باب: سنّت کا مقام ومرتبہ
حلقہ (۵)
سنت کی لغوی تعریف (۲‑۲)
۱۔ سنت بمعنی اللہ تعالی کا دین : جو اس کے امر و نہی اور بقیہ تمام احکام پر مشتمل ہوتا ہے۔(۱) امام راغب کہتے ہیں کہ "اللہ کی سنت " کبھی کبھی اس کی طاعت وفرماں برداری کے طریقےاور اس کی حکمت کے طریقے کے لیے بولا جاتا ہے ۔(۲)
۲۔ سنت بمعنی امت : اس کوامام قرطبی نے مفضل سے نقل کیا ہے، اور یہ شعر ذکر کیا ہے :
ما عاين الناس من فضل كفضلهم * ولا رأوا مثلهم في سالف السنن(3)
لوگوں نے ان کے فضل کی طرح کسی فضل کا مشاہدہ نہیں کیا اور نہ ہی ان کے مانندسابقہ امتوں میں کسی کو دیکھا۔
اس شعر میں (سالف السنن) سے مراد سابقہ امتیں ہیں ۔
۳۔ سنت بمعنی طبیعت (۴):
صاحب لسان کہتے ہیں کہ : "سنت" كا ايك معنى طبیعت ہے ، اور کچھ لوگوں نے اعشی کےاس قول کی تفسیر اسی سے کی ہے :
كريماً شمائله من بني * معاوية الأكرمين السُّنن(5)
اس کے عادات و اطوار اچھے ہیں جو شریف طبیعت والے بنو معاویہ سے ہے۔
اس شعر میں (الأكرمين السُّنن) سے مراد: معزز وشريف طبیعت کے ہیں ۔
۴۔ سنت بمعنی دوام و ہمیشگی : اسے امام شوکانی نے امام کسائی سے نقل کیا ہے۔
۵۔ سنت بمعنی عادت :
امام عضد اور بہت سارے اصول کے علماء کہتے ہیں کہ : سنت کا لغوی معنی : عادت اور طریقہ ہے ۔
امام زمخشری اللہ تعالی کے اس قول : ﴿فهل ينظرون إلا سنة الأولين فلن تجد لسنة الله تبديلا ولن تجد لسنة الله تحويلاً﴾ " سو کیا یہ اسی دستور کے منتظر ہیں جو اگلے لوگوں کے ساتھ ہوتا رہا ہے۔ سو آپ اللہ کے دستور کو کبھی بدلتا ہوا نہ پائیں گے، اور آپ اللہ کے دستور کو کبھی منتقل ہوتا ہوا نہ پائیں گے." (فاطر:43) کی تفسیر کرتے ہوئے رقم طراز ہیں کہ آیت میں (سنۃ الاولین) سے مراد : سابقہ امتوں میں سےجنھوں نے اپنے رسولوں کی تکذیب کی ہے، ان لوگوں پر عذاب نازل کرنا ہے۔اس چیز کا ان کے استقبال کرنے کو ان کی طرف سے اس کا انتظار کرنا قرار دیا ہے ، اور یہ بیان کیا ہے کہ اس کی عادت - جو کہ رسولوں کی تکذیب کرنے والوں کو عذاب دینا ہے- ایسی عادت ہے جسے وہ کبھی بدلتا اور تبدیل نہیں کرتا ہے ۔(۷)
اس آیت میں’’سنت ‘‘ کی تفسیر ’’ عادت‘‘سے کی گئی ہے جیساکہ آپ دیکھ رہے ہیں ۔
فنری کہتے ہیں کہ: " شرح البدائع میں اصفہانی کے سیاق کا مفہوم یہ ہےکہ : "العادۃ" کا عطف "الطریقۃ" پر تفسیری نہیں ہے ، کیونکہ وہ کہتے ہیں کہ: سنت کا لغوی معنی "طریقہ" ہے ۔ کہا جاتا ہے : "سنة زيد كذا" تو اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ: اس كا طریقہ اورسيرت اس طرح ہے ۔
اور سنت کا ایک معنی ’’عادۃ‘‘ بھی ہے، جیسے کہ کہا جاتاہے: من سنته كذا, یعنی اس کی عادت سے یہ ہے ۔ اللہ تعالی کافرمان ہے : (ولن تجد لسنة الله تبديلاً) (الأحزاب:62) ”اللہ کی سنت میں ہرگز کوئی تبدیلی نہیں پاؤگے۔“ (الاحزاب:62) یعنی اس کی عادت میں۔“(۸)
ڈاکڑ عبد الغنی عبد الخالق اس قول پر تعقیب کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ :‘‘ مجھے لغت کی کتابوںمیں اس بات کی صراحت نہیں دریافت ہو سکى کہ’’سنت ‘‘سے مراد ’’عادت ‘‘ہے ، اور نہ ہی یہ صراحت کہ عادت سے مراد : ’’طریقہ‘‘یا ’’سیرت‘‘یا ’’طبیعت‘‘ ہے۔ بلکہ القاموس اور اس کی شرح میں جو چیزمذکور ہے ، وہ یہ ہے کہ : " عادت" سے مراد : "دیدن" ہے جس کی طرف لوٹاجاتا ہے (یعنی اسے باربارکیا جاتا ہے)، اور یہ معروف ہے۔اس کا نام "عادت" اس لئے رکھا گیا کیونکہ اس کو انجام دینے والا بار بار اس کو دہراتا ہے۔
ایک جماعت کا کہنا ہے کہ: "عادت" سے مراد : بغیر کسی عقلی تعلق کے کسی چیز کوہمیشہ یا غالبا ایک ہی طرز پر بار با ر کرنا ہے ۔ اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ : فطرت سلیمہ کے نزدیک وہ معقول باربارہونے والےامور جودلوں میں جاگزیں ہوتےہیں۔ اور ہمارے شیخ نے نقل کیا ہے کہ : عادت اور عرف کا ایک معنی ہے ۔ اورایک قوم نے کہا کہ : عادت افعال کے ساتھ مخصوص ہے ، اور عرف اقوال کے ساتھ مختص ہے ۔
اور " المخصص" میں صاحب ’’العین‘‘سے نقل کرتےہوئے کہا گیا ہے کہ : " عادت، دیدن،راستہ اور کسی چیز میں حد سے زیادہ بڑھ جانا یہاں تک کہ وہ اس کی فطرت بن جائے." (۹)
جب ہم عادت کے تمام معانی پر نظر ڈالتے ہیں تو ہمیں پتہ چلتا ہے کہ یہ سارے : استمرار اور دوام کا معنی دیتے ہیں ۔چنانچہ جس نے سنت کی تفسیر’’عادت‘‘ سے کی ہے گویا اس نے اس تفسیر کو کسائی کے اس قول سے اخذ کیا ہے - جو پہلے منقول ہوچکا ہے- کہ"سنت" سے مراد : "دوام" ہے ۔
اسی طرح جب ہم - ’ شرح القاموس‘ میں- عادت کی تفسیر : وہ چیز جو دلوں میں مستقر ہو جائے... الخ ، اورصاحب العین کے نزدیک اس كى تفسير: کسی چیز میں حد سے زیادہ بڑھ جانا ... الخ ، اسى طرح گذشتہ صفحات میں امام راغب سے ’’طبیعۃ ‘‘کی تفسیر میں جو کچھ منقول ہواہے اس پر نظر ڈالتے ہیں تو ہمیں پتہ چلتا ہے کہ : "عادت " كا استعمال کبھی کبھی "طبیعت" کے معنی میں ہوتا ہے
اسی طرح جب ہم اس کی تفسیر: کسی چیز کو ہمیشہ یا غالبا کرنا... الخ اور اسى طرح ’’عرف‘‘ كے ذريعہ اس کی تفسیر پر نظر ڈالتے ہیں تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ وہ ’’طریقہ ‘‘کے معنی میں ہے ،كیونکہ اس سے’’استمرار اور تکرار‘‘کے معنی کا پتہ چلتا ہے۔
میں نے ابو الہلال العسکری کی کتاب " الفروق اللغویۃ" میں سنت اور عادت کے مابین یہ فرق ملاحظہ کیا ہے کہ عادت سے مراد: جسے انسان اپنى طرف سے ہمیشہ انجام دے، اور سنت سے مراد: جو سابقہ مثال پر انجام دیا جائے ۔ (۱۰)
مختصر یہ کہ : ’’عادت ، طبیعت ، طریقہ اور دوام‘‘کے معانی آپس میں متقارب ہیں، اگرچہ وہ ایک ہی معنی میں نہ ہوں ۔(۱۱)
کلمہ سنت کے لغوی معنی کے بارے میں خلاصہ کلام یہ ہے کہ : سنت ایک ایسے طریقہ پر دلالت کرتی ہے جس پر لوگ چلتے ہوں ، اپنےاصل کی طرف لوٹتے ہوئے, كيو نكہ وه ان کے قول : سننت الشيء بالمسن (یعنی میں نے اسے دھار تیز کرنے کے آلہ سے تیز کیا) سے ہے،جو اس وقت بولا جاتا ہے جب آپ اسے مسلسل اس پر پھیریں اور گذارتے رہیں یہاں تک کہ اس میں دھار یعنی راستہ بنادے۔
اور اسی سے قریب بات یہ ہے کہ ہم کہیں کہ : یہ لفظ استمرار و دوام اور ان دونوں کا حكم دینے کا فائدہ دیتا ہے ، اور یہ ظاہر ہے آپ کے قول: سننت الماء میں، یعنی میں نےمنظم اور ہمیشگی کے اسلوب میں پانی ڈالااور بہاىا ۔
جب ہم دونوں معانی کو ایک ساتھ جمع کردیتے ہیں تو ہمارے لئے واضح ہو جاتا ہے کہ سنت : کسی متعین طریقہ کا اتباع كرنے، اس کی پابندی کرنے اور اس پر چلنے کا حکم دینے کافائدہ دیتا ہے، یہاں تک کہ وہ ایسا طریقہ اور طرز بن جائے جس کی مخالفت کرنا، اس کی پابندی کا حکم دینے والے کی مراد میں، جائز نہ ہو ۔(۱۲)
اس طرح ہمىں پتہ چلتا ہے کہ (سنت کے ) ان لغوی معانی سے سمجھ میں آنے والاسنت کی شرعی اصطلاح یہ ہے کہ : وہ راستہ اور طریقہ جس کو اللہ کے رسول ﷺ نے اپنے اقوال ، اپنے افعال اور اپنے تقریرات میں عمومی طور پر اختیار کیا ۔
جب اس سرسری جائزہ سے سنت کا لغوی معنی واضح ہو گیا تو ہمارے لئے چند امور کے بارے میں آگاہ رہنا ضروری ہے ،جو درج ذیل ہیں:
۱۔ سنت بمعنی سیرت اور طریقہ - چاہے وہ اچھا ہو یا برُا- اسلام سے پہلے لغت عرب میں استعمال ہو چکا ہے ، اوروه جاہلی دور کے اشعار میں وارد ہوا ہے ، جس کا ذکر پہلے گزر چکا ہے ۔
۲۔ قرآن کریم اور حدیث شريف میں سنت کا لفظ اپنے سابق الذكر لغوی معنی میں وارد ہوا ہے ۔
۳۔ اگرچہ اسلام نے سنت کواس طریقہ كے ساتھ مخصوص کردیا ہے جس کو آ پ ﷺ نے اپنے اقوال ، اپنے افعال اور اپنے تقریرات میں اختیار کیا،ليكن اس كا مطلب یہ نہیں ہے کہ سنت کا لغوی معنی باطل يا معدوم ہو گيا، بلکہ اس کا استعمال باقی ہے، لیکن ايك تنگ دائرہ میں۔
حواشی:
(1) القاموس المحيط ( 4:239 )، المعجم الوسيط ( 1/256 ).
(2) المفردات ،ص : 245.
(3) دیکھیے : الجامع لأحكام القرآن ( 4/216 ).
(4) طبیعت : سرشت، یہ "الطبع" سے ماخوذ ہے، جس کا معنی ہے : کسی چیز کو کسی شکل ہر ڈھالنا، جیسے سکے اور دراہم کا ڈھالنا، کیوں کہ یہ نفس کو کسی شکل و صورت پر نقش کرنا ہے، یا تو خلقت کے اعتبار سے یا تو عادت کے اعتبار سے، جبکہ اس کا اکثر استعمال اس چیز میں ہوتا ہے جسے خلقت کے اعتبار سے نقش کیا جاتا ہے۔ دیکھیے : المفردات للراغب ،ص : 303، معمولی تصرف کے ساتھ ۔
(5) اللسان 13/2125
(6) إرشاد الفحول ص 33
(7) الكشاف 2/246.
(8) حاشية الفنري على التلويح ( 242 )
(9) المخصص 12/75.
(10) الفروق ،ص : 187.
(11) ججيۃ السنۃ ،ص : 51،50.
(12) السنۃفي مواجهۃأعدائها ،ص : 38.