ڈرو،اور اس صدیق کی بیٹی صدیقہ،رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی چہیتی کی قدر کرو، آپ رضی اللہ عنہا کے حق کی اور بقیہ ساری امہات المومنین،اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے تمام آل واصحاب کے حقوق کی رعایت کرو، اپنے رب کے پاس عیش وآرام کی جنتوں سے سرفراز ہوگے۔
اور ہمیشہ یہ یاد رکھو کہ اللہ تعالیٰ نے تمہیں اپنے آخری رسول محمد بن عبد اللہ پر درود وسلام بھیجنے کا حکم دیا ہے،جیساکہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ کا ارشاد ہے: ﴿إِنَّ اللَّهَ وَمَلَائِكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى النَّبِيِّ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا صَلُّوا عَلَيْهِ وَسَلِّمُوا تَسْلِيمًا﴾ [الأحزاب: 56]
’’بے شک اللہ،اس کے فرشتے نبی (محمد صلی اللہ علیہ وسلم )پر درود بھیجتے ہیں، تو اے مومنو ! تم بھی ان پر درود بھیجتے رہو ، اورخوب سلام بھیجا کرو‘‘۔
اے اللہ!اپنے بندہ ورسول محمد پر درود وسلام نازل کر، اور اے اللہ! خلفائے راشدین: ابوبکر،عمر،عثمان،علی اور تمام آل واصحاب ، تابعین، اور قیامت تک ان کی احسان وبھلائی کے ساتھ پیروی کرنے والوں سے راضی وخوش ہوجا۔نیز اے بہتر عفوودرگزر فرمانے والے ! اپنےعفووکرم اور احسان سے ان کے ساتھ ہم سے بھی راضی ہوجا۔
اے اللہ!اسلام اور مسلمانوں کو عزت وسربلندی عطا کر، اے اللہ!اسلام اور مسلمانوں کو عزت وسربلندی عطا کر، اے اللہ!اسلام اور مسلمانوں کو عزت وسربلندی عطا کر،اور دین کی سرحدوں کی حفاظت کر،اور دین کے دشمنوں، تمام شرپسندوں اور فسادیوں کو تباہ وبرباد کردے، مسلمانوں کے دلوں کے درمیان محبّت ڈال دے، ان کی صفوں کو متحد کردے، ان کے رہبروں کی اصلاح فرما، اوراے دونوں جہانوں کے مالک! ان کے کلمےکو حق پر جمع کردے ۔
اے اللہ! اپنے دین،اپنی کتاب،اور اپنے نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی سنّت کی ،اوراپنے مومنین ،مجاہدین اور سچے بندوں کی مدد فرما۔
اے اللہ!ہمارے وطنوں میں امن پیدا کر،اور ہمارے ائمہ اور امیر المومنین کی اصلاح فرما اور حق کے ذریعہ ان کی مدد فرما۔انہیں اچھاراز دار مہیا فرما۔اور اے دعاؤں کو بخوبی سننے والے ا نہیں اس چیز کی توفیق دے جس سے تو راضی اور خوش ہو۔
اےا اللہ! اے وہ ذات جس کی طرف قیامت کے دن لوٹ کر جانا ہے! ہمارے امیراور ان کے دونوں نائبوں اور ان کے بھائیوں کو ان کاموں کی توفیق دے جن میں اسلام اور مسلمانوں کے لئے خیر وبھلائی ہو،اور جن میں لوگوں اور شہروں کی بہتری ہو۔
اے اللہ!ہمارے تمام معاملات کا انجام بہتر بنا،اور ہمیں دنیا کی رسوائی اور آخرت کے عذاب سے محفوظ رکھ۔
اےاللہ! اے تمام جہانوں کے رب! جس طرح تو چاہے ہمارے لئے اپنے اور ہمارے دشمنوں کے مقابلے میں کافی ہوجا، اےاللہ! اے تمام جہانوں کے رب! جس طرح تو چاہے ہمارے لئے اپنے اور ہمارے دشمنوں کے مقابلے میں کافی ہوجا۔اے اللہ !ہم تجھے ان کے مقابل میں کرتے ہیں،اور ان کی شرارتوں سے تیری پناہ طلب کرتے ہیں۔
اے اللہ!ہمارے دین کی اصلاح فرما جو ہمارے معاملات میں عصمت (گناہوں سے بچنے) کا باعث ہے، اور ہماری دنیا کو درست کردے جو ہمارے لئے ذریعہ معاش ہے، اور ہماری آخرت کو بہتر بنادے جس کی طرف ہمیں پلٹ کرجانا ہے، اور ہماری زندگی کو ہرخیر میں زیادتی کا سبب بنا،اورموت کو ہربرائی سے راحت پانے کا سبب بنا۔
اے اللہ ! ہم تجھ سے تیری نعمت کے چھن جانے، اور تیری عافیت کے پلٹ جانے،اورتیری طرف سے ناگہانی آفت کے آنے اور تیری تمام ناراضگیوں سے پناہ چاہتے ہیں۔
اے اللہ! ہم تجھ سے نیکیوں کے کرنے،برائیوں کے چھوڑنے اور مسکینوں سے محبت کرنےکا سوال کرتے ہیں،اور ہم تجھ سے تیری مغفرت ورحمت کا سوال کرتے ہیں،اور یہ کہ جب تو کسی قوم کو آزمائش میں ڈالنا چاہے توہم کواس آزمائش میں پڑنے سے پہلے وفات دیدے۔
اے اللہ! ہم میں سے جو بیمار ہیں انہیں شفا دے،اور جو مرچکے ہیں ان پر رحم فرما۔
(رَبَّنَا ظَلَمْنَا أَنْفُسَنَا وَإِنْ لَمْ تَغْفِرْ لَنَا وَتَرْحَمْنَا لَنَكُونَنَّ مِنَ الْخَاسِرِينَ) [الأعراف: 23]
’’(دونوں نے کہا )اے ہمارے رب! ہم نے اپنا بڑا نقصان کیا اور اگر تو ہماری مغفرت نہ کرے گا اور ہم پر رحم نہ کرے گا تو واقعی ہم نقصان پانے والوں میں سے ہوجائیں گے‘‘۔
(رَبَّنَا آتِنَا فِي الدُّنْيَا حَسَنَةً وَفِي الْآخِرَةِ حَسَنَةً وَقِنَا عَذَابَ النَّارِ) [البقرة: 201].
’’(اور بعض لوگ وه بھی ہیں جو کہتے ہیں) اے ہمارے رب! ہمیں دنیا میں نیکی دے اور آخرت میں بھی بھلائی عطا فرما اور ہمیں عذاب جہنم سے نجات دے‘‘۔
اے اللہ! ہمارے نبی محمدپر،ان کے آل اور ان کے تمام اصحاب پر درود وسلام نازل فرما۔
التعليقات
I always use url shortener
It is very helpful.
JAZAKUMULLAHU KHAIRA
WA BARAKA FEEKUM